ماہِ رمضان ۔ ذکر و عبادت کا موسم بہار
مئی 1, 2018عید کے بعد کی ذمہ داریاں
جون 4, 2018رمضان المبارک کا آخری عشرہ اعتکاف اور شب قدر کی مبارک گھڑیاں
اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم کوماہِ مبارک کی وہ پرانوار گھڑیاںحاصل ہیں جن میں رحمت ونوازش کی جھڑی لگتی رہتی ہے،اب اس کا آخری عشرہ جوجہنم سے آزادی کاہے ،اس میں کچھ خوش نصیب بندے اعتکاف کریں گے کہ اعتکاف کا ثواب اوراس پر اللہ تعالیٰ کی عنایات بہت زیادہ ہیں، اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کابرابر اہتمام فرماتے تھے،اعتکاف کرنے والے کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو کسی کے دَرپرپڑجائے کہ جب تک کہ میری درخواست قبول نہ ہوگی یہاں سے ہٹوںگانہیں،جوخوش نصیب بندہ سب کچھ چھوڑکراللہ تعالیٰ کے درواز پر پڑجائے تو اس کے نواز ے جانے میں کیاشک ہوسکتاہے ؟!
اعتکاف کامقصد اوراس کی اصل روح دل کواللہ تعالیٰ کی پاک ذات سے وابستہ کرلیناہے ،اعتکاف کرنے والااپنی ساری مشغولیتوں اوردنیا کے کاموں حتی کہ مریض کی عیادت اورمیت کے جنازہ تک میں نہیں جاتا بس اللہ تعالیٰ کی چوکھٹ پر پڑارہتا ہے، ذکروتلاوت اوردعامیں وقت گذارتاہے ،اپنے گناہوں کی معافی مانگتاہے، روتا اور گڑگڑاتا ہے، بندہ کاروناگڑگڑانااس کوبہت پسندہے ،وہ خوش ہوتاہے کہ میرابندہ جانتا ہے کہ میرا مالک ہے جوگناہوں پرپکڑکرتاہے اورگنا ہوں کومعاف کرتاہے، اللہ تعالیٰ اپنی طرف پھیلے ہوئے بندہ کے ہاتھوں کوخالی واپس کرتے ہوئے شرماتا ہے، لہٰذابندہ کوقبولیت سے ناامیدنہ ہوناچاہیے ۔
اعتکاف کے انھیں مبارک دنوں میں وہ رات بھی آتی ہے جوہزارراتوں سے بہتر ہے ،اس رات کے شروع ہوتے ہی حضرت جبرئیل علیہ السلام آتے ہیں اوربے شمار فرشتے آسمان سے اترتے رہتے ہیں اورسلام وسکینہ کی یہ روح پرورفضا طلوع صبح تک قائم رہتی ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک طویل روایت ہے کہ: ’’شب قدرمیںاللہ تعالیٰ حضرت جبرئیل علیہ السلام کوحکم فرماتے ہیںا وروہ فرشتوں کے ا یک بڑے لشکر کے ساتھ زمین پراترتے ہیں،ا ن کے ساتھ ایک ہراجھنڈا ہوتاہے جس کو کعبہ کے اوپر کھڑا کرتے ہیں، حضرت جبرئیل علیہ السلام کے سوبازوہیں جن میں سے دوبازؤوں کوصرف اسی رات کھولتے ہیں جن کومشرق ومغرب تک پھیلادیتے ہیں، اس کے بعد فرشتوں سے فرماتے ہیں جومسلمان آج کھڑا ہو یا بیٹھا ہو،نماز پڑھ رہاہو یاذکررہاہو،اس کوسلام کریں ،مصافحہ کریں، ان کی دعاؤں پرآمین کہیں، صبح تک یہی حالت رہتی ہے۔
کوئی حدہے اس رحمت بے نہایت کی کہ مالک فرشتوں کواپنے مومن بندوں سے سلام ومصافحہ کاحکم دے رہاہے، پھر بھی ہم اس سے غفلت برتیں تویہ بڑی محرومی کی بات ہوگی، اس مبارک رات کوذکروتلاوت، نوافل وتہجد میں گذارنا اور دعاومناجات میں مشغول رہنااوراپنے گناہوں کی معافی کے لیے روناگڑگڑانابڑی سعادت کی بات ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کونوازنے ہی کے لیے یہ سارے بندوبست کیے ہیں، ا ن مبارک گھڑیوں سے فائدہ نہ اٹھاناصرف کھانے پینے اورتفریح بازی میں رات گذاردینا (جیسا کہ ہمارے بہت سے نوجوان کرتے ہیں )بڑی محرومی کی بات ہوگی۔
یہی وہ رات ہے جس میں قرآن کریم آسمان دنیاپراتاراگیا جس کواللہ تعالیٰ اس طرح فرمارہاہے:’’اِنَّااَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِوَمَااَدْرَاکَ مَالَیْلَۃُ الْقَدْرِ،لَیْلَۃُ الْقَدْرِخَیْرٌمِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ‘‘۔
اوریہ رات رمضان المبارک ہی میں ہوتی ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نزول قرآن کے بارہ میں فرماتاہے:’’شَہْرُرَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ‘‘(رمضان کامہینہ وہ ہے جس میں قرآن مجید اتاراگیا)۔
پھر آسمان دنیا سے اللہ تعالیٰ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ اپنی حکمت بالغہ کے مطالق دھیرے دھیر ے تھوڑا تھوڑا کرکے اتارتا رہاکہ دلوں پراثرکرتا اور ان میں بستا چلاجائے ، جس کواللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایاہے: ’’وَنَزَّلْنَاہُ تَنْزِیْلاً‘‘۔
خلاصہ یہ کہ لیلۃا لقدر جس کی یہ اہمیت ہے ،اس کی برکات سے فائدہ اٹھانے میں کوتاہی کرنااوراس سے غفلت برتنابڑی محرومی کی با ت ہے، کہاں یہ کہ فرشتوں کوحکم ہورہا ہے کہ بندئہ مومن نماز ، ذکروتلاوت، کھڑا بیٹھا جس حالت میں ہواس کو سلام کرو،مصافحہ کرو،اس کی دعاؤں پرآمین کہو،اورہم ایسی رات کوبلاعذرغفلت میں گزاردیں ،ادھر ادھر کی بات میں لگے رہیں،اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اس کی قدرکرنے کی ہم کو توفیق دے،آمین۔
٭٭٭٭٭
شمس الحق ندوی