اسلام : اللہ کی رضا جوئی کا نام

مسلمان کی شان
March 1, 2020
ماہ شعبان کی فضیلت اور خیر و برکات
March 28, 2020
مسلمان کی شان
March 1, 2020
ماہ شعبان کی فضیلت اور خیر و برکات
March 28, 2020

اسلام : اللہ کی رضا جوئی کا نام

اس لیے مسلمان اپنے اس خاص عقیدہ کے ساتھ کہ خداکے سوا کوئی اورعبات کے قابل نہیں ،نہ ہی اس کا کوئی شریک ہے، قرآن وحدیث میں دیے گئے احکام پرعمل کرنا، اس کی زندگی کامقصد اولین ہے، کسی کی رعایت یاکسی بھی مصلحت کی وجہ سے ان احکام سے منہ موڑنااس کے لیے درست نہیں ،ہاں ان احکام پر عمل کے ساتھ ساتھ اللہ کی ساری مخلوق کے ساتھ میل ملاپ اورمحبت وہمدردی کرنایہ اس کاخاص شعار ہے، انسان توانسان دوسری تمام مخلوقات کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی اس کوتعلیم دی گئی ہے، جانوروں تک کے حقوق اداکرنے کی اس کوتاکید کی گئی، کسی بھی جاندارکے ساتھ ہمدردی کرنا،اس کومارنے ستانے کے بجائے کھلاپلادینا،یہ بڑے اجروثواب کاکام بتایاگیاہے ،مسلمانوں کے دین و شریعت میں تعصب اور چھوت چھات کاتوخیال بھی نہیں کیاجاسکتا ،اس کا پڑوسی خواہ کسی بھی مذہب وعقیدہ سے تعلق رکھتا ہو، اس کے کام آنا، مددکرنا،اچھے اخلاق سے پیش آنا،اسلام کی تعلیمات میں داخل ہے ۔

انسانوں کی اکثریت اس دھوکہ میں رہی ہے اورہے کہ اصل چیز قوت وطاقت ،مال ودولت کاڈھیراور حکومت واقتدار ہے، حالانکہ تاریخ بتاتی ہے کہ ہزاروں برس کی حکومتیں جن کادنیامیں ڈنکا بج رہاتھااورجس پران کی توجہ کی ایک نگاہ پڑجائے ،وہ سمجھتا تھاکہ اس سے بڑاکوئی خوش نصیب نہیں ،وہ اپنے کو دوسرے عام لوگوں سے بلند وبرترسمجھتا تھا،لیکن اس قادرمطلق نے جس کومسلمان اپناخالق ومالک اورمعبود سمجھتا ہے ،اس کے بارے میں اس کایہ ایمان و یقین ہے کہ وہ جب چاہے آن کی آن میں پلک جھپکتے بڑی سے بڑی حکومت کاخاتمہ کردے ۔
تاریخ میں اس کی بڑی سبق آموزاورعبرتناک مثالیں ہیں، رومی جوعیسائی مذہب کے پیروتھے اوران کی حکومت کاڈنکابج رہاتھا جب فارس کے آتش پرست مجوسیوں کے ہاتھوں جس کومشرکین کہ مذہباً اپنے سے نزدیک سمجھتے تھے ،روم کے نصاریٰ اہل کتاب ہونے کی وجہ سے مسلمان کے بھائی یا کم از کم ان کے قریبی دوست قراردیے جاتے تھے ،جب فارس کے غلبہ کی خبر آئی تومشرکین مکہ خوش ہوتے اوراس سے مسلمانوں کے مقابلہ میں اپنے غلبہ کی فال لیتے اور خوش آئندتوقعات باندھتے ،مسلمانوں کوطبعاًصدمہ ہوتا کہ عیسائی اہل کتاب آتش پرست مجوسیوں سے مغلوب ہوں ۔
رومیوں کی یہ شکست غیرمعمولی تھی ،ایسی کہ خواب وخیال میں بھی یہ نہیں آسکتاتھا کہ وہ دوبارہ اہل فارس پرغالب آئیںگے؛لیکن اس خدائے برحق اور قادرمطلق نے جس کو مسلمان اپنا معبود حقیقی سمجھتا ہے ،یہ پیش گوئی کی کہ گھبراؤنہیں، تھوڑے ہی عرصہ میں یہ پٹے پٹائے اوربری طرح ہارے ہوئے رومی پھر فارسیوں پرغالب آجائیں گے ،چنانچہ نوسال کے اندراندر رومیوں کوفارسیوں پرفتح حاصل ہوگئی اورقرآن کریم کی اس پیش گوئی کوحق دیکھ کربہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ۔

قرآن کریم نے اس طرح پیش گوئی فرمائی:’’الٓمّ غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْ اَدْنَی الْاَرْضِ وَھُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَنَ ‘‘آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خدائے برحق اورقادرمطلق ہے ،اس کو غالب کو مغلوب اورمغلوب کوغالب ،مردہ کوزندہ اورزندہ کومردہ کرتے کچھ دیر نہیں لگتی، اس کے لیے کسی وقت کی قیداورساز گار حالات کاانتظارنہیں ،جس وقت چاہے غالب کومغلوب اورمغلوب کوغالب کردے ۔
اس لیے مسلمانوں کواللہ کوراضی کرنے والے کاموں میں اپنے کولگائے رکھنے کے بعدحالات کے اتارچڑھاؤ سے گھبرانے کے بجائے قادرمطلق ہی کی طرف رجو ع وانابت کا اہتمام کرناچاہیے کہ دعامسلمان کاہتھیار ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ہرموقع پراس کااہتمام کیاہے اورامت کواس کی تعلیم دی ہے، دعاؤں کااہتمام سیرت محمدیؐ کااہم باب ہے ،ہرمسلمان اپنی زندگی کوبنااورسنوارسکتا ہے اورہرمشکل جس کااس کے ذریعہ مقابلہ کرسکتا ہے اور اس کے خطرات سے اپنے کوبچا سکتا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اوراپنے عمل سے ثابت کیاکہ خدا کودعا مطلوب ہے ،وہ اس سے راضی اورخوش ہوتا ہے اور دعانہ کرنے سے ناراض ہوتا ہے، دعابندگی کانہایت مؤثر کھلا ہوا مظاہرہ ہے، دعانہ کرنابندگی کے خلاف اورتکبرکی علامت ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس طرح متوجہ فرمایا ہے :
’’وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ‘‘[المومن : ۶] (اورتمہارے رب نے فرمایاہے کہ مجھے پکارو،میں تمہاری دعاقبول کروں گا،بیشک جولوگ میری عباد ت سے سرکشی کرتے ہیں ،عنقریب وہ ذلیل ہوکرجہنم میں داخل ہوں گے) ۔
حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کوعبادت کامغزقراردیاہے ،فرمایا: ’’الدعاء مخُّ العبادۃ‘‘۔مزیدیہ بھی فرمایاکہ جس کے لیے دعا کا درواز کھل گیا،اس کے لیے رحمت کے دروازے کھل گئے :’’من فتح لہ باب الدعاء فتحت لہ أبواب الرحمۃ ‘‘۔لہٰذا دعاکازیادہ سے زیادہ اہتمام کرناضروری ہے کہ اس سے رحمت و عنایت خداوندی کے دروازے کھل جاتے ہیں اور مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں ۔
٭٭٭٭٭
شمس الحق ندوی