مالِ حلال اور مالِ حرام
March 20, 2023онлайн казино mostbet вход зеркало Казино, Зеркало, Слот
January 26, 2024ہماری زندگی پر رمضان المبارک کی برکتیں
شمس الحق ندوی
رمضان المبارک کے دن وہ مبارک دن ہیں جن کے بارے میں قرآن کریم کاارشاد ہے:’‘یَا أیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ’’ [بقرہ:۱۸۳] (مومنو! تم پرروزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پرفرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو)۔
روزہ درحقیقت تزکیہئ نفس، تربیتِ جسم دونوں کاایک بہترین دستورالعمل ہے، اشخاص کے انفرادی اورامت کے اجتماعی نظام دونوں اعتبار سے (لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ) کے ارشاد سے اسلامی روزہ کامقصد اصلی واضح ہوجاتاہے کہ اس سے مقصود زندگی کے ہرہر مرحلے میں، معاملات ہوں کہ حقوق وتعلیمات، رشتوں اورقرابتوں کے حقوق ہوں کہ عام مسلمانوں کے، پڑوسیوں اوراہل بستی کے حقوق ہوں کہ اولاد اوراہل خانہ کے، غرض یہ کہ تمام باتوں میں حتیٰ کہ دشمنی وغصہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور اس کاپاس ولحاظ ہوکہ کوئی بھی کام بندہئ مومن سے ایسانہ سرزد ہو جواللہ تعالیٰ کے خوف اورپاس و لحاظ سے خالی ہو، تقویٰ اختیار کرلینے سے (یعنی جتنی عادتیں صحت روحانی اورحیات اخلاقی کے حق میں مضر ہیں ان سے بچے رہنے سے) عالم آخرت کی لذتوں اورنعمتوں سے لطف اٹھانے کی صلاحیت واستعداد پورے طورپرانسان میں پیدا ہوکررہتی ہے، اسی لیے احادیث میں روزہ اورروزہ داروں کی بڑی فضیلتیں بیان ہوئی ہیں جوپورے ماہ مبارک میں مقررین اورواعظوں کاموضوع بنی رہیں گی، فضائل رمضان پڑھ پڑھ کر سنائے جائیں گے، حدیث پاک میں آتا ہے کہ جس نے ایمان و ثواب کے یقین کے ساتھ روزہ رکھااس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
ایک حدیث قدسی میں ہے:’‘الصوم لی وأنا أجزی بہ’’ (روزہ خالص ہمارے لیے ہے، اس کااجروثواب میں خود دوں گا)راوی کو شک ہے یایہ فرمایا: (کہ روزہ کابدلہ میں خودہوں) دونوں ہی صورتوں میں روزہ کی جوفضیلت سامنے آتی ہے یہ کسی اورعمل کے بارے میں نہیں بیا ن کی گئی ہے روزہ کی اسی قدروقیمت اورفضیلت وعظمت کے سبب خودروزہ دار کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
حدیث پاک میں آتاہے کہ روزہ دار کے منہ کی بواللہ تعالیٰ کومشک کی بوسے بھی زیادہ پسند ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ایک روزہ دار مومن بندہ کااللہ تعالیٰ کے یہاں کیامقام ومرتبہ ہے، یہی وجہ ہے کہ روزہ دار کوافطارکرانے کی بھی بڑی فضیلت آئی ہے، یہاں تک کہ فرمایاگیاہے کہ جوشخص حلال کمائی سے رمضان میں روزہ افطار کرائے اس پررمضان کی راتوں میں فرشتے رحمت بھیجتے ہیں،اورشب قدر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام اس سے مصافحہ کرتے ہیں اورجس سے حضرت جبرئیل علیہ السلام مصافحہ کرتے ہیں اس کی علامت یہ ہے کہ اس کے دل میں رقت پیداہوتی ہے، اورآنکھوں سے آنسوبہتے ہیں۔
یہاں ہمیں تھوڑاساغورکرناچاہیے اوراپنے آپ کاجائزہ لیناچاہیے کہ جن روزہ داروں کو روزہ افطار کرانے کی اتنی بڑی فضیلت آئی ہے اورہم بڑے شوق سے افطار کراتے بھی ہیں، پھر ہمارے اپنے ہی ہاتھوں سے ان روزہ داروں کوکتنی تکلیف پہونچتی ہے، ہم ان کی کتنی غیبت کرتے ہیں،ان کی حق تلفی کرتے ہیں، جب خدا کے ان مبارک بندوں کوروزہ افطار کرانے کااتنا بڑاثواب ہے اس لیے کہ وہ خدا کے خاص بندے ہیں، توکیا خدا کے ان خاص بندوں کی غیبت کرنے اوران کاحق مارنے، ان کو برابھلا کہنے، ان کا دل دکھانے اورستانے پر اللہ تعالیٰ کوناراضگی نہ ہوگی، اس ستانے والے پر اس کاکتنا بڑاغضب ہوگا، یہ بھی سوچنے کی بات ہے ہم افطار کرانے کی فضیلت کو توبارباردہراتے، سناتے اورافطا ر کراتے ہیں، مگرا س پرغورہی نہیں کرتے اس کوستانے پرہم کوکیاوبال ہوگا، یہی وجہ ہے کہ روزہ رکھنے سے روزے کے جو اثرات روزے دار پرظاہر ہونے چاہیے وہ نہیں ظاہرہوتے، ایک دوسرے کونقصان پہونچانے، حق مارنے، رشتوں کو توڑنے، اولاد کے حقوق خصوصاً دینی حقوق کے اداکرنے کے بارے میں ہم اس طرح غافل نظرآتے ہیں جیسے ہم نے روزے کے اصلی مقصد ‘‘لعلکم تتقون’’ پر قطعاًکوئی غور ہی نہیں کیا۔
ہم صبح سے شام تک بھوکے رہنے، ذکروتلاوت اورتراویح کی ادائیگی کے بعد جیسے دوسری تمام چیزوں سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں، اورزندگی کی گاڑی اپنی پرانی ہی رفتار پرچلتی رہتی ہے۔یہ توبڑے خسارے اورنہایت ناشکری اورناقدری کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم کوروزہ جیسی نعمت سے نوازا اوراس کامقصد بھی بتادیا اورہم مقصد سے غافل رہ کر صرف مہینے بھر کی پابندیوں اورذکروتلاوت میں کچھ وقت گزارنے پرہی قناعت کرکے رہ جائیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارامعاشرہ ایسا معاشرہ بن کر رہ گیا ہے جیسے اس پررمضان المبار ک کی برکات کاسایہ پڑتاہی نہیں۔
بقول حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ:’‘رمضان المبارک کاروزہ توچھوٹاروزہ ہے جوصبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک اوررمضان المبارک کی پہلی تاریخ سے لے کر ۹۲/یا۰۳/تاریخ پرختم ہوجاتاہے،بڑاروزہ تووہ ہے جوبلوغ سے لے کر موت پرجاکر ختم ہوتاہے،یہ چھوٹا روزہ اسی بڑے روزہ کودرست کرنے کے لیے فرض کیاگیاہے، لیکن جب ہم بڑے روزے کاجائزہ لیتے ہیں تومعلوم ہوتاہے کہ ہم اس بڑے روزے کوتوڑنے والے کام برابر کرتے رہتے ہیں اوراس کااحساس تک نہیں ہوتا۔
لہٰذا ضروری ہے کہ اس ماہ مبارک میں ہم اپنے روزہ وتراویح، ذکروتلاوت میں اس کاپوراخیال رکھیں کہ یہ مہینہ بڑے روزے کی مشق وتربیت کامہینہ ہے اس روزے سے اس بڑے روزے کی صلاحیت پیداکرلیں۔
بھلا اس انسان کوکیاکہاجائے گا جوافطار کرانے کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے اپنے گھر یامسجد میں کچھ لوگوں کو افطارکرائے اورپھروہاں سے نکلنے کے بعد ان کاسامان چھین لے یاحق مار لے یاکوئی اورتکلیف پہونچائے، آج ہماری زندگی کانقشہ کچھ ایساہی بناہواہے مگراس پر ہم غور نہیں کرتے، رمضان ختم ہوتے ہی ہم ہر قید وبند سے آزاد ہوجاتے ہیں جائز وناجائز، حرام وحلال کی کمائی کا بھی خیال نہیں رکھتے، پھررمضان المبارک کی برکات ہماری زندگی پر، ہماری آل واولاد پرکس طرح اثرانداز ہوں،خاص طورسے یہ زمانہ مادہ پرستی کازمانہ ہے ایسا کہ اس میں اچھے خاصے دیندار لوگ بھی رزق حرام وحلال کی فکر سے غافل ہیں، اوررزق حرام ایسی چیز ہے، ایسازہر ہے کہ نیکیوں، پرہیزگاری، برکتوں کی توفیق بھی اس کے سبب چھین لی جاتی ہے۔