سیرت رسول ﷺ کا اصل پیغام
دسمبر 2, 2017خوش نصیب بندگانِ خدا
جنوری 7, 2018انسانیت کی صبح سعادت
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے پہلے ، ربیع الاول کی صبح سعادت سے قبل انسانیت گراوٹ وپستی کے جس درجہ کو پہنچ چکی تھی، اس کے تصور و خیال سے دل دہل جائیں، آخری درجہ کی بات یہ ہے کہ امراء و رؤساء اپنی دعوتوں اور خوشیوں کی محفلوں میں چراغاں کرنے کے لیے زندہ انسانوں کو ستونوں سے باندھ کر ان کے جسموں پر تیل چھڑک کر جلاتے تھے ، ان کی چیخ و پکار اور رونے چلانے کی آوازوں میں ان کوموسیقی کا مزہ آتا تھا، اور اس پر فخر کیا جاتا تھا کہ فلاں کے یہاں اتنے غلام جلائے گئے۔
انسانوں کا کون سا طبقہ ہے ، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا براہ راست یا بالواسطہ احسان نہیں ،کیا مردوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احسان نہیں کہ ان کو آدمیت کی تعلیم دی ، کیا عورتوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حقوق ، ماں بہن ، پھوپھی ، خالہ کی صورت میں یہ کہہ کربیان فرمائے کہ:’’ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ‘‘،’’ خالہ کا درجہ ماں کے برابر ہے‘‘ ۔ کمزوروں پر جو ظلم کی چکی میں پستے رہتے ،یہ کہہ کر احسان کیاکہ مظلوم کی بد دعا سے ڈرو کہ اس کی آہ و کراہ اور خدا کے درمیان کوئی پردہ نہیں ،کیا حاکموں اور بادشاہوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احسان نہیں کہ ان کے حقوق و فرائض بتانے کے بعد فرمایا :’’انصاف پسند حاکم وبادشاہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عرش کے سایہ میں ہوگا‘‘ ، کیا تاجروں او ر کاروباری لوگوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے فرمایا:’’ میں اور سچاو دیانت دار تاجر جنت میں قریب قریب ہوں گے ‘‘، خود بھی تجارت کر کے تاجروں کی عزت بڑھائی، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرما یا:’’ فی کل ذات کبد صدقۃ‘‘ یعنی ہر جاندار مخلوق کو کھلانا پلانا بھی صدقہ ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم میں خدا کی تعلیم و ہدایت کے شاہد ہیں ، نیکو کاروں کو فلاح و سعادت کی بشارت سنانے والے مبشر ہیں ، ان کو جو اَب تک بے خبر تھے ، ہوشیار و بیدار کرنے والے نذیر ہیں ، بھٹکنے والے مسافروں کو خدا کی طرف پکارنے والے داعی ہیں ، اور خود ہمہ تن نور اورروشن چراغ ہیں ، ’’سراجاً منیراً‘‘ ہیں ، آپؐ کی ذات اور آپ کی زندگی راستہ کی روشنی ہیں ، جو راہ کی تاریکیوں کو کافور کر رہی ہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے اس محبوبؐ کو جس کو ہر اعتبار سے انسانیت کا کامل و مکمل نمونہ بنایا ،معراج میں اپنے پاس ساتویں آسمان پر سدرۃ المنتہیٰ تک بلایا ، جہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھی جانے کی اجازت نہیں ،اسی کو ایک شیدائی نے اس طرح ادا کیا ہے ؎
تخیل کی رسائی ہو نہیں سکتی جہاں تم ہو
جہاں جلتے ہیں پر جبریلؑ کے آقا وہاں تم ہو
علا مہ سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں:’’اسلام نے اپنے پیغمبر کی زندگی کو (اس کے ماننے والوں )کے لیے نمونہ بتایا اوراسی کی پیروی کو خدا کی محبت کا ذریعہ بتایا ، فرمایا: ’’اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ‘‘ [آل عمران: ۳۱] یعنی اے لوگو! اگر تم کو خداکی محبت کا دعوی ہے تو میری اتباع کرو (میرے چلن کو اپنائو )تو خدا تم کو پیار کرے گا ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کو یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کی نقل وعکس کو خدا کی محبت کا معیار بتایا ۔(جھاڑ فانوس کیا) ایک لمحہ کے لیے نشۂ دینی سے سرمست ہوکر اپنی جان دینا آسان ہے مگر پوری عمر ہر حالت میں ،ہر کیفیت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتباع کے پل صراط کو اس طرح طے کرنا کہ کسی بات میں سنت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قدم ادھر ادھر نہ ہو ،سب سے مشکل امتحان ہے ،اس اتباع کے امتحان میں تمام صحابہؓ پورے اترے ،اور اسی جذبہ سے صحابہ وتابعین نے، تبع تابعین نے ، محدثین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک ایک بات ،ایک ایک ادا اورایک ایک عمل کو معلوم کیا، لکھا تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملی زندگی آئینہ کی طرح سامنے ہو اوراس کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاایک ایک امتی اپنی زندگی گزارے ‘‘۔
اس وقت دنیا جن حالات سے گذررہی ہے اورانسانی آبادی ساری ترقیوں اورسہولتوں کے باوجود جن خطرات میںگھری ہوئی ہے ، ظلم وزیادتی کی جوگرم بازاری ہے اورانسانی خون پانی کی طرح بہایاجارہاہے،اس کاعلاج اگرکہیں مل سکتاہے تواسی پیغام اوراسی دستور حیات میں جومحمدعربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کرآئے ہیں۔
اس پیغام وپیغمبر کاتعلق صرف ربیع الاول کے میلادی جلسوں سے نہیں کہ جب یہ مہینہ آئے تواس کی یادگار منائی جائے، جلسے جلوس کئے جائیں اوربس، بارہ ربیع الاول کی آمد تجدید عہد کاایک موقع ہوتاہے، لیکن بدقسمتی سے جن لوگوں نے اس پیغام کوسینے سے لگایا اوردل میں اللہ اوراللہ کے رسولؐ کی محبت کوبسانے کا دعویٰ کیا وہی اس کوجشن کے طورپرمنالینے ہی پراکتفا کرنے لگے ہیں، آپ کی لائی ہوئی تعلیمات کواب گویاسیرت کے جلسوں اورمشاعروں تک محدود کرکے رکھ دیاگیاہے ، اوروہ اس طرح کہ آپ کی تعلیمات کی سراسرخلاف ورزی کرکے میلہ اوربے حجابی کاماحول بنادیا۔
کیااچھاہوتا کہ ہم مسلمان دوسری قوموں کے سامنے پیغام محمدیؐ کاوہ عملی نمونہ پیش کرتے جس کودیکھ کران کے منھ میںپانی آجاتا اوروہ اس کی طرف بے تابانہ بڑھتیں اور اس کاکلمہ پڑھنے لگتیں، آج کی بے چین وسرگرداں دنیاکومعلو م ہوتا کہ ہمارے دردکا درماں اس دستورحیات میں ہے جس کو انسانوں کے پیداکرنے والے اس خالق نے اتاراہے جوان کے مزاج وطبیعت، ضرورتوںاورتقاضوں اوران کی ان کمزوریوں کوبھی خوب جانتاہے جوانھیں آمادۂ شرکرتی ہیں، ’’اَلاَیَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ‘‘[ملک:۱۴](کیا وہ نہ جانے گاجس نے اس کوپیداکیاہے)۔
دنیا کی قومیں جس عظیم غلطی کاشکاررہی ہیں ، وہ ہے ۱۲ربیع الاول کوپیداہونے والے محمدعربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کو نہ ماننا جودنیا کی ساری قوموں کے لیے نسخۂ شفا ء ہے، اس پیغام میں جو سب کے لیے ہے ،سب جگہ کے لیے ہے، اس میں مرد وعورت بوڑھے جوان ، کنبہ وخاندان حاکم ومحکوم سب کے لیے راحت وآرام اورسکون واطمینان کا سامان ہے، اوراس کاعملی نمونہ بھی خلافت راشدہ کے زمانے میںپورے ۳۶؍سال تک دنیا دیکھ چکی ہے، اوراس کامیٹھا پھل کھاچکی ہے۔
٭٭٭٭٭
شمس الحق ندوی