رمضان اور احتسابِ نفس

استقبال ماہِ رمضان
March 20, 2023
استقبال ماہِ رمضان
March 20, 2023

رمضان اور احتسابِ نفس

مولانابلال عبدالحی حسنی ندوی
رمضان کا مبارک مہینہ سایہ فگن ہونے کو ہے، یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اتارا گیا اور پھر آہستہ آہستہ تیئس سال کی مدت میں حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ذریعہ سے عالم انسانیت کو ہدایت کی وہ ابدی کتاب ملی جس کا حرف حرف روشی اور صداقت ہے، یہ اللہ کا انسانوں پر احسان عظیم ہے کہ اس نے صرف کتاب ہی نہیں دی بلکہ صاحب کتاب کی شکل میں اپنے ایسے محبوب بندے اور رسول کو بھیجا جو عالم انسانیت کے لیے سراپا رحمت، جس کی ذات خلق عظیم، رحمۃ للعالمین جس کی صفت، قرآن مجید کی سراپا تفسیر، یہ وہ ذات تھی جس کے ذریعہ زمین کو بھی آسمانوں پر فخر کرنے کا شرف حاصل ہوا، اس کے واسطے سے ہدایت ربانی کا وہ ابدی تحفہ ملا جو زمین کو آسمانوں سے جوڑنے والا ہے اور زمین اپنی ہزار پستیوں کے باوجود آسمان سے باتیں کرتی ہے۔
یہ کلام ربانی رمضان سے مناسبت خاص رکھنے والا کلام ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں قرآن مجید کا دور حضرت جبرئیل کے ساتھ فرماتے، یہ تراویح کا سلسلہ حقیقت میں اس کی یادگار ہے اور یہ دور الفاظ کا بھی ہوتا تھا اور معانی کا بھی، رمضان کا مہینہ آتا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ایسا اہتمام فرماتے جیسے کسی بہت خاص اور معزز مہمان کا استقبال ہوتا ہے، دومہینہ پہلے رجب کے مہینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعا پڑھنا ثابت ہے کہ:’‘اللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ’’[شعب الایمان للبیہقی: ۳۸۱۵](اے اللہ! رجب و شعبان میں برکت عطا فرما اور رمضان تک پہنچادے) پھر جب شعبان کا مہینہ شروع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے استقبال میں بکثرت روزے رکھتے تھے، پھر جب شعبان کی آخری تاریخیں ہوتیں تو آپ خطاب فرماتے:
‘‘عن سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ قال:خطبنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی آخر یوم من شعبان فقال:یا أیھا الناس قد أظلکم شھر عظیم، شہر مبارک، شہر فیہ لیلۃ خیر من ألف شہر، جعل اللہ صیامہ فریضۃ وقیام لیلہ تطوعا، من تقرب فیہ بخصلۃ من الخیر کان کمن أدی فریضۃ فیما سواہ، ومن أدی فریضۃ فیہ کان کمن أدی سبعین فریضۃ فیما سواہ، وھو شہر الصبر، والصبر ثوابہ الجنۃ، وشہر المواساۃ، وشہر یزداد فیہ رزق المؤمن، من فطر فیہ صائما کان لہ مغفرۃ لذنوبہ وعتق رقبتہ من النار، وکان لہ مثل أجرہ من غیر أن ینقص من أجرہ شیء، قلنا: یارسول اللہ! ألیس کلنا یجد ما یفطر بہ الصائم، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: یعطی اللہ ہذا الثواب من فطر صائما علی صدقۃ لبن أو تمرۃ أو شربۃ من ماء، ومن أشبع صائما سقاہ اللہ من حوضي شربۃ لا یظمأ حتی یدخل الجنۃ، وھو شہر أولہ رحمۃ، وأوسطہ مغفرۃ، وآخرہ عتق من النار، ومن خفف عن مملوکہ فیہ غفر اللہ لہ وأعتقہ من النار’’. [شعب الایمان للبیہقی: ۳۶۰۸]
(حضرت سلمان فارسیؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:اے لوگو! تمہارے اوپر ایک بابرکت و عظیم الشان مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس مقدس ومتبرک ماہ میں روزے رکھنے کو فرض اور راتوں میں قیام کو نفل قرار دیا ہے،لہٰذا اگر کوئی شخص ان راتوں میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے واسطے کوئی خیر اور نیکی کا کام کرے گا،تو وہ ایسا ہی ہوگا جیسے کہ اس نے اس کو اس مہینہ کے علاوہ میں فرض ادا کیا ہواور جو بھی اس مہینہ میں فرض ادا کرے گا تو وہ ایسا ہی ہوگا کہ اس مقدس مہینہ کے علاوہ دوسرے مہینہ میں ستر فرض ادا کیا ہو،یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ مہینہ مؤاساۃ وغم خواری کا ہے،یہ مہینہ ایسا ہے کہ اس میں مومن کے رزق میں زیادتی کی جاتی ہے،اگر کسی نے بھی اس مہینہ میں کسی بھی روزہ دار کو افطار کرادیا،تو اس کی گناہوں سے مغفرت ہوگی اور آگ سے آزادی ملے گی اور اس روزہ دار کے ثواب کے برابر اسے بھی ثواب دیا جائے گا،بغیر اس روزہ دار کے ثواب میں کمی کیے، صحابہ کرام نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! ہم میں ہر شخص تو ایسا نہیں ہے جو روزہ دار کو افطار کراسکے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ اس شخص کو ثواب عطا کرے گا جو دودھ کا ایک گھونٹ یا ایک کھجور یا پانی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کو افطار کرادے اور جو بھی شخص کسی بھی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے گا اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے اس طرح سیراب کرے گا کہ اس کو پھر پیاس ہی نہیں لگے گی،یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ یہ ایسا مہینہ ہے جس کا اتبدائی حصہ یعنی عشرہئ اولیٰ رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت اور بخشش کا ہے اور آخری عشرہ آگ سے آزادی اور نجات کاہے،جو شخص اس مہینہ میں اپنے ماتحتوں کے کام میں آسانی پیدا کرنے کے لیے تخفیف کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے گااور آگ سے نجات اور آزادی عطا کرے گا)۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں آتا ہے کہ عشرہ بعشرہ آپ کی ریاضتوں میں اضافہ ہوجاتا، آخری عشرہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کمر کس لیتے، راتوں کو جاگتے اور گھر والوں کو بھی بیدار فرماتے اور سخاوت کا حال یہ ہوتا کہ:’‘کَانَ أَجْوَدَ بِالْخَیْرِ مِنَ الرِّیْحِ الْمُرْسَلَۃِ’’[صحیح البخاری: ۱۹۰۲] (ان کا جود وسخا تیز ہوا سے بھی زیادہ ہوتا) ہر قسم کی نیکیوں کی ترغیب دیتے، فرماتے کہ یہ’‘شہر المؤاساۃ’’ہے، غمگساری کا مہینہ ہے، جو اس میں اپنے غلاموں اور نوکروں کے بوجھ کو ہلکا کردے اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کے بوجھ کو ہلکا کردے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے یہاں تک فرمادیا کہ ہلاک ہو وہ شخص جس کو یہ مبارک مہینہ ملے اور اس کی مغفرت نہ ہو، رمضان گذر جائے اور عادتوں میں فرق نہ آئے، زندگی کا رخ درست نہ ہو، احتساب نفس کی صفت پیدا نہ ہو، یہ بڑی حرماں نصیبی کی بات ہے۔
یہ مہینہ قرآن و سنت کو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سیرت کو سامنے رکھ کر نفس کو تولنے کا مہینہ ہے، ہمارے عقائد و عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاق، زندگی کا طریقہ کس طریقہ کے ساتھ میل کھاتا ہے، ہر چھوٹی بڑی چیز کو تولا جائے، کتاب و سنت کے چوکٹھے میں فٹ کرکے دیکھا جائے، کہاں کمی ہے؟ کہاں زیادتی ہے؟ غیروں کے طریقے ہم نے کہاں تک اپنی زندگی میں داخل کرلیے ہیں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں ہم سے کہاں کہاں چھوٹ رہی ہیں؟ سنتیں عبادات کی بھی ہیں، معاملات و معاشرت کی بھی ہیں، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سب کچھ دیا ہے، یہ مہینہ ان تمام خیروں کو جذب کرنے کا ہے، سنتوں کی روشنی آتی جائے گی تو جہالت کی تاریکی نکلتی جائے گی، لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہم ان سنتوں میں فرق نہ کریں، جس طرح عبادات کی سنتیں ہیں اسی طرح معاملات و معاشرت کی بھی ہیں، ہمیں ایک مکمل نمونہ اختیار کرنا ہے اور یہ نمونہ غیروں میں اسلام کی کشش کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔