اُمت کے تحفظ وبقا کا راز

    اُمت کے تحفظ وبقا کا راز

    مولانابلال عبدالحی حسنی ندوی
    یہ امت امت دعوت ہے اور یہی اس کی خیر امت ہونے کی کھلی نشانیوں میں سے ہے، دعوت ہی سے اس کی بقا ہے،جو قومیں دعوتی مزاج رکھتی ہیں وہ زندہ رہتی ہیں،ورنہ وہ برف کی طرح پگھل جاتی ہیں،اس امت کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک زندہ رہنے کے لیے پیدا فرمایا ہے،اس لیے نبی آخر الزماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے دعوتی مزاج رکھنے والی ایک ایسی جماعت تیار کردی جس نے دنیا کے بڑے حصہ کو بہت کم مدت میں دعوت آشنا بنا دیا، ان کا ایک ایک فرد تحریک بن گیا، جو کام بڑی بڑی تحریکات نہیں کر سکتیں وہ کام ایک ایک فرد نے کر کے دکھا دیا، یہ امت جب تک اپنے دعوتی مشن کے ساتھ آگے بڑھتی رہی اس کو کوئی طاقت روک نہیں سکی،دعوت کی اس طاقت نے تسخیر عالم کا کام کیا، لیکن جب سے اس کی دعوتی اسپرٹ (Spirit) میں کمی آنے لگی‘حالات بدلنے لگے، آہستہ آہستہ وہی امت جس کا نام سکہئ رواں کی طرح چلتا تھا،جس کے رعب سے سلطنتیں کانپتی تھیں، یورپ جس کی غلامی کو اپنے لیے قابل فخر سمجھتا تھا، جس کے ایجاد کردہ علوم و فنون پر آج کی ترقی کی بنیاد ہے، اس نے اپنا مقام کھودیا، قومیں اس پر ٹوٹ پڑیں، اس کی طاقت تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی، خلافت اسلامیہ کا نشان مٹ گیااورغلامانہ ذہنیت رکھنے والے وہ حکام مسلط کر دیے گئے جو پوری اسلامی تاریخ کے لیے کسی کلنک کے ٹیکہ سے کم نہیں۔
    دعوت اپنوں میں ہویا غیروں میں یہ ایک اہم ترین دینی فریضہ ہے، امت کے تخفظ و بقا کا راز بھی اسی میں مضمر ہے، بقائے عالم کی موجودہ کوششوں میں یہ فکر بھی پیش کی جاتی ہے کہ ہر مذہب والا اپنے مذہب پر عمل کرے کوئی کسی کو نہ روکے نہ ٹوکے، تاکہ ہر شخص آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکے، اسلام میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں، ہو سکتا ہے کہ کسی ضروری مصلحت کی خاطر کسی علاقہ میں محدود وقت کے لیے اس پر عمل کر لیا جائے لیکن اسلامی مزاج سے اس کا کوئی تعلق نہیں، بھلائی کی تلقین کرنا، اس کا ماحول بنانا، اس کو عام کرنے کی کوشش کرنا مسلمانوں کے فرائض منصبی میں داخل ہے، برائی کو برائی سمجھنا، اس کو برا کہنا، ماحول کو اس سے پاک کرنے کی کوشش کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔
    موجودہ مسلم معاشروں میں یہ خرابی بڑھتی چلی جارہی ہے کہ برائیوں کو دیکھ کر دل نہیں کانپتا، اس کا احساس ختم ہوتاچلا جا رہا ہے، وہ معاشرہ کسی مسلمان ملک کا ہو یادوسرے ملک کی مسلم آبادیوں کا، کوئی برائی داخل ہوتی ہے پھر بڑھتے بڑھتے وہ سب کو اپنے لپیٹ میں لے لیتی ہے، ظاہری طور پر دین دار لوگ اس میں مبتلا ہوتے جاتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پہلے ہی مرحلہ میں اس کے سد باب کی کوشش نہیں کی جاتی، یہ ایک ایسا خطرناک سلسلہ ہے جو ارتداد تک پہنچا سکتا ہے اور اس دور میں اسلام دشمن طاقتوں نے یہی حربہ اختیار کیا ہے کہ مسلمانوں میں ایک ایک کرکے ایسی برائیاں عام کی جائیں کہ آہستہ آہستہ ان کا اسلامی تشخص تحلیل ہو کر رہ جائے اور کچھ عرصہ کے بعدان کے اندر اس کا احساس بھی ختم ہو جائے۔
    یہ ایک نفسیاتی چیز ہے کہ آدمی جس ماحول میں رہتا ہے اس کا عادی بن جاتا ہے، گندے ماحول میں رہنے والے گندگی کو محسوس نہیں کر پاتے، جو لوگ تاریکی میں رہتے ہیں ان کو تاریکی کی شدت کا احساس نہیں ہوتا، لیکن جو لوگ روشنی سے تاریکی میں جاتے ہیں وہ ایک قدم آگے نہیں بڑھا سکتے، یہی حال ان منکرات کا ہے جو معاشرہ میں آہستہ آہستہ پنپتی ہیں اور ان کی فکر نہیں کی جاتی، آج الکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ عالمی ماحول کو کرپٹ(Corrupt) کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور اس کا سب سے بڑا نشانہ مسلمان ہیں، دین کے دشمنوں کا نشانہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہر محاذ سے ایسا کرپٹ کر دیا جائے کہ وہ پوری طرح کھوکھلے ہو کر رہ جائیں اور پھر ان میں کسی مقاومت کی استطاعت بھی باقی نہ رہے، اس خطرناک سازش سے مقابلہ کا بڑا ہتھیار یہ دعوت ہے، اس کی بیداری پیدا ہو جائے تو مسلمانوں کو کوئی بھی لقمہ تر نہیں بنا سکتا۔
    منکرات کے سیلاب پر بھلائیوں کا جو باندھ باندھا گیا تھا اس میں جگہ جگہ سوراخ کر دیے گئے ہیں، مسلمانوں کا لقب ”خیرامت“ ہے، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان منافذ کو بند کرنے کی کوشش کریں، ورنہ اس کا خطرہ ہے کہ کہیں پوری انسانیت منکرات کے اس سیلاب کی نذر نہ ہو جائے اور پھر اس کے بعد سنبھالنا مشکل ہو۔