رمضان المبارک کا آخری عشرہ اعتکاف اور شب قدر کی مبارک گھڑیاں
May 16, 2018مشکلات کے سامنے سپراندازی جوانمردوں کا کام نہیں!
June 28, 2018عید کے بعد کی ذمہ داریاں
رمضان المبارک میں پوری دنیا کے مسلمان جس فکرواہتمام کے ساتھ روزہ رکھتے ہیں ،کھانے پینے ہی کی چیز وں سے نہیں بلکہ تمام خلاف شرع باتوں سے اپنے کوبچاتے اوردوررکھتے ہیں اوراس کی فکروکوشش کرتے ہیں، وہ اصلاً ان کویہ سبق دیتے ہیں کہ اگربندئہ مومن ذراہمت سے کام لے تواس کی پوری زندگی اسلامی تعلیمات کے سانچہ میں ڈھل سکتی ہے، اوردنیاکاسفراللہ تعالیٰ کی رضااورخوشنودی کے ساتھ طے ہوسکتاہے لیکن تھوڑاسااپنے نفس کوبہلانا و پھسلانا پڑے گا جس کو علامہ ابن جوزیؒ نے بڑے اچھے اوردل میں اترجانے والے انداز میں بیان فرمایاہے۔ فرماتے ہیں کہ بشرحافی رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کہیں جارہے تھے، ساتھی کوپیاس لگی، اس نے کہا کہ اس کنویں سے پانی پی لیں، بشرحافی نے کہاکہ اگلے کنویں سے پی لیں گے،جب وہ کنواں آیا تو بشرحافی نے دوسرے کنویں کی طرف اشارہ کیاکہ وہاں تک صبرکرو، اسی طرح تسلی دیتے ہوئے بہت دورلے آئے، پھراس سے کہا کہ اسی طرح دنیاکاسفر طے ہوجاتاہے،واقعہ یہ ہے کہ جس نے اس نکتہ کو سمجھ لیا،وہ اپنے نفس کوبہلائے گا،اوراس سے وعدہ کرتارہے گاتاکہ وہ اپنے بوجھ کوسنبھال سکے اوراس پر صبر کرسکے،بعض بزرگان سلف فرماتے تھے کہ:’’اے نفس! میں تجھے تیری مرغوب چیزوں سے جو روکتا ہوں تومحض شفقت اورخوف کی بناپر‘‘۔
بایزیدبسطامی کاقول ہے:’’ اپنے نفس کوخداکی طرف بڑھائے لیے جاتاتھا،اوروہ روتاتھا،پھرہنستاکھیلتااللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے لگا، یادرکھناچاہیے کہ نفس کی خاطر داری اورملاطفت ضروری ہے اورراستہ اسی طرح طے ہوتاہے‘‘۔
مزیدفرماتے ہیں :’’ایک مرتبہ ایک ایسے معاملہ میں جوشرعاً مکروہ تھا،مجھے کچھ کشمکش درپیش تھی، نفس کچھ تاویلیں لاتا تھا، اورکراہت کونظرسے ہٹاتاتھا ، درحقیقت اس کی تاویلات فاسدتھیں اورکراہت کی کھلی ہوئی دلیل موجود تھی، میں نے اللہ کی طرف رجوع کیااوردعاکی کہ ا س کیفیت کودورفرمادے، قرآن مجید کی تلاوت شروع کردی، میرے درس کے سلسلہ میں سورئہ یوسف شروع ہورہی تھی، میں نے وہیں سے شروع کیا، وہ خیال دل پرمستولی تھا،مجھے کچھ خبرنہ ہوئی کہ میں نے کیاپڑھا ،جب اس آیت پرپہنچا’’ قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ اِنَّہُ رَبِّیْ اَحْسَنَ مَثْوَایَ‘‘تومیں چونکااور اورآنکھوں سے غفلت کا پردہ دورہوا،میں نے (تاویل کرنے والے) اپنے نفس سے کہا:تونے خیال کیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام غلام نہ تھے،وہ زبردستی اورظلم سے غلام بناکربیچے گئے تھے، انھوں نے اس شخص کااتناحق مانا جس نے ان کے ساتھ سلوک کیا تھا اوراس کواپناآقاکہاحالانکہ وہ غلام نہ تھے، مجھے اچھی طرح رکھا،(میں نے نفس سے کہا )اب ذرا غور کر ،تو حقیقتاً غلام ہے ایسے آقا کا جوتیرے وجود کے وقت سے برابر تیرے ساتھ احسانات کرتارہا،اور اتنی بار اس نے تیری پردہ پوشی کی جس کاکوئی شمار نہیں، تجھے یاد نہیں کہ اس نے کس طرح تیری پرورش کی ،تجھے سکھایا،پڑھایا،تجھے روزی دی، تیری حفاظت کی ،خیرکے اسباب مہیاکیے، بہتر ین راستہ پر تجھے ڈالا اورمکر ودشمنی سے تجھے بچایااورحسن صورت ظاہری کے ساتھ باطنی ذکاوت وجودت طبع عنایت فرمائی، علوم کوتیرے لیے سہل بنادیا‘‘۔
پورا رمضان بھوک پیاس کی سختی پرروزہ دارکس طرح اپنے نفس کوبہلاکر مکمل کرتاہے کہ دیکھو ابھی ظہرکاوقت آنے والا ہے،آدھے سے زیادہ وقت کٹ گیا، عصر کاوقت آگیا، تسلی دیتاہے کہ اب افطار کاوقت قریب آرہاہے ،تھوڑی ہی دیرمیں افطارکاوقت آجائے گا ،اس سہارے روزہ کا پورامہینہ گذر جاتا ہے،ذکروتلاوت میں بھی دل لگتاہے، روزہ کے ادب میں دوسری غلط باتوں جھوٹ، غیبت ،وعدہ خلافی ، چوری ،ظلم وزیادتی غرض یہ کہ ان تمام باتوں سے جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہیں، اپنے کوان سے بچاتاہے ،گویایہ پورامہینہ اس کی تربیت اورشریعت پرچلنے کی عادت ڈالنے کا مہینہ ہوتا ہے۔
مفکراسلام حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندویؒ نے فرمایا کہ:’’ رمضان کاروزہ چھوٹا روزہ ہے جوصبح صادق سے لے کر غروب آفتاب پراوررمضان المبارک کی پہلی تاریخ سے لے کر ۲۹، یا ۳۰؍ تاریخ پرختم ہوجاتاہے ،بڑاروزہ تووہ ہے جو بلوغ سے لے کرموت پرجاکرختم ہوتاہے، یہ چھوٹاروزہ اسی بڑے روزہ کودرست کرنے کے لیے فرض کیا گیاہے لیکن جب ہم بڑے روزہ کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ ہم اس بڑے روزہ کو توڑنے کاکام برابر کرتے رہتے ہیں،اور اس کا احساس تک نہیں ہوتا،عید کے چاند کے ساتھ چھوٹا روزہ اپنی پوری خصوصیات کے ساتھ چلا گیا اور اب ہم آزاد ہوگئے جوچاہیں کریں، وعدہ خلافی کریں، کمزورکاحق مارلیں ،پڑوسیوں کوستائیں، رشتوں کوتوڑدیں ،محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ توکریں لیکن آپؐ کی سنتوں پرعمل نہ کریں، اس عارضی اورفانی دنیاکوبنانے اوراس کے کمانے میں اس طرح لگ جائیں کہ حرام وحلال کاخیال دل سے جاتارہے اورسوائے کمانے کھانے، مال جمع کر نے کے اورکوئی فکر ہی نہ رہے،اورجب بارگاہ ِخداوندی میں حاضری کا وقت آئے توبڑی حسرت کے ساتھ زبان اس طرح کھلے:’’یَالَیْتَھَا کَانَتِ الْقَاضِیَۃُ،مَا اَغْنَی عَنِّیْ مَالِیَہْ، ہَلَکَ عَنِّیْ سُلْطَانِیَہْ ‘‘[سورہ حاقہ: ۲۷-۲۹](اے کاش! موت ابد الآ باد کے لیے میرا کام تمام کرچکی ہوتی،آج قوت وطاقت اور میرا مال میرے کچھ بھی کام نہ آیا، ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی)۔
اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اس افسوس و حسرت کی گھڑی سے بچاکراپنی پناہ میں رکھے ، اوران کاموں سے بچائے جو آفت وحسرت کا سبب ہوں گے۔
شمس الحق ندوی