مایوسی نہیں! اپنے مقام کی شناخت اور خدا کی ذات پر اعتماد
جنوری 12, 2020دل کی دھڑکن کیا کہتی ہے !
فروری 13, 2020معروف فقیہ ومفسر قرآن مولانا محمد برہان الدین سنبھلی کی رحلت
جمعہ مورخہ ۲۱؍جمادی الاول ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۷؍جنوری ۲۰۲۰ء کو عصر کے وقت عظیم القدر عالم دین مولانامحمد برہان الدین سنبھلی نے وفات پائی،انا للّٰہ وانا الیہ راجعون، للّٰہ ماأخذ ولہ ماأعطی، وکل شیء عندہ بأجل مسمّی۔
مولانامحمد برہان الدین سنبھلی علیہ الرحمہ ایک ممتاز اور ربانی عالم تھے،اور علماء کے حلقہ میں ان کا اچھا تعارف،شہرت اور مقام تھا،چار ذی الحجہ ۱۳۵۶ھ مطابق ۵؍فروری ۱۹۳۸ء کو وہ پیدا ہوئے،مرادآباد اترپردیش کا مردم خیزعلاقہ سنبھل ان کا وطن تھا،اور ان کے والد مولاناقاری حمید الدین مرحوم دارالعلوم دیوبند میں علامہ انور شاہ کشمیری کے ممتاز شاگردوں میں تھے،اور تجوید وقرأت کے بھی اچھے عالم اور جید حافظ قرآن تھے،یہ خصوصیت مولانامحمد برہان الدین سنبھلی کو موروثی طور پر حاصل ہوئی،وہ بھی قرآن مجید کے اچھے عالم ،جید حافظ اور اس کے ساتھ دین و شریعت کے ممتاز عالم وواقف کار کے طور پر سامنے آئے،دارالعلوم دیوبند سے ۷۷-۱۳۷۶ھ مطابق ۵۸-۱۹۵۷ء میں پورے امتیاز کے ساتھ دورۂ حدیث کیا،جو تدریس بخاری کا شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کا آخری سال اور شیخ الحدیث مولانا سید فخر الدینؒ کا دارالعلوم دیوبند میں پہلا سال تھا،اول الذکر سے بخاری شریف کے ابتدائی ابواب اور ثانی الذکر سے بقیہ ابواب کا درس لیا،پھر دارالعلوم دیوبند کے ایک ممتاز فاضل کے طور پر انہوں نے مدرسہ عالیہ مسجد فتحپوری دہلی سے اپنی خدمات کا آغاز کیا،اور درسیات کی تمام اہم کتابیں اس مدت تدریس میں پڑھائیں،جو دس بارہ سال کی مدت تھی،اس کے علاوہ درس قرآن کریم کا مقبول سلسلہ بھی جاری تھا، ان کے وہاں کے قیام سے ہمارے وہاں مقیم عزیزوں سے بھی ان کا اچھا ربط تھا،جن میں مولاناسید ابوبکر حسنی مرحوم اور مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی مرحوم خاص طور پر قابل ذکر ہیں،اس وجہ سے دہلی جانے پر ہم لوگوں کا بھی ان سے ربط وتعلق قائم ہوگیا تھا،انہیں مفکراسلام حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے عقیدت کا تعلق بھی تھا،اس لیے ان کی طرف سے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا جب تقاضا سامنے آیا،تو انہوں نے اس کو ترجیح دی،اور یہاں آنے پربعض اہم اداروں کی طرف اچھے مشاہرہ کے ساتھ ان کو پیشکش ہوئی،لیکن انہوں نے ندوہ کے قیام کو ہی ترجیح دی،اور ۱۹۷۰ء سے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں علوم شریعہ کے استاد کی حیثیت سے آخر تک رہے،اور ایک باکمال استاد کے طور پر تعلیم و تربیت کا کام ۴۵ ؍سال سے زائد عرصہ تک خاص طور پر تفسیر وحدیث،اور اسرار شریعت پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی معرکہ آرا ء کتاب’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کادرس ان کے ذمہ رہا،جو بہت مقبول رہا،بخاری شریف کے بعض ابواب اور سنن ابوداؤد،تفسیر قرآن کریم،کشاف اور بیضاوی شریف کا بھی درس دیا،اور تفسیر کے شعبہ کے صدر کی حیثیت سے اچھی خدمت انجام دی،مزید دارالافتاء میں مفتی اور دارالقضاء میں قاضی کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات حاصل کی گئیں،اپنی علالت ومعذوری کی وجہ سے آخر میں تدریسی خدمت سے سبکدوش ہوگئے،مگر ارشاد وتربیت کا کام متعلق طلبہ کے لیے کرتے رہے تھے،اور ان کے علمی ودینی صفات و خصوصیات سے فائدہ اٹھانے کا سلسلہ جاری تھا کہ یہ روشن چراغ بھی بجھ گیا،اور وہ اپنی طویل دینی علمی ودینی خدمات کا حقیقی صلہ لینے اپنے مالک حقیقی کے پاس پہنچ گئے،اللّٰہم اغفرلہ وارحمہ وأدخلہ فی العلیین واحشرہ مع النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین وحسن أولئک رفیقاً۔
طویل مدت ہم لوگوں کا ایک ادارہ میں تعلیم وتدریس،او ر پھر بہت سی ملی معاملات میں رفاقت،بہت سی یادیں تازہ کرتی ہیں،وہ شروع سے آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے فعال رکن اور طویل مدت تک اس کی مجلس عاملہ کے بھی رکن رہے،اور آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈکی طرف سے مرتب کی جانے والی وقیع ومفید کتاب’’مجموعہ قوانین اسلامی‘‘ کی تدوین وترتیب میں انہوں نے فعال حصہ لیا،اور کئی کئی ہفتے اس کے لیے فارغ ہوکر وقت دیا،مزیداس کے علاوہ بورڈ کی’’ نفقہ مطلقہ‘‘ کی تحریک میں بھی بڑا علمی وعملی حصہ لیا،اور اس تعلق سے ان کی اہم کتاب’’معاشرتی مسائل دین فطرت کی روشنی میں‘‘سامنے آئی جوبڑی مقبول ہوئی،جس میں اسلام کے عائلی قانون کو مشہور مذاہب واقوام کے ازدواجی قوانین سے تقابلی مطالعہ کے ساتھ پیش کیا گیاہے،اور بہت اچھے انداز میں شریعت کے خلاف پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیاہے،ان کا یہ کام ناظم مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء کی حیثیت سے سامنے آیا،اور مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنؤ سے منظر عام پر آیا،اس کے علاوہ ان کی ایک تحقیقی کتاب رؤیت ہلال سے بھی متعلق ہے،اور مختلف علمی،فقہی اور معاشرتی مضامین ومقالات کا مجموعہ’’گلدستہ علم ونظر‘‘ کے نام سے ابھی کچھ عرصہ قبل ہی سامنے آیا،اور فقہی مقالات کا مجموعہ عربی میں ’’قضایا فقھیۃ معاصرہ‘‘ کے نام سے بلاد عربیہ سے شائع ہوا، عورتوں کے حقوق کے تعلق سے اور بینک انشورنس اور سرکاری قرضے پر اہم کتاب،جدید طبی مسائل پر کتاب اور چند اہم دینی مباحث کے نام سے ایک دوسری کتاب اور دوسرے قابل ذکر کام ہیں،مسلم پرسنل لابورڈ کی اصلاح معاشرہ کی تحریک میں بھی قلمی وعملی حصہ لیا،جہیز اوراصلاح معاشرہ کے نام سے الگ کتابیں بھی لکھیں۔
وہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے نائب صدربھی تھے،اور اس سلسلہ میں ان کے اسفار اور سیمیناروں میں شرکت بھی قابل ذکر اعمال ہیں،امریکہ،الجزائر،برطانیہ،اور جنوبی افریقہ،ملیشیا وغیرہ کے علمی سفر بھی کیے،اس کے علاوہ حج وعمرہ کی سعادتیں الگ ہیں جو حاصل کیں،دینی تعلیمی کونسل اترپردیش،دارالعلوم تاج المساجد بھوپال،اور جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد کے رکن بھی تھے،اور عربی خدمات میں انہیں صدر جمہوریہ ہند کا ایوارڈ بھی حاصل تھا،دارالعلوم ندوۃ العلماء میں شعبۂ تفسیر کی صدارت کے علاوہ مرکزی دارالقضاء اترپردیش کی قاضی کونسل کی صدارت بھی حاصل رہی تھی،اس کے علاوہ وہ گوناگوں دینی خصوصیات اور علمی کمالات کی حامل شخصیت تھے،اور حضرت مولاناسید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ ان کی بڑی قدر فرماتے تھے،اور ہم لوگوں کو بھی ان کے مشوروں سے فائدہ ہوتاتھا،ایک اچھی دینداری اور پرہیز گاری کی زندگی انہوں نے گزاری جو دین وشریعت کی خدمت میں پوری امانت ودیانت کے ساتھ سامنے آئی،وہ ایک باوقار اور ربانی عالم کے طور پر یاد کیے جائیں گے،اور ان کا فیض ان کے شاگردوں اور تحریری سرمایہ کے ذریعہ جاری رہے گا،ان کے بڑے بیٹے مولوی نعمان الدین ندوی بھی علمی شغل رکھتے ہیں،اورکئی عربی کتابوں کے مصنف ہیں، مولانامرحوم کو اہلیہ اور اپنے چھوٹے بیٹے کی وفات کا صدمہ بھی اٹھانا پڑاتھا جسے انہوں نے بڑے صبرورضا کے ساتھ برداشت کیا تھا،وہ خود ایک عرصہ سے فالج کے حملہ کی وجہ سے سخت امراض میں گھر گئے تھے،مگر اس مدت کو انہوں نے بڑے صبروتسلیم کے ساتھ گزارا،ان کا قیام آخر تک ندوہ کے ہی احاطہ میں رہا،جمعہ کی نماز معذوری کے باوجود ندوہ کی جامع مسجد میں ادا کرنے کا معمول رکھا،جب کہ صحت کی حالت میں وہ اذان ہوتے ہی پنجوقتہ نمازوں میں مسجد پہنچ جاتے،ندوہ کی مسجد میں وہ ایک مدت تک جمعہ کے خطبہ سے قبل سہل اور جامع تقریر بھی کرتے رہے،اور کچھ مدت جمعہ اور عیدین کی نمازوںکی امامت بھی کی، ان کی دینی صفات و خصوصیات کی قدر کرتے ہوئے حضرت مولانامحمد طلحہ کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اجازت وخلافت سے بھی سرفراز کیا تھا،’’انما یخشی اللّٰہَ من عبادہ العلماء‘‘ کی صحیح تصویر تھے،اور انتقال پر’’ وجوہ یومئذ ضاحکۃ مستبشرۃ‘‘ کا کھلا اثر ظاہر ہورہاتھا۔
مولانامحمد برہان الدین سنبھلی نے ۸۳؍سال کی عمر پائی،اور جمعہ کے مبارک دن عصر کے وقت داعی اجل کولبیک کہا،اور پوری زندگی علم و دین کی خدمت میں گزارکر اپنے مالک حقیقی کے جوار رحمت میں پہونچ گئے،اگلے روزبعد نماز ظہر دارالعلوم ندوۃ العلماء ہی میں نماز جنازہ ہوئی،ان کے تعلق والوں اور چاہنے والوں کی بڑی تعداد شہر واطراف شہر سے جمع ہوگئی تھی،اور ڈالی گنج قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، جہاں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے کئی اساتذہ وکارکنان اور بعض ممتاز علماء مدفون ہیں۔
امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ ان کا نعم البدل عطافرمائے،اور ان کی وفات سے جوخلا وخسارہ ہوا ہے،اس کو پُر فرمائے۔
٭٭٭
حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی