ملت کو گھن کی طرح کھانے والا مرض

اک دیا اور بجھا، اور بڑھی تاریکی
فروری 10, 2019
رمضان المبارک اور عبد الفطر
جون 18, 2019
اک دیا اور بجھا، اور بڑھی تاریکی
فروری 10, 2019
رمضان المبارک اور عبد الفطر
جون 18, 2019

ملت کو گھن کی طرح کھانے والا مرض

اس وقت کابڑا روگ اورکمزوری یہ ہے کہ بہت سے لوگ دوسروں کی غلطی اورکمزوری کاجائز ہ تواس طرح لیتے ہیں کہ اس کوفیتے سے ناپتے اور سونے کے ترازوسے تولتے ہیں ،ذراکوئی بات مل جائے تورائی کوپہاڑ بناکرہرمحفل ومجلس میں بیان کرتے ہیں، بعض وقت بلکہ اکثر صرف گمان و قیاس کوحقیقت کاجامہ پہناکربڑی معصومیت کے ساتھ نہایت پاکبازی اور پارسائی کے اندازمیں اس کاذکر کرتے ہیں، اورمخاطب سے کہتے ہیںکہ کہنے کی بات تونہیں لیکن برسبیل تذکرہ کہتاہوں، یہ مرض اتناعام ہے کہ اس میں اچھے اچھے لوگ مبتلا ہوتے ہیں ،عوام کاتوذکرہی کیا،یہ مرض دوسروں کا عیب ڈھونڈنے میں اتنا مشغول کردیتاہے کہ خود اپناجائزہ لینے اوراپنی کوتاہیوں اورخامیوں پرنظر ڈالنے اوراپنے فرض منصبی کوذمہ داری کے ساتھ ادا کرنے سے غافل رکھتاہے ۔

دوسروں کے احتساب اورعیب جوئی کاایسا چسکا پڑجاتاہے کہ اس سے زیادہ کسی اورچیز میں مزہ نہیں آتاہے ،دوسروں کے عیبوںا ورنقائص کی فکر و جستجوکی ذہنیت اپنے کو بے خطاہونے کایقین دلادیتی ہے یاکم از کم یہ کہ اپنا جائزہ لینے سے روکتی ہے، اوراس سے غافل رکھتی ہے ،یہ ذہنیت انفرادی ہی نہیں ہوتی بلکہ کبھی ایک جماعت دوسری جماعت کے ساتھ یہی معاملہ کرتی ہے ،ایک مکتب فکر دوسرے مکتب فکرکی خدمات وکاموں میں کمزوری تلاش کرتا اورکیڑے نکالتاہے اوراس کی معمولی معمولی کمزوریوں کوڈھونڈ ڈھونڈ کرنکالتا اور اس کی تشہیر کرتا ہے، یہ ایسا خطرناک مرض ہے کہ جس معاشرہ ، جماعت، ادارہ یہاں تک کہنے کی جرأت کی جاسکتی ہے کہ اگرکسی مدرسہ میں پیدا ہوجائے ،جس کاکام ہی تعلیم وتربیت اور سیرت سازی ہے تو اس کوگھن کی طرح کھاجاتا ہے، جب یہ مرض اتناعام ہوجائے تونہ کوئی ادارہ ترقی کرسکتا ہے،نہ کوئی تحریک وجماعت ترقی کرسکتی ہے، نہ لوگوں میں باہمی اعتماد وبھروسہ کی فضاپیداہوسکتی ہے۔

یہ مرض ہمیشہ ہی رہاہے جس سے قوموں کونقصان پہنچاہے مگرہمارے اس دورمیں اتنا عام ہوگیا ہے کہ ا س کے جراثیم مدارس وخانقاہوں اور خالص دینی ودعوتی جماعتوں میں سرایت کرگئے ہیں اوراس کواندر سے کھوکھلا کررہے ہیں ۔

ظلم کی برائی سبھی کرتے ہیں لیکن اس سے بڑاظلم کیاہوسکتا ہے جواوپر ذکر ہوا،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں بہترین آدمی وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں‘‘۔

فرمایا :’’تمہارا ایمان اس وقت تک نہ کامل ہوگاجب تک تم اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی نہ پسند کروجواپنے لیے پسند کرتے ہو (اپنی برائی کا لوگوں میں چرچا کون پسندکرتاہے) ،فرمایا:جوشخص اپنے بھائی کاعیب چھپاتاہے ،اللہ تعالیٰ اس کے عیب کوچھپاتے ہیں ‘‘،اللہ تعالیٰ کواپنے مومن بندوں سے اتنی محبت ہے کہ فرماتاہے:’’ ایک دوسرے کاعیب نہ بیان کیاکرو،کیاتم میں سے کوئی اپنے مرے ہوئے بھائی کاگوشت کھاناپسندکرے گا، تم یقینا اس کوبراسمجھوگے ‘‘۔

اب سوچنا اورغور کرناچاہیے کہ امت کاعمومی حال کیاہورہاہے؟ غورکریں،ہم کیاہیں؟ مومن یامنافق؟مومن کاحال تویہ ہوتاہے کہ وہ اللہ کی بندگی کرکے بھی روتاہے اورمنافق کی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ ورسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کی نافرمانی کرنے کے باوجود ہنستاہے ،ایک دن چند صحابہ بیٹھے ہوئے آپس میں باتیں کررہے تھے، اس میں کچھ ہنسی کی بات آگئی توہنسنے لگے ، اتنے میں اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گذرے توان کوہنستادیکھ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی:’’اَ لَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ آمَُنُوْاأنْ تَخْشَعْ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِاللّٰہِ وَمَانَزَلَ مِنَ الْحَقِّ ‘‘(کیاایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیاکہ ان کے قلوب خداکی نصیحت کے اورجودین حق نازل ہواہے ،اس کے سامنے جھک جائیں)۔

اس سے صحابۂ کرامؓ پرایساخوف طاری ہوا کہ بے ساختہ بول اٹھے:’’ آن وحان آن و حان‘‘ یعنی وقت آگیاکہ ہمارے قلوب دہل جائیں، کاش! ہمارے دل بھی زندہ ہوتے اورہم پربھی یہ اثر پڑتا کہ قرآن وہی قرآن ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات وہی ارشادات ہیں ۔

کاش! ہم کواعتراف قصورکی توفیق ملتی اوردل سے یہ آواز آتی ۔

الٰہی الٰہی یا الٰہی !جرم کا قرار کرتا ہوں

خطا و سہو کا پتلا ہوں، استغفار کرتا ہوں

شمس الحق ندوی