شعبان المعظم کی قدرو فضیلت
مارچ 5, 2023دعوتِ اسلامی اور غلبہ واقتدار
مارچ 20, 2023رمضان المبارک-رحمت ِخداوندی کاموسم بَہار
شمس الحق ندوی
جب رمضان المبارک کی پربہارگھڑیاں شروع ہوتی ہیں توموسم کی پرواہ کیے بغیرمومن وخوش نصیب بندے روزہ ضروررکھتے ہیں، کم ہی بدنصیب ایسے ہوتے ہیں جو روزہ نہ رکھیں،ماہ مبارک کا چاند نکلا نہیں کہ مسجدیں بھر جاتی ہیں، بہت سے لوگ اورنوجوان جو کبھی مسجد میں نہیں دکھائی دیتے تھے، وہ بہت ادب کے ساتھ مسجد میں حاضر ہوتے ہیں، اور روزہ وتراویح کاایسانورانی ماحول شروع ہوجاتاہے جس کوایک عام آدمی بھی محسوس کرتاہے اوراس میں مزہ آتاہے، ہر ایک دوسرے سے خوشی وبشاشت کے ساتھ ملتاہے، سحروافطار کابڑادلکش منظرہوتاہے، کسی ایک شہراورملک کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا جہاں کہیں بھی مسلمان بستے ہیں، یہی ماحول ہوتاہے۔حدیث شریف میں آتاہے کہ رمضان المبارک میں مومن کارزق بڑھادیاجاتاہے چنانچہ قسم قسم کی افطاری کی چیزوں کی تیاری اورخریدوفروخت کی چہل پہل کابھی عجیب منظرہوتاہے،کھانے اورافطاری کے ایسے ایسے سامان تیارہوتے ہیں جو رمضان ہی کے ساتھ مخصوص ہیں۔
اہل اللہ اورخاصان خدا کی توبات ہی کچھ اور ہوتی ہے، ان کوان مبارک گھڑیوں میں جولطف ومزہ آتاہے، ہم عام لوگوں کو اس کاکچھ اندازہ نہیں ہوسکتا، ذکروتلاوت،نوافل کی کثرت،تہجد کااہتمام ان کی غذابن جاتاہے،عام مسلمان بھی تلاوت کی کثرت اور چلتے پھرتے اللہ کے ذکر ہی میں مشغول رہتے ہیں، رحیم ورحمن آقا اپنے مؤمن بندوں کی اس ادا سے بہت خوش ہوتاہے، معدہ خالی ہونے کی وجہ سے روزہ دارکے منہ سے جو بوآتی ہے وہ اس کومشک سے بھی زیادہ پسند اوراس کی رضا کاباعث ہے، اسی لیے فرمایا: ”روزہ میرے لیے ہے اوراس کابدلہ خود میں دوں گا“۔
روزہ وہ خوش حال اورمالدار لوگ بھی رکھیں گے، جن کو ہروقت کھانے پینے کی لذت کامزہ حاصل ہوتا ہے، وہ جانتے ہی نہیں کہ بھوک وفاقہ میں معدہ کاکیاحال ہوتاہے،پیاس کی تیزی سے ہونٹ کیسے سوکھ جاتے ہیں، رمضان المبارک کے روزے ان میں یہ احساس پیداکریں گے کہ فقراء و مساکین پرکیاگذرتی ہوگی، وہ اپنے بھوکے پیاسے، بچوں کارونا کیسے سنتے اوربرداشت کرتے ہوں گے،ہم کیوں نہ ان کی مددکریں اوران کے بھوکے پیٹوں کو بھرنے کی فکرکریں، اوریہ سوچیں کہ ان غریبوں کااورہمارامالک ایک ہی ہے اوراس نے ہم کوان پرخرچ کرنے کاحکم دیا ہے، اوراپنے مومن بندوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ مال کی محبت کے باوجود وہ فقراء و مساکین پرخرچ کرتے ہیں، فرمایا:”وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلیٰ حُبِّہِ، مِسْکِیْناً وَّیَتِیْماً وَّأسِیْراً“.
یہی وجہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ مبارک میں عام دنوں سے کہیں زیادہ ان ضرورت مندوں پرخرچ فرماتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے خطبہ میں فرمایا:”جس شخص نے رمضان المبارک میں کسی روزہ دار کا پیٹ بھرا،اللہ تعالیٰ اس کوہمارے حوض سے اتناپلائے گا کہ وہ جنت میں داخل ہونے کے وقت تک پیاسا نہ ہوگا“۔
اس مبارک مہینہ کے پہلے عشرہ میں رحمتوں کانزول ہوتاہے، دوسرے عشرہ میں گناہوں کی معافی ہوتی ہے،تیسرے عشرے میں جہنم سے آزادی ملتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے”ظلوم وجہول“ بندوں کی معافی ونوازش کے کیسے کیسے انتظامات فرمائے ہیں، اس نوازش ہی سے مست ہوکر اللہ کے کسی ولی نے کہاہے:
سراپا ما ہمہ عیبم، بدیدی و خریدی تو
زہے کالائے پر عیبم، زہے لطفِ خریداری
(ہم سرسے پیرتک عیب ہی عیب ہیں،آپ دیکھ رہے ہیں پھربھی خریدارہے ہیں،کیاخوب ہے ہماری یہ سیہ کاری اورکیاخوب ہے آپ کی خریداری)۔
اس لیے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اس مبارک مہینہ میں نفل ومستحب کاموں کااجرفرض کے برابر ہوتا ہے اور فرض کاثواب سوفرض کے برابر ہوتاہے“۔آقا کی اس نوازشِ بے نہایت کے شکر کایہ تقاضاہے کہ ان مبارک دنوں میں غیبت جیسے عظیم گناہ سے بچیں جواللہ تعالیٰ کو بہت ہی ناپسندہے،وہ اس کواپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے جیسا گناہ فرماتاہے،اپنے جن بندوں کو وہ گناہوں کے باوجود معاف کرتا ہے، ان کی غیبت کوکیسے پسند فرمائے گا، چنانچہ بڑے سختی سے منع فرمایا،اسی کاارشاد ہے: ”وَلاَیَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَّعْضاً اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّأکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتاً فَکَرِہْتُمُوْہُ“.
حدیث شریف میں غیبت کو روزہ پھاڑدینے والی بات بتایاگیاہے،حدیث پاک میں ایک روزہ دارخاتون کے گوشت و خون کے قے کا واقعہ بیان ہواہے کہ اس نے غیبت کی تھی،اس لیے اس کوخون کی قے ہوئی۔بہت سے لوگ روزہ کاٹنے کے لیے بے ضرورت باتوں میں لگ جاتے ہیں، اس لیے اس سے بہت بچناچاہیے کہ اتنی تکلیف کے ساتھ روزہ کے بعد بھی اس کے ثواب سے ہاتھ دھوبیٹھیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہم کواس ماہ مبارک کے پورے آداب کے ساتھ روزہ رکھنے کی توفیق دے اوراس کوقبول فرمائے اور ہم بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں جن کواللہ تعالیٰ خود اپنے ہاتھوں سے نوازے گا،اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل وکرم سے ان مبارک گھڑیوں سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے کہ دل کا میل دُھل جائے،زنگ دور ہوجائے،خدانخواستہ اس کی ناقدری سے ہم ایک مصلح وقت کے اسی مناسبت سے پڑھے ہوئے اس شعر کا مصداق نہ بن جائیں:
کعبہ بھی گئے‘ پر نہ گیا عشق بتوں کا
زمزم بھی پیا‘ پر نہ بجھی آگ جگر کی