عظیم محقق ڈاکٹر بشارعواد معروف

    عظیم محقق ڈاکٹر بشارعواد معروف

    عراق صدیوں سے علوم وفنون، ادب و ثقافت، تہذیب و تمدن اور روحانیت کا مرکز رہاہے، اس مرکز علم و ادب میں بیشمار تشنگان علم و دانش سر چشمہئ علم و فن سے خوب سیراب ہوئے، چناں چہ یہیں سے ایک اسلامی تحریک وجود پذیر ہوئی جس نے دور جدید میں ممتاز علمائے کرام کی ایک جماعت تشکیل دی ہے جو علم حدیث اور اس کی تحقیق و تخریج میں مصروف عمل ہے، اس میں چند مشہور و معروف اسماء یہ ہیں: محمود شکری الوسی، امجد الزہاوی،دکتور اکرم ضیاء عمری وغیرہ، اور اس تحریک کے مؤسس محمد محمود صواف ہیں جن کی محنت و کاوش نے اس تحریک میں روح حیات پھونک دی، اور علماء و طلبہ اور محققین کے لیے ایسا فیضان جاری کردیا جو ہنوز جاری ہے اور اس فیضان علم و فن سے خوب مستفیض ہو رہے ہیں، چناں چہ اسی تحریک سے وابستہ رہنے والے اور اس دور کے محققین میں نمایاں حیثیت رکھنے والے اور اپنی تحقیق و قابلیت کا لوہا منوانے والے محقق و محدث ڈاکٹر بشار عواد معروف ہیں، جن کی حیات و خدمات بالخصوص علم حدیث سے شغف رکھنے والوں کے لیے مناسب ومفید ہے۔

    نام و نسب

     بشار بن عواد بن معروف بن عبد الرزاق بن محمد بن بکر العبیدی بغدادی* ہے

    شعبان کے آغاز میں ۴/ستمبر۰۴۹۱ ء میں اعظمیہ نامی قصبے میں ہوئی،آپ عراق کے سب سے بڑے اور مشہور قبیلہ ’العبید الحمریہ‘ کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور آپ خالص عرب گھرانے میں پیدا ہوئے، آپ کے آباء و اجداد نے کچھ عرصہ کے لیے یمن کو اپنا مسکن بنایا، بعد ازاں وہاں سے منتقل ہو کر عراق چلے آئے، اور سنِجار اور حویجہ جو اب ’حویجۃ العبید‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اسی علاقہ میں رہائش پذیر ہوئے۔

     آپ کے خاندان کا تعلق (البو علی) قبیلے سے بھی ہے جو عراق کے سب سے بڑے اور مشہور و معروف خاندان میں سے ایک ہے،عثمانی سلطان مراد چہارم – رحمۃاللہ علیہ نے اس قبیلہ کی مدد کی تھی تاکہ وہ پارسیوں کو بغداد سے نکال کر اہل عراق کو ان سے چھٹکارا دلا سکیں، اور ان میں سے ایک جماعت و قبیلہ کو(اعظمیہ) مقام میں ٹھہرایا تاکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مزار کو چھیڑ چھاڑ سے بچایا جاسکے، بیشتر اعظمیہ لوگ اسی خاندان سے منسوب ہیں، آپ کی والدہ کانام (رضیۃ بنت احمد الصالح) ہے جن کا تعلق بھی اعظمیہ کے ایک مشہور گھرانے سے ہے، ان کے عم محترم عہد عثمانی میں ایک بڑے رئیس زادہ کی حیثیت رکھتے تھے اور اسی طرح مشہور اسلامی شاعر ولید الاعظمی کی سب سے بڑی خالہ تھیں، آپ صلاح و تقویٰ کی پیکر تھیں۔

    تعلیم و تربیت

    آپ نے آنکھیں کھولیں تو ہر طرف دینداری، علمی و عملی سرسبز ی و شادابی، سادگی و قناعت پسندی کے ماحول کا دبیز سایہ خیمہ زن تھا، اس لیے ان عظیم صفات اور غیر معمولی کمالات پروان چڑھنے میں آپ کے گھر کا خالص اسلامی ماحول کا بڑا اثر و رسوخ تھا، چناں چہ ابتدائی دور سے ہی اسلامی آغوش میں پروان چڑھے، چونکہ آپ کے والد نے آپ کی پرورش کی تھی، اور آپ کے والد محترم نے بچپن میں ہی قرآن پاک پڑھا دیا تھا، اور پھر آپ نے سن ۷۴۹۱ء میں پرائمری اسکول میں داخلہ لیا، اور۴۵۹۱ء میں مزید علمی تشنگی کو سیراب کرنے کے لیے عمدہ تعلیم کے ساتھ گریجویشن کیا، اور یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ علمی سرچشمہ سے مزید پیاس بجھانے کے لیے یونیورسٹی آف بغداد میں آرٹ کی فیکلٹی میں شعبہئ تاریخ میں داخلہ لیا، اور۴۶۹۱ء میں گریجویشن کیا، اور آپ نے چار سال تک محکمہ میں پہلی پوزیشن حاصل کی مزید آپ کو عراقی اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    اس تعلیمی مدت میں آپ نے عراقی محققین کی ایک بڑی تعداد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، جن میں چند مشہور یہ ہیں:۱-آپ کے چچا(ڈاکٹر ناجی معروف)جو عراق کے ہاشمی دور کے ممتاز افراد میں سے تھے۔ ۲-ڈاکٹر عبد العزیز الدوری، جن کو تاریخی خدمات کے باعث شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ۳- ڈاکٹر صالح احمد ہیں جن کی شفقتوں و عنایتوں نے موصوف کی شخصیت کو مرجع خلائق بنادیا ہے۔

    اعلی تعلیم

    اور 1964ء میں آپ نے بغداد یونیورسٹی میں شعبہئ تاریخ و آثار قدیمہ میں ماسٹر اسٹڈی میں شمولیت اختیار کی، اور پروفیسر ڈاکٹر جعفر حسین خصباک کی نگرانی میں حافظ ذکی الدین المنذری کی کتاب ’التکملۃ لوفیات النقلۃ‘ کا انتخاب کیا۔

    اور پھر اسی دوران مشہور عالم دین ڈاکٹر مصطفی جواد سے مضبوط تعلق قائم کر لیا اور جامعہ اسلامیہ میں ان سے تعلیم حاصل کی،چناں چہ علمی تحقیقی سرگرمیوں نے موصوف کی شخصیت میں گہرے نقوش چھوڑے، ۷۶۹۱ء میں آپ کی کتاب ’التکملۃ‘ نے آپ کے علمی کارناموں اور سرگرمیوں کو مکمل طور پر ظاہر کردیا اور ہر چند آپ کے علم کا معترف ہو گیا، اور آپ کو اس کتاب کے سبب فضیلت کا درجہ بھی ملا، اور عراق میں گریجویٹ علوم کی تاریخ میں یہ درجہ حاصل کرنے والے آپ پہلے شخص ہیں،چناں چہ اسی اثناء میں آپ۵۶۹۱ء میں یونیورسٹی میں عربی زبان کے استاد مقرر ہوئے اور جرمن زبان سیکھنے کی وجہ سے ہیمبرگ یونیورسٹی میں وظیفے سے نوازا گیا۔

    ۷۶۹۱ء میں، آپ نے قاہرہ یونیورسٹی آف آرٹس کی فیکلٹی میں اورینٹل لینگوئج ڈپارٹمنٹ میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور پروفیسر ڈاکٹر یحیی الخشاب علیہ الرحمہ کی نگرانی میں ’الحضارۃ الإسلامیۃ فی ظل الدولۃ السامانیۃ‘ کے نام سے ایک مقالہ تیار کیا، لیکن اس رسالہ کو پایہئ تکمیل تک نہ پہنچا سکے، کیونکہ موصوف اپنے والد کے انتقال کی وجہ سے قاہرہ چھوڑ کر گھر آ گئے تھے اور۸۶۹۱ء میں آپ کے والد کی وفات کی وجہ سے آپ پر خاندانی ذمہ داری کا بوجھ آن پڑا، لہٰذا آپ نے کاشتکاری سے اپنے معاش کا آغاز کیا،۶۷۹۱ء میں موصوف نے بغداد کی یونیورسٹی سے اپنے مقالہ ’الذہبی و منہجہ فی کتابہ تاریخ الإسلام‘ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور وہیں سے علمی وتحقیقی کام کا آغاز کیا، حیرت کی بات یہ ہے کہ موصوف نے یہ مقالہ چار مہینوں میں لکھا: ستمبر تا دسمبر۵۷۹۱ء میں جس کی وجہ سے علماء کرام نے ان کی اس علمی تحقیقی پیشکش پر ان کی خوب حوصلہ افزائی فرمائی،موصوف کی اس کتاب پر شیخ عبد الفتاح ابو غدہ علیہ الرحمہ نے اپنی ایک کتاب کے مقدمہ میں حوصلہ افزا کلمات لکھے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ: ”جرح و تعدیل میں انکے اقوال کی ایک حیثیت ہے“۔مزید لکھتے ہیں کہ: ”ان کی مذکورہ کتاب سے ہی ان کے علمی مقام سے میں واقف ہو سکا ہوں“۔

     علمی اسفار مشائخ کبار اور تلامذہ

    موصوف نے آغاز شباب سے ہی حدیث کا مطالعہ شروع فرمادیا تھا، بالخصوص تراجم، اسماء رجال اور علل کا، موصوف نے اجازت حدیث اور اس کی سماعت کے لیے کئی اسفار کیے جو درج ذیل ہیں:

    ۱- مکہ کا سفر کیا اور شیخ ابو محمد بدیع الدین شاہ راشدی مکی سے حدیث کی سماعت اور اجازت حاصل کی۔

    ۲ – ہندوستان کا سفر کیا، محدث جلیل حبیب الرحمٰن بن محمد صابر اعظمی سے حدیث کی سماعت کی اور موصوف کو تمام اوائل سنبلیہ کی اجازت مرحمت فرمائی۔

    ۳ – آپ نے محترم شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ کے ہمراہ پاکستان کا سفر کیا، اور اسی سفر میں شیخ عبد الفتاح رحمہ اللہ نے موصوف کو اجازت حدیث مرحمت فرمائی۔

    شیخ محدث محمد ملک کاندھلوی جو جامعہ اشرفیہ کے شیخ الحدیث تھے ان سے سماعت حدیث کی۔ آپ نے (صوبہ سندھ میں) علامہ شیخ محمد عبد الحلیم بن عبد الرحیم چشتی سے سماعت حدیث کی جو شارح مشکوٰۃ ’البضاعۃ المزجاۃ لمن طالع المرقاۃ فی شرح المشکاۃ‘ کے مصنف ہیں، انہوں نے تمام مرویات کی اجازت مرحمت فرمائی۔اسی طرح شیخ مولوی محمد امین بن محمد عبدالرحیم الجفوری نے اپنی تمام مرویات کی اجازت عطا کی۔ شیخ محمد انور بدخشانی سے بھی سماعت حدیث کی۔آپ کے دوست محقق حمدی عبد المجید السلفی نے بھی آپ کو اجازت حدیث مرحمت فرمائی۔

    آپ کے علمی تحقیقی فیوض وبرکات سے بہت سے لوگ مستفیض ہوئے جو عراق، مصر، بلاد حرمین، ہندوستان، پاکستان اور دیگر ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں، چند مشہور تلامذہ کے اسماء گرامی یہ ہیں:

    ۱ – ڈاکٹر محمد اسماعیل مقدام، شیخ ڈاکٹر احمد معبد عبدالکریم، اور صلاح فتحی ہلل شامل ہیں۔

    ۲ – ڈاکٹر ابو عبد اللہ، الشہید عزیز راشد الداینی۔ 

    ۳- ڈاکٹر، ابو حسناء رائد یوسف العنبکی۔

    ۴- ڈاکٹر مصطفیٰ اسماعیل العبیدی، یہ ہمیشہ موصوف کے ہمراہ رہتے ہیں۔

    ۵- شیروان الکردی آپ کے قدیم شاگردوں میں سے ایک ہیں اور بہت قابل تھے، موصوف اکثر تعریف فرمایا کرتے تھے۔ان کے علاوہ بھی کئی اسماء ہیں، خوف طوالت یہاں سب کا ذکر ممکن نہیں۔

    موصوف نے عراقی حکومت کے تحت سول سروز میں داخلہ لیا، جہاں انہیں بغداد یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری میں مصنف کی حیثیت سے مقرر کیا گیا تھا۔

    پھر آپ بغداد یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف گریجویٹ اسلامک اسٹڈیز کی لائبریری میں کام کرنے کے لیے چلے گئے۔

    آپ کو مذکورہ لائبریری میں ایسوسی ایٹ آبزرور کے عہدے پر منتقل کر دیا گیا تھا۔آپ۷۶۹۱ء میں بغداد یونیورسٹی میں فیکلٹی آف شریعہ میں ریسرچ اسسٹنٹ مقرر کیے گئے۔اس کے بعد آپ اسی سال مذکورہ یونیورسٹی میں ریسرچ اسسٹنٹ کے عہدے پر فائز ہوئے۔اس کے بعد آپ کو امام اعظم یونیورسٹی آف اسلامک ریسرچ اور جامعہ مستنصیریہ (۷۶۹۱-۹۶۹۱ء) کی یونیورسٹی میں لیکچرار کے طور پر مقرر کیا گیا۔ بعد ازاں محکمہ تاریخ فیکلٹی آف آرٹس (۰۷۹۱-۴۷۹۱ء) میں آپ ایک استاد کی حیثیت سے مقرر ہوئے،پھر بطور اسسٹنٹ پروفیسر (۴۷۹۱-۰۸۹۱ء) مقرر ہوئے۔ پھر آپ نے (۱۸۹۱ء) میں (پروفیسر) کا درجہ حاصل کیا۔آپ نے شعبہ تاریخ، فیکلٹی آف آرٹس (۰۸۹۱-۱۸۹۱ء) کی سربراہی کی۔پھر بغداد یونیورسٹی میں عرب علمی ورثے کے احیاء کے مرکز میں علم و تحقیق شعبہ کے دائمی طور پر پروفیسر مقرر ہوئے، اس دوران آپ نے ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کے طلبہ کے مقالات کی کی نگرانی کی۔

    تین سال (۹۸۹۱-۲۹۹۱ء) تک آپ نے (صدام یونیورسٹی برائے اسلامی علوم) کی صدارت کی، جہاں آپ نے نصاب اور پروگراموں کے قیام اور قرآن اور سنت پر مبنی صحیح اسلامی بنیادوں کے مطابق اصول و قواعد مرتب کرنے کی سعی کی جو قرآن و سنت کے خالص نہج پر تھی اور اس دوران ہر طرح کی متعصب جماعت سے دور رہے تاکہ ان کے اثر و رسوخ سے محفوظ رہا جا سکے،اس کے بعد آپ اردن کے شہر عمان گئے، اور وہاں ۲۹۹۱-۴۹۹۱ء میں الأہلیۃ یونیورسٹی عمان میں حدیث و تفسیر کے پروفیسر مقرر ہوئے۔۴۰۰۲ء میں بلقاء التطبیقیۃ یونیورسٹی میں پروفیسر مقرر ہوئے،پھر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں حدیث شریف کے پروفیسر ہوئے۔

     

    ۱۸۹۱ء سے عراقی علمی اکیڈمی میں آپ ماہر و فاضل کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، اور۶۸۹۱ء میں بطور ورکنگ ممبر منتخب ہوئے تھے۔آپ۸۸۹۱ء میں اردن کی عربی زبان اکیڈمی کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔۲۰۰۲ء میں دمشق میں عربی زبان اکیڈمی کے رکن مقرر ہوئے۔۲۹۹۱ء میں کونسل آف کونسل کے ممبر مقرر ہوئے۔۷۸۹۱ء میں قاہرہ میں اسلامی امور برائے اسلامی کونسل کے لئے منتخب ہوئے۔۸۸۹۱ء میں موصوف کا انتخاب ریاست ہائے متحدہ امریکہ (کولمبیا میری لینڈ) میں ہائر اسلامک انسٹی ٹیوٹ برائے ہائر اسلامک ریسرچ  بورڈ آف ٹرسٹی کے ممبر کے طور پر ہوا۔۹۸۹۱ء میں مکہ کی مساجد کی عالمی سپریم کونسل کے لئے منتخب ہوئے۔

    آپ اسلامی دنیا کی ایک فعال شخصیت ہیں چناں چہ وہ لوگ جنہوں نے تصنیفات و تالیفات میں حصہ لیا ہے،اور آپ سے زیادہ تحقیق و تخریج کی لیکن وہ سب نظم و ضبط کے توازن میں آپ سے کم ہیں، چناں چہ موصوف کا ہر کام منظم و مرتب انداز میں تحقیق و تخریج کی شکل میں موجود ہے، یوں تو ہر شخص منفرد اکائی کی حیثیت رکھتا ہے اور اپنی الگ شناخت کے حوالے سے جانا جاتا ہے لیکن موصوف اپنی محنت و قابلیت اور لگن سے منفرد حیثیت عبقری شخصیت سے مشہور ہوئے لیکن موصوف کی عبقریت و ہمہ گیریت منفرد انداز کی ہے جو ان کے تمام کارناموں میں جداگانہ انداز میں نظر آتی ہے،موصوف ہر دم کسی کمیاب یا کوئی نیا مسودہ کی تلاش و جستجو میں محو رہتے، ہر وقت تحقیق و تفتیش و تخریج کا جنون سوار رہتا جو آئے دن کسی نہ کسی نئی کتاب کی شکل میں نظر آتا ہے، موصوف کے اسی جنوں و لگن کی وجہ سے بعض لوگوں نے ان پر الزام عائد کیا اور طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا کہ موصوف کسی دوسرے لوگوں سے کام کرا کر اس کام کو اپنی طرف منسوب کر لیتے ہیں تو اس کا جواب موصوف نے بڑے ہی فراخ دلی اور خاکساری کے ساتھ دیا،کہتے ہیں کہ جوانی میں پوری پوری رات مطالعہ و تحقیق و تخریج میں گزار دیتا تھا اور اب یہ حال ہے کہ بعد نماز فجر خود ناشتہ تیار کرتا ہوں جبکہ گھر میں تمام اہل خانہ موجود رہتے ہوئے اور پھر دن کے بارہ بجے تک مطالعہ میں مصروف عمل رہتا ہوں۔

     آپ کا مشغلہ خالص علم حدیث پر ہے اور آپ کو اسی سے زیادہ دلچسپی اور لگاؤہے لہٰذا آپ نے اسی فن پر کتب تصنیف کی آپ کی چند مشہور و معروف کتب یہ ہیں:

    ۱ -أثر الحدیث فی نشأۃ التاریخ عند المسلمین.

    ۲-المنذری وکتابہ التکملۃ.

    ۳-تواریخ بغداد التراجمیۃ.

    ۴ – الذہبی ومنہجہ فی کتابہ تاریخ الإسلام.

    ۵- ضبط النص والتعلیق علیہ.۶

     – الإسلام ومفہوم القیادۃ العربیۃ للأمۃ الإسلامیۃ.

    ۷ – علی والخلفاء.

    ۸- البیان فی حکم التغنی بالقرآن.

    ۹ – المنتقی من حدیث المصطفی.

    ۰۱ – الحقوق فی الإسلام.

    ۱۱ – وقال ربکم ادعونی استجب لکم.

    ۲۱ – فی تحقیق النص.

    ۳۱ – تحقیق النصوص بین أخطاء المؤلفین وإصلاح الرواۃ والنساخ والمحققین.

    اور آپ کی دیگر تصانیف جس میں دوسرے محققین بھی شریک ہیں:

    – المسند الجامع للأحادیث الکتب الستۃ ومؤلفات أصحابہا الأخری وموطأ مالک ومسانید الحمیدی وأحمد بن حنبل وعبد بن حمید وسنن الدارمی وصحیح ابن خزیمۃ.

    ان کتب کی تحقیق میں شیخ ابو المعاطی محمد النوری رحمۃاللہ اور محمود محمد خلیل اور وأحمد عبد الرزاق عید، وأیمن إبراہیم الزاملی بھی شریک ہیں، یہ عظیم انسائیکلوپیڈیا بارہ جلدوں میں چھپی ہے۔

    ۱-تحریر تقریب التہذیب – للحافظ ابن حجر العسقلانی، الشیخ شعیب الأرنؤوط کی شراکت کے ساتھ.

    ۲ – موسوعۃ أقوال یحیی ابن معین فی رجال الحدیث وعللہ.

    ۳- حضارۃ العراق.

    ۴ – حاضر العالم الإسلامی.

    ۵ – رحلۃ فی الفکر والتراث.

    ۶ – تاریخ العراق.

    ۷ – الإسلام والمستقبل

    موصوف تحقیق و تخریج کے سلسلہ میں ید طولیٰ رکھتے ہیں چنانچہ آپ کی تحقیقات کو علماء و طلبہ کے ما بین ایک امتیازی حیثیت بھی حاصل ہے لوگ آپ کی تحقیقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، آپ کی تحقیقات سے شائع شدہ کتب میں سے چند اہم نام درج ذیل ہیں:

    ۱- کتاب الوفیات لأبی مسعود الحاجی، آپ کے چچا الدکتور أحمد ناجی القیسی کی شرکت کے ساتھ شائع ہوئی۔

    ۲- أہل المءۃ فصاعداً للحافظ الذہبی.

    ۳- ذیل تاریخ مدینۃ السلام بغداد، لابن الدبیثی.

    ۴- مشیخۃ النعال البغدادی،آپ کے چچا ناجی معروف کی شراکت داری کے ساتھ.

    ۵- تہذیب الکمال فی أسماء الرجال، للحافظ المزی.

    ۶- سیر أعلام النبلاء، للحافظ الذہبی.

    ۷- معرفۃ القراء الکبار علی الطبقات والأعصار، للحافظ الذہبی.

    ۸- الموطأ للإمام مالک بن أنس بروایۃ أبی مصعب الزہری.

    ۹- تفسیر الطبری من کتابہ جامع البیان عن تأویل آی القرآن، تحقیق وتہذیب (بالمشارکۃ).

    ۰۱- وجیز الکلام فی الذیل علی دول الإسلام، للسخاوی (بالمشارکۃ).

    ۱۱- الموطأ، للإمام مالک بن أنس، بروایۃ یحیی بن یحیی اللیثی.

    ۲۱- الجامع الکبیر، للإمام أبی عیسی الترمذی.

    ۳۱- سنن ابن ماجہ القزوینی.

    ۴۱- کتاب الحوادث لمؤلف من القرن الثامن الہجری وہو الکتاب المسمی وہماً بالحوادث الجامعۃ والتجارب النافعۃ، والمنسوب لابن الفوطی)(بالمشارکۃ).

    ۵۱- حیاۃ الصحابۃ، للکاندہلوی.

    ۶۱- تحفۃ الأشراف بمعرفۃ الأطراف، للإمام المزی.

    ۷۱- تاریخ مدینۃ السلام، للحافظ أبی بکر الخطیب البغدادی.

    ۸۱- تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام، للحافظ شمس الدین الذہبی.

    ۹۱- معجم شیوخ تاج الدین السبکی (۵۲۸ صفحۃ) (بالمشارکۃ).

    ۰۲- صلۃ التکملۃ لوفیات النقلۃ، لعز الدین الحسینی.

    آپ نے بے شمار علمی مقالات لکھے جو وقتاً فوقتاً مجلات میں شائع ہوتے رہے،جن کے نام درج ذیل ہیں: مجلۃ المجمع العلمی العراقی، ومجلۃ کلیۃ الآداب بجامعۃ بغداد، ومجلۃ کلیۃ الدراسات الإسلامیۃ ببغداد، ومجلۃ کلیۃ الشریعۃ ببغداد، ومجلۃ المورد العراقیۃ، ومجلۃ الأقلام ببغداد، ومجلۃ التراث السوریۃ بدمشق).

    م  وص  وف ک  ا مس ل  ک

    یہ بات علم حدیث کے طالب علموں سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ جو محقق علم حدیث پر گہری بصیرت رکھتا ہے اسکے مسلک کا دار و مدار حدیث پر رہتا ہے جس کی وجہ سے کسی ایک مسلک کو اپنانا دشوار ہو جاتا ہے، یہی حالت موصوف کی ہے کہ آپ اپنا انتساب حنفی مسلک کی طرف کرتے ہیں لیکن حقیقت میں آپ عمل بالحدیث کی طرف مائل ہیں، اور محدثین کے اصول پر قائم ہیں،موصوف کے علمی کارناموں کے سلسلہ میں شیخ البانی، شیخ ابن باز، ابن عثیمین، شیخ عبد الفتاح ابو غدۃ، آپ کے دوست شیخ شعیب ارناؤط، اور شیخ عبد المجید حمدی سلفی اور شیخ سعید نے خوب حوصلہ افزائی فرمائی اور حوصلہ افزا کلمات لکھے۔

     موصوف کے محاضرات کا انداز بڑا سہل علم و فکر کی ترجمانی کے باوجود انتہائی رواں، سلیس اور شگفتہ ہوتا ہے۔ موصوف‘ علم کے بحر بیکراں ہونے کے ساتھ ساتھ‘ متواضع شخصیت اور منکسر المزاج تھے، فکر میں توسع اور عمل میں پختگی آپ کی نمایاں خصوصیات میں سے ہے۔

    ٭٭٭٭٭