ضرورت مندوں کی حاجت روائی

عیادت کی فضیلت اور آداب
March 30, 2023
عیادت کی فضیلت اور آداب
March 30, 2023

ضرورت مندوں کی حاجت روائی

مولاناسراج الدین ندوی

سماج میں بہت سے لوگ معاشی حیثیت سے پچھڑے ہوئے ہیں۔کچھ لوگوں کو سماج میں ذات برداری کے نام پر نیچ اور حقیر سمجھتاجاتاہے (اسلام کی نظر میں ایسا سمجھنا گناہ ہے)۔ کچھ لوگ سماج میں باعزت ہوتے ہیں مگر اندر خانہ ٹوٹے ہوئے اور ضرورت مند ہوتے ہیں۔ وہ خود داری کی بنا پر اپنی ضرورتیں بھی لوگوں کے سامنے نہیں رکھ پاتے۔ بعض افراد اتنے لاچاراوربے بس ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کے سامنے اپنی ضرورت رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ سماج کے یہ تمام ضرورت مند اور لاچار ومجبور ہماری توجہ اور ہمدردی کے مستحق ہیں۔قرآن پاک نے ایسے ضرورت مندوں کا ہمارے مال میں حق بتایا ہے:”وَفِیْ أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاءِلِ وَالْمَحْرُوم“ ]الذاریات:۹۱[(ان(مسلمانوں) کے مالوں میں حق ہے مانگنے والے اور محروم کا)۔

یہاں مانگنے والے سے پیشہ ور بھکاری مراد نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو اپنی حقیقی ضرورت آپ کے سامنے رکھتے ہیں اور بحالتِ مجبوری زبان کھولتے ہیں۔ ایسے جولوگ آپ کے سامنے اپنی ضرورت رکھیں اور آپ محسوس کریں کہ وہ واقعی ضرورت مند ہیں تو ان کی مدد کیجئے یا کسی دوسرے سے امدادکرائیے اوراگر کچھ بھی نہ کرسکتے ہوں تو نہایت پیار ومحبت سے معذرت کرلیجئے اور کوئی اچھی بات کہہ کر اجر وثواب حاصل کیجیے۔

کوئی بھی شخص اگر آپ کے سامنے دست سوال دراز کرے تو اس کو حقارت سے نہ دیکھئے اور نہ ہی اسے برا بھلا کہئے اور نہ ڈانٹ ڈپٹ کیجیے۔ قرآن نے ہمیں حکم دیاہے:”وَأَمَّا السَّاءِلَ فَلَا تَنْہَرْ“]الضحیٰ:۰۱[(ضرورت مند جب اپنی ضرورت کے بارے میں سوال کرے تو اسے جھڑکو مت)۔

شریف آدمی نہایت مجبوری میں اپنی ضرورت کا اظہار دوسروں کے سامنے کرتا ہے۔ یاد رکھئے کہ آج اگر کوئی ضرورت مند ولاچار ہے تو کل وہ خوش حال بن سکتا ہے اور جو آج خوش حال ہے وہ کل مفلس وگدا بن سکتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ خدا سے ڈرتے رہیے۔ ضرورت مندوں، پسماندہ لوگوں اورمصیبت زدہ افراد کے دکھ درد میں ان کے کام آتے رہیے۔

اللہ کی نظر میں مجبور وبے کس اور مصیبت زدہ مسکین کی بڑی وقعت ہے۔ ان کی مدد کرکے اپنے خدا کی خوشنودی اور اس کے رحم وکرم کا مستحق بنئے۔

حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا، تو دیکھا کہ داخل ہونے والے عموماً مساکین ہیں۔]مسلم[

کسی پریشان حال،مجبور اور ضرورت مند کی مدد کرنے کو اللہ نے اپنی مدد کرنے کے برابرقرار دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:”اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا“۔]سورہ محمد:۷[ 

جو شخص غریبوں،پسماندہ لوگوں اور ضرورت مندوں کے کام آتا ہے اللہ تعالیٰ ان کے کام آتا ہے۔ ان کے بگڑے ہوئے کام بناتا ہے۔ ان کی پریشانیاں دور کرتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:”جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرتا رہتا ہے، اللہ اس کی حاجت پوری کرتا رہتاہے اور جو کوئی مسلمان کی مصیبت کو دور کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کی مصبیتوں میں سے کسی بھی مصیبت کو اس سے دور کرے گا“۔]بخاری ومسلم[

اللہ کے رسول ؐ نے نہ صرف مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ وہ غریبوں اور ضرورت مندوں کے کام آئیں بلکہ خود اس پر سب سے بڑھ کر عمل کیا۔ سیرت میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔

جب آپؐ دنیا سے رخصت ہوگئے تو حضرت ابو بکرؓ نے دیکھا کہ ایک بچی رورہی ہے۔آپؐ نے پوچھا: ”بیٹی! کیوں رورہی ہو؟“ بچی نے جواب دیا:”اللہ کے رسول تو اس دنیا سے رخصت ہوگئے اب ہماری بکری کون دوہا کرے گا؟“ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا: ”روؤ مت! تمہاری بکریاں میں دوہا کروں گا“۔

صحابہ کرام ر ضوان اللہ اجمعین بھی ضرورت مندوں کی تلاش میں رہتے اور ان کی خدمت کرتے، ان کی ضرورتیں پوری کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔

ایک بار حضرت عمرؓ کو معلوم ہو اکہ ایک بڑھیا بے سہارا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو خدمتِ خلق کے مواقع کی تلاش میں رہتے ہی تھے۔ روزانہ علی الصباح بڑھیا کے گھر جاتے، جھاڑو لگاتے، پانی بھر کر رکھ دیتے۔ ضرورت کی چیزیں رکھ آتے۔ چند دن کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو احساس ہوا کہ کوئی شخص مجھ سے پہلے ہی آکر بڑھیا کے تمام کام کرجاتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پتہ لگانے کے لیے ایسے وقت بڑھیا کے گھر میں چھپ کر بیٹھ گئے جب کہ کافی رات باقی تھی، ابھی ہر طرف سناٹا تھا اور رات کی تاریکی چھائی ہوئی تھی کہ ایک شخص آیا۔اس نے بڑھیا کے گھر میں جھاڑو لگائی، پانی بھرا اور ضرورت کا سامان رکھ کر جانے لگا۔ حضرت عمرؓ تاریکی کی وجہ سے پہچان نہ پائے۔ جب دروازہ سے نکلے تو آگے بڑھ کر دامن پکڑ لیا دیکھا تو خلیفہئ وقت حضرت ابوبکرؓ ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ تو کسی یتیم اور مسکین کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے۔جب کھانے کا وقت ہوتا تو مدینہ کی گلیوں میں نکل پڑتے تاکہ کسی مسکین،یتیم یاضرورت مند کو تلاش کرکے اپنے ساتھ لائیں اور اس کے ساتھ کھانا کھائیں۔

خلیفہ ثانی حضرت عمرؓکے تعلق سے تو تاریخ نے اپنے اندر ایسے بہت سے واقعات محفوظ کررکھے ہیں۔آپ اکثرراتو ں کو مدینہ سے باہر نکل پڑتے، دور دراز کی آبادیوں اور صحرا وریگستان میں گشت کرتے تاکہ لوگوں کے حالات معلوم کریں، لوگوں کی مصیبت وتکلیف اور ضرورت وپریشانی جاننے کی کوشش کرتے اور پھر ان کی ضرورتیں رفع فرماتے۔ ان کا صرف ایک واقعہ یہاں نقل کیا جارہا ہے۔

”ایک دن کی بات ہے۔آپ گشت لگانے نکلے۔ گھومتے پھرتے دور نکل گئے۔ واپسی میں ایک جھونپڑی پر نظر پڑی۔ دیکھا کہ ایک عورت چولہا جلائے بیٹھی ہے۔ چولہے پہ ہانڈی چڑھی ہوئی ہے اور اس کے بچے رورہے ہیں۔ عورت انہیں بہلارہی ہے مگر وہ کسی طرح خاموش نہیں ہوتے۔ بچوں کو روتا بلکتا دیکھ کر حضرت عمرؓ کا دل بھر آیا، قریب گئے۔ دیر تک دیکھتے رہے مگر ان کی سمجھ میں نہ آیاکہ ماجرا کیا ہے؟ آخر عورت کے پاس جاکر بچوں کے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے بتایاکہ یہ بچے بھوک کے مارے بلک رہے ہیں۔

”انہیں کھانا کیوں نہیں دیتیں؟“ حضرت عمرؓ نے پوچھا:”میں اتنی دیر سے کھڑا دیکھ رہا ہوں، تمہاری ہانڈی چڑھی ہے۔ آخر یہ کب تیار ہوگی؟“

”ہانڈی میں کچھ ہے ہی نہیں۔“ عورت نے جواب دیا:”بچوں کو بہلانے کے لیے صرف پانی چڑھادیاہے، چاہتی ہوں کہ کسی طرح انہیں نیند آجائے اور یہ سوجائیں۔

حضرت عمرؓ نے دیکھا تو واقعی ہانڈی میں صرف پانی اور کچھ کنکریاں تھیں۔ ا س کی وجہ یہ تھی کہ کچھ کھانے کو نہیں تھا۔ بچے بھوک سے بے حال ہورہے تھے۔ ان کی تسلی کے لیے عورت نے چولہا جلاکر ہانڈی میں پانی اور کنکریاں ڈا ل دی تھیں تاکہ بچے سمجھیں کہ کھانا پک رہا ہے، کچھ دیر میں نیندآجائے گی اور یہ سوجائیں گے پھر کسی نہ کسی طرح رات کٹ جائے گی۔ عورت بیچاری بیوہ تھی۔گھر میں کمانے والا کوئی نہ تھا اور نہ ہی اب تک وظیفہ بیت المال سے مقرر ہواتھا۔

دردوغم کی یہ داستان سن کر حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آپؓ نے درد بھرے لہجے میں کہا:”مائی! خلیفہ کو تم نے اطلاع کیوں نہ دی؟“

 عورت بولی:”میرے او رعمرؓ کے درمیان خدا فیصلہ کرے گا۔میں عورت ذات کس سے کہتی پھروں۔ اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی رعایا کی خبر گیری کرے۔ اگروہ اپنا فرض پورانہیں کرسکتاتھا تو وہ خلیفہ کیو ں ہوگیا؟“

حضرت عمرؓ پر جیسے بجلی گرگئی ہو۔ یہ سن کر وہ فوراً بھاگے ہوئے بیت المال پہنچے۔ آٹا، گوشت، گھی اور کھجوریں اپنی پیٹھ پر لاد کر چلنے لگے تو آپ کے غلام نے کہا:’اے امیر المومنین! آپ کیوں تکلیف کررہے ہیں؟ لائیے میں پہنچا دوں۔“

حضرت عمرؓ نے کہا:”نہیں! جب قیامت میں تم میرا بوجھ نہیں اٹھاسکتے تو آج میں تم سے کیوں اٹھواؤں۔“

یہ کہہ کر آپ سارا سامان خود لاد کر اس عورت کے پاس پہنچے۔ خود بیٹھ کر آگ پھونکی۔ کھانا تیار کرنے پر بچوں کو پیٹ بھر کر کھلایا۔ بچے ہنسی خوشی سوگئے۔

چلتے وقت عورت نے کہا:”خلیفہ بننے کے لائق تم ہو نہ کہ عمرؓ۔“حضرت عمرؓ بولے:”مائی! معاف کرنا، عمر میں ہی ہوں، مجھ سے واقعی غلطی ہوئی کہ اب تک تمہاری خبر نہ لی۔“

اس کے بعد حضرت عمرؓ نے بیت المال سے عورت اور بچوں کا وظیفہ مقرر کردیا۔

بہرحال غریب وپریشان حال آدمی سے تعلق قائم کیجئے۔اس کے دکھ درد بانٹئے، اس سے یارانہ جوڑیے۔ اس کے گھر آئیے جائیے اور اسے پہلے گھربلائیے۔ اس کے ساتھ کھائیے اور اسے اپنے ساتھ کھلائیے تاکہ خدا کی توفیق آپ کے شاملِ حال ہوسکے۔

حضرت ابودرداءؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے سنا ہے کہ مجھے اپنے غریب اور کمزور لوگوں میں تلاش کرو کیوں کہ تمہارے کمزور غریب لوگوں ہی کی وجہ سے تمہیں روزی دی جاتی ہے اور(دشمنوں کے مقابلہ میں) تمہاری مددکی جاتی ہے۔]ترمذی[

کسی شخص کی  ضرورت پوری کرنا بڑی نیکی کاکام ہے۔ جس کام کو آپ معمولی سمجھتے ہیں اس کام کو کرنا بھی خدا کے نزدیک صدقہ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بھولے بھٹکے اور کسی نابیناکو راستہ بتانا بھی صدقہ ہے“۔]ترمذی[

آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ تمہارا اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا تمہارے لیے صدقہ ہے۔ تمہارا نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے، ایسی جگہ راستہ بتانا جہاں لوگ راستہ بھول جاتے ہوں صدقہ ہے، جس شخص کی بصارت خراب ہو اس کی مدد کرنا تمہارے لیے صدقہ ہے، اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں پانی دینا تمہارے لیے صدقہ ہے۔]ترمذی[

٭٭٭٭٭