تعارف وتبصرہ

تعارف وتبصرہ
March 5, 2023
تعارف وتبصرہ
March 30, 2023
تعارف وتبصرہ
March 5, 2023
تعارف وتبصرہ
March 30, 2023

تعارف وتبصرہ

محمد اصطفاء الحسن کاندھلوی ندوی
نام کتاب:صدائے دل
تالیف:عبد الغفار نگرامی
مرتب: ڈاکٹر نذیر احمد ندوی
مولانا سید عبد الغفار نگرامی ندوی رحمۃ اللہ علیہ لکھنؤ کے معروف و مشہور قصبہ نگرام میں ایک ذی وقار سادات کے گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس خاندان کے جدّ امجد حضرت مولانا سید امین الدین احمد ایک نابغہئ روزگار شخصیت تھے، جنھوں نے حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ جہاد میں شرکت کی تھی۔ یہ خاندان اپنے علمی و ادبی امتیاز کے ساتھ سماجی اور دعوتی خدمات کے لیے بھی جانا جاتا رہا ہے۔
مولانا نگرامیؒ کی ایک خصوصیت یہ بھی رہی کہ ندوہ آنے سے قبل مفسرِ قرآن مولانا امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کی اتالیقی ان کو نصیب ہوئی، ندوہ آئے تو مفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی نور اللہ مرقدہ کے رفقاء درس میں رہے، اور عصری رفاقت میں سابق مہتمم دار العلوم ندوۃ العلماء مولانا محب اللہ لاری، سابق معتمد تعلیم ندوۃ العلماء مولانا عبد السلام قدوائی اور مولانا سید ابوبکر حسنی کے شریک رہے۔
مولانا نے ۸۶/ سال تدریسی خدمات انجام دیں، جن میں تقریباً ۸۱/ سال دار العلوم ندوۃ العلماء میں استاد رہے، بالخصوص قواعد صرف و نحو اور عربی زبان کی تعلیم کے آپ ماہر سمجھے جاتے تھے، اور اس فن میں آپ نے تجربات کا خلاصہ ”مہمات الصرف و النحو“ نامی کتاب میں پیش کیا۔
مولانا کو شروع ہی سے شعر و شاعری سے شغف رہا، شروع میں آپ نے غزل کو زیادہ تر اپنے دل کی نغمہ سنجیوں کے اظہار کے لیے اختیار کیا، بعد ازاں اہلِ دل سے تعلق کے بعد مناجات اور نعت النبی وغیرہ اصنافِ سخن بھی آپ کے شعری موضوعات میں شامل ہوگئے۔ ان کے علاوہ تہنیتی نظمیں، سہرے، تضمینات، اور عربی اشعار کے منظوم ترجمے بھی ”صدائے دل‘‘ کا حصہ ہیں، جن کومولانا کے قابل فاضل شاگرد اور دار العلوم ندوۃ العلماء کے مایہ ناز استاد مولانا ڈاکٹر نذیر احمد صاحب نے ترتیب دے کر اور مولاناؒ کے تعارف میں اک وقیع تحریر شامل کرکے نہ صرف یہ کہ حقِ شاگردی ادا کیا؛ بلکہ اس کو قابلِ اشاعت بنا کر شکریہ کے مستحق قرار پائے۔
”صدائے دل“ کی شاعری پر اک سرسری نظر ڈالنے سے مولانا سید عبد الغفار ضیاء نگرامی کی قادر الکلامی کا اندازہ ہوتا ہے؛ کہ انھوں نے اردو کی معروف ترین اکثر اقسام سخن میں جوہر آزمائی کی ہے؛ گرچہ غزل میں ان کی ادبی لیاقت اور طبیعت کی موزونی زیادہ محسوس کی جاسکتی ہے۔ درج ذیل شعرمیں ایک جھلک ٹھیٹھ کلاسیکی اندازِ غزل کی دیکھیے:
رخصت اے لذتِ شوریدگیئ زخمِ جگر
در کفِ آں بتِ طنّاز نمکداں نہ رہا
ایک شعر اور:
کیا سحر تھا جلوہ میں، اٹھتے ہی نقاب ان کی
مجھ سوختہ ساماں پر طاری ہوئی بے ہوشی
کچھ صنعتیں لفظی و معنوی ملاحظہ ہوں:
ع آپ کا دَربار جب کہ واقعی دُربار ہے
اور:
ع شبابِ ناز ہی نازِ شباب ہے پھر بھی
ش میں ان کے حسن کے پردے اٹھاتا جاتا ہوں
وہ میری آنکھوں پہ پردے گرائے جاتے ہیں
محاوروں سے بھی لطف اندوز ہوں:
ع محبت کی حقیقت کیا؟ بس اتنی! فقط اتنی
ع اب کبھی آپ سے صاحب‘ نہ سلامت ہوگی
۶۱۲/صفحات پر مشتمل”صدائے دل“ زیادہ تر مختلف معتبر مجلسوں اور خاص کر طرحی مشاعروں میں پڑھے گئے کلام سے عبارت ہے، جو لکھنؤ یونیورسٹی، ندوۃ العلماء، سرائے میر، نگرام اور دہلی کے مشاعروں میں سمع نواز ہوا۔
اشاعت ”مکتبہ ضیاء البدر“، لکی کامپلیکس، مدح گنج لکھنؤ سے ہوئی ہے۔
نام کتاب:مجالسِ معرفت (جلدِ ہفتم)
یہ ڈاکٹر سید محمود قادری مد ظلہ (خلیفہ و مجاز حضرت مولانا قمر الزماں الٰہ آبادی دامت برکاتہم) کی مجالس کے افادات کا سلسلہ ہے، جو موضوعاتی ترتیب کے ساتھ اب ساتویں جلد تک پہونچ چکا ہے۔ ہمارے ہاتھوں میں موجود یہ ساتویں جلد بیس مجالس کے افادات پر مشتمل ہے، اور موضوع کے اعتبار سے اس میں قرآن کریم کی ان آیاتِ مبارکہ کو لیا گیا ہے، جو کسی نہ کسی خصوصیت کی حامل ہیں، جیسے: قرآن کریم کی سب سے عظیم آیت، قرآن کی سب سے بڑی آیت، ایسی آیت جس میں چار بار ’حدود اللہ‘ کا لفظ آیا ہو، یا پھر ایسی آیت جس میں کوئی خاص تعلیم بیان کی گئی ہو، جیسے: آیتِ استرجاع، یا وہ آیت جس میں مشورہ کی اہمیت ذکر کی گئی ہے یاجس میں غیبت کی شناعت بیان کی گئی ہے، و علی ہذا القیاس۔
ڈاکٹر صاحب گرچہ ماہرِ طب ہیں؛ لیکن جب وہ ان آیات پر گفتگو کرتے ہیں تو ایسی کتابوں کے حوالے پیش کرتے ہیں جن کے نام سے واقفیت یا استفادہ کی توفیق عام طور پر طلبہئ مدارس کو بھی نہیں ہوتی۔ ان آیات کی تفسیر میں انھوں نے یہ منہج اختیار کیا ہے کہ ترجمہ اور مفہوم بیان کرنے کے بعد حدیث کی روشنی میں اس کی تفسیر یا توضیح کرتے ہیں، اور جہاں ضرورت ہو وہاں لغت اور قواعد کے پہلو سے بھی کلام کرتے ہیں، اور آیت کے ذریعہ وہ جس بات کی ترغیب دینا چاہتے ہیں اس کے لیے استدلال کرنے میں ان کا اندازِ کلام کسی عالم یا مفسر سے کم نہیں معلوم ہوتا۔امید ہے اہلِ طریقت گذشتہ جلدوں کی طرح اس کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیں گے، اور استفادہ کریں گے۔
نام کتاب:تذکرہ علمائے گجرات
مرتبین:پروفیسرمحبوب حسین عباسی،محمد سعد چشتی
گجرات کی سرزمین جو آج بالعموم تجارت کے پیشہ کے لیے معروف ہے‘ کسی زمانہ میں علوم و فنون شرعیہ کے لیے زرخیزی رکھتی تھی۔ محققین کی رائے میں اسلام کے ابتدائی دور ہی سے صحابہ ؓ و تابعینؒ کی آمد کے ساتھ وہاں علومِ شریعت کی داغ بیل ڈل چکی تھی، اور دہلی و ہند کے دیگر علاقوں کی علمی و تعلیمی تحریکوں سے قبل گجرات علم ِ حدیث کا یمنِ میمون اور علوم و فنون کا شیراز بن چکا تھا۔
گجرات کی علمی تاریخ پر چیدہ چیدہ کئی زبانوں میں اہلِ تحقیق نے تحریر کیا ہے، جو تاریخ کے مختلف مراجع میں منتشر اور بکھرا ہوا ہے، اور عام طالب علم تو کجا‘ اہلِ علم و دانش کو اس سے بخوبی واقفیت دشوار ہے۔ دوسری طرف کسی بھی قوم اور علاقہ کے لوگوں کا اس کی علمی و ثقافتی تاریخ سے آگاہ رہنا‘ اس کی نفسیاتی قوت، ثقافتی ترقی کے تسلسل اور تہذیبی شناخت کی بقا کے لیے از حد ضروری بھی ہے۔
اسی خیال کے پیشِ نظر مفتی امتیاز صاحب مرحوم(مہتمم مدرسہ دار القرآن، احمدآباد) کی خواہش کی تکمیل میں پروفیسر محبوب عباسی اور محمد سعد چشتی صاحبان نے طلبہ اور عوام میں گجرات کی علمی تاریخ سے آگہی پیدا کرنے کے لیے ”تذکرہ علمائے گجرات“ کے نام سے موسوم عام کتابی سائز کے ایک سو اٹھائیس صفحات پر مشتمل یہ رسالہ ترتیب دیا، جس میں تاریخ کے مختلف زبانوں میں درج پراگندہ مواد کو اسباق کی شکل میں سادہ اور سہل اسلوب میں اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان اسباق کی تعداد ۰۳ ہے، اور کل ۳۳/ شخصیات کے احوال و کوائف اور کارنامے ذکر کیے گئے ہیں، ہر سبق کے آخر میں اہم مصادر کا ذکر کردیا گیا ہے، اور ساتھ ہی سبق کے حوالہ سے طلبہ کو مواد ذہن نشین کرانے کے لیے کچھ تمرینی مشقیں بھی دی گئی ہیں۔ اس طرح یہ تاریخ نویسی کی ایک انوکھی اور عمدہ مثال بن گئی ہے، جو یقینا نسلِ نو کے مفید ثابت ہوگئی۔