ایمان اور عمل صالح
اکتوبر 23, 2019انسانی عقل وفکر کی درماندگی
دسمبر 6, 2019مسلسل اشاعت کا ۵۷ واں سال
الحمد للہ پندرہ روزہ ’’تعمیرحیات‘‘ماہِ اکتوبر میں اپنی عمرکے ۵۶ سال پورے کرچکاہے،یہ اس کے۵۷ ویں سال کا پہلاشمارہ ہے جواس وقت آپ کے ہاتھوں میںہے ،’’ تعمیرحیات‘‘ کے اجراء کامقصددعوت واصلاح، دینی اسلامی تربیت اوراسلام ومسلمانوںکے خلاف کی جانے والی ایسی گہری سازشوں سے مسلمانوںکوباخبررکھنااوراس سے دوررہنے اوربچنے کی دعوت دینارہاہے کہ ایسانہ کرنے میںمسلمان غیرشعوری طورپرالحادودہریت کا شکار ہوجائیں۔ خودستائی پر محمول نہ کیا جائے تویہ کہنابجاہوگاکہ مستشرقین اوریورپین قوموںکی گہری سازشوںکوسمجھنے اوراس کاپردہ فاش کرنے میںتعمیرحیات کو امتیاز حاصل ہے، جواس کے جہاںدیدہ اورتاریخ پرگہری نظررکھنے والے سرپرستوں اوران کے نیازمندوںکے قلم سے نکلتا رہتاہے۔
چونکہ میڈیاایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسلام ومسلمانوںکے خلاف ہی خبریں شائع کرتاہے کہ مسلمانوںکے حوصلے پست ہوں،اس لیے تعمیرحیات اصلاح وتربیت ،اخلاق واخلاص کے موضوع پرمضامین شائع کرنے کے ساتھ ایسی خبریں اورمضامین شائع کرتاہے جوحوصلہ بڑھانے والے ہوں،چنانچہ بعض قارئین نے کہاکہ’’ تعمیرحیات‘‘ پڑھ کر معلوم ہوتاہے کہ ہم زندہ ہیں۔
’’تعمیرحیات‘‘نے ہمیشہ اہل سنت والجماعت کے فکروعمل کی ترجمانی کی کوشش کی ہے،خواہ عقائدونظریات ہوں یا احکام ومسائل شریعت، ’’تعمیرحیات‘‘ نے ہمیشہ اہل سنت والجماعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے وسعت اختیار کرنے کی کوشش کی ہے،اور ایسے افکارونظریات پیش کرنے کی کوشش کی جو اہل حق کے تمام مکاتب فکرکے لیے قابل قبول ہوں،اور وہ ایک نظریہ اور راہِ عمل اختیار کرسکیںجس سے ان کی کوششوں میں یکسانیت و وحدت کی شکل قائم ہو،اور امت ایک متحدہ پلیٹ فارم پر جمع ہوسکے۔
یہ بھی ایک المیہ ہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے خاص طور پروطن عزیز میں ملت اسلامیہ کے افراد میںدینی شعور اور اسلامی ذہنیت میں مسلسل انحطاط پیدا ہوتاجارہاہے ،جس کی وجہ سے خالص علمی زبان سے ناواقفیت بڑھتی جارہی ہے،اس وجہ سے مضامین کے انتخاب وترتیب میں ہرسطح کے لوگوں کی رعایت ناگزیر ہے تاکہ عوام وخواص دونوں طبقے مستفید ہوسکیں۔
’’تعمیرحیات‘‘نے حالات کے اتار چڑھاؤسے گھبرانے کے بجائے ہمت وحوصلہ اور خود اعتمادی پیدا کرنے والے مضامین شائع کرنے کا اہتمام رکھا ہے، ’’تعمیر حیات‘‘خلوص ،قربانی اور ایثارو خدمت کا جذبہ پیدا کرنے والے مضامین سے بھی اپنے قارئین میں صحیح دینی بیداری پیداکرنے کی فکرو کوشش کرتا رہاہے،حالات کے مقابلہ کے لیے جذباتی اور جوش وخروش کا انداز اپنانے کے بجائے حکیمانہ اور باوقارطریقہ اپنانے کی دعوت دیتا رہاہے،اس لیے کہ قوم و ملت کی فلاح وکامیابی صرف جذبات ،جوش وخروش اور ہنگاموں سے نہیں ہوتی،بلکہ حکیمانہ اور مدبرانہ طریقۂ کار کے اپنانے سے ہوتی ہے،جس کی بہترین مثال حضرت مجدد الف ثانی کا طریقۂ دعوت ہے،اگر وہ یہ حکیمانہ انداز چھوڑکرجوش جذبہ کا طریقہ اپناتے،اور ’’کلمۃ حق عند سلطان جائر‘‘کے جوش میں حکومت وقت سے ٹکرائے ہوتے تو چند رفقاء کی شہادت کے سوا کچھ اور ہاتھ نہ آتا،اور ایک دہریہ حکومت کے رخ کوموڑنے کے لیے انہوں نے جو صبر آزما طریقہ اپنایا،اور اس کے نتیجہ میں ہر آنے والا بادشاہ بہتر سے بہتر رخ کی طرف چلا ،پھر اورنگ زیبؒ جیسے مثالی حکمراں نے دین اسلام کی حفاظت اور نشرواشاعت کا جو کارنامہ انجام دیا،اور خلفائے راشدین کی یاد تازہ کی،یہ نہ ہوتا۔
اسی طرح ’’تعمیرحیات‘‘جب کمزوریوں کی نشان دہی کرتاہے تو تنقیدوتبصرہ میں جارحانہ انداز نہیں اپناتاکہ جس کے رد عمل کے نتیجہ میں تعمیر کے بجائے تخریب کا ماحول بنے،شاعر اسلام علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے ایک خاص ماحول میں مسلمانوں کواپنے مقام بلند پرقائم رہنے کی دعوت دیتے ہوئے کہاتھا ؎
تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج
عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان
اپنی خودی پہچان ، او غافل افغان
علامہ محمداقبالؒ نے اس سے علماء حق کی تحقیر نہیں کی ہے،بلکہ ان دین فروشوں سے آگاہ کیاہے،جو دین کا لبادہ اوڑھ کر دنیا کماتے ہیں،جس کو حدیث شریف میں علماء سوء کاتذکرہ کرتے ہوئے کہاگیاہے:’’یبیع دینہ بعرض من الدنیا‘‘دنیا کے تھوڑے فائدہ کے لیے دین کو بیچ دیتاہے۔
’تعمیرحیات‘اپنے خاص انداز میں اس بات کی طرف بھی متوجہ کرتارہاہے کہ تاویلات کے ذریعہ اہل علم کا طبقہ دنیا کی محبت کا شکار ہونے سے اپنے آپ کو بچائے۔’تعمیرحیات‘ اپنے قارئین کا دینی ذہن بنانے کے سلسلہ میں ان کی علمی سطح نیز عقل وفہم کا لحاظ رکھتاہے،جو ندوۃ العلماء کے اس مسلک کا عکس ہے ،جو اس نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس قول پر رکھاہے:’’کلّموا الناس علیٰ قدر عقولھم أتریدون أن یکذّب اللّٰہ ورسولہ‘‘ یعنی لوگوں سے ان کی عقلوں کا خیال رکھتے ہوئے گفتگو کرو،کیا تم چاہتے ہوکہ خداورسول کو جھٹلایاجائے۔
خداکاشکر ہے کہ ’تعمیرحیات‘کے تعمیری انداز سے قارئین کو فائدہ پہنچا،اس کے بہت سے مضامین اور اداریے ہندوپاک کے اخبارات ورسائل کی زینت بنے،اس سب کے باوجود ’تعمیرحیات‘ کے کارکنان بہر حال انسان ہیں،اس لیے خطاونسیان کا پیش آنا،چوک ہوجانا،بعید از قیاس نہیں۔
’تعمیرحیات‘ اپنے قارئین میں یہ احساس بھی پوری طاقت کے ساتھ پیدا کرنے کی کوشش کرتاہے کہ مسلمانوں کی قومیت دوسری قوموں کی طرح کسی خاص خاندان اور برادری یامحض مذہبی لیبل کی بنیاد پر نہیں ہے،بلکہ اس کی قومیت کی حقیقت ان سب قومیتوں سے کہیں بلندوبرترہے،وہ یہ کہ مسلمان وہ جماعت ہے جو اللہ کی طرف سے ایک خاص پیغام لے کر دنیا میں آئی ہے،اس پیغام کو قائم رکھنا اور اس کو پھیلانااور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا،اس کی زندگی کا تنہا فریضہ ہے،اس پیغام کے ماننے والوں کی ایک امتیازی شان رکھنے والی برادری ہے،اس حقیقت کے ظاہر ہونے کے بعد مسلمان قوم کا سب سے بڑا فرض اس پیغام الٰہی کی معرفت ،اس کی بجا آوری،اس کی تعلیم،اس کی دعوت اور اس کی اشاعت ہے،نہ کہ محض نام کا مسلمان ہونا۔
’تعمیرحیات‘ نے اپنے قارئین میں یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ دشمن سے زیادہ گناہوں سے ڈراجائے کہ مسلمانوں کی مدد اسی بنیاد پر اللہ تعالیٰ فرماتاہے،اگر مسلمان اور اس کے دشمن گناہ میں برابر ہوئے تو دشمنوں کو ان پر غلبہ حاصل ہوگا،اس لیے کہ جب وسائل کا وسائل سے ٹکراؤ ہوگا تو جس کے وسائل زیادہ ہوں گے،وہ غالب آئے گا،اسی لیے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے کمانڈر کو یہی ہدایت کی تھی کہ تم دشمن سے زیادہ گناہوں سے ڈرنا کہ دشمن کے مقابلہ میں تمہاری مدد اسی بناپر کی جاتی ہے۔
’’تعمیرحیات‘‘ اس بات کابھی لحاظ رکھتاہے کہ مسلم ممالک کے حالات بھی سامنے آتے رہیں،وہاں پیداہونے حالات کے اسباب کاگہرائی سے جائزہ لیاجائے اور اس سے نہ صرف باخبررہاجائے بلکہ اس سے جوغلط ونقصان دہ اثرات مرتب ہوںگے، ان سے باخبرکیاجائے، اللہ تعالیٰ کابے حدوحساب شکرہے کہ ’’ تعمیرحیات‘‘ کے مضامین ہندوپاک کے اکثر اخبارورسائل میںنقل ہوتے رہتے ہیں۔
’’تعمیرحیات‘‘ قمری مہینوںکی مناسبت سے بھی مضامین کوتازہ کرتارہتاہے کہ تذکیرویاددہانی سے عمل کانیاشوق وجذبہ پیدا ہوتا رہے، چنانچہ شعبان ، رمضان ،ذی الحجہ، ربیع الاول کی مناسبت سے مضامین شائع کرتے رہنے کااہتمام کرتاہے، جس سے بہت سی بدعات وخرافات کی بھی تردیدہوتی رہتی ہے اور جذبۂ عمل بھی ابھرتا ہے، تعمیرحیات پوری قوت و طاقت اوریقین واعتمادکے ساتھ یہ بات پیش کرتاہے کہ گردش لیل ونہارچاہے کتنی ہی کروٹیںبدلتے رہیں، اسلام ایک ابدی دین ہے وہ ہر موقع پرزمانہ کی رہنمائی کرتارہے گا۔ہم اپنی بات مفکر اسلام رحمۃ اللہ علیہ کے ان فکر انگیز الفاظ پر ختم کرتے ہیںجن کی آج دنیا کو سب سے زیادہ ضرورت ہے،حضرت مولانامرحوم فرماتے ہیں کہ:’’اسلام اپنے اصولوں کے ذریعہ جو قرآن مجید میں مذکور ہیں خواہ وہ اخلاقی ہوں یا تمدنی،خواہ افراد کے باہمی رشتوں سے تعلق رکھتے ہوں یا ان کی خارجی زندگی سے ان اصولوں کے ذریعہ عہد جدید کے نہ صرف جائز تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے بلکہ عصر جدید کو اس تباہی سے بھی بچا سکتا ہے جو تلوار کی طرح اس کے سرپر لٹک رہی ہے‘‘۔
شمس الحق ندوی