تعمیر حیات کے 54 برس مکمل
November 17, 2017انسانیت کی صبح سعادت
December 12, 2017سیرت رسول ﷺ کا اصل پیغام
ماہ ربیع الاول کی آمد آمد ہے، آپ کے دل ودماغ میں،آپ کی اصطلاح میںعید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلسوں اورنعتیہ مشاعروں کی محفلوں کاخیال گردش کررہاہے ، ابھی سے گیٹوں کی سجاوٹ اوررنگ ونور کی جگمگاہٹ کامنظردل کوسرور اورآنکھوں کونور کی تابانی عطا کررہاہے، آپ کو شاید یہ فکر بھی ہو کہ اس سال ہمارے محلہ یاہمارے شہر کے جلسۂ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سجاوٹ کودوسرے محلوں یاشہروں کی سجاوٹ سے اچھوتا اورنرالا انداز اپناناہے جوسب پرفائق اورسب سے زیادہ نگاہوں کوخیرہ کرنے والا اورواہ واہ کی داد حاصل کرنے والاہو، لیکن آپ سے ہماری گزارش ہے کہ اس سے قبل کہ آپ ان جلسوں کے اہتمام کی گرانباری اورمقابلہ کی چشمک کاشکارہوں، تھوڑی دیر کے لیے ہمارے ساتھ مکہ کی جھلستی ہوئی پہاڑوں کے دامن میں تپتی ہوئی ریت پردوچار قدم چل لیں اور پھراپنے پائوں کے آبلوں اورچھالوں سے پوچھیں کہ ان پرکیاگزرتی تھی، جن کو صرف اس پاداش میں کہ وہ بارہ ربیع الاول کوآنے والے رسول پر ایمان لائے ہیں اس تپتے ہوئے ریگ زارپرلٹاکر سینے پرگرم وبھاری پتھر رکھ دیا جاتا تھا کہ ہل بھی نہ سکیں ۔
ذرا اس کربناک منظرکودیکھنے کی تاب ہوتونظراٹھائیے اوردیکھئے کہ حضرت خبیبؓ کوایک ستون پرلٹکادیا گیاہے ، قبائل کے نوجوان ان پرتیروں کی بارش کرکے اپنے دل کاارمان نکال رہے ہیں، ایک کہتاہے کہ کہو: کیااب یہ پسندکروگے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کاکلمہ پڑھناچھوڑدو، تم کو آزاد کردیاجائے گا، اورتمھاری جگہ (نعوذباللہ) محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہوں، جواب ملتاہے ہماری جگہ ہمارامحبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ سلم ہو اور میںچھوڑدیاجائوں یہ توبہت دور کی بات ہے ، ہم کوتویہ بھی گوارانہیں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پائوں میںایک کانٹاچبھے اورمیں چھوڑدیاجائوں، اب آپ اپنی بھیگی ہوئی آنکھوں اورتھرتھراتے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ ذرا حضرت خباب بن ارتؓ کی پیٹھ کھول کردیکھئے، یہ جو برص کے سے داغ نظر آرہے ہیں یہ اس کے ہیں کہ ان کوآگ پرلٹادیاگیاتھا اورایک شخص نے سینہ پرپائوں رکھ دیاتھاکہ پیٹھ زمین سے لگ جائے اورآگ کے انگارے جسم سے چپک جائیں۔
نازوں میں یہ مصعب بن عمیرؓ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا کہ مکہ میں میںنے مصعب بن عمیر سے زیادہ خوش وضع وخوبرو، جامہ زیب اور ان سے زیادہ نازپروردہ کسی اورکونہیں دیکھا،لیکن یہی مصعب بن عمیر جب چھپ چھپاکر اسلام لائے اورقبیلہ والوںکوخبر ہوگئی توان کوپکڑکرقید کردیا، اور ہجرت حبشہ تک قید میں رہے۔
یہ عثمان بن مظعونؓ ہیں ، اسلام لانے کے بعد ولید بن مغیرہ کی پناہ لے لی تھی لیکن کچھ ہی دنوں بعدان کی غیرت ایمانی نے گوارا نہ کیا کہ کسی مشرک کی پناہ میں رہیں بالآخر ایک مشرک سے کہاسنی کے بعداس نے ان کی آنکھ پرایساطمانچہ مارا کہ ان کی آنکھ جاتی رہی۔
یہ خون سے لت پت خاتون حضرت عمرؓ کی بہن فاطمہؓ ہیں اوربھائی ہی کی زدوکوب نے ان کولہولہان کررکھاہے، آخربہن کے خون کی اس لالی نے بھائی کے پتھر دل کوموم کردیا، کچھ سوچا، پھرپوچھا، پھربارگاہ نبوت میں حاضر ہوکرمشرف بہ اسلام ہوگئے۔
یہ شعب ابی طالب ہے، سنئے اس گھاٹی سے بچوں کے رونے اوربلبلانے کی کیسی کربناک آوازیں آرہی ہیں، اللہ کے رسول اوران کے فدائیوں اور ہمنوائوں کامقاطعہ کردیاگیاہے، وہ اس گھاٹی میںمحصور ہیں، کھانے پینے کاکوئی سامان نہیں پہونچ پارہاہے، یہ عرصہ دوچار ہفتہ ،مہینہ کانہیںتھا ،بلکہ اس حال میں پورے تین سال گزرگئے، مائوں کی چھاتیوں سے دودھ خشک ہوگیا، بچے بلک رہے ہیں، بڑے ببول کی پتیاں کھانے پرمجبور ہیں، زیادہ تفصیل آپ کوبے کار بناکررکھ دے گی ۔
ادھردیکھئے رات کی تاریکی میں کاشانۂ نبوی پرگھیراڈال دیاگیاہے کہ آپ باہر نہ نکل سکیں اورصبح ہوتے ہی (نعوذ باللہ) آپ کاکام تمام کردیا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں سے کس طرح نکلے وہ آپ کومعلوم ہے، آپ اپنے رفیق غار صدیق اکبر کے ساتھ غارثور میں چھپے ہوئے ہیں اور غیظ وغضب میںبھرے ہوئے کفار آپ کی تلاش میں سرگرم عمل ہیں، پکڑنے والوں کے لیے انعام مقرر کیا جاچکاہے، غار کے اوپرکفار کے چلنے کی آواز آرہی ہے ، کیسی بے کسی کاعالم ہے؟
یہ جوکچھ آپ نے دیکھا اورسنا ایک جھلک ہے ابتلاء وآزمائش کے ان پہاڑوں کی جوان پراوران کے صحابہ پرتوڑے گئے، جن کی یاد میں عید میلادالنبی ؐ کے نام سے سیرت کے جلسے منعقد ہوںگے، جلسے ہوںگے، نعتیہ مشاعرے ہوںگے، پوری رات میلے کاساسماں ہوگا، رنگ ونور کا سیلاب چل رہا ہوگا، اورصبح کے تڑکے جب مسجد کے میناروں سے مؤذن کی صدا گونجے گی کہ نماز کے لیے آئو ، کامیابی کی طرف آئو ، تومحبت رسول کے یہ دعویدار نیند کے خراٹے لے رہے ہوں گے جب کہ اس ذات عالی کاجس کے نام پر یہ سب کچھ ہورہاتھا ارشاد ہے کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نمازمیں ہے ، میلاد میں معراج کابھی ذکرآتاہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نماز مومن کی معراج ہے ‘‘ نماز کی بات تورات بھرجاگنے کے سیاق میں آگئی‘‘۔
اب ذرا تھم جائیے سوچئے اور غور کیجیے کہ اللہ کے رسولؐ اورآپؐ کے صحابہؓ نے وہ تکلیفیں اورمشقتیں کیوں جھیلی تھیں جن کاذکر ہوا، کیاصرف اس لیے کہ تاریخ میں ان کے صبروثبات اوراستقامت کاتذکرہ ہویااس لیے کہ وہ اپنی اس قوت ایمانی واخلاص اورصرف ایک کی بڑائی کے اعتراف اوراس کے سامنے جھکنے کی عملی دعوت دیں، کہ ان کے اس عملی کردار سے آنے والی نسلوں کوروشنی ملتی رہے اور وہ اپنی زندگی کے ایمانی اورعملی سانچہ کواسی سانچہ میں ڈھال لیں جس سانچہ میں انھوںنے اپنے آپ کو ڈھالاتھا۔
دل پرہاتھ رکھ کربتایئے کہ عین اس وقت جس وقت ہم میلاد کی مسرفانہ بلکہ نمائشی اورمسابقانہ وریاکارانہ سجاوٹ میںسارے حدود وقیود کو توڑکردیوالی اور دسہرہ کاسماں پیش کررہے ہوتے ہیں،کتنے دینی کام، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کوزندہ کرنے کے کام روپئے نہ ہونے کے سبب رکے ہوتے ہیں، کہاں امت کے لیے ۱۲؍ربیع الاول کوآنے والے رسولؐ کی بے کلی وتڑپ کہ اس کوراہ حق پرچلنا نصیب ہو، وہ شرک وبدعت سے محفوظ ، کتاب وسنت کے صاف شفاف آئینہ میں اپنے خدوخال کودیکھے اور جوبھی داغ دھبہ نظرآئے اس کوفورا مٹاکر سنت رسولؐ کے مطابق بنالے، سیرت پاک پر ہونے والے ان جلسوں کابھی اصل مقصد یہی ہوناچاہئے ، نہ کہ تسکین شوق اورنمود ونمائش۔
علماء کرام سے ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کوسنیں، جانیں اوران پرعمل کریں، ہماری زندگی ، ہمارے سماج ومعاشرہ میں جو چیز بھی ایسی ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ سے میل نہ کھاتی ہو اس کوفوراً مٹادیں، لیکن جب ہم رسمی اوررواجی میلاد ہی میںکھوجائیںگے توپھر وہ روشنی کیسے حاصل ہوگی جوسیرت پاک ہمیںعطاکرتی ہے۔
زیادہ کچھ کہنے کے بجائے بس اتنا ہی عرض ہے کہ آپ سوچئے کہ بالفرض اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت تشریف لائیں جب ہزاروں اور لاکھوں روپئے سجاوٹ میںلگا کر جشن میلاد النبی منایاجارہاہو، اور یہ سوال کریں کہ ہماری امت کے ہزاروں بچے دینی تعلیم سے محروم ہورہے ہیں، ان کوکتابیں اورمدرسے میسر نہیں ، سینکڑوں یتیموں اور بیوائوں کوکھانا کپڑانصیب نہیںہے، ہم نے توتم کو یتیموں اوربیوائوں کی کفالت کے فضائل سنائے تھے، گرتوں کو اٹھانے اورسہارا دینے کے احکامات بتائے تھے ، ادھر سے غفلت برت کریہ لاکھوں روپئے ہمارے نام پرمیلاد کے عنوان سے کیوں اورکس لیے خرچ کررہے ہو، جس کے بارے میں ہم نے ایک باربھی نہیں کہاتھا کہ ہمارے دنیا سے جانے کے بعدہماری یاد میں ہماری برسی منایاکرنا اورخوب سجاوٹ وفخرومباہات کے ساتھ منانا، سوچئے اورغورکیجیے یہ مسرفانہ خرچ کیوں اورکس لیے، اورایسے وقت میں جب امت مسلمہ کادین وعقیدہ خطرے میں ہے، ہرچہار طرف سے سازشیں اورحملے ایسے ہیں کہ پہاڑ ہل جائیں۔
٭٭٭٭٭
شمس الحق ندوی