Significado de Desenvolvimento O que é, Conceito e Definição
دسمبر 30, 2020عید قرباں میں اخلاص نیت
اگست 10, 2021انا للہ وانا الیہ راجعون-ندوۃ العلماء لکھنؤ کے نائب ناظم و ناظر عام ، معتمد مال اور عمید کلیۃ اللغۃ جوارِ رحمت میں
ماہ رمضان المبارک اور اس کے بعد ندوہ کو کئی اہم اور کارگزار شخصیات کے حادثۂ وفات سے دوچار ہونا پڑا،اور ایک مہینہ کے مختصر عرصہ میں متعدد رفقاء کار اور ندوہ کے ذمہ دارافراد ہم سب کو چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جاملے، جن میںعزیزی و عزیزالقدرمولوی سید محمد حمزہ حسنی ندوی جن کواب مرحوم لکھناپڑرہا ہے، وہ صرف میرے بھتیجے ہی نہیں تھے بلکہ دین وملت کے کاموں میں شریک وسہیم تھے، ان کے نہ رہنے سے دوہرا نقصان ہواہے لیکن سب مقدرات کے ساتھ ہوتاہے، اس سے اپنے رب رحیم سے طلب تسکین کی جاتی ہے ،دعاہے اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطافرمائے اوراسی سے دینی وملی نقصان کو سامنے رکھتے ہوئے دعاکی جاتی ہے کہ جونقصان ہوااس کی تلافی حاصل ہواوریہ رب رحیم وکریم سے بعید نہیں ۔
فی الفورندوہ کے متعلقین ومنتسبین اوردین و ملت کی خدمت سے وابستہ حضرات پرجواثر پڑاہے، وہ فطری ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی کرم والی ہے وہ تسکین بھی دے گی،بہتر سال کی عمر میں معمولی علالت کے بعد۲۴؍رمضان ۱۴۴۲ھ مطابق ۷؍مئی ۲۰۲۱ء کووفات پائی اور اپنے مالک حقیقی کے حضور حاضر ہوئے۔
عزیزموحوم نے ماہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ(عتق من النار) کے خیرالایام جمعۃ الواداع کے آخری لمحات میں عصرومغرب کے درمیان داعی اجل کولبیک کہااوراپنے مالک حقیقی سے جاملے، مہینہ بھی مبارک ،دن بھی بابرکت اور وقت بھی مبارک،اورپھر پچیسویں شب میں ان کی نماز جنازہ احاطہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں نماز عشاء وترایح کے بعد مہتمم دارالعلوم مولاناسعید الرحمان اعظمی ندوی نے بڑے مجمع کوپڑھائی، اورپھردوسری نماز جنازہ ان کے وطن تکیہ کلاں دائرۂ شاہ علم اللہ رائے بریلی میں رات گذارکرعلی الصباح ہوئی ،یہ ذمہ داری راقم نے اداکی اورمسجد شاہ علم اللہ کے شمالی جانب اپنے عم مکرم مولاناسید محمدواضح رشید حسنی ندوی ؒ کے پہلو میں مدفون ہوئے جہاں ایک طرف مولاناسیدعبداللہ حسنی ندویؒ اورحضرت شاہ محمدہدیٰ فرزند حضرت شاہ علم اللہ ہیں۔
مرحوم نے تقریباًپانچ دہائی سے ماہنامہ ’’رضوان‘‘ کی ادارت سنبھال رکھی تھی جس میں وہ شروع میں اپنے عظیم القدر والد اور میرے برادرمعظم مولاناسید محمدثانی حسنی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ شریک رہے اوران کی وفات کے بعدمارچ ۱۹۸۲ء جمادی الاولیٰ ۱۴۰۲ھ سے ادارت کی پوری ذمہ داری ان ہی پرآئی اوررسالہ پرسخت اورمشکل حالات بھی آئے مگرانہوں نے پرچہ کوجاری رکھا اورالحمدللہ ہمیشہ وقت پرنکلتا رہا،اورمضامین کے انتخاب میں رسالہ کے مزاج کاپوراخیال رکھا گیا ، صحابیات نمبر، امہات المومنین نمبر، خلفاء راشدین نمبر، مسجد اقصی وفلسطین نمبر اورماں نمبر کے علاوہ امۃ اللہ تسنیم نمبر، مولاناسیدمحمدثانی حسنی نمبراور مولاناسیدمحمدالحسنی نمبر یادگار ہیں۔
ان شاء اللہ ’’تعمیرحیات‘‘ کی خصوصی اشاعت بھی سامنے آئے گی جس میں ان کے کاموں اورخدمات کوپیش کیاجائے گا ، وہ اس رسالہ کے نگراں بھی تھے ، اسی کے ساتھ مولانا نذرالحفیظ ندوی ازہری مرحوم پر بھی مضامین ہوں گے ،وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ممتاز فاضل اوراس کی مجلس انتظامی ومجلس نظامت کے مؤقررکن اورعمید کلیۃ اللغۃ العربیۃ تھے،اور ’’تعمیرحیات‘‘ کے لیے بطور مدیرکچھ عرصہ اپنی خدمات بھی پیش کرچکے تھے، افسوس کہ انہوں نے بھی ہم سب کو داغ مفارقت دیدی،اسی ندوۃ العلماء کو ایک اور نقصان اس وقت برداشت کرنا پڑاجن اس کے معتمد مال جناب اطہر حسین خالدی داغ مفارقت دے گئے،جن کی دیرینی خدمات ندوہ کو حاصل رہیں،اور ان کا وجود ندوہ کے لیے مفید رہا،چند مضامین ان کی شخصیت وخدمات کے ساتھ بھی مختص ہوں گے۔
مولوی سیدمحمدحمزہ حسنی ندوی کاحادثۂ وفات کئی نوعیتوں سے بہت محسوس کیاجانے والا حادثہ ہے، وہ ہم اہل خاندان کے لیے جہاں ایک خاندانی حادثہ ہے، وہیں ندوۃ العلماء کے تعلق سے ایک ملی خسارہ بھی ہے، دارالعلوم ندوۃ العلماء میں انہوں نے ابتدائی تعلیم سے لے کرعالی اورعلیاتعلیم کے مراحل بھی اچھے انداز سے پورے کیے اورفضیلت میں حدیث کا موضوع اختیار کیا، پھروہ مفکراسلام حضرت مولاناسید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کے ساتھ بعض سفروں میں رہے جن میں ایک سفرملک کا بھی تھاجو عرب امارات ،ریاض اور حجاز مقدس کا تھا،اس سفر میں میں بھی ساتھ تھا،اورعزیزمرحوم کی سعادت مندی اوربعض دوسری خوبیوں کا مشاہدہ ہواجہاں مدینہ منورہ میں حضر ت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا کاندھلویؒسے بھی شرف نیازحاصل ہواتھاجن سے عزیزموصوف کا بیعت وارادت کا بھی تعلق تھا،چوںکہ برادرمعظم مولانا سیدمحمدثانی حسنی ؒ حضرت شیخ کے خواص اہل تعلق میں تھے، اس کا فائدہ بھی عزیزمرحوم کوحاصل ہوا، وہ حضرت مولانا ؒ کے ساتھ اندرون ملک بھی چند سفروں میں ساتھ رہے، ان میں ایک اہم اورمبارک سفربھوپال کاہے جوان کے دارالعلوم ندوۃ العلماء سے تکمیل تعلیم کے بعد کاہے جہاں وہ حضرت شاہ محمدیعقوب مجددی بھوپالیؒ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے تھے اوراسی قیام بھوپال میں وہ مجالس حضرت مولاناؒ نے قلمبندکرائی تھیں جو’’صحبتے بااہل دل‘‘( ملفوظات حضرت شاہ محمدیعقوب مجددی ؒ) کے نام سے مکتبہ الفرقان لکھنؤ سے حضرت مولانامحمدمنظور نعمانی ؒ نے طبع کرائی اورجس کے ہندوپاک سے متعد د ایڈیشن نکلے اوربہت مقبول ہوئے اوراس کی آخری مجلس عزیز مرحوم کے والد برادرمعظم مولانا سید محمد ثانی حسنی رحمۃ اللہ علیہ کے قلم سے ہے ۔
مولانا سیدمحمدثانی حسنی رحمتہ اللہ علیہ نے جب دسمبر ۱۹۵۶ء کوماہنامہ’’ رضوان‘‘ نکالا، اس وقت عزیز مرحوم کی عمرصرف ۶؍سال کی تھی کہ ان کی تاریخ پیدئش ۱۵؍دسمبر۱۹۵۰ء ہے لیکن کم عمری سے ان میں لکھنے پڑھنے شوق تھا،اور اس شوق نے ان کورسالہ میں دلچسپی کا ذریعہ بنایاپھرکچھ مدت کے بعد شریک ادارت اوراپنے والدمعظم کی وفات کے بعد مستقل مدیر ہوئے اورمشکل حالات سے گذرگروہ رسالہ کووقت پرنکالنے میں کامیاب رہے، اس کے ساتھ مکتبہ اسلام کی جوان کی والدکا قائم کردہ دارالاشاعت ہے ،کی ذمہ داری بھی سنبھالی اوربعض درسی کتابوں کی اشاعت کے ساتھ اہم کتابیں کے بھی ناشر ہوئے، جن میں’’کاروان زندگی‘‘ کی ۷؍ جلدیں خاص طورپر لائق ذکرہیں، ا س کے علاوہ اپنے خاندان کے بعض افراد کی کتابیں بھی شائع کیں اورمولاناعبداللہ عباس ندوی مرحوم کی اہم کتاب’’ عربی میں نعتیہ کلام‘‘ کے بھی ناشربنے، راقم کی کتاب’’ سماج کی تعلیم وتربیت‘‘ بھی ان ہی کی شائع کردہ ہے ۔
خدمت ودعوت دین کادائرۂ کارندو ۃ العلماء سے ان کی علمی وانتظامی وابستگی کے بعدزیادہ وسیع ہواجب وہ ۱۹۹۹ء میں اس کے ناظر عام (دفتر نظامت کے ذمہ دار) ہوئے،اور حضرت مولاناسید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کی وفات کے بعد مجلس انتظامی نے ان کے دائرہ کومزیدوسیع کیا،ان کے اختیارات بڑھے اورعہدہ امین عام( سکریٹری) کاہوگیا جس پروہ تاحیات فائز رہے اورابھی چارسال قبل ان کومہتمم دارالعلوم مولاناسعید الرحمن اعظمی ندوی کی تجویر پرنائب ناظم ندوۃ العلماء مقررکیاگیا جس کی ارکان نظامت نے تائید اور پھرمجلس انتظامی نے توثیق کی، لیکن یہ ان کی سعادت مندی تھی کہ انہوں نے اتنے اختیارات حاصل ہونے کے باوجود اپنے بڑوں اوراساتذہ کالحاظ رکھا اوربہت ضرورت پڑنے پر ہی نائب ناظم کاحق استعمال کیا،مولاناعبداللہ عباس ندویؒ کی وفات کے بعدان کوان کے ادبی وصحا فتی ذوق کی وجہ سے اور جوذمہ دارانہ منصب حاصل تھا،’’تعمیرحیات‘‘ کی نگرانی کی ذمہ داری بھی سپردکی گئی اوراس ذمہ داری کوبھی انہوں نے بخوبی انجام دیا، ندوۃ العلماء کی تعمیروترقی میں ان کے مشورے راقم کے لیے مفید ثابت ہوئے تھے ،وہ اپنی رائے میں اصابت وصلاحیت رکھتے تھے لیکن اپنے بڑوں کی رائے کے ساتھ اپنی رائے دبابھی لیتے تھے اوراس کا باربار تجربہ ہوا، اپنی انتظامی مشغولیات کوانہوں نے تجارتی مشغولیت پرغالب رکھااوراس کی وجہ سے انھیں تجارتی نقصان کااندیشہ بھی ہوتا حالانکہ وہ ندوۃ العلماء کی خدمت بلامعاوضہ کررہے تھے اوران کوجومشاہر ہ کی پیشکش ادارہ کی طرف سے ہوئی تھی اس کو انہوں یہ کہہ کرقبول کرنے سے معذرت کرلی تھی کہ ہمارے خرچ کاانتظام ہے، ہم ندوہ کی خدمت کامعاوضہ نہیں لیں گے،یہ خدمت والدین مرحومین کے لیے ایصال ثواب ہے،اوروہ الحمدللہ تاحیات اپنے اس فیصلہ پرقائم رہے ۔
ندوۃ العلماء کے علاوہ ان کے زیرنظامت چلنے والے رائے بریلی میں دوادارے مدرسہ بدرالعلوم اورمدرسہ اصلاح المسلمین بھی میں جس کے وہ پہلے سے ذمہ دار چلے آ رہے تھے اورمدرسہ فلاح المسلمین امین نگر تیندوا کے بھی وہ اپنے محترم چچامولاناسیدمحمدواضح رشید حسنی ندوی مرحوم کے معاون ونائب کی حیثیت سے ذمہ دار تھے، اس کے علاوہ مولانا محمدثانی حسنی لائبریری، مولامحمدثانی حسنی میموریل ایجوکیشنل سوسائٹی اور اس کے تحت چلنے والے اداروں کی رہنمائی کرتے تھے جن کے وہ ایک طرح سے بانی کی حیثیت رکھتے تھے ،مولانا امتیاز احمدندوی کی وفات کے بعد اس کے جنرل سکریڑی بھی ہوگئے تھے، اپنے وطن رائے بریلی کے قصبات واطراف میں اصلاحی ودعوتی دورے بھی کیے اورجب مسلم مجلس کاقیام عمل میں آیا تواس سلسلہ میں سیاسی رہنمائی بھی عوامی سطح پرکی تھی، ان کی بہت سی خوبیوں کا علم ان کی وفات کے بعد ہوا جوان کے لحاظ، تعلق اورنیاز مندانہ مزاج اورکم سخنی کی وجہ سے ان کی زندگی میں نہیں ہوسکاتھا،انہوں نے دو بیٹے عزیزان رشید احمد وسعیداحمدیادگار چھوڑے جودارالعلوم ندوۃ العلماء کے تعلیم یافتہ ہیں۔
مولوی نذرالحفیظ ندوی ازہری کوابتدائی تعلیمی وتربیتی مرحلہ میں جوپرتاپگڈھ میں گذراتھا جہاں ان کے والدقاری عبد الحفیظ ململی رحمۃ اللہ علیہ کاقیام تھا، حضرت مولانامحمداحمدپڑتاپگڈھیؒ کی سرپرستی ملی تھی، پھردارالعلوم ندوۃ العلماء آئے اور حضرت مولاناسید ابوالحسن حسنی ندوی کی سرپرستی حاصل کی اوربیعت وارادت کا تعلق بھی پیداکیا اوروہ رابطہ وتعلق ہوگیا کہ سفروں میں بھی ساتھ ہونے لگا، اوران کے وطن دائرۂ شاہ علم اللہ تکیہ کلاں رائے بریلی میں بھی قیام کاموقع ملااوران کی تیمارداری اورخدمت کا بھی موقع ملا، اس کے ساتھ وہ ان کے تصنیفی کاموں میں معاون بھی ہونے لگے اورمعاون علمی کے طورپرمجلس تحقیقات ونشریات اسلام سے وابستہ ہونے کے ساتھ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں مدرس بھی ہوئے، پھرکچھ مدت کے لیے قاہرہ (مصر) گئے اوروہاں سے آکر کسی اچھی تنخواہ کی ملازمت کے بجائے ندوہ کی خدمت کو اختیار کیا،جب کہ ان میں وہ صلاحیت پیدا ہوچکی تھی کہ وہ اچھے مشاہرہ پر اچھی ملازمت اختیار کرسکتے تھے، حضرت مولانا ؒ کی فکر اور ان کی کتابوں سے واقفیت اتنی بڑھ گئی تھی کہ خود حضرت مولاناؒ ان سے بہت سی باتیں پوچھتے، عربی میں ان کی کتاب’’الأستاذ أبوالحسن الندويکاتباً ومفکراً‘‘اورآخر میں حضرت مولاناؒ کی مجالس سے متعلق کتاب’’ مجالس علم وعرفاں‘‘ اس کے لیے شاہد عدل ہیں۔
مولانا نذرالحفیظ ندوی کا ندو ۃ العلماء میں دوسرا ۱۹۸۳ء سے شروع ہوتا ہے،جو قاہرہ مصر سے واپسی کاہے، ندوہ کی اور حضرت مولانا ؒ کی ملک وملک کے باہر ان کونمائندگی کابھی موقع ملا اوراچھی نمائندگی، رابطہ ادب اسلامی کے سیمینار وں اور اجلاس میں ان کی اچھی کارکردگی رہتی تھی جو ملک کے مختلف حصوں میں ہوتے تھے ،ملک سے باہراستنبول( ترکی)، لاہور( پاکستان)اور بنگلادیش وغیرہ کے اجلاس میں بھی انہوں نے اچھا حصہ لیا، وہ ایک اچھے استاد بھی تھے اوران کو دارالعلوم کے عربی زبان وادب کے شعبہ کلیۃ اللغۃ العربیہ کی ذمہ داری بھی ملی تھی جس کے وہ وکیل اور پھر عمید مقرر ہوئے اوربعض موقعوں پرقائم مقام مہتمم کی ذمہ داری بھی اداکی، ان کو صحافت کااچھاذوق تھا، سب سے پہلے ہفت روزہ ’’ندائے ملت‘‘ کے لیے ان کی خدمات لی گئیں اورکچھ مدت ’’تعمیرحیات‘‘ کے مدیرکی حیثیت سے بھی خدمات پیش کیں، رابطہ ادب اسلامی کے مجلہ ’’کاروان ادب‘‘ کے بھی ادارتی بورڈ میں تھے، وہ ایک حافظ قرآن بھی تھے اورمصرکے ایک عالمی مسابقہ قرآن مجید میں ان کوتفوق وامتیاز حاصل ہواتھا اورحج کی سعات ملی تھی، جب ندوۃ العلماء کاایک وفد جو مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی اورمولاناسیدمحمدواضح رشید حسنی ندوی پرمشتمل تھا،مصر پہنچا تووہاں انہوں نے اپنے وسیع تعلقات و روابطہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس سفر کو ندوہ کے لیے مفید سے مفید تربنانے کی کوشش کی، حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کی مطبوعات اورفکر کی اشاعت کابھی اچھااورقابل قدر کام کیا،حضرت مولاناؒان پر اعتماد کرتے اوران پر شفقت فرماتے تھے جسے حضرت مولاناؒ کے ان کے نام خطوط سے سمجھاجاسکتا ہے جوانہیں اوربعض دوسری شخصیات کولکھے ہیں، کیامعلوم تھاکہ ان کاحادثۂ وفات بھی ان ہی حوادث میں جگہ پائے گا جوا دھر ایک دوماہ کے عرصہ میں بعض اہم شخصیات کے اٹھ جانے سے پیش آئے ہیں۔
جناب اطہرحسین خالدی معتمد مال ندوۃ العلماء نے بھی ۲۳؍ رمضان المبارک جمعرات کوعلالت کے ایک مرحلہ سے گذرکرلکھنو ٔمیں وفات پائی، ان کا بھی ندوہ سے تعلق قدیم اورمحبانہ ومخلصانہ تھا حالانکہ وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے تعلیم یافتہ نہیں تھے، اطہر حسین صاحب مرحوم تقریباً میرے ہم عمراورہم فکر تھے ،ملی ،رفاہی ،دعوتی اور تعلیمی امورسے متعلق مشوروں میں شریک رہتے تھے ،دارالعلوم میں انگریزی اوراس کے متعلق مضامین کے استاد بھی رہے، ان کے زمانہ میں یہاں تعلیم حاصل کرنے والوں میں حضرت مولانااحمدلاٹ ندوی وغیر ہ کے اہم نا م ہیں، اسلامیہ کالج لکھنؤ میں تدریسی خدمات انجام دیئے اورپھرپرنسپل کے منصب پرفائز ہوئے ،بعد میںان سے ملاقات ومشورہ کاسلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس تعلقات کوانہوں نے اسی طرح قائم رکھا، ریٹائرڈ ہونے کے بعد ندوۃ العلماء کوخدمات پیش کیں اورکچھ مدت شعبۂ امتحانات کے ذمہ دار رہ کرمجلس صحافت ونشریات کے سکریٹری اورپھرپروفیسر وصی احمد صدیقی کی وفات کے بعداس ذمہ داری کے ساتھ مزید معتمدمال کی ذمہ داری بھی دیے جانے پراس کوبخوبی انجام دینے لگے اوران سے ندوۃالعلماء کوبڑی تقویت حاصل ہوئی، ان کاحادثہ بھی ایک خاندانی حادثہ سے کم نہیں ہے۔
ڈاکٹر شاہ عبادالرحمن نشاط رکن مجلس نظامت و مجلس انتظامی ندوۃ العلماء کاحادثہ وفات بھی۲۵؍ رمضان المبارک۱۴۴۲ھ کودہلی میں پیش آیا،جواپنے قریبی اہل تعلق اورندوۃ العلماء کے متعلق شخصیات میں اہم فرد تھے ، ان سے بھی ہم لوگوں کاتعلق قدیم تھااوران کی خصوصیات کاعلم اس وقت زیادہ ہواجب وہ شکاگوامریکہ میں تھے اورحضرت مولاناکادومہینے امریکہ میں قیام رہاتھا جس میں میں بھی تھا، پھروہ مکہ مکرمہ آگئے اورام القریٰ یونیورسٹی میں انگریزی کے استادہوئے، اس کے بعددہلی میں سکونت اختیار کرلی، چنانچہ وہیں وہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے، ان کی صلاحیتوں سے جو علمی اورطویل تعلیمی تجربہ کی تھیں، فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی اوراہم کتابوں کے انہوں نے ترجمہ بھی کیے، اس کے ساتھ وہ خودبھی مصنف تھے اورذاکرو شاغل بھی، اورمفکراسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒسے اجازت وخلافت بھی حاصل تھی۔
ڈاکٹر سید قمرالدین اورنگ آبادی بھی اب ہمارے درمیان نہیں رہے،اہل تعلق میںان کی شخصیت اس اعتبار سے بھی اہم تھی کہ وہ ندوۃ العلماء کے ارکان مجلس انتظامی میں منفرد مقام رکھتے تھے،بڑی پابندی سے اس کے سالانہ جلسوں میں شریک ہوتے اور مفید مشوروں سے نوازتے۔
مولوی رئیس الشاکری ندوی کلیۃ اللغۃ العربیۃ کی لائبریری کے ذمہ دار کابھی حادثۂ وفات ماہ رمضان المبارک میں ہی پیش آیا، جو ایک قدیم ندوی فاضل تھے،انہوں نے فراغت کے بعد امامت و خطابت اور مختلف ذمہ داریوں کو انجام دیا،وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے،ندوہ کی طالب علمی کے زمانہ سے ہی شاعری شروع کردی تھی،ادھر تقریباً بیس برسوں سے ندوہ سے وابستہ تھے،اور لائبریری میں خدمت کررہے تھے،ان کے کئی شعری مجموعے بھی منظرعام پر آئے جو مقبول ہوئے،وہ حمد و نعت کے اشعار بہت عمدگی اور عشق و محبت میں ڈوب کر کہتے تھے،اور دیگر اصناف شعر پر بھی انہیں عبور حاصل تھا، افسوس کہ وہ بھی مختصر علالت کے بعد ماہ رمضان ہی میں ہم سب سے جدا ہوگئے،انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
ان کے علاوہ کئی اہم شخصیات نے گزشتہ ایام میں اس دار فانی سے کوچ کیا،جو دیگرتعلیمی و ملی اداروں سے تعلق رکھتے تھے،اور ان کی دینی وعلمی خدمات امت اسلامیہ کو حاصل تھیں،ان شخصیات میں ایک نمایاں نام مولانانورعالم خلیل الامینی سابق مدرس دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا ہے،جودارالعلوم دیوبند کے عربی ماہنامہ ’’الداعی‘‘کے رئیس التحریر اور شعبۂ ادب عربی کے فاضل استاد تھے۔ایک اورعظیم شخصیت مولاناقاری محمد عثمان منصورپوری استاد حدیث و معاون مہتمم دارالعلوم دیوبند،ان سے قبل دارالعلوم ہی کے استاد حدیث و مدیر ماہنامہ ’’دارالعلوم‘‘مولاناحبیب الرحمن اعظمی،جامعہ مظاہر علوم کی اہم شخصیت قاری رضوان نسیم اور مولاناماجد مسعودمحمد حشیم مدرسہ صولتیہ مکہ کرمہ وغیرہ وہ شخصیات ہیں جن کی وفات سے امت مسلمہ کو بڑا خسارہ ہواہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام حضرات کی دینی،دعوتی،تعلیمی اور ملی خدمات کو قبول فرمائے،سیئات سے درگزر کرے،ان کے درجات بلند کرے اورجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،آمین۔
حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی