مالِ حلال اور مالِ حرام                        

دعوتِ اسلامی اور غلبہ واقتدار
مارچ 20, 2023
ہماری زندگی پر رمضان المبارک کی برکتیں
مارچ 30, 2023
دعوتِ اسلامی اور غلبہ واقتدار
مارچ 20, 2023
ہماری زندگی پر رمضان المبارک کی برکتیں
مارچ 30, 2023

مالِ حلال اور مالِ حرام                        

مولاناسیدمحمد حمزہ حسنی ندویؒ
مال‘ خدا کا ایک عظیم عطیہ اور وہ ایک ایسی بیش بہا نعمت ہے جس سے دنیا وآخرت کے بے شمار کام ہوتے ہیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور شکر یہ ہے کہ اس کو صحیح مصرف میں خرچ کیا جائے اور صحیح طریقہ سے کیا جائے، یہ ہے اس کی صحیح قدر و قیمت۔مال کے کمانے اور خرچ میں بے احتیاطی، مال کی بڑی بے قدری اور خدا کی نعمت کی بڑی نا شکری ہے، جو لوگ غلط طریقوں سے مال حاصل کرتے ہیں یا حرام طریقہ سے روپیہ کماتے ہیں وہ خدا کے نا شکر گزار اور خدا بیزار بندے ہوتے ہیں او ر پھر ایسے مال کا نتیجہ بھی اکثر خراب ہوتا ہے، مال جس طرح آتا ہے اسی طرح چلا جاتا ہے، مثل مشہور ہے: ”مال حرام بود بجائے حرام رفت“ ان کی روزی میں کوئی برکت نہیں ہوتی بلکہ ایسا مال بعض دفعہ وبال جان بن جاتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان مرد و عورت کماتے وقت اور خرچ کرتے وقت اس کو ضرور سوچ لے کہ یہ مال کس طریقہ سے آرہا ہے اور کس راستہ سے جارہا ہے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ ناجائز طریقے کیا ہیں؟ مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ چوری کا مال، غصب کا مال، رشوت کا مال، سودی مال، جھوٹ بول کر یا ملاوٹ کر کے یا ناپ تول میں کمی کر کے کمایا ہوا مال، مستحقین کے نام سے زکوٰۃ، صدقہ، فطرہ، چرم قربانی وغیرہ کی رقم حاصل کر کے اپنے تصرف میں لانا، جعلی پیر یا فقیر بن کر جاہلوں اور سادہ لوحوں کو لوٹنا، ان کے عقائد اور ایمان برباد کرنا، جھوٹی گواہی دے کر یا دلا کر روپے وصول کرنا، دھوکہ اور فریب دے کر ہتھیا یا ہوا مال ناجائز اور حرام ہے۔ ایسے مال میں، ایسی تجارت میں، ایسی جائداد میں نہ کوئی برکت ہوتی ہے نہ خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے، یہ مال ایک چھاؤں ہے، ابھی آیا ابھی گیا۔ ا س دنیا میں چاہے یہ ساتھ دے جائے لیکن آخرت میں وبال جان بن کر رہتا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ ایسی مثالیں بھی بکثرت پائی جاتی ہیں کہ اس طرح کے مالدار لوگ دنیا میں بھی خراب نتیجہ رکھتے ہیں۔