رابطہ ادب اسلامی شاخ بہار کی جانب سے پٹنہ میں مورخہ ۸۱-۹۱/ فروری ۳۲۰۲ء کو منعقد سیمینار میں پیش کی گئی تحریر

    رابطہ ادب اسلامی شاخ بہار کی جانب سے پٹنہ میں مورخہ ۸۱-۹۱/ فروری ۳۲۰۲ء کو منعقد سیمینار میں پیش کی گئی تحریر

     مولاناعبداللہ عباس ندویؒ-سفرنامہئ حیات کے سایہ میں

    محمدعمیرالصدیق دریابادی ندوی

    قرآن کریم،تدوین سیرت،ارشاداتِ نبوی ؐکی روشنی میں نظام معاشرت، عربی میں نعتیہ کلام، ردائے رحمت،آداب وفضائل درود و سلام، نگارشات، مشاہدات وتاثرات جیسی کتابوں میں علم وادب کی اپنی ایک الگ ہی دنیا آباد کرنے والے قلم اور کاغذ کی پہچان اب بتانے کی بات نہیں۔ علم وادب کے نباضوں اور قدرشناسوں نے گویا مشترک طور پر اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ مولانا عبداللہ عباس ندوی کی تحریریں بصیرت افروز اورچشم کشا ہوتی ہیں۔ان کے قلم نے اردو زبان کوحسن وجمال اور وقارواعتبار بخشا۔ان کی تحریروں سے نئے گوشے کھلتے ہیں۔ذہن کو شگفتگی، روح کو بالیدگی اور ایمان ویقین کوتازگی ملتی ہے۔ تحریراور اسلوب اور مقصدتحریر کے ایک ماہر پارکھ نے تحریروں کی پاکیزگی کی اصل وجہ یہ بتائی کہ مولاناعبداللہ عباس ندوی نے سیرت نبوی کے موضوع پر متعدد کتابیں لکھیں۔ موضوع سے یہ خصوصی تعلق، مضامین کے بیان میں اس محبت کا احساس دلاتا ہے جس سے دل کو تسکین اور زندگی میں سدھار کی دولت ملتی ہے۔

    ہمارے دور کے نہایت باکمال ادیب وانشاء پرداز نے مولانا عبداللہ عباس ندوی کے ایک مجموعہ مضامین کے تعارف میں لکھا کہ ادب کی چاشنی،فکرسلیم کی روشنی،علم وتحقیق کی سنجیدگی جب زبان ہوشمند اورفکر ارجمند سے آمیزہوتی ہے تو ایک دلآویز ادب کا دیدار ہوجاتا ہے۔ مولانا ندوی کے حسن زبان اوررعنائی بیان کی گواہی جس طرح متفق اللسان دی گئی وہ خود مولاناندوی کے کمال کا بڑا خوبصورت عنوان ہے۔

    ہم نے بطورطالب علم بہت پہلے مولانا کی تحریروں کواپنی نگاہوں کا ضروری حصہ بنا رکھاتھا، ہم لطف ولذت کی چاہت میں مولانا کے مضامین پر جان دیتے تھے،بغیراس ادراک کے کہ مولانا کے ادبی ذوق میں ساری رنگ آفرینی،ساری کشش اور ساری جاذبیت قرآن مجیدکی بلاغت سے استفادہ کاثمرہ ہے، بقول مولانا سیدمحمدرابع ندوی، ادب اور قرآنی بلاغت دونوں نے جس ذوق کی آبیاری کی اسی نے مولانا عبداللہ عباس کی تحریروں کو دو آتشہ کر دیا۔

    مولانا کی کتابوں اور ان کے مقالات و مضامین کے مجموعوں کو زندہ اور تازہ رکھنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ یہ در اصل ادب اسلامی یا ادب عالیہ سے ہم کنارکرنے اور اس کے حسن وافادیت اور خیر سے سرشار کرنے کی نعمت سے ذہن اور قلب کو روشن اور پاک بنانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی ہر کتاب کا تقاضا ہے کہ اس کوحرزجاں بنایاجائے۔

    میرے لیے یہ مشکل البتہ بڑی بن گئی کہ مولانا کی کس تحریر کی بازخوانی کی جائے اور کس کتاب کے سایہ میں خیالات کو مجتمع کیا جائے۔

    کتابوں کی پسند میں دیکھاجائے تو طبیعت خود فیصلہ کر دیتی ہے کہ دل کس صحبت میں زیادہ لگتا ہے، عموماً ہم جیسے حروف والفاظ سے معمولی شدبد رکھنے والوں کو زیادہ راحت اور فرحت اد ب کی دوصنفوں میں ملتی ہے، ایک تو مکتوبات،دوسرے سرگذشت،اس میں خود نوشت،تذکرہ اورسوانح سب شامل ہیں، خدا جانے کتنوں کی آپ بیتیاں یاحالات پڑھنے کے بعد، ان اہل قلم کی تمام بیش قیمت تصنیفات کی موجودگی کے باوجود زبان پر وہی جملہ آجاتا ہے جوہمارے ایک نہایت پاکیزہ ذوق کے حامل جناب ہلال احمد قادری کی زبان پر آگیاتھا کہ اگر یہ آپ بیتی نہ لکھی جاتی تو تاریخ کا ایک قیمتی حصہ ضائع ہوجاتا۔

    بس یہی جذبہ تھا جس نے نگاہوں کا مرکز اس کتاب کو بنادیا جو مولانا عبداللہ عباس صاحب کا سفرنامہ حیات ہے۔ زندگی کیا ہے اوراس کا سفر کیا ہے،شاید انسان کے وجود اول سے ایسے سوالات پہیلیاں بنتے رہے، جس کے شعور نے بھی کروٹ لی، اس کے سامنے بس یہی سوال آیا کہ آخر یہ زندگی ہے کیا، اس کی کامیابی، ناکامی، اس کا درد، اس کی مسرت،آخر ان سب کی تعبیر کیسے کی جائے۔ شاید قیامت تک زندگی کے فلسفہ کوسمجھنے کی کوششیں ہوتی رہیں گی، پھر بھی کوئی ایک یقینی اور متفقہ جملہ تشنہ ہی رہے گا۔ زندگی کے نشیب وفراز، زمانے کے انقلابات اور ہر پل تغیرات کے تماشے جوداستان سناجاتے ہیں، اس سے زیادہ پرتاثیرکہانیاں اور کیا ہوسکتی ہیں۔

    مولاناندوی کاسفر نامہ حیات بھی بس ایسی ہی ایک کہانی ہے، سچی،فطری، زمین کی مٹی سے لگی ہوئی، جہاں کہانی سنانے والے کی نظر بیکراں فضاؤں میں جیسے گم ہوتی نظرآتی ہے، ایک خود کلامی کاماحول، جہاں بے نفسی کا رنگ ہو اور جہاں اس احساس کا گزر ہی نہ ہو کہ سنانے والے کا بیان،حسن طبیعت کا مظہر نہیں۔جہاں قصہ سنانے والا یہ سمجھتا ہو کہ یہ تو قصہ رسوائی ہے، داستان ضرور ہے لیکن ناہموار، اس کو ہموار کیسے کیاجائے، زندگی تو قصہ گو کی نظر میں رائیگاں ہے تو کس کو اور کیوں سنایاجائے، پہلے ہی قدم پر اعتراف کہ ہم کہاں کے دانا، کس ہنر میں یکتا، زندگی اگر الجھے فقروں، ٹیڑھی سطروں کا عکس ہے تو خامہ پر بھی رعشہ ہی نمایاں ہوگا، زندگی کیاہے؟ جانے والوں کی یادوں،بھولے بسرے قصوں اور ہردم رواں دواں دنیا کی بدلتی رہتی تصویروں کوکوئی بیان بھی کرسکتا ہے یا پھر زندگی کا سفر صرف اتنا یاد دلا تا ہے کہ عمر کا حاصل کیا ان تین باتوں کے علاوہ کچھ اور بھی ہے، کہ پہلے کچا تھا،پھر پکا ہوا اور آخر میں بجھ گیا: خام بدم، پختہ شدم، سوختم۔

    بہت کم آپ بیتی سنانے والوں نے اعتراف کیا ہوگاکہ پختہ شدم کا زمانہ کب آیا اور کیوں کر آیا، آیا بھی کہ نہیں! یہ احساس بھی کیا کچھ کہہ جاتا ہے کہ دنیاوی زندگی ایک سفر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، کسی کی عمر کی طرح رائیگاں ہو یا کسی اللہ والے کی زندگی کی طرح کامران ہو، حکم ہرایک کو یہی ملاکہ: کن فی الدنیا کانک غریب۔

    عموماً آپ بیتیوں میں نسب کے بیان کا اہتمام ہوتا ہے، کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ معز ز اور صاحب نسب لوگوں ہی کو آپ بیتی سنانے کا حق ہے، ہمارے مولانا ندوی نے بھی آپ بیتی کی ابتدا اسی سے کی، مگر کس طرح؟ چونکا دیایہ لکھ کہ کہ میرا نسب نامہ کیا ہے، میرے آباء واجداد کیا تھے، اس کا بیان نہ تو قابل فخر ہے اور نہ موجب بخشائش، لیکن آدمی تو آدمی ہی ہے، جانوروں کے بارے میں بھی اس کی نسل کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ آگے جواز میں مولانا سیدابوالحسن علی ندوی کی ایک تحریر کو پیش کردیتے ہیں اور پھرنسب سے واقفیت میں بس دھیرے سے کہہ جاتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کو شاید اس سے اتنا تنبہ ہوسکے وہ کبھی یہ سوچیں کہ:

    وہ کیاگردوں تھا جس کا تو ہے ایک ٹوٹا ہوا تا را

    لکھا کہ ہمارے خاندان کے بزرگ خود کو سید نہیں لکھتے،کیوں کہ نسب باپ سے ہوتا ہے اور ہم لوگ جعفر بن ابوطالبؓ کی اولاد سے ہیں، علیؓ کی اولاد نہیں، مگر یہ کنارہ کشی ان کے نزدیک کیاتھی:

    نسبت غلامی کرد درجہ خسرو بلند

    پھلواری شریف وطن تھا لیکن نانہال سہار، یاد رہا کہ نانانے وہیں تاریخی نام امین الخیرات رکھاتھا۔گھر کا کیا حال تھا،بس مقدور علہیم، ظاہر ی مال وسامان آسائش کی کمی کاگلہ نہیں، لیکن قناعت و خود داری پرشکر ضرور جاری رہا، پیغمبرانہ دن گزر جاتے،ساتھیوں کو بھنک بھی نہیں لگتی کہ اس بچہ کادن کیسا گزرا، اورکون دیکھتا اور خشک چہروں اور سوکھی آنکھوں کے پردے میں جھانک کر اقتصادی حالت کا اندازہ لگاتا، اب یہ کہناکیا ہرکسی کے بس کی بات ہے کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان تھا، فقر تھا،افلاس تھا لیکن عبداللہ کے والد جناب عباس کی عالمانہ شان ہرجگہ قائم رہی،یہ کچھ کم نعمت تھی،مولانا عبداللہ عباس ندوی ڈاکٹر، پروفیسر، مصنف،مدیر کو تو سب جانتے ہیں لیکن اس بچے کو کون یاد رکھتاجو اپنے عزیزوں اور خاندان والوں کی تعلیم وتربیت کے انتظامات کو شاہانہ کرو فر سے دیکھتا اورپھر اپنا دامن دیکھتا، لیکن جب وقت آیا توفخریہ کہہ دیا کہ میری تعلیم توصرف میرے والد مرحوم کی رہین منت ہے، کیا دور رہا ہوگا جب بڑے بھائی شاہ نعمت امام نے لکھنؤسے باپ کو لکھا کہ پیسے خرچ کرنے کا تجربہ مجھے اچھا نہیں لگتا، افلاس وقناعت کا وہی تجربہ اچھا جو مجھے آپ سے ملا ہے۔

    آپ بیتی وہی اچھی جو جگ بیتی بن جائے اوربے شمار انسانوں کی اپنی کہانی بن جائے، بچپن کے وطن کی خوشبو تو کافوری مہک سے بھی نہیں جاسکتی، مولانا نے بچپن کے پھلواری کی جو تصویر کھینچی اس میں خداجانے یادوں کے کتنے رنگ اور کتنی آڑی ترچھی لکیریں زندگی کے ہاتھ کی لکیروں کی طرح کبھی نہ مٹنے والی بن گئیں، پھلواری شریف کے میلے یاد آنے لگے، مزاروں پر جوکچھ ہوتا، اس سے کیا بحث، لکھ دیا کہ جائز و ناجائز،مستحب ومکروہ سب اپنی جگہ، میرے علم وفہم میں منکر وباطل یا کفر وشرک کی کوئی بات نہیں،اور جوقابل اعترا ض بات ہے وہ قابل توجیہ وتاویل بھی ہے، یہ جملے کوئی ندوی قلم ہی اپنی زبان پر لاسکتا ہے، ہمت ہونی چاہیے یہ کہنے کی کہ جب عمر گرنے لگی تو صوفیانہ مزاج اورخاندانی طورطریقے ابھر نے لگے اور جو تھا ناخوب وہی خوب نظر آنے لگا، مرحلے آنے لگے تو لکھنؤ پہنچے، تمناعمادی گھرکے تھے، مشورہ دیا کہ ندوہ جانے کی کوشش کرو وہاں کچھ عقل کھلے گی اور درس نظامی کے بہ نسبت اللہ رسول کی بات سے زیادہ مناسبت ہوگی ورنہ ملاجلا ل اور میر زاہد کو پڑھ کر کیاکر لوگے۔

    مولانا کی اردو کی داد بڑے بڑوں نے دی، خودوہ مولانا دریابادی کے اثرات کا ہمیشہ ذکر کرتے رہے لیکن معاملہ یہ بھی تھا کہ انہوں نے لکھنؤ کے محلہ ٹکسال میں تین سال گزارے، زبان ٹکسالی کیوں نہ ہوتی۔

    ندوہ میں داخلہ سے پہلے یہ غیبی انتظامات بھی کیا چیزہیں۔ ندوہ کا ذکر آیا تو پھرایک تیر کیا خدا جانے کتنے تیروں کی بات آگئی، دوستوں کی یادوں نے عمر رفتہ کو آواز دی تو اساتذہ یاد آنے لگے، جمعیۃ الاصلاح کی تربیت سازی کی بات آئی، مولانا قدوائی کی ہدایتوں کے ساتھ مولانا علی میاں کی وہ ادا یا دآئی کہ انہوں نے ہر درجہ کے لیے قابل مطالعہ کتابوں کی فہرست بنائی تھی، فہرست کے ساتھ یہ ذہن بھی بنایا تھاکہ سب کچھ پڑھو، فحش بھی پڑھو مگر اپنے ذہنی معیار کے مطابق پڑھو کہ سمجھ سکو کہ زہر اور قندیل میں کیا فرق ہے۔ کوئی کیا جانے کہ ندوہ کیا سکھلاتا ہے، علامہ شبلی کی الفاروق پڑھی جس کے بعد یہ تاثر پیدا ہوا کہ اس کتاب نے وہ کام کیا جو مناظرہ کی چند در چند کتابیں نہیں کرسکتی تھیں، موازنہ انیس و دبیر نے بلاغت کا مفہوم سمجھایا، غرض جمعیۃ الاصلاح کی تربیت سازی کا ایسا نقشہ ہمارے مولانا نے کھینچ دیا کہ اس سچائی سے شاید ہی کوئی الاصلاح کے فوائد ونقصانات کو اب بیان کر سکے، کیسی الاصلاح تھی جہاں ایک سے ایک نامور شاعر آتے اور اپنی اپنی بولیاں بول کر اڑ جاتے، الاصلاح سے ذرا فرصت ملی تو پھر اساتذہ اوران کے طریق درس پر باتیں آنے لگیں، ڈاکٹرعبدالعلیؒ کاذکر آیا تو یہ جملے ہمیشہ کے لیے امرہوگئے کہ ان کے قلب کی مٹی جس نر م اور بار آور دبستان نبوت سے ودیعت ہوئی تھی اس پر حضرت دہلو ی (مولانا الیاس) کا رنگ ایساتھا جیسے نرم اور زرخیز مٹی پر ابر رحمت کی پھوار پڑے، یہیں پر مولانا علی میاں کے سلسلہ میں ایک جملہ ایسا آیا کہ شاید ہی کسی کے ذہن کی رسائی وہاں تک ہوئی ہو، لکھاکہ مولانا علی میاں طلبہ اور اساتذہ میں محبوب تھے، محترم المقام تھے اور اس میں اس بات کو قطعاً دخل نہیں تھا کہ وہ ڈاکٹرسیدعبدالعلیؒ ناظم ندوۃ العلماء کے بھائی تھے، کیوں کہ ندوہ جوشبلی اورمولانا محمد علی کو ناراض کرچکا تھا، اس کا باغیانہ مزاج، حاکم ومحکوم کے رشتہ کو نہیں مانتا تھا اور نہ اس کی پرواہ تھی، یہ بات اس لیے لکھ دی کہ بعض معاندین کے ذہن میں حضرت مولانا علی میاں کی کامیابی کا سبب یہ بھی تھا۔

    ڈاکٹر عبدالعلی کے ذکر میں ان کے صاحبزادے مولانا محمد میاں کی بات آئی کہ ان کی تعلیم کی ذمہ داری ڈاکٹر صاحب نے کسی پر حتی کہ ان کے عم گرامی مولانا علی میاں پر بھی نہیں ڈالی بلکہ خود پڑھا یا، ان کی تعلیم کومولانا عبداللہ عباس نے کرامت سے تعبیرکیا، یہ طرز تعلیم کیاتھا؟ مولانا ندوی اس کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے، لکھا کہ اس طریقہ پر پڑھا سکتا ہوں مگر محمد میاں جیسا شاگردکہاں ملے گا جس کی فطرت پاک ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قلب سلیم لے کر آیا ہو، بات صرف فن کی ہوتی تو تجربہ کرکے دکھادیتا مگر یہ کس طرح بتاؤں کہ:

    وہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

    ندوہ میں جو کچھ ڈاکٹر ندوی کو ملا اس کو ا نکسار کے ساتھ یاد کیا کہ تعلیم کے زمانہ میں کچھ استعداد نہیں پیدا ہوئی، ہاں ادب و تفسیر کی چند لکیریں نوشتہ تقدیر بن گئی تھیں، پھر جو لکھا وہ ہے جھوم جانے کے لائق کہ ”آگے احساس کمتری جس کا نتیجہ اظہار بر تر ی ہوتا ہے اور خودفریبی جس کولوگ خودداری سے تعبیرکرتے ہیں،میرا متاع ہنر تھا“۔

    آپ بیتی کی بات آئی تو ڈاکٹر ندوی کے یہ الفاظ کسی بھی آپ بیتی کی ضرورت کی اصل وجہ ظاہر کرتے ہیں کہ سوانح کا مقصد یہ نہیں کہ آپ بیتی سنانے والا یہ بتائے کہ وہ کہاں پیداہوا، کہاں پڑھا، کیا عہدے حاصل کیے اور زندگی جو ناکامی سے شروع ہوئی، کس طرح کامیابی کی شاہراہ پرگامزن ہوئی؟ سوانح کا اہم جز یہ بھی ہے کہ ذہنی پرورش کس حال میں ہوئی، مقامی اور بین الاقوامی حالات کیاتھے، خوف ورجاء کے کن گوشوں سے اس کا سابقہ پڑ ا،اس طرح ایک شخص جس قدر بھی معمولی ہو اس کی سوانح سے عالمی تاریخ کے تانے بانے جوڑے جاسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر ندوی نے علماء کے نام پرمادی فوائد کے حصول میں حد سے گزرنے والوں کو قریب سے دیکھا، سعودی عرب میں تو خوب دیکھا توانہوں نے محسوس کیا کہ:

    خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتے بھی نہیں

     مگر اندھیرے اجالے میں چوکتے بھی نہیں

    اور یہ کہ مادی منافع کے استحصال میں کیا حنفی، کیا شافعی اور کیا اہل حدیث اور اہل قرآن، کسی کو بلند نہیں پایا، جن کو پایا ان کے نام گناتے ہوئے اس ذہنیت کی جانب اشارہ بھی یہ کہہ کر کردیا کہ لوگ شاید اس کوتعصب سے تعبیر کریں لیکن ان کی باتوں کو غور سے سنتے ہوئے شاید ہی کوئی منصف مزاج ان کے اعتراف حق کو کسی بھی شے سے ملوث دیکھے، ان کو اپنی بشریت کی حقیقت کا علم رہا، بڑی صاف گوئی سے ظاہرکردیا کہ انسان کے نفس کی سچائی کیا ہے، حرص وطمع کا پیٹ تو صرف قبر کی مٹی ہی بھرسکتی ہے، ایک خواہش پوری نہیں ہوتی کہ دوسری تازہ دم خواہش سامنے آکر کھڑی ہوجاتی،مگر یہ ناچیز ایک ناچیز بندہ ہی تو ہے، کوئی قطب وابدال تو نہیں کہ حقیقت کو عملی طور پر سمجھ کر دل و دماغ پر قابو رکھتا اور توکل علی کی سنت پرقائم رہتا۔

    علی میاں،مولانا مودودی اورپھر والد سب کی یادیں عمررفتہ کو آواز دیتی ہیں اور ایسے میں یاد آتا ہے کہ آٹھویں درجہ میں تھے کہ والد ماجدکا انتقال ہوگیا،تعلیم کا سلسلہ ایک لمحہ کے لیے تھم سا گیا،وطن واپس آکر نوکری کرنی پڑی لیکن ندوہ کی کشش نے پھر زور کیا،تعلیم کے ساتھ روزگار کاستم جاری رہا، رحیم آباد میں امامت اور اتالیقی صرف بیس سال کی عمر میں کی،یہ دیکھ کر مولانا ناظم ندوی نے کہہ دیا کہ کچاانگور کشمش بنا دیاگیا، پست معیشت،زندگی کے ضائع جانے کا احساس دلائے تو غلط کیا، آپ بیتی کے سچ کا تقاضا اور کیا ہے۔

    بہت سے آپ بیتیوں میں لوگوں نے اپنی کمزوریوں کو چھپایا نہیں مگر جس طرح مولانا نے بیان کیا اس کی مثال بھی ملنا مشکل ہے، لکھا کہ: ایک ہند ی نژاد ہندی طورطریقے پر پرورش پایا ہوا،غربت و افلاس کے ماحول سے نکلا ہوا زہد و قناعت میں اپنے آباو اجداد کی سنت پر کب تک قائم رہتا، ہل من مزید کی جستجو،خوب سے خوب تر کی طلب کبھی کم نہ ہوئی، یہ علت میرے بھائیوں میں نہ تھی، اظہارحق کی یہی خوبی مولانا کی اس آپ بیتی کا سب سے بڑا امتیاز بن گئی۔ دوسروں کو اپنے ساتھ زندگی کے سفر کی سچائیوں سے آشنا کراتے ہوئے وہ اس طلب میں بھی اپنے قاری سے آمین ہی نہیں کہلواتے،خود کو اس دعا کی لذت سے سرشار کر جاتے ہیں۔کہتے ہیں: اگر اللہ مرنے سے پہلے اپنی طلب کو سب سے بڑی طلب بنادے تو اس کا کرم ہے ورنہ ہم اس ”پانے“ کے چکر میں سب کچھ کھوبیٹھے۔

    صرف یہی جملہ ان کی آپ بیتی کے مقام بلند کے تعین کے لیے کافی ہے،ذرا اور آگے دیکھیے زندگی کی سچائی کیا کہلا جاتی ہے، ڈاکٹر ندوی لیڈس میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں، بقول ان کے یہ زمانہ ان کے لیے سخت آزمائش کا تھا، گھریلو معاملات نے لوہے کے چنے چبوائے، تحقیق کے کام کے لیے جو سکون مطلوب ہوتا ہے وہ بالکل میسر نہیں، بلکہ اس کے برخلاف جان، مال، عزت، آبرو سب داؤں پر چڑھے ہوئے، حضرت علی میاں نے ابتہال وتضرع کی ڈگر دکھا ئی تھی، وہی سب سے بڑا سہارا اور قوت تھی، یہ لکھنے کے بعد یہ جملے کاش کوئی دل کی آنکھوں سے پڑھ سکے کہ لیڈس میں اللہ کی یہ نعمت حاصل ہوئی کہ ایسے لوگوں کی صحبت ملی جو اصحاب جبہ ودستار تو نہیں تھے مگر ان کے قلوب میں وہی روشنی تھی جو اہل اللہ کی پہچان ہے۔ بعضوں کوانگلینڈ یایوروپ میں صرف فواحش ومنکرات ہی نظر آتے ہیں لیکن خرابیوں میں خوبی دیکھنا اور بات ہے، ڈاکٹرندوی نے لکھا کہ سب سے بڑی بات جو مجھے اپنی نسل کو دکھانا ہے وہ انگریزوں کی محنت اور کام کے وقت کام کی دھن ہے،ان کے اندرکام چوری بالکل نہیں دیکھی۔

    باقی ان پر کیا گزری اور جو گزری،اس کو اپنے شعروں کے حوالے کس طرح کیا، اس کے لیے تو سفر نامہ کو سینے اور آنکھوں سے لگانا ہی ہوگا۔

    پھر زندگی خدا جانے کیسے کیسے موڑوں پر لاتی رہی، یورپ، عرب، لیڈس یونیورسٹی،ام القریٰ یونیورسٹی، رابطہ عالم اسلامی، ندوہ کی معتمدی، دلی کی صحافت، سنگاپور وجاپان کی سیاحت، بہت سی باتیں ہیں جو کتاب کے صفحات پر مولانا نے نقش کردیں اور پھر یہ کب اور کیسے پڑھنے والے کے دل کی دنیا پر ثبت ہوگئیں، اس کے لیے وقت چاہیے۔

    زندگی کی شام ہوئی تو بس ان کا یہی جملہ خدا جانے کیا کیا کہہ گیا کہ دنیا بھر کی خاک چھاننے اور ملک ملک کی سیاحت کے بعد اپنے پیروں میں چبھے ہوئے کانٹے نکال رہا ہوں، اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر ایمان ہے اور آنکھوں سے اس آسمانی صداقت کو دیکھ رہا ہوں کہ: اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَمَنْ عَلَیْھَا وَ اِلیْنَا یُرْجَعُوْنَ۔

    مولانا عبداللہ عباس ندوی کی آپ بیتی کیا ہے؟یہ مسلسل دریافت کے عمل کا متقاضی سوال ہے، لیکن آخر میں بس یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اس آپ بیتی نے بتایا کہ فقر کی آخری منزل فخر ہے، وہ کون سافقر ہے جو اسکندری سے بہتر ہوجاتا ہے، جومشرق ومغرب کے علوم کے حصول کے بعد بھی روح میں سمائے ہوئے درد وکرب کو دور نہیں کرتا، کبھی فقر وفخر کو ایک ہی جملے میں دیکھا تھا، اس آپ بیتی کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ دونوں کا رشتہ کیا ہے اور ان کی معنویت کیا ہے؟ الفقرفخری کوسمجھنے کے لیے آپ بیتی کو خود بیتی بنانے کی ضرورت ہے۔

    ہم نے شروع میں اپنی پسند کی بات کرتے ہوئے تذکرہ وسوانح کے ساتھ مکتوبات کاذکر کیاتھا کہ انسان کو اس کے اصل خط و خال کے ساتھ دیکھنا ہو تو اس کے نجی خطوط سے ملاقات ضروری ہے، ڈاکٹر ندوی کے خطوط تو ہم نے ایک جگہ جمع نہیں دیکھے لیکن ’المجیب‘ پھلواری کے اس شمارہ میں مولانا ڈاکٹر ندوی کی یاد میں شائع ہوا تھا، اس میں چند مکاتیب ہیں، ان میں مولانا کیسے نظر آئے وہ دیکھنے کی چیز ہے، فرصت ملی تو ان کا بھی ذکر کیاجائے گا۔ان شاء اللہ۔