حج وقربانی کے بعد فکر و تقویٰ کی ضرورت

حج وقربانی کے بعد فکر و تقویٰ کی ضرورت
September 1, 2017
مایوسی نہیں ، اپنے مقام کی شناخت اور خدا کی ذات پر اعتماد
September 25, 2017
حج وقربانی کے بعد فکر و تقویٰ کی ضرورت
September 1, 2017
مایوسی نہیں ، اپنے مقام کی شناخت اور خدا کی ذات پر اعتماد
September 25, 2017

حج وقربانی کے بعد فکر و تقویٰ کی ضرورت

ہم مسلمان ہیں، ہمارایہ عقیدہ ہے کہ وہ دن آکے رہے گاجب ہم اپنے آقاورب دوجہاںکے روبروحاضرہوں گے، اور ہم کواپنے کیے کاحساب دینا ہوگا: ’’اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَلاَ تَغُرَنَّکُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَلاَیَغُرَنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ‘‘(بیشک خداکاوعدہ سچاہے ،پس دنیا کی زندگی تم کودھوکہ میں نہ ڈالے اورنہ فریب دینے والا(شیطان )تمہیں خداکے بارے میں کسی طرح کافریب دے )۔
اس لیے ہماراہرکام، ہرعمل آخرت ہی کی کامیابی کی غرض سے ہوناچاہیے ،ورنہ اس کی کوئی قیمت نہ ہوگی، اللہ تعالیٰ اس کورد کردیںگے۔
ہے تولطیفہ ،لیکن بات ہے دل لگتی اورحقیقت کاکھلاہواآئینہ دکھانے والی ، لطیفہ یہ ہے کہ ایک امیرنے ایک آدمی کوملازم رکھا جواپنے احمق پن کی وجہ سے پورے شہرمیں مشہور تھا،امیرنے اسے ایک تھیلی دی جس میں کچھ اشرفیاں تھیں اورکہاکہ یہ تھیلی اس شخص کودینا جوتم سے بھی زیادہ بیوقوف ہو،کچھ دنوں کے بعدوہ امیر بیمار ہوا،اوراحمق سے کہاکہ ہم تم سے رخصت ہورہے ہیں ،احمق نے پوچھا کب تشریف لائیے گا؟امیرنے جواب دیاایسی جگہ جارہاہوں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا،احمق نے پوچھاوہاں آپ نے کوئی مکان بنوالیاہے ،امیرنے کہا نہیں ،اس نے پوچھا آپ کے لیے کچھ سامان باندھ کردیناہے ؟ امیرنے جواب دیانہیں،احمق یہ سن کر مسکرایا،اس نے کہا،جہاں آپ کوتھوڑے دن رہنا تھا وہاں توآپ نے اونچامحل بنوایا،آرام وراحت کااتنا انتظام کیا،لیکن جہاں ہمیشہ رہناہے وہاں کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا،آپ سے زیادہ بے وقوف ہم کو کوئی دوسرانہیں ملا،اس لیے یہ تھیلی آپ ہی لے لیجیے تومناسب ہوگا۔
اس وقت ہماراعمومی حال کیا ہورہاہے ،جوکام خالص آخرت کے لیے ہونے ہیں، ان کوبھی شہرت و ناموری اورمحض دکھا وے کے لیے کرکے برباد کردیتے ہیں۔حدیث شریف میں آتاہے: ’’الکیّس من دان نفسہ وعمل لما بعد الموت‘‘(سمجھداروہوشیاروہ شخص ہے جس نے اپنی قدرو قیمت کو پہچانااورآخرت کے لیے عمل کیا)۔اللہ تعالیٰ نے جن خوش نصیب حضرات کوحج جیسی عبادت سے نوازا جس کے بعد حاجی گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتاہے جس طرح بے گناہ پیداہواتھا۔
ٹھیک اسی طرح قربانی کامعاملہ ہے کہ خون کاقطرہ زمین پرگرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہوجاتاہے اورقربانی کے جانورکے ہربال کے بدلے میں نیکیاں ملتی ہیں،یہ کتنی نادانی اورحماقت کی بات ہوگی کہ ان سارے کاموں کوصرف شہرت اوردکھاوے کے طورپرکرکے برباد کردیاجائے اورآدمی نیکی برباد گناہ لازم کامصداق بنے، ہم مسلمانوںمیں شہرت وناموری کے لیے زندگی کے مختلف مواقع پراسراف وفضول خرچی کاایسارواج پیداہوگیاہے کہ جو چیزیں خالص عبادت ہیں، ان میں بھی شیطان اپناکام کرجاتاہے ،حج وقربانی کابھی یہی حال ہوتاجارہاہے، ایک بڑی تعدادنے حج کوکاروباراورتجارت کا ذریعہ بنالیاہے، قربانی کے لے بھی بہت سے لوگ ایساقیمتی دنبہ یابکراخریدتے ہیں جس کاشریعت نے مکلف نہیں بنایاہے پھراس کوپوری شہرت دی جاتی ہے، اخباروںمیں ذکرآتاہے، ہارپھول پہناکرقربانی کے جانورکو گھمایا جاتاہے،کہاں حج اورقربانی کی وہ قدر وقیمت جوشیطان کواپنے سرپردھول ڈال کر چیخنے چلانے پرمجبورکردیتی ہے، اس نے کس کس طرح سے جھوٹے وعدے کرکے دھوکہ دے کرتوگناہ کرایاتھااورحج نے سب کودھودیا۔
اورکہاں یہ نادانی کہ اس کو خالص دنیاوی فائدے اورشہرت کے لیے کیاجائے جوکام خالص اللہ تعالیٰ کی رضاوخوشنودی کے لیے ہے، وہ دنیاہی کی غرض سے کیاجائے توکیاایساشخص اس حقیقت نمالطیفہ کامصداق نہ ہوگاجس کااوپر ذکر ہوا، لیکن افسوس کہ ہم ’’قل ماشئت واکتب ماشئت ونحن علی حال ‘‘ (جوچاہوکہو،جوچاہولکھو،ہم اپنے حال میں مست ہیں)پر عمل کررہے ہیں۔
ملت کے غم میں ڈو بے ہوئے ایک داعی ورہبرنے بہت دردکے ساتھ کہاہے:’’إنما أشکو بثّی وحزنی إلی اللّٰہ‘‘۔
٭٭٭٭٭
شمس الحق ندوی