ممبران کی بورڈ

مولانا سید محمد الحسنی بانی مدیر تعمیر حیات

۱۳۷۹-۱۹۳۵


مولانا سید محمد الحسنی ایک نامور علمی دینی خاندان میں ۱۷؍رجب المرجب ۱۳۵۴ھ مطابق ۱۵اکتوبر؍۱۹۳۵ء کو پیدا ہوئے اور پروان چڑھے، ان کے والد مولانا ڈاکٹر سید عبد العلی حسنی ندوۃ العلماء کے ناظم تھے اور دار العلوم ندوۃ العلماء ودار العلوم دیوبند کے تعلیم یافتہ تھے، اور چچا حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی تھے وہ بھی ندوۃ العلماء کے ناظم ہوئے اور عالمی شہرت یافتہ عالم دین داعی مفکر ومصلح کی حیثیت سے معروف ہوئے، مولانا سید محمد الحسنی کو ان کی پوری سرپرستی شروع سے آخر تک حاصل رہی اور ان کی سرپرستی میں عربی میں ماہنامہ ’’البعث الاسلامی‘‘۱۹۵۵ء میں اور پھر اردومیں پندرہ روزہ تعمیر حیات ۱۹۶۳ء میں جاری کیا، مولانا سید محمد الحسنی کی تسمیہ خوانی حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے ذریعہ لکھنؤ میں۱۹۴۱ء میں ہوئی، اور تعلیمی مراحل مختلف ماہر فن اساتذہ سے گھر پر اپنے والد ماجد مولانا ڈاکٹر سید عبد العلی حسنی کی سرپرستی میں طے کئے۔ البتہ حدیث کی اعلیٰ تعلیم کے لئے دار العلوم ندوۃ العلماء میں محدث جلیل مولانا شاہ محمد حلیم عطا سلونوی کی خدمت میں جاتے اس وقت ان کے رفقاء میں مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی، اور مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی ’’البعث الاسلامی‘‘ اور تعمیر حیات کے کاموں میں ان کی شروع سے معاون رہے۔


مولانا سید محمد الحسنی ایک باکمال عربی اردو کے مصنف، مترجم تھے، دونوں زبانوں میں ان کے قلم سے شاہکار کتابیں اور تحریریں ، اور ترجمے سامنے آئے، اردو کتابوں میں سیرت مولانا محمد علی مونگیری، تذکرہ حضرت شاہ علم اللہ حسنی، روداد چمن وغیرہ اور اردو ترجمہ میں ارکان اربعہ، کاروان مدینہ، طوفان سے ساحل تک نمونہ کی کتابیں ہیں۔عربی تصنیفات میں الاسلام الممتحن ،الی القیادۃ العالمیۃ ،اور مصر تتنفس ہیں۔


افسوس کہ اچانک چند گھنٹوں کی علالت کے بعد ۱۳؍جون ۱۹۹۷ء (۱۷؍رجب ۱۳۹۹ ھ) کو لکھنؤ میں صرف ۴۴ سال کی عمر میں وفات پائی، اور دائرہ شاہ علم اللہ تکیہ کلاں، رائے بریلی میں شیخ وقت حضرت شاہ علم اللہ حسنی کے قریب مدفون ہوئے۔ رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ


مولانا اسحاق جلیس ندوی

(ایڈیٹر تعمیر حیات، لکھنؤ)

۱۹۳۴ تا ۱۹۷۹


مولانا اسحاق جلیس ندوی ۷؍جولائی ۱۹۳۴ء کو پیداہوئے اور ایک عالم صحافی اور داعی کی حیثیت سے معروف ہوئے، اصلاً ان کا تعلق صوبہ سرحد کے ایک معزز پٹھان گھرانے سے تھا، جہاں سے ان کا خاندان مہاراشٹر کے شہر احمد نگر میں آکر آباد ہوا، عصری تعلیم کا ایک مرحلہ پورا کرکے وہ دار العلوم ندوۃ العلماء میں ۶؍جون ۱۹۵۶ء کو داخل ہوئے اور پانچ سالہ خصوصی نصاب کے ذریعہ عالمیت ۱۹۵۹ء (۱۳۷۸ھ ) میں پاس کیا، اور فضیلت ۱۹۶۱ء /۳۸۰ھ میں پاس کیا اور عملی طور پر مجلس تحقیقات ونشریات اسلام،لکھنؤ سے وابستہ ہوگئے، جس کا قیام ان کے تعلیمی مرحلہ کے آخری سال ۱۹۵۹ء میں ہوا تھا، اور ۱۹۶۳ء میں اس کے آفس سکریٹری مقرر ہوئے اور ایک سال کے بعد پھر اپنے وطن جاکر ایک کالج میں تدریسی خدمت انجام دی ، ساتھ ساتھ شعبہ لائبریری سائنس کے فن کی تعلیم کی تکمیل کی پھر کتب خانہ دار العلوم ندوۃ العلماء کو ترقی دی، وہ اردو عربی، فارسی، انگریزی،ہندی، مراٹھی، پشتو کئی زبانوں سے اچھی واقفیت رکھتے تھے اپنی اس صلاحیت سے انہوں نے پیام انسانیت کے کام میں بڑا فائدہ اٹھایاجس کا باقاعدہ آغاز حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی نے دسمبر ۱۹۷۴ء میں آلہ بادسے کیا تھا،اور اس تحریک کے فروغ میں اپنی تحریروں، تقریروں، دوروں و ملاقاتوں کے ذریعہ بڑی خدمات پیش کی اور اس طرح بانی تحریک مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کے دست راست اور قوت بازو کی حیثیت حاصل کرلی۔


مئی ۱۹۷۳ سے پندرہ روزہ تعمیر حیات کے مستقل ایڈیٹر مقرر کئے گئے اپنی وفات سے قبل ۱۰ جولائی ۱۹۷۹ء کا شمارہ نکالا،اور اس کے بانی ایڈیٹر مولانا محمد الحسنی کے متعلق خصوصی اشاعت منظر عام پر لانے کا اعلان بھی کیا، مگر لکھنؤ میں۱۵/شعبان المعظم ۱۳۹۹ھ ۱۱ جولائی ۱۹۷۹ء کو ان کی وفات کا سانحہ پیش آگیا، اور یہ خصوصی اشاعت ان کے اورمولانا سید محمد الحسنی کے متعلق مولانا عبد السلام قدوائی ندوی معتمد تعلیم ندوۃ العلماء کے تذکرہ کے اضافہ کے ساتھ مشترک شائع ہوئی، رائے بریلی میں ان کی نماز جنازہ عارف باللہ حضرت مولانا محمد احمد پرتاپ گڑھی نے پڑھائی اورتکیہ شاہ علم اللہ کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، ان کی تحریری یادگار میں مقالات ومضامین سفر ناموں کے علاوہ تاریخ ندوۃ العلماء کا پہلاحصہ ہے جو بہت مقبول ہوا۔ غفر اللہ لہم ورحمہم اللہ رحمۃ واسعۃ


مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی

پیدائش ۱۹۳۵ء


مشہور مصنف وادیب وصحافی اور داعی ومعلم وخطیب مولانا ڈاکٹر سعیدالرحمن اعظمی ندوی مدظلہ بن حضرت مولانا محمد ایوب اعظمی رحمہ ا للہ جامعہ مفتاح العلوم مؤ سے فراغت کے بعد ۱۹۵۲ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں مزید تحصیل علم کے لیے آئے، اور یہاں کے اساتذہ حضرت مولانا شاہ محمد حلیم عطا سلونوی شیخ الحدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء، مولانا ابوالفضل عبدالحفیظ بلیاوی صاحب مصباح اللغات، ڈاکٹر عبداللہ عباس ندویؒ ، مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی وغیرہ سے علم وادب میں امتیازی حیثیت سے کسب فیض کیا، ان کے رفقاء درس میں مولانا سید محمد الحسنی مرحوم بانی مدیر’’ البعث الاسلامی‘‘، مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی مظاہری، مولانا سید احتشام احمد ندوی، مولانا سید احمد علی حسنی ندوی وغیرہ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔


۱۹۵۴ء میں وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء سے فارغ ہوئے، اور پھر استاد مقرر ہوگئے۔ ۱۹۵۵ء میں جب ’’البعث الاسلامی‘‘ مولانا سید محمد الحسنی مرحوم نے لکھنؤ سے نکالا تو ان کے ساتھ شریک ادارت رہ کر اس کی توسیع اشاعت میں بڑا حصہ لیا، اور اپنے مضامین سے رسالہ کو طاقت پہنچائی۔ ۱۹۷۹ء میں ان کی وفات کے بعد اس کے مدیر اعلیٰ ہوئے اور ان کے شریک ادارت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی ہوئے، مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے ساتھ ادیب دوم کی حیثیت سیکلیۃ اللغۃ العربیۃ وآدابھا کی ترقی میں بڑا حصہ لیا اور ان کے مہتمم ہونے کے بعد ادیب اول قرار پائے، اور صدر شعبۂ عربی کی حیثیت سے گراں قدر خدمات پیش کیں، ان کے ندوۃ العلماء کے ناظم منتخب ہونے پر ۲۰۰۰ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم ہوئے، اور تاحال اس منصب پر فائز ہیں، اس منصب سے پہلے بھی وہ مشرف کی حیثیت سے اپنی خدمات پیش کرچکے ہیں، اپنی عربی تحریر وتقریر اور دعوتی وصحافتی خدمات سے وہ عالم عرب میں متعارف ومقبول ہیں۔ اور عالم اسلامی کی جانی پہچانی شخصیت ہیں، ان کو زمانۂ طالب علمی سے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ اللہ علیہ کی سرپرستی حاصل رہی، ان کے ہی ایماء سے انہوں نے نحو وبلاغت میں خصوصی استفادہ کے لیے ان کے استاد علامہ تقی الدین ہلالی مراکشی رحمۃ اللہ کی خدمت میں کچھ وقت عراق میں گزارا اور شام بھی گئے، اس کے علاوہ جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، ترکی وغیرہ۔دوسرے ممالک کے وہ اہم دعوتی سفر کرچکے ہیں، اور تصنیفات کا ایک بڑا ذخیرہ پیش کرچکے ہیں، جن میں ’’۴۸؍سال شفقتوں کے سائے میں‘‘ ان کی کتاب اس اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی ایک جامع سوانح آگئی ہے۔


مولانا نذر الحفیظ ندوی

(سابق مدیرِ مسؤول)


مولانا نذر الحفیظ ندوی صوبہ بہار (ہند) کے علاقہ ململ ضلع مدھوبنی کے رہنے والے ہیں۔ حفظ کی تعلیم پرتاب گڑھ (یوپی) میں حاصل کی’ جہاں والد ماجد مولانا قاری عبد الحفیظ ململی کا قیام تھا، جن کو پرتاب گڑھ میں حضرت مولانا محمد احمد پرتاب گڑھی ؒ کی رفاقت حاصل تھی۔ ۱۹۵۳ء تا ۱۹۵۵ ء کا زمانۂ تعلیم و تربیت ان دونوں بزرگوں کے زیرِ شفقت گذارا، پھر دار العلوم، ندوۃ العلماء آکر داخلہ لیاٗ جہاں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کی سرپرستی اور رہنمائی حاصل کی۔


ندوہ کی مدتِ تعلیم ۱۹۵۵ ء تا ۱۹۶۱ء رہی۔ ۱۹۶۲ء تا ۱۹۷۴ء دار العلوم، ندوۃ العلماء میں تدریسی و صحافتی سرگرمیوں میں مصروف رہے؛ لکھنؤسے نکلنے والے ملی ترجمان ٗ ‘‘ندائے ملت’’ اور ندوۃ العلماء کے ترجمان ‘‘تعمیرِ حیات ’’کے ذریعہ مولانا نے عالمی حالات کے تجزیہ اور ملک کے ملی سیاسی منظر نامہ کو سامنے رکھتے ہوئے مضامین لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔


۱۹۷۵ء میں مولانا نے اعلی تعلیم کے لئے مصر کاسفر بھی کیا، اور آٹھ سالہ قیام کے دوران جامعہ ازہر کے علماء سے بھرپور استفادہ کیا۔ ۱۹۸۳ء میں ندوہ واپس آئےٗ جہاں دیگر خدمات کے ساتھ ۱۹۸۶ء سے تا حال رابطۂ ادب اسلامی کے فعال رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور اس کے مجلہ ‘‘کاروانِ ادب’’ کی مجلسِ ادارت کے رکن رہے، اسی طرح تعمیرِ حیات کی مجلسِ مشاورت کے قدیم رکن رہےاور کچھ مدت کے لئے مدیرِ مسؤول کی حیثیت سے بھی خدمت انجام دی۔


مولانا ٗ دار العلوم، ندوۃ العلماء کے کلیۃ اللغۃ العربیۃ و آدابہا کے عمید (صدر) ہیں اور ندوۃ العلماء کی مجلسِ انتظامی اور مجلسِ نظامت دونوں کے رکن ہیں۔