آزادی کی نعمت یا ذوقِ یقیں کی نمود

رمضان المبارک-رحمت ِخداوندی کاموسم بَہار
مارچ 20, 2023
موسمِ ربیع اور ظہورِ قدسی
اگست 25, 2025
رمضان المبارک-رحمت ِخداوندی کاموسم بَہار
مارچ 20, 2023
موسمِ ربیع اور ظہورِ قدسی
اگست 25, 2025

آزادی کی نعمت یا ذوقِ یقیں کی نمود

محمدعمیر الصدیق دریابادی ندوی

ٓٓٓ آزادی کا لفظ اپنے رائج اور وسیع تر معنوں میں جبرو ظلم ،ناانصافی اور حق تلفی، غاصبانہ قبضہ اور جارحانہ رویہ سے رہائی اور چھٹکارے کے مفہوم کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ اپنے عقیدے، اپنی تہذیب اور اپنے معاشرے کے آداب کی حفاظت اور اس پر عمل کرنے کے اختیار کو بھی واضح کرتا ہے ۔ ملکی نظام و آئین کے ساتھ انسان کی اپنی ذاتی زندگی میں رد و قبول کا حق ہے ۔ اس حق کو استعمال کرنا بھی آزادی کی نعمتوں میںشمار کیا جاتا ہے ۔
لیکن جب ان انسانی حقوق ، عزت نفس، رائے اور اظہار رائے ، فہم و تدبر ، خودی اور خود اعتمادی اور اپنے معاشرے، قوم اور ملک کی ترقی و بہبود کے لیے نئے امکانات کی تلاش پر قدغن اور پابندی عائد کردی جائے تو یہی غلام ہونے یا بے بس و بے کس ہونے یا آسان لفظوں میں آزادی سے محروم ہونے کی نشانی ہے ۔
ہم ہندوستانیوں کے لیے پندرہ اگست کی تاریخ کی اہمیت اسی لیے ہے کہ کچھ انسانوں کے ذریعہ دوسرے انسانوںکے حقوق سلب کرنے اور ان کواپنی مرضی کے تابع بنانے کے عمل سے یہ رہائی کی علامت ہے۔ ایک صدی سے زیادہ کے عرصے تک ایک قابض اور غاصب قوم وملک نے ہندوستانیوں کو ان سہولتوں اور امکانات سے محروم رکھا جو مردان حُر کے ذوق عمل کے منتظر تھے ۔ یہی ذوق عمل ہوتا ہے جس سے قوموں کا نظام تشکیل پاتا ہے ۔جو بتاتا ہے کہ غلام کا بدن یاوجود سوز عمل سے محروم ہوجاتا ہے ۔ یہ آتش وجود نہ ہو تو پھر آزادی کی تاب وحرارت باقی نہیں رہتی۔ آزادی کا حصول ،غلامی سے نجات میں ہے اور یہ نجات ضمیرکی پرورش اور اس کی لذت نمود ہی سے ممکن ہے ۔
ملک کی آزادی کے مطالبے اور اس کے لیے جسم و جاں کے تمام نذرانے اسی آزادانہ لذت نمود کے لیے تھے ۔ یہ وہ نعمت تھی جس کا احساس ان کو تو قطعی نہیں ہوتا جن کا گذرغلام ملک سے باہر کسی آزاد خطے سے نہ ہوا ہو۔ہمارے بزرگوں نے آزادی کی تحریک کے وقت ہمیشہ اس حقیقت کو پیش نظر رکھا کہ ملک کی آزادی کے لیے سب سے پہلی شرط اس کے باشندوں کا مقصد خاص ، اتفاق و اتحادہے۔ جب تک یہ چیز حاصل نہیں ہوتی ، آزادی چاہنے والوں کے اندر وہ طاقت نہیں آسکتی جس سے وہ دوسری طاقت کے مقابلے میں اپنی قوت کا ثبوت دے سکیںاور جب تک اس قوت کا ثبوت نہ پیش کیا جائے ، آزادی چاہنے والوں کا دعویٰ نہ تسلیم کیا جاتا ہے اور نہ ان کا مطالبہ ہی سننے کے لائق رہ جاتا ہے ۔
اسی احساس کے ساتھ ملک نے آزادی کی نعمت پائی ۔ لیکن نعمت کوئی بھی ہو ، اپنی قدر کا مطالبہ بھی رکھتی ہے ۔ آزادی کی نعمت کا بھی مطالبہ تھا کہ مذہب ، زبان ، علاقے، رنگ ، نسل کے اختلاف کے باوجود ہر ہندوستانی باشندے کو وہ تمام حقوق یکساں طور پر ملتے رہیں جو ایک آزاد انسان کی پہچان بناتے ہیں ۔ آزادی کی نعمت کی قدر یہی ہے کہ یہ سچی اور حقیقی نعمت کی شکل میں دیکھی اور برتی جائے ۔ وہ آزادی نہیں کہ ع ظاہر میں تو آزادی ہے باطن میں گرفتاری ۔ اصل آزادی افکار و اقدار کی حریت کا پیغام رکھتی ہے ۔ بقول اقبال : حریت افکار کی نعمت ہے خداداد۔
آج تین چوتھائی صدی کا عرصہ گذرنے کے بعد اگر یہ سوال پیدا ہوتا جاتا ہے کہ کہیں آزادی کی نعمت کی ناقدری تو نہیں ہورہی؟ اتحاد کی جگہ انتشار، محبت کی جگہ نفرت ، سہولت کی جگہ جبر، خوش حالی کی جگہ بدحالی اور اعتماد کی جگہ بے اعتمادی اور یقین کی جگہ بدگمانی کی مسموم و متعفن فضاؤں نے کیا آزادی کی برکتوں سے محروم تو نہیں کردیا ؟ تو پھر ملک کی آزادی کا جشن مناتے وقت ایک محب وطن شہری کا فرض ہے کہ وہ اس خطرے سے آگاہ ہو اور آگاہ بھی کرے کہ جب نعمت کی قدر نہیں ہوتی ، بلکہ اس کے اصل جوہر کو بدل کر رکھ دیا جاتا ہے تو پھر انسانوں کو آزاد اور اپنی فطرت پر پیدا کرنے والے کی ناراضی بلکہ عتاب و عذاب کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ آج ملک کے لیے قید و بند کی ہر آزمائش پر پورااترنے والوں کے خواب آزادی کوزیادہ سنجیدگی اور زیادہ دردمندی سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ورنہ کوئی نئی غلامی یہ احساس نہ دلادے کہ جس چیز کو ہم نے نعمت سمجھا تھا اور جو واقعی ذلت و حقارت سے رہائی اور غلامی کے طعنوں سے نجات دلانے والی تھی، جو بے چارگی اور بے کسی کے نہایت اذیت ناک تجربوں سے خلاصی کی علامت تھی‘ وہ آزادی ہمارے ہی طرز عمل سے کہیں ملک و قوم کے لیے ایک سراب تو نہیں بنتی جاتی ہے ۔ یہ بات کیوں سمجھ سے پرے ہے کہ اگر قوم میں اعتبار و اعتماد و اتحاد نہیںرہے گا تو پھر: صحن چمن بھی مقام مجبوری۔