شہریت ترمیمی قانون۔ تجزیہ، اندیشے اور امکانات
December 29, 2019معروف فقیہ ومفسر قرآن مولانا محمد برہان الدین سنبھلی کی رحلت
January 27, 2020مایوسی نہیں! اپنے مقام کی شناخت اور خدا کی ذات پر اعتماد
حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر کے تاریک اور گھٹے ہوئے ماحول میں پیدا ہوئے، جو ان کی قوم بنی اسرائیل کو پورے طور پر گھیرے ہوئے تھا، اور ان کے لیے ظلم و زیادتی کے اس ظالمانہ ماحول سے نکلنے کے تمام راستے بند تھے۔ حالات مایوس کن، تعداد تھوڑی، وسائل معدوم، قوم بے وقعت، دشمن غالب و زبردست، نہ کوئی ان کی ہمدردی کرنے والا تھا، نہ ظلم و زیادتی کے اس ماحول سے نکالنے والا ۔
انہی حالات میں موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوتے ہیں۔ فرعون نے چاہا کہ وہ نہ پیدا ہوں، مگر پیدا ہوکر رہے، اور اتنا ہی نہیں؛ بلکہ اسی کے شاہی محل میں پلے بڑھے، جوان ہوئے اور پھر ایسے حالات میں پیدا ہوئے کہ مصر سے بھاگنا پڑا، اور کارسازِ حقیقی اللہ رب العالمین نے ان کو قریبی ملک مدین میں حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس پہونچادیا، اور انہوں نے اپنی ایک لڑکی سے ایک مدت خدمت گزاری کے عوض ان کا نکاح کردیا۔ مقررہ مدت پوری کرنے کے بعد پھر مصر کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔راستے میں وہ آگ کی تلاش کے لیے نکلتے ہیں اور ایسا نور پاتے ہیں کہ جس کے ذریعہ مظلوم بنی اسرائیل کی قسمت چمک جاتی ہے۔ وہ منصبِ نبوت سے سرفراز ہوکر فرعون کے خدم و حشم سے بھرے ہوئے دربار میں داخل ہوتے ہیں۔ مجرم کی حیثیت سے بھاگے تھے، لیکن وہ فرعون اور فرعونیوں کو اپنی دعوت و ایمان اور حجت و بیان سے مغلوب کرلیتے ہیں۔ فرعون جادوگروں کی مدد سے اعجازِ موسوی کو دبانا چاہتا ہے، لیکن جادوگر ناکام و قائل ہوجاتے ہیں ، اور بے اختیار بول اٹھتے ہیں: ’’آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ، رَبِّ مُوْسیٰ وَ ھَارُوْنَ‘‘ کہ ہم رب العالمین ربِ موسی و ہارون پر ایمان لائے۔ بنی اسرائیل مصر سے نکلتے ہیں، فرعون مع اپنے لاؤ لشکر کے پیچھا کرتا ہے اور سجا سجایا پورا ملک چھوڑ کر اسی دریا میں ڈوب جاتا ہے جس نے بنی اسرائیل کو راستہ دے دیا تھا۔
انسانی تاریخ اور خود اسلامی تاریخ میں بارہا ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں، اور خالقِ کائنات نے ایک مدت تک جتنا اس کی حکمت کا تقاضہ تھا ، ظالموں کو مہلت دے کر اس طرح نیست و نابود کیا ہے کہ جس کا تصور حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
ہمارا کام یہ ہے کہ حالات بدلنے کے لیے سنجیدہ و باوقار طریقۂ کار اختیار کرنے کے اور اپنے اعمال کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے ساتھ ساتھ اس خدائے پاک و برتر ،جبار و قہار، قادرِ مطلق کی طرف رجوع کریں، دعا و تضرع کا اہتمام کریں، جس کے قبضۂ قدرت میں پورا نظامِ کائنات ہے، اور جو ایک لفظِ ’کُن‘ سے آن کی آن ہی نقشہ کچھ سے کچھ بدل سکتا ہے؛ ’’اِنَّمَا اَمْرُہُ اِذَا اَرَادَ شَیْئاً اَنْ یَّقُوْلَ لَہُ کُنْ فَیَکُوْنُ‘‘۔
فرعون ہی کی طرح سے سورۂ کہف میں ایک رئیس مالدار کا ذکر ہے، جس پر اس کے مال و دولت، جاہ و حشم کا ایسا نشہ سوار تھا کہ جب اس کو ایک صاحبِ ایمان نے ایمان کی دعوت دی تو اس نے کہا کہ : یہ ہمارے باغات، کھیتی باڑی، نوکر چاکر، ہر طرح کے جانور اور سواریاں ،تم دیکھ رہے ہوکہ میں کس رُتبہ کا ہوں، اور اگر تمہارے کہنے کے مطابق قیامت آئی بھی ، اور ہم دوبارہ زندہ کیے گئے تو کیا وہاں مجھ جیسے رئیس کو عذاب دیا جائے گا؟بلکہ وہاں میرا اکرام ہوگا۔ صاحبِ ایمان نے کہا: تم اس مالک کا انکار کررہے ہو جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا اور ایک نطفہ سے تم کو آدمی بنادیا۔ اگر وہ چاہے توتمہارے اس ٹھاٹ باٹ کو ایک آن میں ختم کردے، چنانچہ یہی ہوا۔ دیکھتے دیکھتے اس کے باغات، کھیتی باڑی، سب کا سب برباد ہوکر رہ گیا۔ اس کو کوئی سہارا دینے والا نہ ملا۔ اور اب کہتا ہے کہ کاش! ہم نے اپنے مالک کے ساتھ کسی اور کو شریک و ساجھے دار نہ مانا ہوتا۔
اہلِ ایمان برابر امتحان و آزمائش کے حالات سے گذرتے رہے ہیں، اس لیے تدابیر کے ساتھ صبر و ضبط اور ہمت و حوصلہ سے کام لینا چاہیے، اس کی مدد کس وقت کس شکل میں آئے گی ،یہ مالک ہی کے علم میں ہے، اس کی مدد کا تو یہ حال ہے کہ کبھی ان کو ہمدرد و معاون بنادیتا ہے جن کے بارے میں خیال بھی نہیں ہوسکتا :
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے
٭٭٭٭٭
شمس الحق ندوی