ممبران کی بورڈ

مولاناعبد العزیزخلیفہ بھٹکلی ندوی

مولانا عبد العزیز ندوی بن عبد الرزاق خلیفہ کاتعلق بھٹکل(ضلع کاروار،کرناٹک)سے ہے،۷؍جون ۱۹۵۲ء کو یہیں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم سے لے کر انجمن ہائی اسکول بھٹکل میں آٹھویں کلاس تک پڑھا،پھراس وقت کے نوخیز ادارہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں ابتدائی دینی وعربی تعلیم حاصل کی،وہاں سے ۱۹۶۹ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ آگئے، یہاں عا لمیت اورفضیلت (تخصص فی الحدیث)کی تعلیم ۱۹۷۷ء میں مکمل کی،اس کے بعد وطن آگئے،لیکن اچانک شادی کے بعد والد ماجد کے انتقال پرمفکراسلام حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندویؒ کے حکم سے۱۹۷۸ء کے شروع میں ندوہ واپس آئے، مولاناکے والد محترم حضرت مفکراسلام علیہ الرحمہ سے بڑا والہانہ تعلق رکھتے تھے،اس تعلق کو مولانانے بھی قائم رکھا بلکہ دوران تعلیم مزید بڑھایا،اور حضرت مولاناؒ کا اعتماد حاصل کرلیا،ہندوستان کے مختلف علاقوں میں سفروحضر میں رفاقت نصیب رہی،ان کی بڑی خدمت کی اور دعائیں لیں،اسی کے ساتھ مسجد شاہ علم اللہ حسنیؒ تکیہ کلاں رائے بریلی میں حضرت مولاناؒ اور پھر ان کے جانشین حضرت مولاناسید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ کی سرپرستی میں برسوں مکمل رمضان المبارک روزہ داروں اور معتکفین کی خدمت کی اور اب بھی نصف رمضان کے لیے یہ معمول جاری ہے۔


حضرت مولاناعلیہ الرحمہ کے ایماء سے والد محترم کے انتقال کے بعد ندوہ واپس آنے پر معہد دارالعلوم میں بحیثیت مدرس ۹؍جمادی الثانی ۱۳۹۸ھ کوتقرری ہوگئی،پھر دارالعلوم میں منتقل ہوئے، اِس وقت تفسیر وحدیث کے مضامین زیر تدریس ہیں، اسی کے ساتھ ندوۃ العلماء کی ترجمانی کا فریضہ بھی بخوبی انجام دیتے آ رہے ہیں۔۔


دارالعلوم میں نائب وکیل كلية الشریعہ واصول الدین ہوئے،پھر ۱۲؍ذیقعدہ ۱۴۲۷ ھ کو طلباء کے داخلے اور نقشۂ تعلیمی کی ترتیب کے لیے معاون مہتمم پھر نائب مہتمم بنائے گئے،اور تاحال تدریسی خدمت کے ساتھ یہ ذمہ داری بھی بخوبی نبھارہے ہیں۔’تعمیرحیات‘سے شروع سے ہی عملی طورپر وابستہ رہے اور اس کی توسیع و اشاعت کے لیے جنوبی ہند کے متعدد اسفار بھی کیے،اپریل ۲۰۱۸ء میں مجلس مشاورت کے رکن منتخب کیے گئے۔


مولانا محمد خالد ندوی غازی پوری

مولانا محمد خالد ندوی غازیپوری’ غازیپور کے ایک صدیقی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنا خاندانی انتساب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف کرتا ہے۔ مدرسہ عربیہ ، ہتھورا، باندہ میں حفظ کی تعلیم حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندوی کی سر پرستی میں حاصل کی، اور عالمیت کی تعلیم دار العلوم، ندوۃ العلماء مکمل کرکے فقہ میں دار العلوم سے ہی تخصص کیا اور حدیث شریف سے شغف رکھا، جس میں ان کے استاد مولانا عبد الستار اعظمی مرحوم تھے۔


تدریسی زندگی کا آغاز جامعہ اسلامیہ ، بھٹکل، کرناٹک سے کیا، جہاں حدیث کی اونچی کتابیں ترمذی شریف اور بخاری شریف بھی پڑھائیں، پھر کچھ وقت کے لئے جامعۃ الہدایت، جے پور اس کے بانی حضر ت مولانا شاہ عبد الرحیم مجددی جے پوری کی دعوت پر تشریف لے گئے، وہاں سے دار العلوم، ندوۃ العلماء بلائے گئےجہاںحدیث کے استاد کی حیثیت سے ان کے ذمہ ترمذی شریف، مسلم شریف اور پھر بعد میں بخاری شریف کے اسباق ان کے ذمہ کئے گئے۔ اس وقت سے مولانا اپنی اعلی صلاحیتوں کے ذریعہ ایک معروف عالمِ دین کی حیثیت سے ندوۃ العلماء کی ملک و بیرونِ ملک میں ترجمانی کر رہے ہیں۔‘‘ تعمیرِ حیات’’ سے ان کی وابستگی’ ندوۃ العلماء میں تدریسی وابستگی کے ساتھ رہی، وہ اس کے قدیم رکنِ مشاورت ہیں۔