تعلیمات محمدیﷺ پر مکمل عمل پیرا ہونے کی ضرورت

انسانیت کے کام آنے کی ضرورت
October 29, 2018
عظمت صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین
November 27, 2018
انسانیت کے کام آنے کی ضرورت
October 29, 2018
عظمت صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین
November 27, 2018

تعلیمات محمدیﷺ پر مکمل عمل پیرا ہونے کی ضرورت

ربیع الاول کایہ مہینہ قمری سال کاتیسرامہینہ ہے ،تاریخ انسانی میں یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میںبھولی بھٹکی اورگم کردۂ  راہ ِانسانیت کوفلاح وصلاح کی راہ دکھانے والا وہ دستورِحیات ملاجو ہرقوم وہرملک کے لوگوں کے لیے ہرزمانہ وہردور کے لوگوں کے لیے نسخۂ کیمیا ہے، اس دستورِحیات میںنہ کالے گورے کافر ق رکھاگیاہے ، نہ عربی وعجمی کا ، نہ امیروغریب کا نہ بادشاہ، فقیر کا، کرۂ زمین پرجہاں کہیں بھی انسانی آبادی پائی جاتی ہے، یہ دستورحیات سب کی رہنمائی کرتاہے ، وہ کہتا ہے:’’کلکم ابناء آدم وآدم من تراب‘‘  تم سب آدم کے بیٹے ہو اورآدم مٹی سے بنے تھے ، اس دستورحیات میںعزت و شرف کامعیار امیری، غریبی اورقوم وقبیلہ کونہیںبلکہ حسن کردارکوبتایاگیا، فرمایا:’’یَاأیُّھَاالنَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَا کُمْ مِّنْ ذَکَرٍوَّاُنْثیٰ وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْباًوَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ أکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہ أتْقَاکُمْ ‘‘[حجرات:۱۳]( اے انسانو! تم سب کوخدانے ایک مردوعورت سے پیداکیاہے اورتم کوقبیلہ قبیلہ وخاندان خاندان صرف اس لیے بنایاہے تاکہ ایک دوسرے کوپہچان سکو، خدا کے نزدیک سب سے شریف وہ ہے جوزیادہ پرہیز گار ہو)۔

دنیا کی قومیں جس عظیم غلطی کاشکاررہی ہیں ، وہ ہے ۱۲؍ربیع الاول کوپیداہونے والے محمدعربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کو نہ ماننا جودنیا کی ساری قوموں کے لیے نسخۂ شفا ء ہے، اس پیغام میں جوسب کے لیے ہے ،سب جگہ کے لیے ہے، اس میںمرد وعورت ،بوڑھے جوان ، کنبہ وخاندان حاکم ومحکوم سب کے لیے راحت وآرام اورسکون واطمینان کاسامان ہے، اوراس کاعملی نمونہ بھی خلافت راشدہ کے زمانے میںپورے ۳۶؍سال تک دنیا دیکھ چکی ہے، اوراس کامیٹھا پھل کھاچکی ہے۔

بارہ ربیع الاول کوآنے والے رسولؐ کوانسانوں کے لیے جودستورِحیات دیاگیا، وہ صرف دستور کی حدتک نہیںرہا، بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ایک ایک حکم پرعمل کرکے اورعملی طورپر نافذ کرکے دکھادیاحتیٰ کہ یہ اعلان کردیاگیا کہ جوکوئی اس دستور کاعملی نمونہ دیکھناچاہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میںدیکھ لے اور اس کی روشنی میںچلے:چناچہ صاف صاف اعلان کردیاگیا:’’لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوْاللّٰہَ وَالْیَوْمَ الآخِرَ‘‘[احزاب :۳۱](تم کوپیغمبر خدا کی پیروی (کرنی) بہتر ہے (یعنی) اس شخص کوجسے خدا(سے ملنے) اورروزقیامت (کے آنے) کی امید ہو)۔

اس وقت دنیا جن حالات سے گذررہی ہے اورانسانی آبادی ساری ترقیوں اورسہولتوں کے باوجود جن خطرات میںگھری ہوئی ہے ، ظلم وزیادتی کی جوگرم بازاری ہے اورانسانی خون پانی کی طرح بہایاجارہاہے،اس کاعلاج اگرکہیں مل سکتاہے تواسی پیغام اوراسی دستور حیات میں جومحمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم لے کرآئے ہیں،اس پیغام وپیغمبر کاتعلق صرف ربیع الاول کے میلادی جلسوں سے نہیں کہ جب یہ مہینہ آئے تواس کی یادگار منائی جائے، جلسے جلوس کیے جائیں اور بس، بارہ ربیع الاول کی آمد تجدید عہد کاایک موقع ہوتاہے، لیکن بدقسمتی سے جن لوگوں نے اس پیغام کوسینے سے لگایااوردل میں اللہ اوراللہ کے رسولؐ کی محبت کو بسانے کادعویٰ کیا وہی اس کوجشن کے طورپرمنالینے ہی پراکتفا کرنے لگے ہیں، آپ کی لائی ہوئی تعلیمات کواب گویاسیرت کے جلسوں اورمشاعروں تک محدود کرکے رکھ دیاگیاہے ، اوروہ اس طرح کہ آپ کی تعلیمات کی سراسرخلاف ورزی کرکے میلہ اوربے حجابی کاماحول بنادیا۔

کیااچھاہوتا کہ ہم مسلمان دوسری قوموں کے سامنے پیغام محمدیؐ کاوہ عملی نمونہ پیش کرتے جس کودیکھ کران کے منھ میںپانی آجاتا اوروہ اس کی طرف بے تابا نہ بڑھتیں اور اس کاکلمہ پڑھنے لگتیں، آج کی بے چین وسرگرداں دنیاکومعلو م ہوتا کہ ہمارے دردکادرماں اس دستورحیات میں ہے جس کو انسانوں کے پیداکرنے والے اس خالق نے اتاراہے جوان کے مزاج وطبیعت، ضرورتوںاورتقاضوں اوران کی ان کمزوریوں کوبھی خوب جانتاہے جوانھیں آمادۂ شرکرتی ہیں: ’’ألاَیَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ‘‘[ملک:۱۴](کیا وہ نہ جانے گاجس نے اس کوپیداکیاہے)۔

اسی لیے اس خالق نے اس کو وہ اصول وضابطے بتائے ہیں جواس کی فطرت کے عین مطابق ہیں،انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین توبرابر بدلتے رہتے ہیںمگر محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے انسانوں کوجودستورحیات ملاہے اس میںکسی تبدیلی اورردوبدل کی ضرورت نہیں پیش آتی ، ہاں چونکہ یہ اس خداکابنایاہوا دستورحیات ہے جو مستقبل میں پیش آنے والے تغیرات کوبھی جانتاہے اورتغیرات پیدابھی اسی کی قدرت ومرضی سے ہوںگے، اس لیے اسلامی دستور حیات میں وہ لچک رکھ دی ہے جس کے ذریعہ اس کے ماہرین، اصول سے فروع اورکلیات سے جزئیات کااستنباط کرکے آسانی پیدا کردیں تاکہ کہیں کسی زمانہ میںدشواری نہ پیش آئے ، چنانچہ اسلام کی چودہ سوسالہ تاریخ نے اس بات کا کھلا ہوا ثبوت پیش کردیاہے، جب انسان ایسے اعلیٰ اوراٹل قانون اورضابطۂ حیات سے روگردانی کرے گا، اوراپنے عقلی گھوڑے دوڑائے گا، اوراپنی بہیمانہ خواہش وچاہت کے مطابق قانون بنائے گا، تویقینی بات ہے کہ دنیا میں فساد و بگاڑ پیداہو،اورانسان اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کاسامان پیداکرے، جس کواس وقت کھلی آنکھوں دیکھاجاسکتاہے۔

اسلام نے بندوں کاتعلق براہِ راست خداسے جوڑدیاہے،وہ ان تعلیمات کی روشنی میں جومحمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انسانوںتک پہنچائی گئیں ، بلاکسی واسطہ کے اپنے رب سے راز ونیاز کی باتیں کرسکتاہے ،رودھوکر براہ راست اپنی خطائیں معاف کراسکتااوراس کی رحمت وعنایت کواپنی طرف متوجہ کرسکتاہے، اس میںبرابری اور مساوات ایسی رکھی گئی ہے کہ ہرشخص جومسلمان ہے وہ مسائل سے واقف ہے تونماز کاامام بن سکتاہے، روزہ ہرایک رکھ سکتا ہے، اس میں امیرو غریب اعلیٰ وادنیٰ کا کوئی فرق نہیں ، نما ز میں ایک غریب وادنیٰ درجہ کامسلمان اورایک بادشاہِ وقت دونوںکاندھے سے کاندھا ملاکر کھڑے ہوسکتے ہیں، اسلامی مساوات کایہ وہ نمونہ ہے جس کودیکھ کر بہت سی سعیدروحوں کواسلام اورایمان کی دولت نصیب ہوگئی، ابھی قریبی زمانہ کی بات ہے کہ امریکہ کے ایک ٹیلی ویژن ڈائرکٹر نے نماز میںمساوات کامنظر دیکھ کراسلام قبول کرلیا، وہ کہتے ہیں کہ:ایک دن میں نے ٹیلی ویژن پرایک عرب بادشاہ کو خشوع وخضوع اوراطمینان سے تمام نمازیوں کے ساتھ باجماعت نماز پڑھتے دیکھا تو میرے دل میںیہ بات اترگئی کہ اسلام میںچھوٹے بڑے، امیروغریب کا امتیا زنہیں، اورمیںنے اسلام قبول کرلیا۔

پیغام محمدیؐ( اسلامی تعلیمات) کے وسیع وہمہ گیر دفتر کوبطورخلاصہ’’ ایمان اورعمل صالح‘‘ دولفظوں میںبیان کیاجاسکتا ہے: ایمان اورعمل صالح، یہی دوچیزیں ہیںجوہرقسم کے محمدی پیغام پرحاوی ہیں اورقرآن پاک میںان ہی دونوں چیزوں پرانسانی نجات کامدار ہے،جب حقیقت یہ ہے توہم ربیع الاول کے جشن اورجلسوں کے وقت اپناجائزہ لیں کہ ہمارے اندر پیغام محمدیؐ (اسلامی تعلیمات) کاعملی حصہ کتنا پایاجاتاہے؟!!