ایمان و عزیمت کی حامل بے نظیر شخصیت

ستارے جس کی گر دِ راہ ہوں وہ کارواں تو ہے
اکتوبر 12, 2019
ایمان اور عمل صالح
اکتوبر 23, 2019
ستارے جس کی گر دِ راہ ہوں وہ کارواں تو ہے
اکتوبر 12, 2019
ایمان اور عمل صالح
اکتوبر 23, 2019

ایمان و عزیمت کی حامل بے نظیر شخصیت

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اولین اسلام لانے والوں میں تھے ، عمرقریب قریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر تھی ، دعوت اسلام کاکام شروع ہوچکا تھامگر احتیاط واخفا کے ساتھ، ایک دن حضرت ابوبکرصدیقؓ ایک مجمع میں تبلیغ کی نیت سے کھڑے ہوئے اوراللہ اورا س کے رسولؐ کی دعوت دینی شروع کی تو مشرکین غیظ وغضب کے عالم میں ان پرٹوٹ پڑے اوران کو بری طرح مارا،عتبہ بن ربیعہ دوپھٹے پرانے جوتوںسے ان کے چہرے کو اس طرح مارتارہا کہ بعد میں ان کے چہرہ کے خدوخال پہچانے نہ جاتے تھے،سرمیںہاتھ لگایاجائے توبال ہاتھوںمیںآجاتے تھے۔
سر میں جہاں بھی کسی کاہاتھ لگتا بال ہاتھ میںآجاتے اس لیے اس کوبچانے میں جو ساری انسانیت کوبچانے آـیاتھا اس بچانے والے کو خود اپنوںنے ،اپنے شناسائوں اوراپنی ہی بستی کے لوگوں نے اتناماراتھا کہ پورا سر زخم بن گیاتھا۔
حضرت ابوبکرؓ کے خاندان کے لوگ بنوتمیم حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کواس حالت میں اٹھاکرلے گئے کہ ان کوان کی موت میںکوئی شبہ نہ تھا، دن ڈھلے آپ کو ہوش آیا توپہلا لفظ جوآپ کی زبان سے نکلا، وہ یہ تھا کہ بتائورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے ہیں؟ ان لوگوںنے ان کواس پربرابھلا کہا، اس وقت ام جمیل جواسلام لاچکی تھیں، ان سے قریب ہوئیں توانہوںنے ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میںدریافت کیا، انہوںنے کہا کہ آپ کی والدہ قریب کھڑی ہیں، سن لیںگی، انہوںنے کہا: میری اللہ سے نذر ہے کہ میں اس وقت تک نہ کچھ کھائوں گا نہ پیوں گا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر نہ ہوجائوں، یہ سن کروہ دونوں وہاں رک گئیں، جب لوگوں کی آمد ورفت بندہوگئی اورسناٹاہوا تووہ دونوں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کوسہارا دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںلائیں، ان کی یہ حالت دیکھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت اثرپڑا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی والدہ کے لیے بہت دعا کی اوران کواسلام لانے پرآمادہ کیا، اوروہ اسی وقت مسلمان ہوگئیں۔
آپ اب جوکچھ پڑھیںگے اس پس منظر میںپڑھئے کہ ان کے اس پختہ ایمان وعزیمت نے کیسے کیسے پرعظمت وعزیمت کام لیے۔
پورامدینہ غم میں ڈوبا ہواہے، ہرفرد حواس باختہ ہے کوئی اپنے ہوش ہی میں نہیں، کسی کو یقین ہی نہیں آرہاہے کہ رشد و ہدایت کاوہ آفتاب غروب ہوگیاہے جو پوری دنیا کوظلمت و تاریکی کے گھٹاٹوپ اندھیرے سے نکا لنے کے لیے طلوع ہواتھا ، لیکن وہی زخمی سروالا شخص آتاہے، کسی سے کچھ کہے بغیرحجرۂ مبارک میں داخل ہوتاہے، چہرۂ انور سے چادر اٹھاتا ہے، اس پیشانی مبارک کو بوسہ دیتاہے، جودیرتک اپنے رب کے حضور سجدہ میں پڑی رہتی تھی، اس کے ہونٹ جب پیشانی مبارک سے جداہوتے ہیں توان سے یہ الفاظ اداہوتے ہیں:’’طبت حیاً وطبت میتاً‘‘ حجرہ سے نکل کرسامنے آتاہے، اس غم کی حالت میں جس نے کلیجہ کوہلاکر رکھ دیاہے، حاضرین کے سامنے پورے وقار واعتماد کے لہجہ میں کہتا ہے:
’’من کان یعبد محمداً فان محمداً قد مات ومن کان یعبداللّٰہ فان اللّٰہ حی لا یموت‘‘ اس کی زبان سے جب یہ آیت شریفہ ’’وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ أفَاِنْ مَّاتَ أوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلیٰ أعْقَابِکُمْ‘‘ [آل عمران:۱۴۴]اداہوئی تواس کے کانوں میںپڑتے ہی وہ شخص جو جلال میںتلوار لیے پھررہاتھا کہ جوکہے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاانتقال ہوگیاہے، میں اس کی گردن اڑادوںگا ، اپنے آپے میںآجاتاہے اوراس کوایسامحسوس ہوتا ہے کہ یہ آیت ابھی ابھی نازل ہوئی ہے ، مجمع پرسکتہ کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ،تجہیز وتکفین کانظم ہوتاہے، لوگ تدفین سے فارغ ہوکر واپس آتے ہیں تو فاطمۃ الزہراؓ کی زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہیں کہ تمہارے ہاتھوںسے جسد مبارک پرمٹی ڈالی کیسے گئی؟
غم ویاس کایہی عالم ہے لوگ نڈھال اور زار وقطار رورہے ہیں اورمدینہ سے باہر کی دنیا کایہ عالم ہے کہ اس خبر کے پھیلتے ہی مختلف قبائل مرتد ہوچکے ہیں، ادھرلشکرا سامہ سفر کے لیے پابہ رکاب ہے، دوسری طرف خطرات کا یہ عالم ہے کہ مدینہ منورہ مرتدین کی فوجوںسے گھراہواہے، خطرات کی انہی گمبھیر فضائوں میں مانعین زکوٰۃ کے وفود آئے ہوئے ہیں کہ زکوٰۃ معاف کردی جائے ، صورت حال کی نزاکت کے پیش نظر تمام صحابہ نرمی کارویہ اختیار کرنے کا رجحان رکھتے ہیں حتیٰ کہ حضرت عمرؓ جیسا جری و بہادر بھی یہی کہتاہے ، حضرت عمرؓ کے الفاظ سنتے ہی وہ شخص جورقیق القلب ونرم خو مشہور تھا حتیٰ کہ غزوۂ بدر کے قیدیوں کو قتل کے بجائے فدیہ لے کرچھوڑدینے کی رائے دی تھی،بڑے جوش وجلال کے ساتھ حضرت عمرؓ کومخاطب کرکے کہتاہے:
’’أجبار فی الجاھلیۃ وخوار فی الاسلام‘‘ (تم زمانہ جاہلیت میںتوبڑے پرجلال وغضبناک تھے، اسلام کے بعد کمزورہوگئے؟)وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا، دین کمال کو پہنچ چکا! کیا میرے جیتے جی اس میں کتربیونت ہوگی،’’ أینقص الدین وأناحی‘‘ (خدا کی قسم اگررسی کاایک ٹکڑا بھی دینے سے لوگ انکار کریں گے تومیںجہاد کروںگا)۔
حالات کی نزاکت کودیکھتے ہوئے لشکر اسامہ کو روانہ کرنے میں تردد کااظہار کیا جاتاہے ، اس نحیف وہلکے پھلکے جسم والے کی زبان سے یہ پرجلال آواز نکلتی ہے ، اگرمیں مدینہ میں تنہارہ جائوں اورمجھے درندے نوچیں تب بھی میں اس لشکر کو اس جواں سال سپہ سالار کی کمان میںروانہ کرکے رہوںگا،جس کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کیاتھا۔ایک صحابیؓ اپنے کچھ ذاتی مسائل پیش کرتے ہیں توجواب ملتاہے:’’میں اس وقت دوشیروں(روم وایران) کوزیر کرنے کی فکر میں ہوں جومسلمانوں کی تاک میں ہیں ، اورتم میری توجہ معمولی کاموں کی طرف کرتے پھرتے ہو‘‘۔
صاحبزادہ عبدالرحمن ایمان لاچکے ہیں، باپ کے مقابلے میں بدرواحد دونوں میںلڑچکے ہیں ،عرض کرتے ہیں کہ آپ دومرتبہ میرے نشانہ پر آئے، لیکن باپ ہونے کے سبب چھوڑدیا، جواب میں آپ کی زبا ن اس طرح کھلتی ہے جان پدر! اگرمیرے نشانہ پرآگئے ہوتے تو میںقتل کیے بغیر نہ چھوڑتا۔
غزوۂ بدر کی نازک ترین نہایت کٹھن گھڑیاں ہیں، رسول خداعریش کے سایہ میں مصروف دعا ہیں، اس خوفناک موقع پر آپ کا محافظ یہی مرد ِباصفاہے ، احد کے معرکۂ خوفناک میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گڑھے میںگر گئے ہیں، وہاںسے نکلنے اورسہارادینے والا مرد مومن بھی یہی ہے، غزوۂ حنین کے ہوش اڑادینے والے حالات میںبھی یہی ساتھ رہے ، وطن عزیز مکہ چھوٹ رہاہے، دولت کدہ دشمنوں کے نرغہ میںہے، رات کی تاریکی میںمعجزانہ طورپران کے سرپر خاک ڈالتے ہوئے نکلے، غارثور پہنچتے ہیں، رفیق سفر پہلے غا ر میںداخل ہوتاہے، اس کوصاف اور محفوظ کرتاہے، ایک سوراخ بند کرناباقی ہے، بندکرنے کے لیے کچھ نہیں ملتا تو اپناانگوٹھا اس میںلگاکر اپنے زانو پر سرورعالم کے سرمبارک کورکھ کراستراحت کااہتمام کرتاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند آگئی ہے، رفیق سفر کے انگوٹھے میںسانپ نے ڈس لیاہے ، شدت تکلیف کے باوجود زانو کوحرکت نہیں ہونے پاتی کہ آپ کی نیند میں خلل پڑے ، شدت تکلیف سے آنکھوںسے گرم گرم آنسوئوں کے قطرے ٹپ ٹپ چہرۂ انورپرگرتے ہیں، آنکھ کھل جاتی ہے، پوچھتے ہیں: کیابات ہے جواب ملتا’’ سانپ نے کاٹ لیاہے، شدید تکلیف ہے‘‘ ،زخمی جگہ پرلعاب مبارک لگادیتے ہیں ، درد جاتارہتاہے۔
غزوۂ تبوک سخت موسم میںپیش آیاہے ،سفرطویل، سواریوں اورسازوسامان کی کمی ہے، اعلان ہوتاہے کہ اصحاب کرامؓ مالی تعاون پیش کریں، عمرؓ خوش ہیں کہ آج اس مردیگانہ سے بڑھ جانے کابہترین موقع ہے، گھرکاآدھا مال خدمت اقدس میںپیش کردیتے ہیں، گھر میں کیاچھوڑا، اس سوال پر جواب ملتاہے: آدھا مال گھر میں اہل وعیال کے لیے چھوڑآیا، جس سے مقابلہ ہے اس سے سوال ہوتاہے : تم کیا لائے، جواب ملتاہے جوکچھ تھا سب کچھ حاضر خدمت ہے، اس سوال پر کہ بچوں کے لیے کیا چھوڑا، جواب ملتاہے اللہ اوراس کے رسول کو چھوڑآیاہوں۔
اب تک آپ نے جوکچھ پڑھا اس سے ذہن ضرور اس مرد بے مثال کی طرف گیا ہوگا، انھیں کے سرسہرابندھاہے؟! ’’الصدیق‘‘ کے خطاب کا، ’’الصدیق‘‘ کا سہرا ان کے سر نابندھتا تو اور کس کے سر بندھتا ،خود سرورکائنات کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے: ’’بلاشبہ کوئی شخص ایسا نہیں جس نے اپنی جان و مال سے مجھ پراتنا احسان کیاہوجتنا ابوبکرؓ نے کیاہے‘‘پھرآپؓ خلیفہ اول کیوں نہ بنائے جاتے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت جس عزیمت و ہمت و حوصلہ کاثبوت دیا، آپؓ کے سوا اورکون اس کااہل ہوسکتاتھا۔

شمس الحق ندوی
٭٭٭٭٭