خدمت علم ودین اور معاش کا مسئلہ

خود کشی کے واقعات اور ذہنی واعصابی امراض
مارچ 5, 2023
خود کشی کے واقعات اور ذہنی واعصابی امراض
مارچ 5, 2023

خدمت علم ودین اور معاش کا مسئلہ

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ایک زمانہ تھا جب مسلم سماج میں علماء اور حفاظ کی بہت کمی تھی، نمازتراویح کے لیے لوگ کئی کئی ماہ پہلے سے حافظ کو تلاش کرتے تھے، اور تراویح پڑھانے والوں کے بڑے ناز وانداز اور مطالبات ہوتے تھے، علماء تو بہت ہی کم ہوتے تھے، ایک متوسط درجہ کے شہر میں علماء کی تعداد اتنی کم ہوتی تھی کہ انگلیوں پر گنا جا سکتا تھا، بیشتر مسجدوں میں صرف حافظ امام ملتے تھے، جمعہ میں لوگ کتاب پڑھ کر سنا دیتے تھے، زیادہ تر مسجدوں میں زبانی بیان کرنے والے لوگ نہیں ہوتے تھے، دیہاتوں کی صورت حال یہ تھی کہ نکاح پڑھانے کے لیے بھی دور دور سے عالم کو بلاکر لاتے تھے، آج سے تیس چالیس سال پہلے تک ملک کے بیشتر حصوں میں یہی صورت حال تھی، مدارس کم تھے اور دارالاقامہ والے مدارس اور کم تھے، اور وہ اقامتی مدارس جن میں عالمیت تک مکمل تعلیم ہو، بہت ہی کم تھے، پوری ریاست میں چند مدارس ہوتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کا شکر واحسان ہے کہ علماء نے جو مدارس کی تحریک شروع کی تھی، وہ ترقی کرتی گئی، آج چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی علماء کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے، قصبات اور بڑے دیہاتوں میں بھی علماء علم کی روشنی پھیلانے کا کام کر رہے ہیں، اب دور اُفتادہ قریہ جات ہی ہیں جہاں کوئی مدرسہ اور مکتب نہیں ہے، یا علماء وحفاظ نہیں ہیں اور اس میں بھی دخل مقامی مسلمانوں کی غفلت، جہالت اور بے توجہی کا ہے، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اب بڑے بلکہ متوسط شہروں میں بھی ضرورت سے زیادہ مدارس قائم ہو گئے ہیں، مثلاً فرض کیجیے کہ کسی شہر میں پچیس ہزار مسلمان آباد ہوں تو وہاں زیادہ سے زیادہ ڈھائی سو بچوں کے بارے میں امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ حفظ قرآن مجید یا عالم کورس کی تعلیم حاصل کریں گے، یہ تعداد ڈھائی فیصد ہوتی ہے؛ لیکن آج کل بہت سے علاقوں میں اتنے چھوٹے چھوٹے مدارس ہیں کہ ان میں چالیس پچاس بلکہ بیس پچیس طلبہ پڑھتے ہیں اور وہ ابتدائی درجات کی تعلیم حاصل کرتے ہیں، اگر دیانت کے ساتھ ایسے پانچ چھ مدارس کو جمع کر دیا جائے تو ایک مدرسہ کی تعداد بنتی ہے، یہ تیس چالیس اور پچاس ساٹھ بچوں کی درسگاہوں کی کثرت کی وجہ سے وسائل ضائع ہوتے ہیں؛ چوں کہ ہر ادارہ میں کلاس کے اعتبار سے استاذ رکھنا ہوتا ہے، چاہے کلاس میں پانچ طالب علم ہوں یا پچیس، ہر ادارہ میں منتظم اور طباخ کی ضرورت پیش آتی ہے، اگر پانچ اداروں کو یکجا کر دیا جائے تو نصف سے بھی کم خرچ میں ان تمام طلبہ کی تعلیم ہو سکتی ہے، اس کی وجہ سے مستحق مدارس کی آمدنی کم ہو جاتی ہے، اور وہ اس موقف میں نہیں ہوتے کہ اساتذہ کو مناسب معاوضہ دیں اور سہولتیں فراہم کر سکیں، دوسری طرف تمام فارغین اپنا معاش مدرسہ اور مسجد ہی میں تلاش کرتے ہیں، یہ بھی مدارس کی معاشی کمزوری کی ایک وجہ ہے۔
بہر حال مدارس کی یہ کثرت مفید ہو یا نہیں اور مناسب ہو یا غیر مناسب؛ لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کی وجہ سے طلبہ کی پہلے سے زیادہ تعداد بڑے مدارس میں پہنچتی ہے، پھر بڑے مدارس کا حال یہ ہے کہ ان کے یہاں تعلیمی مراحل کی تقسیم نہیں ہے، جیسا کہ دنیا کے تمام تعلیمی نظام میں ہوا کرتی ہے، جو مدارس درس نظامی کہلاتے ہیں، عام طور پر ان میں تعلیم کی ابتداء عربی زبان کے گرامر کی ایک کتاب ”میزان الصرف“ سے ہوتی ہے، اب صورت حال یہ ہے کہ جس بچے نے”میزان الصرف“ کی جماعت میں داخلہ لے لیا، اس کے لیے دوہی راستے ہیں، یا تو بخاری شریف تک پہنچے اور مکمل عالم وفاضل کی سند لے کر تعلیم کی دنیا سے باہر آئے، اور اگر اس کا ذہن ساتھ نہ دے یا گھریلو حالات ساتھ نہ دیں تو تھک ہار کر بیٹھ جائے، تعلیمی سلسلہ کو منقطع کر دے اور اس حال میں مدرسہ سے باہر آئے کہ اس کے پاس کوئی سند نہ ہو، اس کا نتیجہ ہے کہ سند یافتہ کم صلاحیت علماء کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، دوسری طرف بڑے مدارس کی شکایت بھی قائم ہے کہ ہمیں باصلاحیت اور باکردار اساتذہ نہیں ملتے۔
یہ بات بھی ظاہر ہے کہ معاش انسان کی بنیادی ضرورت ہے، کوئی شخص اس ضرورت سے مستغنی نہیں ہو سکتا، نہ حافظ نہ مولوی، نہ عالم نہ پیر، دنیا کی بعض قوموں میں یہ روایت ہے کہ ان کے مذہبی قائدین نہ شادی کرتے ہیں نہ کماتے ہیں؛ بلکہ وہ قوم کے نذرانوں پر اپنی زندگی گزارتے ہیں اور جب شادی نہ ہو، بیوی بچے نہ ہوں تو یوں بھی ان کی ضروریات محدود ہو جاتی ہوں گی، ہمارے ملک میں بھی اکثر مذہبی گروہوں کا یہی حال ہے؛ لیکن اسلام ایسے توکل کا قائل نہیں ہے، اکابر صحابہؓ، بڑے بڑے تابعین، فقہاء و محدثین صنعت وتجارت کے ذریعہ اپنی ضرورتیں پوری کرتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ دین کی خدمت بھی کرتے تھے، اسلام نے ہنر مند اور باصلاحیت کو بے کار، کاہل اور سست مومن کے مقابلے بہتر قرار دیا ہے؛ لیکن دشواری یہ ہے کہ جب طلب کے مقابلہ رسد بڑھ جائے اور کسی میدان میں جتنے افراد کار کی ضرورت ہو، اس سے زیادہ افراد تیار ہونے لگیں تو چیز سستی ہوجاتی ہے اور انسان کی قدر گھٹ جاتی ہے، اس وقت مدارس سے فارغ ہونے والے نئے فضلاء اسی صورت حال سے دو چار ہیں، ضرورت ایک کی ہوتی ہے اور کئی لوگ اس کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، پھر اگلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ عام طورپر اس کام کے لئے جس معاوضہ کی ادائیگی کا رواج ہے، اس سے بہت کم پر راضی ہو جاتے ہیں، اگر یہ راضی ہونا اللہ کے دین کی خدمت اور قرآن وسنت کے اشاعت کے جذبہ سے ہو تب تو یہ فائدہ کا سودا ہے، اور ایسا سوچنے والے لوگ بھی الحمدللہ موجود ہیں اور منجانب اللہ لوگوں کے دلوں میں ان کی قدر بڑھ جاتی ہے؛ لیکن بہت سے لوگوں کی نیت اتنی بلند نہیں ہوتی، اور وہ مجبوری سمجھ کر اس پر راضی ہو جاتے ہیں، وہ اپنی سوچ کے اعتبار سے دنیا کا نقصان بھی اٹھاتے ہیں اور اپنی نیت کے اعتبار سے آخرت کے نقصان کا بھی اندیشہ ہے۔
اس لیے نوجوان فضلاء میں شدت سے معاشی محرومی کا احساس پایا جاتا ہے، اس احساس کو کئی باتیں بڑھاتی ہیں، سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ آج سے چالیس پچاس پہلے پرائیویٹ ملازمتوں اور گورنمنٹ ملازمتوں کی تنخواہیں بھی کچھ بہت زیادہ نہیں تھیں، اب چوں کہ ہندوستان افرادی وسائل کے اعتبار سے چین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے؛ اس لیے ترقی یافتہ ممالک کی کمپنیاں اپنا کاروبار یا کاروبار کے انتظامی اور تجارتی دفاتر ہندوستان میں قائم کر رہے ہیں، ان کمپنیوں میں کام کرنے والے نوجوانوں کو ہندوستان کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کی تنخواہیں ملتی ہیں؛ لیکن وہ تنخواہیں ان کے ملکوں کے لحاظ سے بہت کم ہوتی ہیں، اب اگر ایک ماں باپ کے پانچ بچے ہیں، چار عصری تعلیم کے میدان میں ہیں اور وہ مختلف کمپنیوں میں خدمت انجام دے کر اونچی تنخواہیں حاصل کرتے ہیں، اور ایک بھائی کسی مسجد میں امامت کرتا ہے یا کسی مدرسہ میں پڑھاتا ہے اور اس کی تنخواہ اپنے دوسرے بھائیوں کے مقابلہ مشکل سے دس بیس فیصد ہوتی ہے تو ایک ہی گھر میں دوسرے بھائیوں اور ان کے بال بچوں کا جو دنیوی معیار ہے، وہ اس بھائی سے بہت اونچا ہے، اگر مدرسہ سے پڑھا ہوا ایک فاضل قرآن وحدیث کی برکت سے اپنی خواہش پر قابو پا بھی لے اور اپنے آپ کو قناعت پر آمادہ کر لے تب بھی یہ بہت مشکل ہے کہ اس کے بیوی اور بچے بھی اس پر راضی ہو جائیں، اور ایک طرح کی کشمکش پیدا ہو جاتی ہے، ان فضلاء کو بعض دفعہ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ انھوں نے دینی تعلیم کے میدان میں آکر غلطی کی ہے، نعوذ باللہ۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ ان کو اداروں کے ذمہ داران اور مساجد کمیٹیوں کے ارکان کو دیکھ کر یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے رہن سہن کا معیار ہم سے اونچا ہے، ان کے پاس گاڑی ہے، دیگر سہولتیں ہیں، ہمارے پاس یہ سب نہیں ہیں، یا کم معیار کی ہیں، اس سے ایک طرح کا جذبہئ منافرت جنم لیتا ہے، وہ اس بات کو سوشل میڈیا پر بھی لکھتے ہیں، لوگوں کے درمیان بھی کہتے ہیں؛ لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا، پھر اس سے ان کی خفگی اور زیادہ بڑھتی ہے؛ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک قدیم استاذ یا ذمہ دار تیس چالیس سال خدمت کر کے جس مقام پر پہنچا ہے، آپ آج ہی وہ مقام حاصل کرلیں، یہ کیسے ممکن ہے؟ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے، ان کے بچے بڑے ہوتے ہیں اور ان کی آمدنی بھی والد کے لیے معاشی تقویت کا سبب بنتی ہے، ان کی طویل خدمت کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا ہوتی ہے اور وہ ان کے خاموش تعاون کو اپنے لیے وجہ سعادت سمجھتے ہیں، یہ چیزیں ان کے لیے زندگی کے آخر حصہ میں فراخی کا باعث بنتی ہیں؛ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ بعض چھوٹے چھوٹے ادارے جس کے ذمہ دار کسی خاص ملّی ضرورت کے بغیر ادارے چلاتے ہیں، ان کے پاس بہت جلد بہت سی سہولتیں مہیا ہو جاتی ہیں؛ لیکن یہ ادارے بھی اور ان کے ذمہ داران بھی امت کی نظر میں بے وزن اور بے وقعت ہیں، نہ ان کے یہاں حساب وکتاب ہے، نہ کوئی مجلس انتظامی ہے، ایسے چند ادارے ضرور ہیں، بعض تو ایسے بھی ہیں، جن کا زمین پر کوئی وجود ہی نہیں ہے، صرف تعارف ناموں میں آپ ان کا نام پڑھ سکتے ہیں؛ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ بیشتر مدارس کی صورت حال ایسی نہیں ہے، اور اس کا انتظام کرنے والی شخصیت یا کمیٹی حساب وکتاب کے نظام کے ساتھ پورے کام کو انجام دیتی ہے۔
ادارے کی انتظامیہ کے لیے مشکل یہ ہے کہ ان کا انحصار عوامی تعاون پر ہے، جو تعاون ادارہ کو حاصل ہو، اس سے بڑھ کر وہ کیسے اپنے عملہ کا حق الخدمت متعین کر سکتے ہیں، گورنمنٹ کے پاس تو بے انتہاء دولت ہے اور وہ بین الاقوامی اداروں سے قرض لینے کا بھی بڑا ”حوصلہ“ رکھتی ہے، اور جو کمپنیاں ہیں وہ تجارتی ادار ے ہیں، عصری تعلیمی اداروں کا بھی یہی حال ہے، وہ طلبہ سے موٹی موٹی فیس لیتے ہیں اور ان کا مقصد ہی تجارت ہے؛ لیکن دینی ادارے چیری ٹیبل ادارے ہیں، جہاں اللہ کے بھروسہ طلبہ کے لیے مفت تعلیم اور ضروریات کا وعدہ کیا جاتا ہے، وہ ظاہر ہے کہ اپنی آمدنی کے دائرہ ہی میں نظم ونسق چلاسکتے ہیں، ملک کے بعض بڑے تاریخی ادارے ایسے ضرور ہیں جنھوں نے تنخواہوں کا اعلیٰ معیار رکھا ہے؛ مگر ان کی ایک تاریخ ہے، جو اصحاب خیر کی خصوصی توجہ کا باعث بنتی ہے، یا صنعتی وتجارتی گروپوں نے ان کی کفالت قبول کر لی ہے، عام مدارس ان کی راہ پر نہیں چل سکتے؛ اس لیے یہ بات سمجھنی چاہئے کہ ہم نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے، وہ پھولوں کی سیج نہیں ہے، کانٹوں کا بستر ہے، یہ بادشاہوں اور عیش کوشوں کا راستہ نہیں ہے، یہ وارثین انبیاء کا راستہ ہے، ہمیں اسی ذہن کے ساتھ کام کرنا چاہیے!!!
اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟ اس سلسلہ میں چند نکات عرض کیے جاتے ہیں:
۱- نوجوان فضلاء کو سوچ سمجھ کر دینی خدمت کے میدان میں قدم رکھنا چاہئے، ان کے سامنے اپنے معاصرین اور بزرگوں کے تجربات ہیں، اگر وہ اس کو برداشت کر سکتے ہیں، تب تو دینی خدمت کے راستہ میں آئیں، نہیں تو معاش کے لیے کوئی اور راستہ اختیار کر لیں اور حسب سہولت اپنے علم وعمل کے ذریعہ لوگوں کو فائدہ پہنچائیں، دینی خدمت کی حیثیت ان کے لیے ایک ضمنی کام کی ہو، اصل کام کی نہ ہو، اپنی مرضی سے اس راہ میں آنا اور پھر دوسروں سے شکوہ سنج ہونا کوئی معقول بات نہیں ہے، اور اس سے طبقہئ علماء کا وقار مجروح ہوتا ہے۔
۲- دینی خدمت کرتے ہوئے الگ سے کوئی چھوٹی موٹی تجارت یا صنعت کو اختیار کرلیں، اس سے ان شاء اللہ معاشی تنگ حالی کا تدارک ہو سکتا ہے، سلف صالحین کے یہاں اس کی ڈھیر ساری مثالیں موجود ہیں، امام قدوریؒ جیسے فقیہ ہانڈی بنانے کا کام کرتے تھے، امام ابو بکر جصاصؒکو تو چونے کا کام کرنے کی وجہ سے ہی جصّاص کہا جاتا ہے، زیّات کا معنی تیل نکالنے والے یا فروخت کرنے والے کے ہیں، اسی نسبت سے امام زیات معروف ہیں، جو بڑے عالم تھے، امام ابو حنیفہؒ ریشمی کپڑوں کے تاجر تھے، اس سے اوپر جائیں تو حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا شمار بڑے تاجروں میں تھا، حضرت عمرؓ بھی تجارت کرتے تھے، اس سے اور اوپر جائیں تو بہت سے انبیاء کے بارے میں بھی منقول ہے کہ وہ صنعت وحرفت سے فائدہ اٹھاتے تھے، حضرت آدم علیہ السلام زراعت کرتے تھے، حضرت ادریس علیہ السلام خیاطی کرتے تھے، حضرت داؤد علیہ السلام زِرہیں بنایا کرتے تھے اور مویشی پالن کا کام ارشاد نبوی کے مطابق تقریباً تمام ہی انبیاء کرام نے کیا ہے، آپ علیہ السلام نے ہنر جاننے والے مسلمان کی تعریف فرمائی ہے: ان اللّٰہ یحب المؤمن المحترف]الترغیب والترہیب، حدیث نمبر: ۲۳۳۵[ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: طاقت ور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے: المؤمن القوی خیر من المؤمن الضعیف]مسلم، حدیث نمبر: ۲۶۶۴[ طاقت صرف جسمانی ہی نہیں ہوتی ہے، علم وفضل اور ہنر کی بھی ہوتی ہے، گویا آپ کے اس ارشاد میں ہنرمند مسلمان کی بھی تعریف کی گئی ہے۔
موجودہ دور میں بہت سے پیشہ وارانہ کورسس شروع ہوئے ہیں، جن کو مدارس کے اساتذہ اور مساجد کے خدام گھنٹے دو گھنٹے لگا کر انجام دے سکتے ہیں، جن علماء کے لیے اپنی خدمت کا مقررہ معاوضہ کافی نہیں ہے، وہ ایسے ہنر سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، ہم لوگوں نے اپنی طالب علمی میں دیکھا ہے کہ بعض اساتذہ عصر کے بعد اپنے کتب خانہ میں بیٹھ کر کتابیں فروخت کرتے تھے اور بعض کتابت کرتے تھے، بعض جلد سازی کرتے تھے، بعض دیسی علاج سے لوگوں کی خدمت کرتے تھے؛ ٹکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے اب تو ہنر کا میدان اور وسیع ہو گیا ہے، جس کے ذریعہ کوئی بھی آدمی اپنی آمدنی میں مناسب اضافہ کر سکتا ہے، بڑھاپے کی عمر میں کسی نئی چیز کا سیکھنا بہت مشکل ہوتا ہے؛ لیکن جوانی کی عمر میں سیکھنا مشکل نہیں ہوتا، اب یہی دیکھئے کہ کتابت کی جگہ کمپوزنگ نے لے لی اور کمپیوٹر کے ذریعہ کتنے سارے کام کیے جا سکتے ہیں، کتابت کے، ڈیزائننگ کے، بحث وتحقیق کے، ترجمہ کے وغیرہ وغیرہ، اسی طرح آن لائن تدریس اور آن لائن تجارت کا راستہ کھل گیا ہے، جس سے بہت سے نوجوان علماء وابستہ ہیں، اور میں نے سنا کہ یہ کام بہت کم پیسوں میں اور بہت کم وقت میں ہو جاتا ہے، اللہ کا شکر ہے کہ اس طرح کے بہت سارے کام موجودہ دور میں پیدا ہو گئے ہیں جو خادمین دین کے لیے تقویت کا باعث ہو سکتے ہیں۔
۳- اس سلسلہ میں سب سے اہم ذمہ داری اولیاء اور سرپرستوں کی ہے، جو شخص اپنے بچوں کو دینی تعلیم میں لگاتا ہے تو یقیناََ اس پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مستقبل میں اس کی یہ اولاد معاشی اعتبار سے کمزور ہوگی تو اس کو چاہیے کہ وہ اگر تجارت یا کاروبار میں ہے تو یا تو اپنی اس اولاد کو آئندہ عملی طور پر کاروبار میں شریک کرلے، یا اپنی طرف سے ایک حصہ جیسے پندرہ فیصد، دس فیصد اس کو ہبہ کر دے اور نفع کا اتنا حصہ اس اولاد کو دے، اور دوسرے بچوں کو سمجھادے کہ چوں کہ تمہارا یہ بھائی آئندہ دین کی خدمت کرے گا اور اس کا ثواب ہم سبھوں کو پہنچے گا؛ اس لیے تم اس کا برا نہیں مانوگے؛ تاکہ وہ اپنے تمام بھائی بہنوں کے ساتھ سر اُٹھا کر زندگی گزار سکے، جہاں ہم دینی تعلیم دلانے کی ترغیب دلاتے ہیں، وہیں سرپرستوں کو اس کی ترغیب بھی دیں اور اگر کوئی شخص اپنی جائیداد میں سے کچھ حصہ کسی خاص مصلحت کی وجہ سے اولاد میں سے کسی ایک کو ہبہ کر دے تو اس کی گنجائش ہے۔
۴- ان سب کے علاوہ مدارس کی انتظامی کمیٹیوں کو بھی خوشنما اور پُر شکوہ تعمیرات اور عظیم الشان جلسوں کی بھیڑ کے مقابلہ اساتذہ کی ضروریات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے، ان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں، ان کے لیے فیملی کے ساتھ رہائش کا انتظام کیا جائے؛ تاکہ وہ کرایہ کے بوجھ سے بچ سکیں، زیادہ خرچ طلب بیماریوں میں ان کا تعاون کیا جائے، چھوٹی موٹی بیماریوں کے علاج کے لیے یا تو مدرسہ میں کلینک کھولی جائے یا کسی پرائیویٹ کلینک سے رابطہ رکھا جائے، جہاں سے ان کو سستی دوا فراہم ہو سکے، جہاں غلہ کی وصولی طلبہ کی خوراک سے بڑھ کر ہوتی ہو، وہاں رعایتی نرخ پر اساتذہ کو غلہ فراہم کیا جائے، اسی طرح ایسا فنڈ مقرر کرنے کی کوشش کی جائے جس سے اساتذہ چھوٹے موٹے کاروبار کے لئے قرض حاصل کر سکیں اور اس کو آسان قسطوں میں ادا کر سکیں۔
۵- مساجد کا تعلق چوں کہ براہ راست عوام میں صاحب ثروت شخصیتوں سے ہوتا ہے؛ اس لیے ان کو اور زیادہ توجہ کی ضرورت ہے، وہ جزوی طور پر ائمہ کو تجارت کے لیے سہولتیں مہیا کر سکتے ہیں، مثلاً مسجدوں میں اکثر ملگیاں بنائی جاتی ہیں، کوشش کی جائے کہ وہاں دو ملگیاں خدام مسجد کو دی جائیں، اس کی کرایہ داری ان کے نام منتقل نہ کی جائے؛ کیوں کہ آج کل مساجد کی املاک کو لوگ اپنی ملکیت سمجھنے لگتے ہیں، اگر کرایہ داری ان کے نام کر دی جائے اور خادمین مسجد وہاں سے استعفاء دے دیں تو واپس لینا دشوار ہو جائے گا، اور جن دیگر حضرات سے یہ خدمت متعلق ہوگی پھر وہ اس سہولت سے محروم ہو جائیں گے؛ اس لیے امام ومؤذن کو زبانی طور پر کرایہ دار بنا دیا جائے اور ان سے رعایتی کرایہ لیا جائے۔
۶- مدارس کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ وہ تعلیم کو مختلف مراحل میں تقسیم کریں اور ہر مرحلہ کے لیے الگ الگ سند جاری کریں، جیسا کہ بعض درسگاہوں میں ہے، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جو ذہنی صلاحیت اور مالی استطاعت کے لحاظ سے فضیلت تک پڑھنے کے لائق نہیں ہوں گے، وہ نیچے کے مرحلہ کو مکمل کر کے دین کی ایسی خدمت میں مصروف ہو جائیں گے، جس کے لئے ان کی یہ استعداد کافی ہو جائے، یہ بات قابل غور ہے کہ نورانی قاعدہ اور عربی وفارسی کی ابتدائی کتاب پڑھانے والوں کو تفسیر وحدیث کی اعلیٰ کتابوں کے پڑھنے کا مکلف کیوں بنایا جائے؟ وہ کوئی ہنر سیکھ کر بے تکلف اس کو اپنا ذریعہئ معاش بھی بنا سکیں گے، ایسی صورت میں ان کو اپنی نسبتاً کم تنخواہ پر قناعت کرنا آسان ہو جائے گا، اور حالاں کہ پیشہ وارانہ کاموں کو انجام دینے میں کوئی بے عزتی نہیں ہے؛ لیکن رواج اور ماحول کے لحاظ سے وہ جو شرمندگی محسوس کرتے ہیں، وہ بھی نہیں ہوگی۔
۷- اب ضرورت ہے کہ مدارس میں بھی فنی تعلیم دی جائے، دارالعلوم دیوبند میں اس کے لیے پہلے دارالصنائع قائم تھا، جس کے تحت مختلف قسم کی فنی تعلیم فراہم کی جاتی تھی، طبیہ کالج بھی تھا، جس سے بہت سے فضلاء نے طب یونانی کی تعلیم حاصل کی، اب نہ صرف ان شعبوں کو واپس لانے کی ضرورت ہے؛ بلکہ فنی ماہرین کے مشورہ سے اضافہ کی ضرورت بھی ہے؛ تاکہ جب طلبہ فارغ ہوں، ان کو کہیں ایسی جگہ کام کرنے کی ضرورت پیش آئے، جہاں تنخواہ کم ہو تو ان صلاحیتوں سے کچھ زائد آمدنی کا انتظام ہوسکے اور وہ استغناء کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں۔
حاصل یہ ہے کہ:
(الف) دینی مدارس ہمارے ملک میں اسلام کے بقا کا ذریعہ ہیں اور اساتذہ اس کی روح ہیں؛ اس لیے ہر قیمت پر ہمیں مدارس کو تقویت پہنچانی چاہیے۔
(ب) مدارس کی انتظامیہ کو چاہیے کہ طلبہ واساتذہ کی ضروریات کو اپنی توجہات کا اولین ہدف بنائیں۔
(ج) فضلاء کو چاہیے کہ وہ تعلیمی ودینی ضرورت کے لیے مدارس اس طرح قائم نہ کریں کہ لوگوں کو خیال ہو کہ بطور ذریعہ معاش یہ ادارے قائم کیے جارہے ہیں۔
(د) جن لوگوں میں اس راہ کی دشواریوں کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہے، وہ اس راستہ کا انتخاب نہیں کریں؛ بلکہ دوسرا ذریعہئ معاش اختیار کر کے ضمنی طور پر حسب موقع اور حسب صلاحیت دینی خدمت انجام دیں۔
(ہ) اخبارات میں یا سوشل میڈیا پر اپنی معاشی تنگ دستی کا ذکر کر کے اپنے وقار کو ٹھیس نہ پہنچائیں، اس کی وجہ سے کوئی مدد کے لیے ہاتھ تو نہیں بڑھائے گا؛ لیکن خود اپنی رسوائی ہوگی اور علماء کی قدرومنزلت عوام کے دل میں کم ہو جائے گی۔
(و) خاندان کے لوگ بھی اپنی صف سے اٹھنے والے عالم دین کے ساتھ خصوصی ہمدردانہ سلوک کریں اور ان کو معاشی اعتبار سے تقویت پہنچائیں۔
(ز) موجودہ حالات میں مدارس کے وسائل آمدنی کو متاثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، چرم قربانی کی آمدنی تقریباً ختم ہوگئی، مدارس کی اصل آمدنی تجار حضرات سے ہوتی ہے، ان کا کاروبار بھی متاثر ہے اور وہ دینی کاموں کی مدد کرنے میں قانونی دشواریاں بھی محسوس کرتے ہیں؛ اس لیے اصحاب خیر کا فریضہ ہے کہ وہ پہلے اداروں کے بارے میں اچھی طرح تحقیق کر لیں، اگر ممکن ہو تو خود جا کر دیکھ لیں،اور مطمئن ہونے کے بعد پھر زیادہ سے زیادہ اُن کا تعاون کریں۔