ماہِ رمضان ۔ ذکر و عبادت کا موسم بہار

ماہِ شعبان میں رحمت الٰہی کے جھونکے
اپریل 19, 2018
رمضان المبارک کا آخری عشرہ اعتکاف اور شب قدر کی مبارک گھڑیاں
مئی 16, 2018
ماہِ شعبان میں رحمت الٰہی کے جھونکے
اپریل 19, 2018
رمضان المبارک کا آخری عشرہ اعتکاف اور شب قدر کی مبارک گھڑیاں
مئی 16, 2018

ماہِ رمضان ۔ ذکر و عبادت کا موسم بہار

ماہِ رمضان ۔ ذکر و عبادت کا موسم بہار
شمس الحق ندوی
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پرکیسے کیسے انعامات فرمائے ہیں ،انھیں انعامات میں سے رمضان المبارک کی برکات و نوازشات بھی ہیں کہ اس ماہِ مبارک میںنفل ومستحب کاموں کااجرفرض کے برابر ہوتاہے اور فرض کاثواب سترفرض کے برابر ہوتاہے، آخری بات یہ کہ معدہ خالی ہونے کی وجہ سے روزہ دارکے منہ سے جوبوآتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کومشک کی خوشبوسے بھی زیادہ پسندہے ،ان روزہ داروں میں وہ غریب وفقیرمسلمان بھی ہوتے ہیں جن کوبھرپیٹ کھانانصیب نہیں ہوتا،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک کے خطبہ میں فرمایا:جس شخص نے رمضان المبارک میں کسی روزہ دار کاپیٹ بھرا،اللہ تعالیٰ اس کوہمارے حوض سے اتنا پلائے گاکہ وہ جنت میں داخل ہونے کے وقت تک پیاسانہ ہوگا،یہی وجہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ماہ مبارک میں عام دنوں سے کہیںزیادہ ان ضرورت مندوں پرخرچ فرماتے تھے۔
روزہ کی بہت سی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ وہ خوش حال اورمال دارلوگ جن کوہرطرح کی نعمتیں حاصل ہیں،کھاتے پیتے ،آرام وراحت کی زندگی گذارتے ہیں، روزہ کی بھوک پیاس ان میں یہ احساس پیداکرے گی کہ وہ اللہ کی دی ہوئی روزی میں سے ان غریبوں،محتاجوں ،بیواؤں اوریتیموں پربھی خرچ کریں جو بھوک پیاس میں زندگی گذارتے ہیں، اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ: غریبوں پرخرچ کرنایعنی صدقہ وخیرات اللہ تعالیٰ کے غصہ کوختم کرتاہے ،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کی جوغریبوں اورمحتاجوں پرخرچ کرتے ہیں، اپنے کلام پاک میں اس طرح تعریف فرمائی ہے: ’’وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِیْناً وَّیَتِیْماً وَّاَسِیْراً‘‘۔
اس مبارک مہینہ کی خیروبرکات ہی کایہ اثر ہے کہ جب رمضان المبارک کی پربہار گھڑیاںشروع ہوتی ہیںتوموسم کی سردی گرمی کی پرواہ کیے بغیر مومن وخوش نصیب بندے روزہ ضروررکھتے ہیں، کم ہی بدنصیب ایسے ہوتے ہیں جوروزہ نہیں رکھتے ،ماہ مبارک کاچاند نکلانہیں کہ مسجد یں بھرجاتی ہیں ،بہت سے لوگ اور نوجوان جوکبھی مسجدمیں نہیں دکھائی دیتے تھے وہ بہت ادب کے ساتھ مسجدمیں آتے ہیں اورروزہ وتراویح کاایسا روحانی ماحول شروع ہوجاتاہے، جس کوایک عام آدمی بھی محسوس کرتاہے، اوراس میں مزہ آتاہے ،ہرایک دوسرے سے خوشی و بشاشت کے ساتھ ملتاہے ،سحروافطار کا بڑادلکش منظر ہوتاہے ،پوری دنیا کاجہاں کہیں بھی مسلمان بستے ہیں ،یہی ماحول ہوتاہے ،حدیث شریف میں آتاہے کہ: رمضان المبارک میں مومن کارزق بڑھادیاجاتاہے، چنانچہ قسم قسم کی افطاری کی چیزوں کی تیاری اورخریدوفروخت کی چہل پہل کاعجب منظر ہوتاہے ،کھانے اورافطاری کی ایسی ایسی چیزیں تیارہوتی ہیں جورمضان ہی کے ساتھ مخصوص ہیں۔
روزہ ہی کے احترام میں یہ حکم ہے کہ اپنے ملازمین کے کاموں کوہلکا کردیا کروجو شخص ایساکرتاہے اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیتے ہیں، سحروافطار اور تراویح اورزیادہ سے زیادہ تلا وت قرآن کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ: اس مبارک مہینہ میں چارچیزوں کاخوب خیال رکھو،دوچیزیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے واسطے اوردوچیزیں ایسی ہیں کہ ان کاکرنابہت ضر وری ہے ،پہلی دوچیزیں جن سے تم اپنے رب کوراضی کرو،وہ کلمۂ طیبہ اور استغفارہے،لہٰذااس کی بڑی فکرکرو اوردوسری دوچیزیں یہ ہیں کہ خداسے جنت مانگواورجہنم سے پناہ مانگو،ایک حدیث میں آتاہے کہ: جب بندہ جہنم سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتاہے توجہنم کہتی ہے اللہ تعالیٰ تواس بندہ کو میرے اندرنہ داخل کرنااورجنت مانگتاہے توجنت اللہ تعالیٰ سے کہتی ہے اللہ تعالیٰ اس بندے کو میرے اندرداخل فرمانا،رمضان المبارک میں یہ دعامانگناکتناضروری ہے کہ اس ماہ کی دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں،طلوع صبح صادق سے لے کرغروب آفتاب تک چاہے کتنے ہی لذیذکھانے موجودہوں ،کوئی روزہ داراس کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے گا،کتنی ہی پاکیزہ اورحلال کمائی ہواس کاکھاناحرام سمجھے گا۔
امیروغیریب، آقاوغلام سب ایک ہی حال میں ہوں گے ،بھوک پیاس کے سا تھ سب کے سب کی زبانیںجھوٹ وغیبت سے بدزبانی اورگالی گلوج سے رکی رہیں گی ،بلکہ زبانوں پر ذکروتلاوت ،تسبیح واستغفار کے زمزمے جاری ہوں گے۔
روزہ کااصل مقصدیہ ہے کہ تزکیۂ نفس ،اخلاق کی پاکیزگی اورخواہشات نفس پرقابوپانے اورگناہ و معاصی سے پرہیز کی صلاحیتیں ترقی کرجائیں ، فتنہ و فساد، ظلم وزیادتی اوربغض وحسد کی آگ بجھ جائے اور دل میں ایسی قوت روحانی پیدا ہوجائے جس میں عناد و سرکشی ، سنگ دلی وقساوت قلبی کاگذرنہ ہو،فرض شناسی ،احساس ذمہ داری ،وفاء عہداورامانت و صداقت کی جلوہ آرائی ہو،حقیقت ہی حقیقت ہو، نفاق وملمع سازی کاگردوغباردھل چکاہو،صاحب حق کواس کاحق ملے، کمزورظالم کے ظلم سے مامون ہو اوراس کی عزت وناموس محفوظ ہو،غرباء ومساکین ، مجبور ونادارلاوراث نہ رہنے پائیں ، فرض کی ادائیگی کا شوق وجذبہ پیداہو،دینی وملی مسائل اورقومی ضروریات میں حصہ لینے کاجذبہ ترقی کرے، نیا خون ،نئی روح اورنیاجوش عمل پیدا ہو۔
اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شعبان ہی سے رمضان المبارک کے استقبال کی تیاری میں روزہ رکھتے اورعبادت میں زیادتی فرماتے تھے ،پھر اس ماہِ مبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبادت و ریاضت کے لیے کمر بستہ ہوجاتے تھے، رات رات نمازوں اوردعاؤں ، ابتہال وتضرع ،گریہ وبکا میں گزاردیتے تھے ،آپ کے رونے وگڑگڑانے سے عرشیوں تک پررقت طا ری ہوجاتی تھی۔
اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے ہم سب کوبھی اس کی توفیق سے نوازے اوررمضان المبارک کی خیروبرکات سے ہم وہ فائدہ اٹھاسکیں جو روزہ کااصل مقصود ہے ۔
٭٭٭٭٭