عیادت کی فضیلت اور آداب

ضرورت مندوں کی حاجت روائی
مارچ 5, 2023
ضرورت مندوں کی حاجت روائی
مارچ 5, 2023

عیادت کی فضیلت اور آداب

عیادت وتیمارداری کے سلسلہ میں مسلم وغیرمسلم میں فرق نہ کیجیے
ڈاکٹر سراج الدین ندوی
انسان جب بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے جو بے چینی اور تکلیف ہوتی ہے وہی جانتا ہے۔ مصیبت اور پریشانی کے اس عالم میں اگر کوئی اس کی خیریت معلوم کرتا ہے۔ کسی بھی حیثیت سے اس کی ڈھارس بندھاتا ہے۔ اس کی خدمت کرتا ہے تو اسے بڑا سہارا محسوس ہوتا ہے۔ اس کی آدھی تکلیف دور ہوجاتی ہے۔ پھر اس کا یہ احساس اسے بڑا حوصلہ دیتا ہے کہ بیماری میں اس کی خدمت کرنے والے لوگ موجود ہیں۔اس احساس کی وجہ سے اسے نفسیاتی طور پر صحتیاب ہونے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اسلام نے مریض کی عیادت کرنے پر بڑا زور دیاہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں حکم دیا:’‘مریض کی عیادت کرو’’۔[ابوداؤد]
ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیمار کی عیادت پر ابھارتے ہوئے ارشاد فرمایا:
‘‘جب بھی کوئی مسلمان صبح کو کسی مسلمان کی عیادت کرتا ہے تو شام تک پچاس ہزار فرشتے اس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں اور اگر شام کو عیادت کرتا ہے توصبح تک پچاس ہزار فرشتے اس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں اور جنت میں اس کے لیے چنے ہوئے پھل ہوں گے’’۔ [جامع ترمذی]
عیادت وتیمارداری کو آپؐ نے ہر مسلمان کے لیے ضروری قرار دیا اور اسے اپنے مسلمان بھائی کا حق قرار دیا۔ آپؐ نے ارشادفرمایا:
‘‘مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں۔ جب تو اس سے ملے تواسے سلام کر اور جب وہ تجھے دعوت دے تو قبول کر اور جب وہ تجھ سے نصیحت چاہے تو اس کو نصیحت کر اور جب اسے چھینک آئے اور وہ الحمد للہ (اللہ کا شکر) کہے تو تو اسے یہ دعا دے: یَرْحَمکَ اللّٰہ (اللہ تم پر رحم کرے) اور جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کر اور جب اس کی وفات ہو تو اس کے جنازے کے ساتھ جا۔’’ [صحیح مسلم]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت مؤثر اور دلنشین انداز میں عیادت کی اہمیت وفضیلت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ خدا قیامت کے روز ایک بندے سے پوچھے گا: ‘‘اے ابنِ آدم میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی’’۔ وہ عرض کرے گا:’‘اے خدا تو سارے جہانوں کا پروردگار ہے، تیری بیماری او ر عیادت کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے’’۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:’‘اے بندہئ خدا کیاتجھے یاد نہیں رہا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا مگر تو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا’’۔ [صحیح مسلم]
عیادت وتیمارداری کے سلسلہ میں مسلم و غیرمسلم میں فرق نہ کیجیے۔ ہر بیمار کی عیادت کرنے کی کوشش کیجیے۔ آپ کا رشتہ دار ہو یا نہ ہو، پڑوسی ہو یا غیر پڑوسی۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں اور منافقین کی بھی عیادت فرمائی ہے۔ بلکہ شدید تکلیف پہنچانے والے دشمنوں کی بھی عیادت فرمائی۔ سیرت کا یہ مشہور واقعہ آپ نے ضرور سنا ہوگا کہ ایک عورت پیارے نبیؐ کے اوپر کوڑا پھینکتی تھی۔ اس نے ایک دن آپ پر کوڑا نہ پھینکا تو آپؐ نے اس کے بارے میں معلومات کیں۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ وہ بیمار ہے۔ آپؐ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، وہ آپ کے اس حسنِ اخلاق سے بہت متاثر ہوئی۔اس نے اپنے کرتوت کی معافی مانگی اور اسلام لے آئی۔ اس واقعہ سے اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ عیادت کرنے سے نہ صرف اجر ملتا ہے بلکہ مریض اخلاقی اثر قبول کرتاہے۔
جب آپ کسی غیر مسلم کی عیادت کے لیے جائیں تو موقع پاکر حکمتِ عملی سے اسلام کی طرف دعوت دیجیے۔ بیماری میں آدمی کا دل نرم ہوجاتا ہے اور قبولِ حق کے لیے اس کا سینہ کھل جاتا ہے۔نسبتاً وہ خدا کی طرف زیادہ متوجہ ہوجاتا ہے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا نبی ؐ کی خدمت کیا کرتا تھا ایک بار وہ بیمار پڑا تو آپؐ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ اس کے سرہانے بیٹھ کر اسے دلاسا دیا او راسے اسلام کی طرف دعوت دی۔ لڑکے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ باپ نے لڑکے سے کہا:’‘بیٹا! ابوالقاسم کی بات مان لے’’۔ چنانچہ لڑکا مسلمان ہوگیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر سے یہ کہتے ہوئے باہر تشریف لائے۔ اس خدا کا شکرہے جس نے اس لڑکے کو جہنم سے بچالیا۔ [صحیح بخاری]
یادرکھئے کہ بیمار کی عیادت پر اسلام نے نہ صرف ابھارا ہے اور مسلمانوں کو اس کی تاکید کی ہے بلکہ بیمار کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے اسے بہت سی رعایت بھی دی ہے۔ ذرا سوچئے جس کمزور مخلوق پر اللہ نے خود ترس کھایا ہو اور اس سے بہت سے فرائض وواجبات ساقط کردیے ہوں وہ مخلوق آپ کی توجہ کی کتنی مستحق ہے۔اسلام نے بیمار سے وضو کی فرضیت ساقط کرکے اسے تیمم کی اجازت دی ہے۔
‘‘اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے آیا ہے حاجت رفع کرکے، یا پاس گئے ہو اپنی عورتوں کے پھر نہ پاؤ پانی تو تیمم کرو پاک مٹی سے اور مسح کرلو ہاتھ اور منھ کا اس سے’’۔[المائدہ:۶]
اسی طرح بیمار کو نماز میں رخصت دی گئی کہ اگر کھڑے ہونے کی طاقت نہ ہوتو نماز بیٹھ کر ادا کرے اور اگر بیٹھ کر اداکرنے کی طاقت نہ ہوتو لیٹ کر ادا کی جائے۔ روزہ کے سلسلہ میں بھی بیمار کو رخصت دی گئی کہ حالتِ بیماری میں روزہ نہ رکھے یا توڑ دے اور دوسرے ایام میں قضا کرے۔ قرآن میں فرمایا گیا:
ترجمہ:’‘اور تم میں سے جوکوئی مریض ہو یامسافر ہو تو یہ تعداد (رمضان کی) دوسرے دنوں میں پوری کرے’’۔ [البقرہ:۱۸۴]
بیمار جن فرائض وواجبات کی طاقت نہیں رکھتے یا جن کی ادائیگی سے ان کی بیماری میں اضافہ ہوسکتا ہے ایسی تمام صورتوں میں اسلام ان کے ساتھ رعایت وہمدردی کرتا ہے ان کو مستثنیٰ قرار دیتا ہے اور اس کے لیے ایک ضابطہئ کلیہ بنادیا ہے:
‘‘وَلَا عَلَی الْمَرِیْض حرج’’[النور:۶۱] (اور بیمار پر کوئی تنگی نہیں ہے)۔
اسلام نے مریض کی عیادت وتیمارداری کی نہ صرف تاکید کی ہے بلکہ اس کے آداب بھی سکھائے ہیں۔
پہلا ادب یہ ہے کہ جب بیمار کی عیادت کے لیے جائیں تو اس کی خیریت پوچھنے کے بعد اس کے لیے صحت وشفا کی دعا کریں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’‘جب کوئی شخص کسی بیمار کی عیادت کے لیے جائے تو اس کے ہاتھ اور پیشانی پر ہاتھ رکھے اس کو تسلی اور دلاسا دے اور اس کی شفا کے لیے خدا سے دعا کرے’’۔ [جامع ترمذی]
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی گھر والے کی عیادت فرماتے تو اپنا دایاں ہاتھ اس پر رکھتے اور فرماتے:
‘‘اَللّٰہُمَّ رَبَّ النَّاِس اِذْھَبِ الْبَأسَ اَشْفِ اَنْتَ الشَّافِی لَا شِفَاءَ اِلَّا شَفَاءُ کَ لَا یُغَادِرُ سَقَمًا’’[متفق علیہ](اے انسانوں کے رب! تکلیف کو دور فرمادے۔اے خدا شفا عطا فرما تو ہی شفا بخشنے والا ہے، شفا تیرے ہی بس میں ہے، ایسی شفا فرما جو کسی بیماری کو نہ رہنے دے)۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے اس کے لیے ان لفاظ میں دعا فرمائی:
لاَبَأَسَ طَہُوْرٌ اِنْ شَاءَ اللّٰہ [بخاری] (پریشانی کی کوئی بات نہیں، ان شاء اللہ یہ بیماری گناہوں کا کفارہ ہوگی)۔
دوسرا ادب یہ ہے کہ مریض کے پاس حسب ضرورت بیٹھئے۔ اگر آپ کا کچھ دیرتک بیٹھنا اس کے لیے باعثِ دلجوئی ہوتودیر تک بیٹھئے۔ اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ دیر تک بیٹھنے سے اس کے آرام میں خلل پڑے گا یا اس کے گھر والے آپ کی وجہ سے اس کی خدمت نہ کرسکیں گے تو ایسی صورت میں زیادہ دیر نہ بیٹھئے۔ جب تک آپ مریض کے پاس بیٹھیں اس کو دلاسہ دینے والی باتیں کریں۔ دل ودماغ کو ٹھیس پہنچانے والی یا شوروشغف کی باتیں ہرگز نہ کریں۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ مریض کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھنا اور شوروشغف نہ کرنا سنت ہے۔
تیسرا ادب یہ ہے کہ بیمار کے گھر والوں اور رشتہ داروں سے بھی بیمار کا حال پوچھئے۔ صرف حال اور ضرورت ہی نہ پوچھئے بلکہ تیمارداری میں حصہ لیجیے۔ اگر ہوسکے تو بیمار کے لیے پھل فروٹ یا پرہیز ی کھانا لے جائیے۔ ڈاکٹر کو بلانے یا مریض کو ڈاکٹر کے یہاں لے جانے اور دوا وغیرہ لاکردینے کاجو کام آپ کرسکتے ہیں ضرور کیجیے۔
چوتھا ادب یہ ہے کہ جب آپ کسی بیمار کے گھر عیادت کے لیے جائیں تو غیر محرم عورت کے پردہ کا خیال رکھئے۔ ادھر اُدھر تاکنے سے پرہیز کیجیے اور اس انداز سے بیٹھئے کہ گھر کی خواتین پر نگاہ نہ پڑے۔حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کچھ لوگوں کے ساتھ ایک مریض کی عیادت کوگئے۔ گھر میں ایک خاتون بھی موجود تھیں۔ آپ کے ایک ہمراہی اس خاتون کو گھورنے لگے۔آپؐ نے اس شخص کو مخاطب کرکے فرمایا:’‘اگر تم اپنی آنکھیں پھوڑ لیتے تو تمہارے حق میں بہتر ہوتا۔’’
آخری ادب یہ ہے کہ جب آپ بیمار کی عیادت کے لیے جائیں تو اس سے اپنے لیے دعا کی درخواست کیجیے۔ آدمی بیماری میں اللہ کی طرف زیادہ رجوع کرتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کسی مریض کی عیادت کے لیے جاؤ تو اس سے اپنے لیے دعا کی درخواست کرو۔ مریض کی دعا ایسی ہے جیسے فرشتوں کی دعا۔]ابن ماجہ[
مرض، دکھ اور تکلیف ہر انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں۔اگر کبھی آپ بیمار پڑجائیں تو صبر سے کا م لیں۔ واویلا نہ کریں۔ یقین رکھیں کہ مسلمان کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے اگر مسلمان صبر کے ساتھ اس کو برداشت کرے تو وہ تکلیف اس کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے اور آخرت کے عذاب سے بچانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس طور پر ہر تکلیف مسلمان کے لیے بجائے غم کے خوشخبری کا باعث ہوتی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‘‘مومن کی شان عجیب ہے، مومن کا ہر معاملہ اس کے لیے سراپا خیر ہے۔ اور یہ معاملہ صرف مومن کے لیے ہے۔ اگر اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتاہے اور اس میں بھی خیرہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اوریہ بھی اس کے لیے خیر کا ذریعہ ہے’’۔
بیماری کی حالت میں خدا کی طرف زیادہ دھیان لگائیے۔ خشوع وخضوع کے ساتھ دعائیں کیجیے۔ وقت کا بیشتر حصہ دعا واستغفار میں گزاریے۔ خود اپنے لیے دعا کیجئے اور اپنے متعلقین کے لیے بھی دعائیں کیجیے۔آخرت اور قبر کی منزلوں کو یاد کرکے اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائیے اور خدا سے نیک توفیق طلب کیجیے۔