رمضان المبارک اور عبد الفطر

ملت کو گھن کی طرح کھانے والا مرض
February 27, 2019
حج کی سعادت کے مشتاق حجاج
July 14, 2019
ملت کو گھن کی طرح کھانے والا مرض
February 27, 2019
حج کی سعادت کے مشتاق حجاج
July 14, 2019

رمضان المبارک اور عبد الفطر

رمضان المبارک کے مبارک دن‘ جن میںرحمتِ خداوندی کی جھڑی لگی ہوتی ہے‘ جلد ہی شروع ہونے والے ہیں۔ان دنوں میں رمضان المبارک کے فضائل و برکات ہی پڑھ کر سنائے جاتے ہیں، تقریروں میں اسی ماہِ مبارک کی خیر و برکت کا ذکر ہوتا ہے۔ ان مبارک گھڑیوں میں افطار و سحری ،اعتکاف و لیلۃ القدر کے فضائل اور اللہ رب العالمین کی نوازشات اور اپنے روزہ دار بندوں سے رضا و خوشی ہی کا ذکر زبانوں پر جاری رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا درِ رحمت اپنے سارے ہی مؤمن بندوں کے لیے کھول دیا ہے؛ جو مانگے گا وہ پائے گا۔ وہ ایسا داتا ہے کہ اس کو مانگنے ہی ؛ بلکہ ضد اور اصرار کے ساتھ مانگنے پر خوشی ہوتی ہے، جبھی تو وہ اپنے خطا کاروں کو اطمینان دلاتا ہے، تسلی دیتا ہے اور ناامید ہونے سے روکتا ہے، فرماتا ہے اور اپنے محبوب نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے اپنے کلامِ پاک میں کہلواتا ہے: ’’قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوا عَلی اَنْفُسِہِمْ لاَتَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ، اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا‘‘[زمر:۵۳] (اے پیغمبر! میری طرف سے لوگوں سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو!جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے‘ خدا کی رحمت سے نا امید نہ ہونا، خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے)۔
جب اللہ تعالیٰ خود یہ فرما رہا ہے تو ان مبارک دنوں میں، روزہ و تراویح کی دعاؤں میں کیوں نہ اس سے اپنے گناہوں کی معافی کی دعا مانگیں اور اپنے گناہوں کو معاف کرائیں۔لیکن یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان چند گنے چنے دنوں کی بھی جو قدر کرنی چاہیے‘ نہیں کرتے۔ شروع کے دنوں میں تو مسجدیں بھرجاتی ہیں پھر دھیرے دھیرے خالی ہونے لگتی ہیں، اور بعض مسجدوں میں تو پانچ دن دس دن کی تراویح میں قرآن کریم ختم کرکے چھٹی لے لی جاتی ہے۔ پانچ دن دس دن میں پورا قرآن تراویح میں سن لینے کا یہ فائدہ تو ہے کہ کسی کو سفر وغیرہ پر جانا ہو تو قرآن کریم سننے کی سنت نہ چھوٹے، نہ یہ کہ مسجد ہی خالی ہوجائے۔ہم اگر ان خاصانِ خدا کی نقل نہیں کرسکتے جو ہر وقت ذکر و تلاوت میں لگے رہتے ہیں، راتوں میں مالک کے سامنے روتے گڑگڑاتے ہیں، اس مبارک مہینہ میں ان کا ایک ایک لمحہ خدا کی یاد میں گذرتا ہے تو اتنا تو کریں کہ تراویح صحیح طرح ادا کریں۔
روزہ امیر و غریب سبھی رکھیں گے۔ امیر تو ظہر کے بعد سے ہی افطاری کے انتخاب اور قسم قسم کی چیزوں کو جمع کرنے میں لگ جائیں گے، لیکن خدا کے ان نادار بندوں کی بڑی تعداد ہوگی جن کو دال روٹی اور چٹنی کے سوا کچھ اور میسر نہ ہوگا۔ روزہ کی حالت میں دن بھر اپنا کام کاج کریں گے، افطار و سحری کے وقت خدا کا دیا ہوا سادہ کھانا کھا کر روزہ رکھیں گے۔ روزہ کی حالت میں دن بھر کے تھکے تھکائے جب غروب آفتاب کے بعد افطار کریں گے تو اپنی سادہ افطاری پر دل کی گہرائیوں سے الحمد للہ کہیں گے،جو قسم قسم کی افطاری کرنے والوں کوشاید نصیب ہو۔
کچھ اللہ کے بندے ایسے ہوں گے جن کو بھر پیٹ یہ سادہ کھانا بھی نہ نصیب ہوگا۔ اگر طرح طرح کی افطاری اور عمدہ قسم کے کھانوں کا اہتمام کرنے والے ان غریبوں کو بھی کچھ دے دیں تو کیا ان کو افطار کرانے کی فضیلت سے کہیں بڑھ کر ثواب نہ حاصل ہوگا۔ بہت سے لوگوں کو افطار پارٹی کا بڑا شوق ہوتا ہے، اور بڑی بڑی رقمیں اس میں خرچ کرتے ہیں، مزید یہ کہ مغرب کی جماعت بھی اکثر چھوٹ جاتی ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ اور جماعت کا فوت ہوجانا کتنے خسارہ کی بات ہے، اگر یہی رقم ان غریبوں کو پہونچے تو اس کے ثواب کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ مگر ہمارا مزاج اور ماحول اتنا بگڑ گیا ہے کہ عبادت کو بھی نام و شہرت کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ان غریبوں کو دینا اور ان پر صدقہ کرنا تو وہ عبادت ہے جو جہنم سے بچاتی ہے، جس کو حدیث شریف میں اس طرح کہا گیا ہے کہ : ’’اتقوا النار و لو بشق تمرۃ…‘‘ [بخاری و مسلم] (جہنم کی آگ سے بچو!چاہے ایک کھجور کا ٹکڑا ہی دے کر کیوں نہ ہو)۔ جب ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کی یہ فضیلت ہے تو جن کو اللہ تعالیٰ نے نوازا ہے، وہ کیوں غریبوں کو اور خاص طور سے اس ماہِ مبارک میں اپنی رقموں کا ایک حصہ دے دیں‘ کہ ان کا روزہ بھی اچھا گذرے۔ مگر ہمارا ماحول ایسا بن گیا ہے کہ شہرت و ناموری کے لیے بے تحاشا خرچ کریں گے، لیکن خاموشی کے ساتھ ان غریبوں اور بھوکوں کو دینے کی توفیق کم ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔
زکوٰۃ اس لیے فرض کی گئی ہے کہ ہر مالکِ نصاب‘ زکوٰۃ ضرور نکالے۔ زکوۃ کی ادائیگی تو اسلام کے ارکان میں سے اہم ترین رکن ہے، اتنا کہ مشہور قول کے مطابق قرآن پاک میں نماز کے ساتھ بیاسی جگہ زکوٰۃ کا حکم فرمایا ہے۔ زکوٰۃ دینے سے مال محفوظ ہوجاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’زکوٰۃ دے کر اپنے مالوں کو محفوظ کرلو!‘‘۔مال کی زکوٰۃ بہت کم رکھی گئی ہے کہ بندہ کو گرانی نہ ہو، صرف ڈھائی روپیہ فیصد رکھا گیا ہے، اس کا دینا کتنا بوجھ معلوم ہوتا ہے، اور مسلمانوں کی اکثریت زکوٰۃ نہیں دیتی، جب کہ زکوٰۃ کے فضائل تو اپنی جگہ پر‘ زکوٰۃ دینے سے مال محفوظ ہوجاتا ہے، اور زکوٰۃ نہ دینے پر مال اکثر مختلف صورتوں میں برباد ہوجاتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم مسجدِ کعبہ میں حطیم میں تشریف رکھتے تھے، کسی شخص نے بیان کیا کہ فلاں لوگوں کے مال کا بڑا نقصان ہوگیا، سمندر کی موج نے ان کے مال کو ضائع کردیا، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایاکہ: جنگل ہو یا سمندر ، کسی جگہ بھی مال ضائع ہوتا ہے تو وہ زکوٰۃ نہ دینے سے ہوتا ہے۔ چنانچہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مال کسی ہنگامہ میںبرباد ہوگیا، یا ڈاکہ پڑگیا، آگ لگ گئی یا بیماریاں بڑھ گئیںجس میں مال بے تحاشا خرچ ہوا۔
واعظین و مقررین کا بھی یہی حال ہے کہ اپنی تقریروں میں اس کا ذکر نہیں کرتے یا بہت کم کرتے ہیں، بس اپنی دھنواں دھار تقریر میں مزا آتا ہے۔شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریاکاندھلویؒ دین کے تمام پہلؤوں پر نظر رکھتے تھے اور اس کی طرف توجہ دلاتے تھے، چنانچہ مولانا محمد عمر پالن پوریؒ کو اپنے کئی خطوط میں توجہ دلائی ہے کہ اپنی تقریروں میں زکوٰۃ کی طرف بھی توجہ دلایا کرو! مولوی انعام سے کہو کہ وہ بھی اس کا خیال رکھیں۔انھی مولانا محمد عمر صاحبؒ کے ایک خط کے جواب میں جس میں خاص حالات میں مال کی بربادی کا ذکر تھا‘ حضرتؒ نے یہی لکھا کہ یہ زکوٰۃ نہ دینے کے سبب ہوا ہے۔حضرت شیخ نے ایسے واقعات بھی لکھے ہیں کہ زکوٰۃ دینے والوں کے مال کو ڈاکو بھی نہ لے سکے ، ان کی ساری کوشش بیکار گئی۔ حضرت شیخؒ سب کے سرپرست، مرشد و بزرگ تھے، اس لیے کوئی تکلف نہیں فرماتے تھے اور اپنی سرپرستی کا حق بے تکلف ادا کرتے تھے۔ مولانا محمد عمر ؒ ہی کے نام ایک خط میں لکھا: تمہاری تبلیغ میں مال دار لوگ شریک ہوگئے ہیں جو چلہ میں بھیجنے کے لیے تو بڑی بڑی رقمیں دیتے ہیں مگر ان میں اکثر زکوٰۃ نہیں ادا کرتے۔یہ ساری باتیں مولانا محمد عمر صاحب کے نام شیخ کے مطبوعہ خطوط میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
یہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے، باتوفیق حضرات اکثر اسی ماہ میں زکوٰۃ نکالتے ہیں، اس لیے زکوٰۃ کی اہمیت اور اس کے اسلام کے ایک اہم رکن کی حیثیت کا ذکر کیا گیا ہے، جس کا اوپر ذکر ہوا کہ نماز کے ساتھ بیاسی جگہ زکوٰۃ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی محض اپنے فضل سے ہم کو رمضان المبارک کی ان گھڑیوں کو‘ جن میں رحمتِ خداوندی کی جھڑی لگتی رہتی ہے‘ پورے آداب و حقوق کے ساتھ گذارنے کی توفیق سے نوازے، اور عید الفطر کے جو فضائل و برکات بیان کیے گئے وہ ہم کو نصیب ہوں۔ ان غریبوں ہی کے خیال سے صدقۂ فطر واجب قرار دیا گیا اور اکثر لوگ فطرہ نکالتے ہیں، اسی طرح فکر و ہمت کریں تو زکوٰۃ نکالنا بھی آسان ہوجائے۔

شمس الحق ندوی