حج کی سعادت کے مشتاق حجاج
July 14, 2019عزم و ہمت اور قوت ایمانی کی تجدید کا پیغام
September 1, 2019حج وقربانی کے تقاضے اور ذمہ داریاں
حجاج کرام حج اور عفووکرم کی دولت سے مالا مال واپس آئے ،گناہوں سے پاک دھلے دھلائے جیسے آج ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہوں ، دوران حج لوگوں کے گناہوں کو معاف ہوتے دیکھ کر شیطان کتنا چیخا چلایا ، ذلیل و رسوا ہو ا، سر پر خاک ڈالی کہ اس کی برسوں کی محنت پر پانی پھر گیا ، کتنا کریم ہے وہ آقا جو اپنے بندوں کے تڑپ تڑپ کررونے، گڑگڑانے اور توبہ و استغفار پر ان کی عمر بھر کی خطائوں کو معاف کر دیتا ہے ، یہی نہیں بلکہ ان سے پیار و محبت کرتا ہے ۔
حدیث پاک میں آتا ہے :جب بندہ خدا کی طرف چل کرآتا ہے تو خدا اس کی طرف تیزی سے آتا ہے ، بندہ اس کی طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو وہ دوبالشت بڑھتا ہے ، وہ ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو وہ دو ہاتھ بڑھتا ہے ، وہ بازو بھر بڑھتا ہے تو وہ دو بازو کے برابر بڑھتا ہے ، جس کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ کا اپنے مالک کی طرف رجوع و انابت اس کے دریائے رحمت میں جوش و طغیانی پیدا کردیتا ہے ، وہ فرماتا ہے: میرے بندو! جن سے بھول چوک ہو گئی ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید نہ ہو، اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے ، ارشاد ہے:’’ قُلْ یَا عِبَادِ یَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلیٰ اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِن رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعاً‘‘۔ [سورۃالزمر/۵۳] اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو یہ شرف بخشا ہے کہ ان کے دلوں میں جلوہ افروز ہو جاتا ہے ۔ ایک حدیث قدسی میں ارشاد فرماتا ہے: ’’لا یسعنی أرضی ولا سمائی و لکن یسعنی قلب مؤمن‘‘ ،( میرے لیے میرے زمین و آسمان کافی نہیں لیکن میں اپنے مومن بندہ کے دل میں سما جاتا ہوں)۔
حضرت ابن عباس ؓکی ایک روایت میں ہے :اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ پر نظر ڈالی اور فرمایا :’’ لا الٰہ الا اللّٰہ ، تو کتنا اچھا ہے، تیری خوشبو کتنی اچھی ہے ،تو کس قدر محترم ہے ، اور مومن تم سے بھی زیادہ محترم ہے ، اللہ تعالیٰ نے تم کو محترم بنایا ہے ، اور مومن کے مال ، خون ، عزت سب کو محترم بنایا ہے ، اس سے منع فرمایا ہے کہ ہم مومن کے بارے میں برا گمان رکھیں ‘‘۔ مشکوٰۃ کی طویل روایت میں ہے : حجۃ الوداع کے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر میں صحابہ کرام ؓسے فرمایا:’’ تمہارا خون ، تمہارامال ، تمہاری عزت تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے آج کے دن ، تمہارے اس شہر میں ، تمہارے اس مہینہ میں ، جلدہی تم اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہو گے اور تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا ، سن لو ! ہمارے بعد تم غلط راہ پر نہ پڑ جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرو ۔ کیا ہم نے تم کو آگاہ نہیں کر دیا ؟ صحابہ کرامؓ نے جواب دیا ! ہاں ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اے اللہ !تو گواہ رہ ، تم میں جو لوگ یہاں موجود ہیں ، دوسروں کو بتادیں ، بہت سے لوگ جن کو بعد میں معلوم ہو ا، براہ راست سننے والوں سے زیادہ یاد رکھتے ہیں‘‘ ۔[مشکوٰۃ شریف]
اللہ تعالیٰ نے جن حضرات کو حج کی دولت سے نوازا اور وہ گناہوں سے پاک صاف ہو گئے ، ان کو اب زندگی کس احتیاط سے گزارنی چاہیے کہ حج کے اثرات باقی رہیں ، بعض اہل اللہ نے فرمایا کہ حج کی مقبولیت کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ حاجی کو اس کے بعد نیکیوں کی توفیق ملے ۔ اس لیے حاجی کو اس کا ہر وقت دھیان رکھنا چاہیے کہ اس کے شرف و مقبولیت میں کوئی داغ نہ لگنے پائے ،اور لوگوں کی زبانون سے یہ الفاظ نہ سنے جائیں کہ دیکھو حاجی ہوکرکیاکررہے ہیں؟یہ توحاجیوں کی رسوائی کاسبب بن رہے ہیں،یہ وہی حاجی ہیں جن سے واپسی پر گھر میں داخل ہونے سے پہلے بڑھ کر ان سے ملنے اور دعا کی درخواست کرنے کا حکم تھا؟کیایہ درست ہوگا کہ حج بھی ہوتارہے اور سودی لین دین اور کاروبار بھی جاری رہے؟کیا یہ مناسب ہوگا کہ فرض حج کے بعدنفلی حج ہوتے رہیں اور دیگرفرائض اور اولاد کی تربیت سے غفلت برتی جائے؟کیایہ صحیح ہوگاکہ حج بھی ہوتارہے اور غیبت وبہتان تراشی اور جھوٹ وفریب کابھی بازار گرم رہے؟!
اسی طرح جو حضرات حج کو نہ جا سکے لیکن عشرہ ٔ ذی الحجہ کی برکات سے اپنے دامن کو بھرا ، اور صاحب نصاب بندوں نے حضرت ابراہیم ؑکی اتباع میں کہ انھوں نے اپنے جگر گوشہ کی گردن پر چھری چلائی تھی ، جانوروں کی قربانی کر کے اس کے ہر بال کے بدلہ میں نیکی کمائی ، اور جانور کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے بارگاہ مولیٰ میں قبول ہوگیا، اس کے شکرانے میں اپنی پوری زندگی اللہ ورسولؐ کے حکم کے مطابق گزاریں ۔
قربانی کی اصل روح یہ ہے کہ اپنے کو مرضی مولا کے تابع بنادیں،اور دین وملت کے مفاد کو مقدم رکھیں،ایک قربانی وہ ہے جوحضرت حسن رضی اللہ عنہ نے قوم وملت کے مفاد کو دیکھتے ہوئے خود کو خلافت سے دست بردار کرلیاتھا۔ایک قربانی وہ ہے جو عین میدان کارزار میںجب کہ اسلامی فوجیں آگے بڑھتی جارہی تھیں،حضرت خالدرضی اللہ عنہ نے اپنی معزولی کو اس طرح قبول کیا کہ نہ یہ کہ صرف پیشانی پر بل نہیں آیابلکہ اسی جوش وخروش کے ساتھ لڑتے اور جوہر دکھاتے رہے جو معزولی سے پہلے دکھا رہے تھے،کسی کے کہنے پر کہ آپ اس طرح کیوں لڑرہے ہیں آپ تو معزول کردیے گئے ہیں؟جواب دیتے کہ میںعمرؓ کے لیے نہیں لڑرہاتھا ،اللہ کے لیے لڑرہاتھا اور اب بھی اسی کے لیے لڑرہاہوں۔
ذبح عظیم کی نقل کا اصل مقصدیہی ہے کہ اپنا سب کچھ آقا کے حکم کے تابع کردیا جائے،جان ومال،جاہ ومنصب،شہرت وناموری،لیکن ہماری قربانی کا حال یہ ہے کہ معمولی سے معمولی مفاد کو قربان کرنے پرآمادہ نہیں کرتی،بلکہ حیلے بہانے اور تاویلات تلاش کرلیتی ہے،کہنے والے نے خوب کہاہے :
عدو سے ملنے کی خواہش اور کچھ مرا بھی خیال
چلے ادھر ہی کو لیکن ٹہل ٹہل کے چلے
کیا اچھا ہوتا کہ قربانی کرنے والے اپنا سب کچھ اسی طرح مالک کے حکم کے تابع کردیتے جس طرح حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے کردیاتھا،اگر یہ روح پیدا ہوجائے تو مسلم معاشرہ کی وہ تصویر سامنے آجائے جس کو دیکھ کر گردش ایام کے ستائے ہوئے غیرمسلموں کے منہ میں پانی آجائے ، اور ان کے دل میں اس دین رحمت کے سائے میں آجانے کا شوق پیدا ہو ، اور ان کو اپنی بے چینی اور روح کی پیاس کو بجھانے کا سامان حاصل ہو ۔
اس وقت پورا عالم اپنی ساری ترقیوں اور چمک دمک کے باوجود کرب و بے چینی کے کن طوفانوں سے گزر رہا ہے ، اس کے بیان کی ضرورت نہیں ، اس طوفان بلا خیز میں دین رحمت ہی کشتی نوح کاکام دے سکتاہے ۔
شمس الحق ندوی