موجودہ دور کے بے چین ذہنوں کو مطمئن کرنا
علماء کی سب سے بڑی ذمہ داری

    موجودہ دور کے بے چین ذہنوں کو مطمئن کرنا
    علماء کی سب سے بڑی ذمہ داری

    حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندویؒ
    دنیا کی تاریخ کا بہت بڑا حصہ محفوظ ہے، اور قابل اعتبار ہے، لیکن اس محفوظ تاریخ سے بھی بہت پہلے کی جوتاریخ محفوظ نہیں ہے، اور قابل اعتبار بھی نہیں، اگروہ تاریخ محفوظ ہوتی اور اس میں نبوتوں کی تاریخ کو محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا، یا سب آسمانی صحیفے جو اپنے اپنے وقت پر نازل ہوئے، وہ سب بے کم وکاست محفوظ ہوتے، ان صحیفوں کے نزول کا پس منظر اور ان کے حاملین نے صحیفوں کی روشنی اور ان کی مدد سے اپنے زمانہ کی انسانی نسلوں کو خدا سے جس طرح مربوط کیا، انہیں دین سے آشنا کرکے صحیح زندگی پر لگایا، اگر یہ محفوظ ہوتا، تویہ ثابت کیا جاسکتا تھا کہ ہر زمانہ میں مبعوث ہونے والے نبی، اس کی نبوت، اس کے پیغام، دائرہ کار، اس کی ذمے داریوں اور اس زمانہ کی ضرورتوں اور نسلِ انسانی کی کمزوریوں، طرز فکر اور ان کی زندگی کے ان مراتب میں جس کے ذریعہ سے علمی وعملی، اعتقادی واخلاقی بے راہ روی اور ضلالت داخل ہوتی تھی، خاص ربط و مناسبت تھی۔
    ہمارے پاس اس وقت جو محفوظ اور قابل اعتماد تاریخی ذخیرہ اور ریکارڈ ہے، اور قرآن مجید سے ہمیں جو رہنمائی اور اشارے ملتے ہیں، اس سے ہمارے اس دعوے کی تائید وتصدیق ہوتی ہے، اور اس کے چند نمونے ہمارے سامنے آتے ہیں۔
    حضرت ابراہیم کا عہد اور دعوت توحید
    حضرت ابراہیم علیہ السلام جس زمانے میں مبعوث ہوئے، اس زمانہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس وقت کی پوری انسانیت توحید کے مفہوم سے ناآشنا ہوگئی تھی، اور پست ترین بت پرستی میں مبتلا تھی، شرف انسانی اور مساوات ِ انسانی کا تخیل لوگوں کے ذہن سے بالکل فراموش ہوگیا تھا، اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت و عشق کا عملی تعلق ختم ہوگیا تھا، اور فنائیت ووارفتگی اور اس کو ہر چیز پر ترجیح دینے کا تعلق بھی باقی نہیں رہا تھا۔
    حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت سے جو دور شروع ہوا وہ تقریباً اس وقت تک ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک حدِّفاصل ہے پچھلے اور بعد کے دور میں، اور جیسا کہ میں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ دنیا میں دو جو متواتر سلسلے ہیں اگر اس کے لیے عنوان تلاش کریں تو دو عنوان ملتے ہیں: ایک ابراہیمیت کا،دوسرے برہمیت۔ میں نے برہمیت میں ’نون‘ کو قصداً شامل نہیں کیا، کہ لوگوں کو غلط فہمی ہوگی، اور میرا مفہوم ادا ہوجائے گا، اور اس کا تعلق کسی خاص ملک و نسل اور خاص طبقہ سے سمجھا جائے گا، یہ دو متواتر سلسلے ”ابراہیمیت“ اور ”برہمیت“ ہزاروں برس سے چل رہے ہیں، ایک توحید خالص ہے، جس میں انسانی شرف کا اعادہ اور تجدید ہے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت اور فنائیت کا تعلق ہے، اسی بنا پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر میں توحید کا بار بار تذکرہ ہے، پورے پورے رکوع خصوصاً سورہ ابراہیم کے آخری رکوع کی آیات میں توحید خالص، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر معمولی تعلق، محبت، عشق، فنائیت، فریفتگی ووارفتگی اور جاں سپاری کا ذکر ہے، جس کا ایک ثبوت حضرت ابراہیمؑ کے عزیز فرزندحضرت اسماعیلؑ کے گلے پر چھری پھیرنے سے ملتا ہے، اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے بھی فرمائی:”یَآاِبْرٰھِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْ یَآ اِنَّا کَذٰ لِکَ نَجْزِي الْمُحْسِنِیْنَ“]سورۃ الصافات:۴۰۱-۵۰۱[
    یہ خصوصیات دین ابراہیمی اور شریعت ابراہیمی کی ہیں، یہ مزاج ابراہیمی اور دعوت ِ ابراہیمی کی خصوصیات ہیں۔
    حضرت داؤد وحضرت سلیمان ک ا دور اور اس ک ی خ ص وصیت
    اس کے بعد حضرت سلیمان اورحضرت داؤد علیہما السلام کا زمانہ آتاہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمانہ سلطنتوں کی تنظیم اور صنعتِ انسانی کی ترقی کا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے اوصاف میں خاص طور سے ملکِ سلیمان کا ذکر کیا ہے: ”رَبِّ اغْفِرْلِيْ وَہَبْ لِيْ مُلْکاً لَّا یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِنْ بَعْدِيْ“]سورۃ ص:۵۳[
    اور”فَسَخَّرْ نَا لَہُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ رُخَآءً حَیْثُ أَصَابَ“]سورۃ ص:۶۳[.
    اس کے بعد جنوں کا تذکرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر کردیا تھا، حضرت داؤد علیہ السلام کے ذکر میں ان کے لیے لوہے کونرم کرنے کے سلسلے میں ”وَأَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَ“]سورۃ سبا:۰۱[کا تذکرہ ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دور صنعتوں کی وسعت و پھیلاؤ اور ترقی کا دور ہے، اس کی تنظیم کا دور ہے، اس کے بعد ہمارے سامنے یونان کا دور آتاہے، جو فلسفہ مابعد الطبیعیات، ریاضیات اور طب کی ترقی کا دور کہلاتاہے۔
    حضرت عیسی مسیح (علیہ السلام) کی مسیحائی
    حضرت مسیح علیہ السلام کا ظہور اور ان کی پیدائش عین یونانی علوم کے ارتقاء کے دور میں ہوئی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تذکرہ میں ہم خاص طور سے دیکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے ہیں، مریضوں کوشفا دیتے ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مسیحائی اور ان کے لیے مائدے کے نزول کا ذکر قرآن مجید میں ملتاہے، معجزات کا کثرت سے ظہور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ہوتاہے، غرض کہ حضرت عیسیٰ ؑکے زمانہ میں جو ماحول تھا، ان میں اور حضرت عیسیٰ کے معجزات میں بڑی مناسبت پائی جاتی تھی۔
    ختم الانبیاء کا دور اور اس کی خصوصیات
    لیکن حکمت الٰہی نے خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وسلم)کے لیے جس دور کا انتخاب کیا ہے، وہ دور ہے انسانی ترقی کی وسعت و تنوع کا، زندگی کی وسعت، لطافت، تنوع، پیچیدگی، انسانی ضروریات کا اور علوم وفنون سے انسانوں کے خاص شغف کا دور ہے،چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) خاتم الانبیاء ہیں اور قیامت تک آپؐکی تعلیمات کو باقی رہنا تھا، اس لیے انسانی زندگی اور انسانی نسل کو اپنے اندر تمام ودیعت شدہ صلاحیتوں، توانائیوں اور کامیابیوں کا گویا ترکش خالی کردینا تھا، اور اس کے لیے اپنے پورے جوہر دکھانے تھے، اب اس کے بعد سوائے قیامت کے کوئی دور آنے والا نہیں تھا، اس لیے انسان کو اپنی ذہانت، اپنے امکانات، اپنے یافت و دریافت کے امکانات اور وسعتوں کا پورا اظہار کرادینا تھا، اس لیے کہ اس کے بعد نہ کوئی نبی آنے والا تھااور نہ کوئی امت پیدا ہونے والی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید جیسی کتاب آپؐ کو عطا فرمائی، جو ایک طرف تو ادب وبیان کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے جس کا جواب کوئی انسا ن نہیں لاسکتا، حالانکہ عرب ادب وشاعری کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے، دوسری طرف قرآن مجید کے اندرعلم کی وسعت کے لیے ایسے امکانات رکھے گئے ہیں اور ایسے اشارے کیے گئے ہیں کہ جب کبھی بھی علم انسانی کی تحقیقات، خواہ کسی میدان کے ہوں، اپنی انتہا کو پہنچیں تو قرآن مجید نہ صرف اس کے امکانات کو ثابت کرتاہے بلکہ گویا وہ ان کے حقوق کو بتاتا ہے، چنانچہ”عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ“ اور ”رَبِّ زِدْنِيْ عِلْماً“کے ذریعہ علم کی جوعظمت و وسعت اور اس کے لامحدود ہونے کو بیان کیا گیا ہے، وہ صرف قرآن مجید میں ملتاہے۔
    اس کاایک قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ اس امت کا دامن علم سے باندھ دیا گیا ہے، یعنی یہ امت علم اور عقل انسانی کے قافلے سے، تفکر وتدبر کے کام اور تصنیف وتالیف کے کام سے کبھی بے تعلق نہیں ہوسکتی، یہ تقدیر الہی کا فیصلہ تھا کہ اس امت کا سفر، اس کی سرگرمیاں اور اس کا ذوق ورجحان اور اس کی کامیابیاں علم کے دامن سے وابستہ رہیں گی۔
    اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ سب سے پہلی وحی جو آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوئی اس کی ابتداء”اِقْرأْ“ کے لفظ سے ہوتی ہے، اگر دنیا کے بڑے بڑے عقلاء کو بٹھا کر یہ سوال کیا جائے کہ آسمان کا رشتہ زمین سے ۰۰۵ برس کے بعد قائم ہونے والاہے، اور انسانوں کو ایک پیغام دیا جانے والے ہے، یہ بتائیے کہ وہ پیغام کس لفظ سے شروع ہوسکتاہے؟ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ سب کے ذہن میں مختلف الفاظ آسکتے تھے، کوئی کہتا کہ ”اپنے آپ کو پہچانو“ اس لیے کہ اس وقت الٰہی معرفت ناپید ہوچکی تھی، کوئی کہتا ”اُعْبُدْ رَبَّکَ“ اپنے رب کی عبادت کرو، کیوں کہ صحیح عبادت نہیں ہورہی تھی، کوئی کچھ اور کہتا، شاید کوئی بھی یہ نہ کہتا کہ”اِقْرأْ“ کے لفظ سے وحی شروع ہو گی، اس لیے کہ جس پر وحی نازل ہورہی تھی وہ امی تھا، جس امت میں وہ مبعوث ہوئے تھے وہ امی تھی: ”ھُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّیِیّنَ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ“]سورۃ الجمعۃ:۲[،جس کو یہودی اُمی کہتے تھے، اور جس ملک میں اس کو مبعوث ہونا تھا وہ امی تھا، جس شہر میں وحی نازل ہو رہی تھی،ڈھونڈنے سے شاید سارے مکہ میں دو چار قلم مل سکتے ہوں، پڑھے لکھے انسانوں کے لیے دنیا میں بہت سے لفظ ہیں، عرب کاتب کا لفظ بولاکرتے تھے، گویا سب سے بڑا امتیاز جو اس ملک کا سمجھاجاتاتھا وہ قلم سے کام لینا تھا، وہاں تحریر سب سے زیادہ مشکل چیز سمجھی جاتی تھی، اللہ تعالیٰ نے اس امت کے اندر علم کو قبول کرنے اور اس کے تقاضوں کے پوراکرنے کی جو غیر معمولی صلاحیت رکھی ہے، اور اس امت اور علم کے درمیان جو رشتہ اس نے رکھا ہے، اسے ہم مقناطیس سے تعبیر کرسکتے ہیں، اسی لیے ہر دور میں اس امت کا علم سے رشتہ باقی رہا ہے، اور اسی لیے ہر دور میں نئے نئے شہسواروں، نئے نئے ماہرین فن اور جینیس انسانوں کو یہ امت پیدا کرتی رہی ہے،اور اس میدان میں کامیابی حاصل کرنے کا موقع دیتی رہی ہے، اگر کوئی ایسا انقلاب نہیں آتا جس میں صلاحیتیں بالکل مسخ ہوجائیں اور انسانی ذہن معطل ہوکر رہ جائے اور کام کرنا چھوڑدے،جب تک علم کا سفر جاری رہے گا، مسائل پید اہوتے رہیں گے، خواہ ان کا تعلق تمدنی، علمی، معاشرتی، اور سائنسی اور اقتصادی امور سے ہی ہو، مذہب کی روشنی میں ان مسائل کو برابر حل کیا جاتا رہے گا، مثال میں ہم صحابہ کرام، ائمہئ اربعہ اور امت کے دیگر مجتہدین کو پیش کرسکتے ہیں، اور یہ محض اتفاقی بات نہیں کہی جاسکتی، صحابہ کرام میں ایسے ذہین اور جینیس انسان تھے کہ انہوں نے روم وایران جیسی ترقی یافتہ تہذیب و تمدن کا مقابلہ کرنے میں ایسی صلاحیت کا ثبوت دیا جس کی نظیر کوئی دوسرا مذہب پیش نہیں کرسکتا، اسی طرح ائمہ اربعہ امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ جیسے جینیس قانون ساز تھے کہ انہوں نے زندگی اور دین کے رہنما اصولوں کے درمیان مطابقت پیداکرنے میں ایسی غیر معمولی صلاحیت کا ثبوت دیاکہ اس پورے عہد میں یہ صلاحیت نہ رومیوں میں تھی، نہ ایرانیوں میں،اور نہ یونانیوں میں تھی، نہ کسی اور قوم میں، یہ لوگ اپنے زمانے کے جینیس ترین انسان تھے، اور ان کے کارنامے صدیوں پر محیط ہیں، ان کے کارناموں کی صحیح عظمت واہمیت اور قدر وقیمت کا اندازہ آج آسانی سے نہیں لگایا جاسکتا ہے، کوئی شخص یہ اندازہ نہیں کرسکتا کہ جب یونانی علوم عربی میں منتقل ہوئے توعلمی حلقوں پرکتنا غیر معمولی سحر تھا، اور کس طرح لوگ ان کے سامنے مبہوت اور ششدر تھے، اور کس طرح فیشن کے طور پر لوگ باتیں کرنا اور ان کی نقل کرنا فخرو اعزاز سمجھتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے امام ابوالحسن اشعریؒ، سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ، امام غزالیؒ، مولانا جلال الدین رومیؒ، شیخ معین الدین چشتیؒ، نظام الدین اولیاءؒ، خواجہ بہاؤالدینؒ، امام ابن تیمیہؒ، مجدد الف ثانیؒ، شاہ ولی اللہؒ اور دیگر جینیس شخصیتوں کو اپنے اپنے وقت پر پیدا کیا، جنہوں نے زمانہ کا رخ پھیر دیا، خطرات کا انہوں نے پوری جرأت سے مقابلہ کیا، نوجوان نسلوں کے دل و دماغ کو شکوک وشبہات سے پاک کرکے ایمان ویقین کی بنیادیں از سر نوفراہم کیں، بالکل یہی مرعوبیت ۷۵۸۱ء کے بعد انگریزی تہذیب اور جدید سائنس کے بارے میں تھی اور کس طرح لوگ یورپ کی سائنس اور ٹیکنالوجی پر ایمان لاتے تھے، اور اس سے ایسے مبہوت ہوتے تھے کہ اگرچہ دین کا صاف انکار نہیں کرتے تھے، لیکن کشمکش میں ضرورت مبتلا ہوگئے تھے، اس زمانہ کے راسخ العقیدہ خاندانوں کے مشائخ اور صالحین کا حال یہ تھا کہ اگر ان کے والدین کی سرپرستی اور بزرگوں کی صحبت ان کو نہ ملی ہوتی، اور ان کے آغوش میں انہوں نے تربیت نہ حاصل کی ہوتی تو ذہنی واعتقادی ارتداد عام ہوتا اور پورا ہندوستان اس کا شکار ہوجاتا۔
    اور اگر اللہ تعالیٰ عین وقت پر دستگیری نہ فرماتا تو نہ معلوم اس ملک کے مسلمانوں کا کیا حال ہوتا، اور یہ صر ف ہندوستان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ جب بھی اسلامی تاریخ کے طویل دور میں اس طرح کے حالات پیش آئے، تو اللہ تعالیٰ نے ہر وقت ایسے افراد پیدا کیے، جنہوں نے اس امت کا رشتہ دین سے باقی رکھا، اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہنا چاہیے۔
    مذاہب تاریخ سے نہیں کردار سے سفر جاری رکھتے ہیں
    ہمارا یہ فرض ہے کہ اس مہم کو جاری رکھیں، ہم یہ بات اپنے عزیز طلبہ سے کہنا چاہتے ہیں، کسی جماعت میں کسی بڑے عالم ومصنف کا اور مفکر کا پیدا ہوجانا کافی نہیں ہوتا، ادارے یہاں تک کہ ادیان ومذاہب بھی تاریخ سے نہیں چلتے، بلکہ وہ تحریک اور تسلسل سے چلتے ہیں، وہ اپنی افادیت اور صلاحیت ثابت کرنے سے چلتے ہیں، کوئی دینی تحریک کوئی بڑا مفکر پیدا کردے، بلند قامت اور دیوپیکر مصنف پید اکردے، تنہایہ کافی نہیں ہے۔
    یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جب کبھی اپنی جماعت کے کارناموں پر فخر کرنے کی کمزوری پیدا ہوجائے تو پھر قوائے فکریہ میں تعطل ہوجا تاہے، اور اضمحلال پیدا ہونے لگتاہے، ایک عرب شاعر نے بڑے لطیف انداز میں اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ:
    أَلْھَی بَنِيْ تَغْلِبَ عَنْ کُلِّ مَکْرُمَۃٍ
    قَصِیْدَۃٌ قَالَھَا عَمْرُو بْنُ کُلْثُوْمِ
    بنوتغلب کو ہر قسم کے مردانہ کارناموں اور کسی بڑی فتح کے حاصل کرنے اور کسی بڑے اقدام سے صرف ایک بات نے روک رکھا ہے، وہ یہ کہ یہ لوگ صرف عمر وبن کلثوم کا قصیدہ پڑھتے اور سر دھنتے رہتے ہیں، یہ مرض جماعتوں میں بھی پیدا ہوتاہے اور اداروں میں بھی، کہ وہ جماعتیں ان کے لیے سرمایہئ فخر، بانیِ جماعت یا اس جماعت کے کسی نامور فرد کی تصنیفات، تحقیقات اور اس کی ذہنی بلندی ان کے لیے سرمایہئ فخر بن جاتی ہے، لیکن اس سے کام نہیں چلتا، جماعت ہو، کوئی ادارہ ہو یا مدرسہ، بلکہ میں اس سے باہر نکل کر کہتا ہوں کہ امت اسلامیہ کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ ہم نے اپنے دور میں غزالی، ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ کو پیدا کیا، اور ہم نے فلاں فلاں شہر بسائے، سمرقند وبخارا اور غرناطہ، اشبیلیہ اور دہلی ہم نے بسائے، بلکہ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہر دور میں ایسے افراد پیدا ہوتے رہیں، اور اپنے اپنے دور کی ذہنی واعتقادی بے چینیوں کا جائزہ لیتے رہیں، ان کے اسباب ومحرکات تلاش کریں، دین،حقائق اور اصول و تعلیمات اور زندگی کے واقعات اور زندگی کے عملی مسائل کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کریں، ہر دور میں اسلامی قانون کی برتری کو ثابت کریں۔
    علوم میں ماہرانہ دسترس حاصل کی جائے
    علامہ اقبا ل نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ اس دور کا سب سے بڑا مجدد وہ ہے کہ جو اسلامی قوانین کی برتری دوسرے قوانین کے مقابلہ میں ثابت کرے، علامہ اقبال نے جو بات آج سے ساٹھ برس پہلے کہی تھی، وہ آج کے زمانہ میں ایک عملی حقیقت بن گئی ہے،آج ہمارے سامنے جو سب سے بڑا چیلنج ہے اور ہم لوگ اس کے لیے جد وجہد کررہے ہیں، وہ یہ ہے کہ اسلامی شریعت خصوصاً عائلی قوانین کی معقولیت، افراداور خاندانوں کے حقوق کی ضمانت کے لیے اس کا سب سے بہتر ہونا ثابت کریں۔
    ہم اپنے عزیز طلبہ سے یہ کہیں گے کہ وہ مطالعہ ومحنت سے علوم پر ماہرانہ دسترس حاصل کریں، پھر جدید مسائل سے واقف ہوں، اوران کا دین کی روشنی میں حل پیش کریں، دینی علوم میں اتفاق وگہرائی اور جدید علوم سے واقفیت اور ا س کے بارے میں لچک اور نرمی کا موقف ان دونوں کو جمع کرنا ضروری ہے۔
    ندوۃ العلماء کا امتیاز اور پیغام
    کو فخر ہے کہ اس کا انتساب مولانا سید محمد علی مونگیری جیسے بالغ نظر اور روشن ضمیر اور سیرۃ النبیؐ کے مصنف علامہ شبلی جیسے متکلم وقت، مؤرخ زمانہ اور سیرت نگار یگانہ اور ادیب سے ہے۔
    واقعہ یہ ہے کہ آج تک علمی و دینی مسائل پر قلم اٹھانے اور ان کو سنجیدہ و مؤثر طریقہ سے پیش کرنے کے لیے کم سے کم میرے علم میں علامہ شبلی کے اسلوب سے بہتر کوئی اور اسلوب نہیں، ان ہی کے نقشِ قدم پر سید سلیمان ندوی، عبدالسلام ندوی اور دوسرے تربیت یافتہ حضرات ہوئے، جنہوں نے اپنے اپنے وقت پر اس سلسلہ کو جاری رکھا، لیکن یہ تنہا کافی نہیں، اور آپ جب الاصلاح کا جلسہ کریں تو مجبور ہوں کہ ان ہی حضرات کا نام لیں، اور اس فہرست میں اضافہ نہ ہو، یہ اس ادارے کے زوال اور اضمحلال کی دلیل ہے، اور یہ پوری امت کے لیے خطرہ ہے، یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ کسی دائرے میں اس معیار کے لوگ پیدا نہیں ہورہے ہیں جو مطلوب ہیں، بعض پڑوسی اسلامی ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوا، وہاں بھی یہ دیکھ کر صدمہ ہواکہ وہاں بھی اب ایسی علمی و فکری قیادت موجود نہیں جو اس نوجوان نسل کی تشفی کا سامان فراہم کرسکے جو براہ راست یورپ سے پڑھ کر آرہی ہے، کوئی ایسا رسالہ نہیں جس میں جدید تمدنی مسائل کا دین کی روشنی میں حل پیش کیا جاتاہو، زبان وعلم اور تحقیق کا معیار گرگیا ہے، ہررسالہ اپنی جماعت، اپنے مسلک اور مخصوص سلسلہ کے بارے میں مضامین شائع کرتاہے، اگر کوئی تنظیم یا جماعت ہے تو وہ موجودہ حکومت سے بے اطمینانی ظاہر کرنے اور محدود جماعتی وگروہی اور سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کررہی ہے، یہ صورت حال بڑی خطرناک ہے کہ علماء جن کا کام ہی یہ تھا کہ نوجوان نسلوں کا اعتماد اسلام پر بحال کریں،اسلام کی حقانیت اور اس کی ابدیت وصلاحیت کو ثابت کریں، اور زندگی کے تمام مسائل میں اس کی افادیت کو ثابت کریں، وہ ذاتی وسیاسی مفاد میں الجھ جائیں، اگر اس امت میں بڑے بڑے صالحین اور اتقیاء اور دین پر جان دینے والے موجود ہوں، جب بھی یہ ضرورت باقی رہے گی۔
    ترکی کے المیہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ علماء نے اس دور کے تقاضوں اور نئی نسل کی بے چینی کو رفع کرنے اور اسلام کو سیاسی، مذہبی، فکری، اجتماعی، مسئلہ انتظامی اور قائدانہ حیثیت سے اس کی برتری ثابت کرنے کی صلاحیت کا ثبوت نہیں دیا، جس کی وجہ سے ترکی لادینیت کی راہ پر لگ گیا، یہی خطرہ مسلم ممالک کے لیے موجود ہے۔
    ہمارے عزیز طلبہ کا اولین اور بنیادی فرض ہے کہ آپ اس کام کے لیے اپنے کو تیار کریں،اور ذہنی وفکری اور علمی قیادت کے خلا کو پیدا نہ ہونے دیں، اور نہ معلوم یہ مرحلہ کب آجائے، یہ مرحلہ اگر چہ ہر وقت موجود ہے، یہ بات جب ہوگی جب آپ پوری محنت کریں، ماہر اساتذہ سے علوم حاصل کریں، ان میں مہارت اور دسترس پیدا کریں، پورے شوق واحترام سے یہ علوم حاصل کریں، پھر ایک ایک موضوع کا انتخاب کریں، پہلے اجمالی طور پر پھر تفصیلی طور پر مطالعہ کریں، علامہ شبلی اور مولانا سید سلیمان ندویؒ کی مسند زیادہ دن تک خالی نہ رہنا چاہیے، اس کو آپ کو پُرکرنا ہے، بغیر کسی تخصیص کے میں کہتا ہوں کہ سب سے پہلا فرض ہے کہ سب سے پہلے جدید علم کلام، تمدنی مسائل اور نظام تعلیم کی اصلاح وترقی اور علماء کے باہمی اختلافات کو رفع کرنے کو لیں، سب سے پہلے اس کا خیال ندوۃ العلماء کے بانیوں کے ذہن میں آیا تھا، اس لیے آپ کو حق حاصل ہے، فرض ہے کہ زمانہ کے حالات سے واقفیت پیدا کریں، علوم اسلامیہ پر آپ کی نظر گہری ہو، مگر ان کو پیش کرنے کے لیے علامہ شبلی کی زبان اور طرز تحریر، سید سلیمان ندوی کی وسعت معلومات اور سنجیدگی، مولانا عبدالسلام اور دوسرے فرزندان ندوہ کی ادبیت، اس کے ساتھ مولانا مسعود عالم ندوی اور مولاناناظم ندوی کی عربیت اور عربی زبان پر قدرت کہ مشرق ومغرب میں عربی زبان ہی سے ہمارے طلبہ کا واسطہ پڑے گا، آپ اس خلا کو پرکرنے کی کوشش کریں، اور علمی وفکری اور دعوتی تسلسل کو باقی رکھنے کی کوشش کریں۔