اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روبائی

Mostbet Türkiye’de! Güvenilir Spor Bahisleri, Giriş, Casino, Güncel Adre
جنوری 27, 2023
ندوۃ العلماء کا مسلک
فروری 6, 2023
Mostbet Türkiye’de! Güvenilir Spor Bahisleri, Giriş, Casino, Güncel Adre
جنوری 27, 2023
ندوۃ العلماء کا مسلک
فروری 6, 2023

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روبائی

جب ہارون رشید خلیفہ ہواتولوگ مبارک باد پیش کرنے کے لیے آئے، علماء بھی ادباء بھی اورشعراء بھی آئے اوراپنے علم و منصب کے اعتبار سے ہدایااورتحائف سے لدے پھندے واپس ہوئے، مگر ابوسفیان ثوری ؒ جوبچپن کے جگری دوست تھے‘ جنہیں سب سے پہلے آناچاہیے تھا‘وہ نہ آئے؛ بلکہ انھوں نے قطعی بے رخی برتی جیسے اب بچپن کی حسین یادوں کاسارا دفتر محوہوچکاہو،یہی نہیں بلکہ طبیعت میں اتناہی تکدر،غصہ اورنفرت پیداہوگئی جتنا پہلے تعلق اورلگاؤ تھا ۔

ایساکیوں ہوا؟جب کہ ایک کے تخت سلطنت اوردوسرے کے بوریاتک پہنچنے سے قبل کوئی ناگوار بات نہ پیش آئی تھی ، باہم کسی قسم کابغض وحسد تھا،نہ کینہ کپٹ اورنہ ایک کوتخت شاہی مل جانے کادوسرے کورنج یاحرص و طمع، یہ عجیب پہیلی ہے جس کوہماری آج کی مادہ پرست دنیا اپنی ساری توانائیوں کے باوجود نہیں بوجھ سکتی ،اگربوجھ سکے توشاید اس کابوجھ ہلکا ہوجائے۔

اگر یہ نہ آنے والا آجاتاتونہ جانے کیاکیااعزاز اورآؤبھگت ہوتی، کیسے کیسے انعامات حاصل ہوتے، بچپن کی بے داغ و پرخلوص محبت کے حق کن کن صورتوں سے اداکیے جاتے، حضرت سفیان کوآنا تھانہ آئے، ہارون کچھ دنوں تک تو اپنے نظم اقتدار میں ان کے آنے کامنتظر رہا، جب مایوس ہوگیا توحضرت سفیان کوخط اورآنے کی دعوت دی ۔

خط میں لکھاکہ:’’میرے بھائی! تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو باہم بھائی چارہ کاحکم دیاہے، تم سے میری محبت اللہ کے لیے ہے، اس میں اب بھی کوئی کمی نہیں ہوئی ہے ،ہمیں تم سے ازحدمحبت ہے اوررہے گی، اگرخلافت کی ذمہ داری سفر سے مانع نہ ہوتی تومیں ضرورتمہارے پاس آتا ،خواہ ہزار دشواری تم تک رسائی میں پیش آتی ،ہمارے تمہارے احباب میں کوئی ایسانہیں جس نے آکر مجھے مبارکبادنہ دی ہواوراس کومیں نے بیت المال سے خوب خوب ہدایاوتحائف نہ دیے ہوں، تمہیں مومن سے ملنے جلنے اوراس سے تعلق قائم کرنے کی فضیلت معلوم ہے، لہٰذا تم آنے میں جلدی کرو‘‘۔

خلیفہ نے خط لکھ کر عباد طالقانی کے حوالہ کیااوروہ کوفہ کے لیے روانہ ہوگیا، جب اس مسجد میں پہنچا جہاں حضرت سفیان ثوریؒ اپنے چندمعتقد ین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے توحضرت سفیان کوکھٹک پیداہوئی ،انھوں نے جیسے محسوس کرلیاکہ عباد خلیفہ کاکوئی پیغام لارہاہے ،بے ساختہ زبان سے نکلا:

’’شیطان مردودسے اس خداکی پناہ جوجاننے اورسننے والاہے، ایسے آنے والے سے کہ جس کاآنامشکوک ہے کہ بھلے مقصد سے آرہاہے یاکوئی پیغام آفت لارہاہے ،یہ کہہ کرفوراًنماز کے لیے تیارہوگئے، نیت باندھ لی، عباد مبہوت و حیرت زدہ کھڑارہا،خدام میں سے کسی نے کہاکہ بیٹھ جاؤ ،جیسے ان حضرات کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت ہی نہ تھی، حالانکہ یہ حکومتِ وقت کاایلچی تھاجس کاایک اشارہ سب کے لیے قابل گردن زدنی ہوسکتا تھاکیونکہ یہ اس کی نہیں بلکہ خلیفہ کی توہین تھی، اس منظر سے عباد پرایسی ہیبت طاری ہوئی کہ بیٹھنا توکجا پوچھنے کی بھی جرأت نہ ہوئی، کھڑے ہی کھڑے اپنے تھرتھراتے ہوئے ہاتھوں سے خلیفہ کاخط حضرت سفیان ثوریؒ کی طرف پھینک دیا، وہ اس خط سے اس طرح چونکے اوراپنی جگہ سے ہٹے جیسے کوئی سانپ ان کے قدموں کے پاس آگیا ہو،جب سلام پھیرا توآستین سے اس احتیاط سے خط پکڑاجیسے کوئی خوفناک زہریلاجانور ہو ،اپنے پیچھے بیٹھے ہوئے ایک خادم کوخط تھماتے ہوئے فرمایا کہ:

’’ پڑھو !میں اس بات سے پناہ چاہتاہوں کہ ایسی چیزکوہاتھ لگاؤں جس کوظالم کے ہاتھوں نے چھواہو‘‘۔

خط پڑھاگیا ،حضرت سفیان ؒنے انتہائی استعجاب کی کیفیت میں مسکراتے ہوئے فرمایا:’’ اس ظالم کاجواب اس خط کی پشت پر لکھ دو‘‘۔

توجہ دلائی گئی کہ یہ خلیفۂ وقت کے پاس جائے گا، مناسب تھاکہ کسی صاف ستھرے کاغذ پرلکھا جاتا،فرمایاکہ اس کی پشت پرہی لکھو،اگراس نے حلال ذریعہ سے اس کاغذکوحاصل کیاہے تواسے اجروثواب ملے گااوراگرحرام وناجائزطورسے حاصل کیاہے تووہ خوداس کولے کر جہنم میں جائے گا،میں یہ پسندنہیں کرتاکہ میرے پاس کوئی ایسی چیزرہے جس کوظالم کے ہاتھوں نے چھواہواوراس سے ہمارے دین میں خلل آئے ،مزیدکسی کو کچھ کہنے کی مجال نہ تھی، کاتب نے پوچھا کہ کیالکھیں ؟فرمایالکھو:

’’بندئہ ناچیز سفیان کی طرف سے امیدوں کے فریب خوردہ اس ہارون کے نام جس سے حلاوت ایمانی اورقرآن کی لذت چھن چکی ہے ، میں نے تم سے رشتہ کاٹ لیا،محبت ختم کردی، تم نے یہ خط بھیج کرمجھے اپنے خلاف گواہ بنالیاہے ،تم نے مسلمانوں کامال ان کی مرضی کے بغیربے محل صرف کیاہے، کیاتمہارے اس عمل سے وہ لوگ جوتالیف قلب کے مستحق تھے نیزمجاہدین، اہل علم، یتیم اور بیوا ئیں اورعمال حکومت مطمئن اورخوش ہوںگے ؟تم اس سوال کاجواب تیار کررکھو،عذاب خدواندی سے بچنے کاکوئی چارہ ڈھونڈلو،جلدہی تم قادرمطلق اورعادل حاکم کے سامنے کھڑے ہوگے ،رعیت کے بارے میں خداسے ڈرواورامت کے بارے میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کاخیال رکھو،اس صورت میں تم کیامنہ دکھاؤگے جبکہ تم زہدوتقویٰ ،تلاوت قرآن، نیکوکاروں کی ہم نشینی کی حلاوت سے محروم ہوچکے ہواوراپنے کوظالم اورظالموں کاقائد بنالیاہے، اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا، تم پرکیا بیتے گی جب قادرکامنادی آواز دے گاکہ ظالموں کواوران کے معاونین کو جمع کرو، ذرا اس تکلیف کاتصور کروجب تم خداکے سامنے اس طرح آؤگے کہ تمہارے ہاتھ تمہاری گردنوں سے بندھے ہوں گے اوران کوتمہارے عدل وانصاف اورغرباپروری کے سوا کوئی طاقت نہ کھول سکے گی، تمہارے آگے پیچھے ظالموں کا گروہ ہوگا اورتم ان کے ا مام ہوگے،انھیں لے کرآگ کی طرف چلوگے، اپنی نیکیوں کودوسروں کی ترازو میں رکھوگے اوردوسروں کی برائیوں کواپنی تراز ومیں پاؤگے، ہارون! خلافت تمہارے پاس سے غیرکے پاس جانے والی ہے، اس دنیا کی یہی ریت ہے، یہاں کوئی خوش نصیب ہوتاہے تو اس سے اپنی آخرت سنوار لیتا ہے، کوئی ہواوہوس کابندہ ہوتا ہے تو اس سے اپنی دنیا وآخرت دونوں برباد کرلیتا ہے، تم اپنے بارے میں سوچ لوکہ نفع اٹھانے والوں میں ہویانقصان ،خبردار! اس کے بعد مجھے کوئی خط نہ لکھنا، میں جواب نہ دوں گا‘‘ ۔

خط کامضمون ختم ہوااورایسے ہی کھلاہواعباد کی طرف پھینک دیا،عبادپراس شان بے نیازی کاایسا اثر ہواکہ اس نے دربارشا ہی کی پوشاک اتاردی، اون کاجبہ اورعبا پہن لیااورننگے پاؤں ہارون کے پاس حاضرہوا،ہارون عباد کودیکھ کر مضطرب وپریشان ہوگیا،سرپیٹنے لگا، اپنے آپ کوملامت کرنے لگااورکہنے لگاکہ غلام کامیاب ہوااورآقا محروم رہا، ہمارا دنیاسے کیاتعلق ؟ملک جلد مجھ سے چھن جائے گا۔

عباد نے ہارون کوسفیان کاخط بڑھادیا،اب ہارون کی عجیب کیفیت تھی ،خط پڑھتاجارہاتھا اورزار زار رورہاتھا، بعض درباریوں نے کہا:امیرالمومنین !سفیان نے بڑی جسارت کی ہے، اس کوگرفتارکرالیں تاکہ دوسروں کوعبرت ہو، ہارون کے چہرے کارنگ بدل گیااورکہا: ’’دنیاکے غلامو!سفیان کوانہی کے حال پررہنے دو،فریب خوردہ تووہ ہے جس کوتم دھوکہ د و، بد نصیب وہ ہے جس کے ساتھ تم دنیا دار لوگ بیٹھو، سفیان توخود ایک دنیا ہے