عزم و ہمت اور قوت ایمانی کی تجدید کا پیغام

حج وقربانی کے تقاضے اور ذمہ داریاں
اگست 13, 2019
نئے سال میں اپنے اعمال کا جائزہ لیں!
ستمبر 19, 2019
حج وقربانی کے تقاضے اور ذمہ داریاں
اگست 13, 2019
نئے سال میں اپنے اعمال کا جائزہ لیں!
ستمبر 19, 2019

عزم و ہمت اور قوت ایمانی کی تجدید کا پیغام

رات کی تاریکی اپنی سیاہ چارد پورے طورپر صحرا وگلشن ، آبادی اورویرانے ، شہراورگائوں سب جگہ پھیلاچکی ہے، چرند وپرند بھی اپنے اپنے ٹھکانوں پرپہنچ چکے ہیں ہرطرف خاموشی وسناٹاہے، لیکن وہ جوپوری دنیائے انسانیت کوچین وسکون، امن وامان کاپیغام پورے تیرہ سال سے ہرطرح کے دکھ درد جھیل کرسنارہاہے اس کے گھر کے اردگردسرداران قریش اورہرقبیلہ کے تنومند جوانوں کا گھیراہے، ہرقبیلہ کے جوان کے ہاتھ میں چمکتی ہوئی تلوار ہے کہ پوپھٹتے ہی جب یہ نماز کو نکلے تویکبارگی ان جوانوں کی تلواریں اس کا خاتمہ کردیں، مگروہ مالک کائنات، مالک جن وبشر جس نے انسانوں پرحجت تمام کردینے کے لیے اپنے اس بندے کورسول بناکر بھیجاتھا وہ اس کامحافظ ونگہبان ہے، اس کوصورت حال سے باخبرکرتاہے کہ تم ان سب کے سروں پر’’فَأغْشَیْنَاھُمْ فَھُمْ لاَیُبْصِرُوْنَ‘‘ [یٰسین:۹]کاورد کرتے ہوئے ، دھول ڈال کرنکل جائو، یہ تمہارابال بیکا نہ کرسکیں گے، اس کے ساتھی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میںنکل کر مدینہ پہنچ چکے ہیں، یہ بھی پوری احتیاط وحکمت کے ساتھ مدینہ کارخ کرتاہے اوروہاں بسلامت پہنچتاہے ، یہیں سے سن ہجری کاآغاز ہوتاہے ، اورپھر وہ سب کچھ ہوتاہے جس کودنیا ۱۴۴۰ھ؁ برسوں سے دیکھتی آرہی ہے ، وہ لوگ جواس کی اوراس کے ساتھیوں کی جان کے پیاسے تھے کس کس طرح سے ذلیل ہوئے ہیں، دنیاکاہرپڑھالکھا شخص اپناہو کہ پرایا، اس سے خوب واقف ہے، وہی مکہ جس سے اس سراپا رحمت کو نکالاگیاتھا ،اسی مکہ کے میدان عرفات میںیہ خدائی اعلان ہوتاہے(اے اہل اسلام اب) خداااور اس کے رسول کی طرف سے مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کررکھاتھا بیزاری (اورجنگ کی تیاری ہے) تو(مشرکو! تم) زمین میں چارمہینے چل پھرلو اورجان رکھو کہ تم خداکوعاجزنہ کرسکوگے اوریہ بھی کہ خداکافروں کورسواکرنے والاہے، اورحج اکبر کے دن خدااور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کوآگاہ کیاجاتاہے کہ خدامشرکوں سے بیزار ہے۔[سورہ توبہ: ۱،۲]
وہ مالک کائنات جس نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے انہیں میںسے اپنے محبوب بندے کوبھیجاتھا، وہ اس کی حفاظت کے لیے ان فرشتوں کاپہرہ لگاسکتا تھا، جن فرشتوںنے غزوۂ بدر اورغزوۂ خندق میںمسلمانوں کی مدد کی تھی، لیکن چونکہ ابلیس کوقیامت تک کے لیے مہلت ملی ہے کہ وہ انسانوں کوبہکانے اوراپنے ساتھ جہنم میںلے جانے کی جان توڑکوشش کرے اور ہردور میں مسلمانوں کو راہِ حق سے دورلیجانے کے لیے خوبصورت جال لگاتارہے اورانسانوں کی اکثریت کواس دین حق کے خلاف ابھارتا اوراس دین سے عداوت ودشمنی کی آگ بھڑکاتارہے، حلیہ بدل بدل کربھڑکاتارہے ،بالکل اسی طرح جس طرح ایک بزرگ کی شکل میںدارالندوہ میںحاضرہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کامشورہ دیاتھا۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اوراصحاب رسول کوامتحان وآزمائش کے ان سخت مراحل سے گزارا، جوقیامت تک کے مسلمانوں کے لیے روشنی کامینار بنے رہیں ،اورسخت سے سخت حالات میں بھی مسلمان اپنے دین وایمان پرنہ صرف قائم رہیں، بلکہ حکمت ودانش مندی کے ساتھ خیرامت کی حیثیت سے اس پیغام امن کو دوسروں تک پہنچاتے رہیں۔
اس حیثیت سے ہجرت مدینہ امت مسلمہ کے لیے مستقل ایک پیغام کی حیثیت رکھتی ہے کہ دین وایمان ایک مسلمان کی وہ پونچی ہے جس سے وہ کسی قیمت پردست بردار نہیںہوسکتا، وہ موت کو گلے لگالے گا، لیکن دین وایمان کے انمول ہارکو اپنے گلے سے نہیںاتارے گا، جس کامشاہدہ ہم اس وقت بھی کررہے ہیں کہ کتنے مسلمان مختلف سازشوں کے نتیجہ میں قید وبند کی زندگی گزاررہے ہیں، مگر اپنے دین کے ایک نقطہ سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ، سوائے ان قسمت کے ماروں کے جومغرب کے دام فریب میںآکراس دین ہی پرسے اپنااعتماد کھوبیٹھے ہیں اورحب دنیا،حب جاہ ومال کی ریس میں دوسری قوموں کی راہ پرچل پڑے ہیں۔
سفرطائف میںجہاں آپ بڑی امیدیں لے کرگئے تھے جب آپ کوآخری درجہ کی تکلیفیں پہنچائی گئیں توپردیس میںاللہ تعالیٰ کو اپنے حبیب کی یہ حالت دیکھ کر خصوصی رحم آیا، اورخصوصی مدد کی پیش کش ہوئی ، اورحضرت جبرئیل علیہ السلام پیغام لائے کہ زلزلہ کے ذریعہ ان ظالموں کوتباہ وبرباد کردینے کے لیے فرشتہ تیار ہے، آپ کہیں توان کوابھی سزادی جائے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح وارشاد کی مصلحت کے اعلیٰ معیار کوترجیح دیتے ہوئے سزادینے کی فرمائش نہیں کی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طائف سے واپس ہوتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ:’’ میںان لوگوں کی تباہی کے لیے بددعا نہیںکرتا، اگریہ لوگ خداپرایمان نہیںلائے تو کیاہوا، امیدہے کہ ان کی آئندہ نسلیں ایک خدا پرایمان لانے والی ہوں‘‘۔ حفیظ جالندھری کے الفاظ میں ؎
اگریہ لوگ آج اسلام پر ایمان نہیں لاتے
خدائے پاک کے دامانِ رحمت میں نہیں آتے
مگر نسلیں ضرور ان کی اسے پہچان جائیں گی
درِ توحید پر اک روز آکر سر جھکائیں گی
میں ان کے حق میں کیوں قہرِ الٰہی کی دعا مانگوں
بشر ہیں، بے خبر ہیں، کیوں تباہی کی دعا مانگوں!
انسانیت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت بے پایاں کایہی جذبہ تھا جس کوقرآن کریم نے ان الفاظ میںاداکیاہے: ’’وَمَاأرْسَلْنَاکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ‘‘ [انبیاء:۱۰۷] ( ہم نے آپؐ کوپورے عالم کے لیے رحمت بناکربھیجاہے)۔
ماہِ محرم الحرام سے سن ہجری کاآغازہوتاہے، سال کی یہ ابتداء ہربندۂ مومن کواپنے عزم وہمت ،جذبہ وحوصلہ اورقوتِ ایمانی کوتازہ کرنے کاپیغام دیتی ہے۔
شمس الحق ندوی