حجاج کے ادائے عاشقانہ کا پس منظر

مشکلات کے سامنے سپراندازی جوانمردوں کا کام نہیں!
June 28, 2018
ہمیں بھی یادرکھنا ذکر جب دربار میں آئے!
July 28, 2018
مشکلات کے سامنے سپراندازی جوانمردوں کا کام نہیں!
June 28, 2018
ہمیں بھی یادرکھنا ذکر جب دربار میں آئے!
July 28, 2018

حجاج کے ادائے عاشقانہ کا پس منظر

رمضان المبارک،اعتکاف،شب قدر اور صدقۂ فطر کے قیمتی لمحات وگھڑیاں گزارنے کے بعداب ہر صاحب استطاعت کو حکم ہورہاہے کہ ہماری تجلی گاہ کعبۂ مکرمہ کی زیارت کو نکلو،اور خلیل اللہ وذبیح اللہ کی ادائے عاشقانہ کی یاد تازہ کرکے دل کی سرد انگیٹھی کوگرماؤ اور خلیل اللہ وذبیح اللہ کی نقل میں قربانی کے جانوروں کو ذبح کرکے خون کے دھارے بہاؤ۔ تصورمیںلائیے ایک سنسان وادی اورجھلسی ہوئی پہاڑیوں کو، جہاں نہ آدم نہ آدم زاد، اس ویرانہ کی چلچلاتی دھوپ اورکھانے پانی سے خالی تپتی ہوئی وادی میں ممتا کی ماری ایک ماں اورشیرخوار بچے کو!کوئی اندازہ لگاسکتا ہے کہ اس ماں کے دل پر کیا گزری ہوگی، دیوار کعبہ کے قریب شیرخواربچہ پیاس سے ایڑیاں رگڑرہا ہے اورماں تڑپ تڑپ کر کبھی صفا پر چڑھ کردیکھتی کہ شایدکوئی قافلہ نظرآجائے اورپانی ملے، پھردوڑی دوڑی مروہ پر چڑھتی کہ شاید ادھر کوئی قافلہ گزرتا ہوا دکھائی دے ،دونوں طرف سے آس ٹوٹتی ہے،بھاگی بھاگی بچے کودیکھنے آتی ہے کہ کس حال میں ہے، اس معصوم کودیکھ کر پھربے قراری کے عالم میں صفاومروہ کے چکرلگاتی ہے، چھ چکرہوچکے اورامید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی، بچہ ہے کہ جاں بلب ہورہاہے، ساتویں چکرکے بعدبچے کے پاس پہنچتی ہے تودیکھتی ہے کہ اس کی ایڑیوں کی رگڑسے رب کریم نے پانی کا چشمہ جاری فرمادیاہے، جوزم زم کے نام سے مشہور اور اس وقت سے اب تک اس طرح جاری ہے کہ سارے عالم کے مسلمان بھربھرکر لے جارہے ہیں اورپانی کم نہیںہوتا، چشمہ جاری ہوا توقافلے بھی آ آکر آباد ہونے لگے اوریہ ویرانہ جہاں وحشت کوبھی قدم رکھتے وحشت ہو،آبادی میں تبدیل ہوگیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام جواپنے رب کے حکم سے بیوی اوربچے کو اس ویرانہ میں چھوڑکرچلے گئے تھے، جب کافی عرصہ کے بعدواپس آتے ہیں تواسی بچہ کوجواب جوانی کی عمرکوپہنچ رہا تھا اللہ کے نام پر قربان کردینے کا حکم ہوتا ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام جس طرح اپنے رب کے حکم سے بیوی بچے کو چھوڑکرچلے گئے تھے، اب اپنے اسی رب کے حکم سے اس کی گردن پر بے تکلف چھری چلادیتے ہیں، لیکن رب کریم کوآب وخاک سے بنے ہوئے اپنے بندہ کی یہ ادائے عاشقانہ ایسی پسند آتی ہے کہ بیٹے کی جگہ جنت کا دنبہ ہوتا ہے، چھری چلتی ہے توجگرگوشہ کی نہیں دنبہ کی گردن کٹتی ہے اوررب کریم فرماتا ہے:’’ہم نے ان کوپکارا کہ اے ابراہیمؑ! تم نے خواب کوسچا کردکھایا،ہم نیکوکاروں کوایسا ہی بدلا دیا کرتے ہیں، بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی اورہم نے ایک بڑی قربانی کوان کا فدیہ دیا اورپیچھے آنے والوں میںابراہیمؑ کا (ذکرخیرباقی) چھوڑدیا‘‘۔ [سورہ الصفٰت]زمین وآسمان نے عشق ومحبت اوررب کے حکم پر اس سرشاری کا منظرکب دیکھا ہوگا؟انھی باپ بیٹے نے کعبہ کی تعمیر کی اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کوحکم ملا کہ:’’اورلوگوں میں حج کے لیے نداکردو کہ تمہاری طرف پیدل اوردبلے اونٹوں پر جودور(دراز) رستوں سے چلے آتے ہوں(سوارہوکر) چلے آئیں‘‘۔[حج]

وہ دن ہے اورآج کا دن ہے کہ دنیا کے گوشہ گوشہ سے بڑی تعداد میں مسلمان رخت سفرباندھ کر اس ادائے عاشقانہ کی یادتازہ کرتے اوراپنے دلوں کی ویران بستی کو عشق ومحبت میںڈوب کرآباد کرتے ہیں، آنسوئوں سے اس کوغسل دیتے ہیں اوراس طرح پاک وصاف ہوکرلوٹتے ہیں ،جیسے آج ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہوں۔ ایک زمانہ سے دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ آب وخاک سے بنی ہوئی ایک چوکورعمارت کی طرف جودرِمعشوق نہیں بلکہ جلوہ گاہ معشوق ہے، مخلوق کس طرح ٹوٹی پڑتی ہے،محبوب وعزیز ترین چیزوںکوچھوڑکر حتی کہ مال واولاد، گھربارسب کچھ چھوڑکر، تج کر، پیدل وسواریوں پر،ہوائوں میں اڑاڑ کر، سمندروںکے سینوں کوچیرچیرکر، بڑے والہانہ اورفریفتگی کے عالم میں ایک دوکی نہیں،سوپچاس اورہزارکی بھی نہیں بلکہ کئی کئی لاکھ کی تعداد میں روانہ ہوجاتی ہے مردبھی، عورتیں بھی، بوڑھے بھی جوان بھی،امیربھی غریب بھی،شاہ بھی گدا بھی، کیسا دیدنی منظرہوتا ہے۔ جیسے جیسے وہ دیار حبیب کے قریب ہوتے جاتے ہیں ان کی ایک ایک ادا نرالا اورانوکھا روپ اختیارکرتی جاتی ہے، حتی کہ صرف ایک چادرولنگی میںملبوس ہوکرمحبوب کی بارگاہ میں حاضری کا جوآخری منظرکفن پوشی کا ہوتا ہے وہ منظر پیش کرتے ہیں اوربہ زبان حال یہ عرض کرتے ہیں       ؎

ہمارے پاس ہے کیا جو فدا کریں تجھ پر

مگر یہ زندگی مستعار رکھتے ہیں

اسی حالت میں مستانہ وار’’لبیک اللّٰھم لبیک لا شریک لک لبیک‘‘(میںحاضر ہوں حاضرہوں، اے اللہ میںحاضرہوں تیرا کوئی شریک نہیں میںحاضر ہوں) کا نعرہ لگاتے ہوئے روتے اورآنسوئوں سے دامن ترکرتے ہو ئے نا لہ وفریاد کرتے ہوئے دربار عالی میںحاضرہوتے ہیں ۔

محبوب حقیقی مسروروخوش ہوکر فرشتوں سے فرمارہاہے:’’میرے گھرکے مشتاقوں کودیکھو ،میری طرف بکھرے ہوئے بالوں اورغبارآلودجسموں کے ساتھ اس حال میں آئے ہوئے ہیں کہ    ع

جگر میں ٹیس ، دل میں درد ، لب پہ آہ و نالے ہیں

یہ ہرطرف سے کھنچ کھنچا کر آجمع ہوئے ہیں گلی کوچوںمیں،سڑکوں پر،بازاروںمیں، خیموںمیں،محلوں میں بس جہاں دیکھو وہی ہیں، رات ہوکہ دن ہو، جب دیکھواپنے رب کی تجلی گاہ خانہ کعبہ کے گردچکرلگارہے ہیں،دوڑدوڑکر حجراسود کوچومتے جارہے ہیں، غلاف کعبہ ہاتھ میں آگیاتولپٹ لپٹ کر رورہے ہیں جیسے دامن یارہاتھ میں آگیا ہو،چھوڑنے کا جی نہیں چاہتا ۔

یہ سب ہوہی رہاتھا کہ معشوق ازلی کا اشارہ پاکر اپنی مجنونانہ شان کے ساتھ نکلے اوربھاگے بھاگے عرفہ پہنچے، ابھی دل بھرکردعا بھی نہ کرنے پائے تھے کہ معشوق نے کسی اورسمت کوڈھکیلنا اورکھینچنا شروع کیا، عاشق کی سب سے بہترین ادا اورعشق کا مظہرنمازجس کومحبوب سب سے زیادہ پسند کرتا ہے اس کوآج ایک وقت میں دوملاکر پڑھیںگے، ظہروعصر ساتھ اداہوںگی اوررخت سفرباندھ لیاجائے گا، عین سفر کی حالت میں رات کی تاریکی آگھیرے گی، سورج اپنی کرنوں کوسمیٹ کر نماز مغرب کا اعلان کرچکاہوگا مگرنمازکیوںکراداکریںجب کہ منزل پر پہنچنے سے قبل کہیں ٹھہرنے کی اجازت نہیںہے،مغرب عشاء دونوں ساتھ میںاداہوںگی جب رات کی سیاہی پوری طرح چھاچکی ہوگی، عشاق کے یہ قافلے اپنی منزل پر پہنچیںگے اورمحبوب کی یادمیںآنکھوں آنکھوں میںرات کاٹیںگے۔جس کے دل میں کچھ چوٹ ہو،کوئی زخم لگاہو،دیوانگی سے کبھی سابقہ پڑا ہووہی اس حقیقت کوسمجھ سکتا ہے اوراس کا مزہ لے سکتا ہے۔

دیکھئے منیٰ میں غصہ سے بھرے ہوئے عاشق ومعشوق کے درمیان حائل ہونے والے، بہکانے اوروسوسہ ڈالنے والے شیطان کوکس طرح کنکریاں ماری جارہی ہیں، اس کو ذلیل ورسوا کیا جارہاہے، تیری مجال کہ توعشق کی بھڑکتی ہوئی آگ کواپنے مکروفریب سے بجھاسکے، مستی کا عالم طاری ہے معشوق کا ڈرنہ ہوتا، اس کے ناراض ہونے، حکم کی خلاف ورزی کا خطرہ نہ ہوتا توکتنے اپنی جان تک کوقربان کردیتے، اس مدہوشی کے عالم میںبھی اتنا ہوش ہے کہ ان کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہوجذبہ بے تابی کوتسکین دینے کی خاطراتنی اجازت مل گئی کہ اگرتم جاںنثاری کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہوتومیرے نام پر جانوروں کی گردنوں پر چھری چلائو، آن کی آن میںہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میںزمین پر پڑے ہوئے جانورنظرآرہے ہیں،خون کی نہریں جاری ہیں،گردنوں پر چھریاں پھیری جارہی ہیں، کوئی کہہ سکتا ہے کہ چشم فلک نے عشق ومحبت کی ایسی ادا کہیں اوردیکھی ہے،تاریخ نے کوئی ایسا واقعہ ریکارڈ کیاہے؟میلے اوربھیڑ بھاڑکے مناظر توشاید نظرآئیںگے، مگریہ ادائے عاشقانہ کہاں کسی نے دیکھی ہوگی اوریہ سب کچھ یوں ہی نہیں ہورہاہے،کوئی ضرورجلوہ گرہے، ہونہ ہوکسی کی ادائے دلبرانہ کا رفرماہے۔

حج کی ان اداؤں سے فارغ ہوںگے تو نبی امی محسن انسانیت کے دردولت پر حاضری کے لیے مدینہ منورہ روانہ ہوں گے،، جس نے عشق کی یہ آگ لگائی ہے بھانت بھانت کے لوگ ہوںگے، کالے گورے عربی، عجمی سبھی ہوںگے، درودوسلام سے فضا گونج اٹھے گی ۔

ادب سے سلام ہوگا، ہونٹوںمیں حرکت اورآنکھوں سے آنسوجاری ہوںگے عشق ومستی کا عجیب عالم ہوگا، بہ زبان حال کہہ رہے ہوںگے    ؎

یہ دل کی جلن آنکھوں کی نمی صدقہ میں تمہارے ہم کو ملی

کیا نعمت عظمیٰ ہاتھ لگی سرکار دوعالم صلّ علیٰ

یہ ہیں حاجیوں کی وہ ادائیں جن کوسن کر اورپڑھ کر حج کا شوق ہوتا ہے اورہربندۂ مومن اس کے اشتیاق میں بہ زبان حال کہہ دیتا ہے    ؎

دل کو یہ آرزو ہے صبا کوئے یار میں

ہمراہ تیرے پہنچے اُڑ کر غبار میں

شمس الحق ندوی