ماہ شعبان کی فضیلت اور خیر و برکات

اسلام : اللہ کی رضا جوئی کا نام
مارچ 15, 2020
Cómo aprender a programar: La guía que desearía haber tenido cuando empecé a aprender a programar
مئی 5, 2020
اسلام : اللہ کی رضا جوئی کا نام
مارچ 15, 2020
Cómo aprender a programar: La guía que desearía haber tenido cuando empecé a aprender a programar
مئی 5, 2020

ماہ شعبان کی فضیلت اور خیر و برکات

’’تعمیرحیات‘‘کایہ شمارہ ہمارے قارئین کے ہاتھوں میںاس وقت ان شاء اللہ پہنچے گا جب شب برأت یعنی شعبان کی پندرہویں رات قریب ہوگی جس کی خیرو برکات اورفضلتیں ایسی ہیں کہ ان کوجان کرمسلمان کواس رات کوذکروتلاوت اور نوافل میں گذرانے کے ساتھ دن میں ر وزہ رکھنے کالطف ومزہ آئے اوراس کے روئیں روئیں سے اللہ کاشکر نکلے ۔

اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینہ اورخاص کراس رات کااتنا اہتمام فرماتے تھے ،ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپؐ سجدہ میں گئے توسراٹھاہی نہیں رہے ہیں ،اتنالمبا سجد ہ فرمایاکہ میں ڈرگئی کہ کہیں آپ کی روح پرواز تو نہیں کرگئی، گھبراکرتلوے کو چھوا تو حرکت ہوئی جب جاکرجان میں جان آئی ،وہ بڑاخوش نصیب ہے جس نے اس مہینہ میں رضائے الٰہی کی خاطر اخلاص ولگن کے ساتھ اعمال خیرکرے، فقراء ومساکین ،یتیموں اوربیواؤں پرخرچ کے لیے ہاتھ کھلا رکھے، اس مہینہ کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، عمل صالح بارگاہِ خداندوی میں پہنچائے جاتے ہیں ،اس مہینہ کی پندرہویں رات میں موت کادن متعین ہوتا ہے اوررزق کی تقسیم ہوتی ہے، پورے عالم پررحمت چھائی ہوتی ہے، اپنے کلام پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:’’فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍحَکِیْمٍ، اَمْراً مِّنْ عِنْدَنَا اِنَّاکُنَّا مُرْسِلِیْنَ، رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ اِنَّہُ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ، رَبِّ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا اِنْ کُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ‘‘[سورہ دخان: ۴- ۷](اسی رات میں تمام حکمت کے کام طے کیے جاتے ہیں،(یعنی )ہمارے یہاں حکم ہوکر، بیشک ہم ہی پیغمبر کوبھیجتے ہیں، یہ پروردگار کی رحمت ہے، وہ تو سننے والااورجاننے والا ہے جوکہ آسمانوں اورزمین کا اورجوکچھ ان دونوں میں ہے، سب کامالک ہے، بشرطیکہ تم لوگ یقین کرنے والے ہو)۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رات آسمان دنیا پہ غروبِ آفتاب سے صبح صادق تک تجلی فرماتاہے اورارشاد فرماتاہے: ’’جوشخص اپنے گناہوں کوبخشواناچاہے بخش دوں گا، جوروزی حاصل کرناچاہے اس کوروزی دوں گا،اورجوکسی مصیبت میں ہواس کی مصیبت دورکردوں گا‘‘۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ بہت سے لوگ اس رات کونوافل وعبادت میں گذرانے کے بجائے پوری رات پٹاخے چھڑانے اورتفریح و چراغاں کرنے میں گذاردیتے ہیں ،ہوناتویہ چاہیے کہ غریبوں اورضرورتمندوں پرخیرخیرات کریں جس سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی دورہوتی ہے، ا ور صدقہ جہنم کی آگ سے بچاتاہے ،ایسے کاموں میں اوران چیزوں میں روپے لگاناجواللہ کوپسند نہیں ،ان کواللہ تعالیٰ نے شیطان کا بھائی کہاہے، فرمایا:’’اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ ‘‘[بنی اسرائیل :۲۷]،ایک اور حدیث میں ہے:’’اتّقوا النار ولو بشقّ تمرۃ‘‘(جہنم کی آگ سے بچوچاہے کھجورکے ٹکڑے ہی کے ذریعہ کیوں نہ ہو)،چونکہ عرب کاماحول کھجور کاتھا،اس لیے کھجور کاٹکٹراکہا،مرادیہ ہے کہ جوبھی گنجائش ہو،خرچ کرو، کم زیادہ کاخیال نہ کرو، سورئہ ’’ن‘‘ کے پہلے ہی رکوع میں صدقہ نہ دینے کے تعلق سے قرآن مجید نے کتنا سبق آموز واقعہ بیان کیاہے ،وہ اس طرح ہے کہ:

’’اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کوکھیتی اورباغات دے رکھے تھے جب پھل توڑے جاتے اور غلہ نپٹایاجاتاتوغریب اور ضرورتمند آجاتے اوروہ ان غریبوں کودے دیاکرتاتھا،جب اس کاانتقال ہوگیاتولڑکوں نے یہ طے کیاکہ ہم ان غریبوں کو بے کار دیتے ہیں ،اب نہ دیا جائے اوراس کی ترکیب یہ سوچی کہ جب پھل اورکھیتی تیار ہو،راتوں رات غلہ نپٹا کر گھرمیں رکھ دیاجائے، پھل بھی اسی طرح گھرلائیں کہ ان غریبوں کوخبر نہ ہو، چنانچہ ایساہی کیا، کھیتی تیار ہوئی توراتوں رات کھیتی کاٹنے پہنچے ،وہاں پہنچ کر دیکھتے ہیں کہ کھیتی تباہ وبرباد ہوچکی ہے، اس بری طرح کہ جگہ بھی نہیں پہچان پارہے ہیں ، پہلے تو ان کوخیال ہواکہ جگہ بھول گئے لیکن جب ادھرادھرکی علامات کودیکھاتومعلوم ہوا کہ انہی کے کھیت ہیں، عذابِ خدواندی نے (ہماری بدنیتی کی وجہ سے ) اسی کوبرباد کردیا ہے، افسوس کیا،سب نے توبہ واستغفار کیا،اوراللہ تعالیٰ سے معافی مانگی،اور توبہ کیا۔

اس قرآنی واقعہ کی روشنی ہی ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ شیطان ہم کو اس رات کن کھیل تماشوں میں لگاکراللہ کے غصہ کو ٹھنڈاکرنے والے عمل سے دورکردیتا ہے، جو حضرات اس مبارک مہینہ میں اس کی خیرو برکات کی فضیلت سے واقف ہیں ،ان کایہ فریضہ ہے کہ عوام کوجوبیچارے ناواقف ہیں اورظاہری چیزوں میں ان کومزہ آتا ہے، انھیں محبت ونرمی کے ساتھ خیرخواہی اور ہمدردی کے انداز میں بتائیں اور سمجھائیں کہ یہ خود ایک بہت بڑی عبادت ہے کہ نیکی کاکام بتانے والے کوبھی وہی ثواب ملتا ہے جوکرنے والے کو۔
٭٭٭٭٭
شمس الحق ندوی