محمدرسول اللہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم
تالیف: مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی مدظلہ العالی
محمدعمیرالصدیق دریابادی ندوی
علامہ شبلیؒ کی سیرت النبیؐ کی تالیف کی ابتدا قریب ایک صدی پہلے ہوئی اور اسی سے اردو زبان میں سیرت نگاری کے منہجوں اور اسلوبوں کی ایک ایسی روایت کا بھی آغاز ہوا جس کو اہل تحقیق ونظر نے محدثانہ، مؤرخانہ،فقیہانہ، متکلمانہ، مناظرانہ وغیرہ خانوں میں تقسیم کرکے سیرت طیبہ پر مشتمل پورے ذخیرہ و سرمایہ کاجائزہ لیا۔بیسویں صدی کے پہلے نصف میں سیرت کی جن کتابوں کو زیادہ اہمیت حاصل ہوئی، ان میں علامہ شبلی نعمانیؒ کی سیرت النبیؐ، مولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوریؒ کی رحمۃ للعالمین ؐاور مولانا حکیم ابوالبرکات داناپوریؒ کی اصح السیر کاتذکرہ خاص طور سے کیا جاتا ہے۔مکتبہ جامعہ سے شائع ہونے والے ایڈیشن میں رحمۃ للعالمینؐ کے ناشرنے لکھاکہ قاضی صاحبؒ نے سیرت کی ترتیب میں بہت احتیاط سے کام لیا اور صرف ان ہی روایات کو سامنے رکھا ہے جو معیارتحقیق پرپوری اترچکی ہیں۔مواد کی فراہمی کے سلسلے میں انہوں نے صرف مسلمانوں کی مذہبی کتابوں سے کام نہیں لیا ہے بلکہ انجیل، توریت و زبور اور کہیں کہیں ہندوؤں کی مذہبی کتابوں سے بھی استفادہ کیا اور بہت کامیابی سے آنحضرتؐ کی رسالت اور ختم نبوت پر استشہاد کیا۔ان ناشرکانام موجود نہیں ہے، تاہم آگے خودقاضی منصورپوری مرحوم کے الفاظ بھی یہی بتاتے ہیں کہ انہوں نے صحیح روایات کے اندراج میں پوری کوشش وسعی کی ہے۔اس کتاب کو غیرمعمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اسی طرح مولانا ابوالبرکات داناپوریؒ کی کتاب اصح السیرہے، جس کے مقدمہ میں مولانا داناپوریؒ نے لکھا کہ اردو میں سیرت پر بہتر کتاب صرف ایک ہی اب تک لکھی گئی ہے اوروہ ہے مولانا شبلی کی سیرت نبویؐ، لیکن ان کی نظر میں علامہ شبلیؒ نے مغازی پر جو کچھ لکھا وہ بادل ناخواستہ ہے خصوصاًغزوہئ بدر کے واقعات میں۔ مولانا دانا پوریؒ کاخیال تھاکہ واقعات کو الٹ پلٹ دیاگیا ہے۔اس لیے انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ کثرت تصنیف ہی کثر ت اختلاف کا باعث ہے، یہ دعویٰ کیا کہ جو ترتیب انہوں نے مغازی کی رکھی ہے غالباً وہ اصح ترین ہے۔انہوں نے توقع ظاہر کی کہ اہل علم ان کی کتاب میں کتاب المغازی کو جامع،مکمل اور بہترین ترتیب پر پائیں گے۔اصح السیراس طرح دوحصوں میں منقسم ہوگئی، ایک تو آنحضورؐکی مجاہدانہ زندگی اور دوسرے آپؐ کی پیغمبرانہ زندگی لیکن دوسرا حصہ تشنہئ اشاعت ہی رہا۔ تاہم محققین کے نزدیک اصح السیر بہرحال مستندقرار پائی۔ یہ بھی خیال سامنے آیا کہ مستشرقین کے اعتراضات اور الزامات کا جواب قرآن پاک اور حدیث صحیح کی روشنی میں دیاجائے۔اس پر ایک فاضل نے لکھاکہ شاید ان کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی کہ مستشرقین کا کام محض اعتراض کرنا ہے۔اعتراض کے جواب سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔
ان دواہم کتب سیرت کے ذکر کے ساتھ جب سیرۃ النبیؐ کی بات آئی تو اس قسم کے جملے اہم محققین کے قلم سے نکلے کہ یہ کتاب بیسویں صدی کیا معنی،گذشتہ کئی صدیوں کی ادبیات سیرت کی ممتا ز ترین کتابوں میں ہے۔وجہ روح اور جذبہ کے ساتھ اس کاادیبانہ شکوہ اور زور بیان میں اور بیانیہ جمال میں، دلیل کی قوت،تحریر وتجزیہ کی بلندی روایات کا محدثانہ،مؤرخانہ اور متکلمانہ جائزہ، ان سب نے سیرت النبیؐ کو عالمی ذخیرہ سیرت میں ممتاز ترین مقام عطا کر دیا۔
ان تینوں مذکورہ کتابوں کے بعد سیرت نگاری میں مولانا سید سلیمان ندوی،ڈاکٹرحمید اللہ،مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا سیدابوالحسن علی ندوی، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا سیدمحمد رابع حسنی ندوی، مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری جیسے ناموں کے ساتھ اور بھی بے شمار نام سامنے آئے اور ایک احساس بھی یہ پیدا ہوا کہ ایسے قیمتی ذخیرے میں اب اضافے کی شایدگنجائش نہیں۔
مگر سیرت النبیؐ کے سوسال بعد جب مولانا تقی الدین ندوی کی کتاب محمدرسول اللہؐ:رحمۃ للعالمینؐ تین جلدوں میں آئی تویہ احساس قوی تر ہوگیا کہ سیرت کی ہرکتاب اپنے آہنگ، اسلوب، مغزوموا د اور فکر و نظر کی وجہ سے گواہی اس بات کی دیتی ہے کہ: وان لک لأجراً غیرممنون۔
مولانا تقی الدین ندوی کی اردو سیرت تین جلدوں میں ہے۔ پہلی جلد سات سو دس، دوسری جلد چھ سو اسی اور تیسری جلد پانسو اڑسٹھ صفحات یعنی قریب دوہزار صفحات پر تینوں جلدیں مشتمل ہیں۔
اصلاً یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی۔یہ اردوترجمہ اسی اصل عربی کتاب کا ہے اور انگریزی ترجمہ بھی اب زیر طباعت ہے۔
سیرت النبیؐ، رحمۃ للعالمینؐ اور اصح السیراور دیگر کتب سیرت کی موجودگی میں اس قدر ضخیم اور مبسوط کتاب سیرت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ذہن میں اس سوال کا آنا تعجب کی بات نہیں،خود یہ سوال مصنف کے ذہن میں آیا۔ اسی لیے مقدمہ میں سبب تالیف بتاتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ:
‘‘سیرت کے موضوع پر عربی زبان میں سیکڑوں کتابیں موجود ہیں جن کی تدوین میں حالات وواقعات کی ترتیب کا خیال رکھاگیا ہے۔اس انداز کی اگر کوئی کتاب لکھنا چاہتا تو یہ کام قدر ے آسان تھا لیکن میں نے ایسی کتاب لکھنا چاہی جس میں صحیح اور حسن روایتوں کوجمع کرنے کے ساتھ حالات وواقعات کا تجزیہ اور ان میں موجود اسرار وحکم کی نقاب کشائی اور دشمنانِ اسلام کارد بھی ہو۔تالیف کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ میں نے محسوس کیا کہ مستشرقین عربی زبان کے رموز سے ناآشنا ہیں اور جو اس فن میں مہارت رکھتے ہیں وہ بھی اسلام دشمنی کی وجہ سے حق کا برملا اظہار نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ سیرت کے اہم نکات اور واقعات کو غلط معنی پہنا دیتے ہیں’’۔
ایک بات اور بھی کہی کہ:’‘ضرورت بہرحال باقی تھی کہ صحت کے التزا م کے ساتھ روایات کی تحقیق کا بھی اہتمام ہو۔ عام طور پر سیرت کی کتابوں میں ہرطرح کی روایت داخل کردی جاتی ہیں۔ صحیح، حسن،ضعیف حتی کہ موضوع حدیثوں سے بھی سیرت کی کتابیں خالی نہیں ہیں’’۔
مولانا ندوی نے اس ضرورت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کمال امانت داری سے اعتراف کیا کہ:’‘یقیناً علمائے متأخرین نے سیرت پر ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں فن اسماء الرجال اور اصول جرح وتعدیل سے کام لیتے ہوئے حدیثوں پر کلام کیا گیااور ان کا درجہ بھی بیان کیاگیا ہے’’۔
اس کے باوجود مولانا نے اپنی کتاب کیوں مرتب کی؟ اس کا جواب بھی ہے کہ: سیر ت النبیؐ کے مقدمہ میں علامہ شبلیؒ کی تحریر، اس کے تکملہ میں مولانا سید سلیمان ندویؒ کی تحریر، مولانا سلیمان منصورپوریؒ اور مولانا علی میاں ندویؒ کی السیرۃ النبویۃکی تحریریں جب ان کی نظر سے گزریں، اس وقت سے ذہن و دماغ پر یہ خیال پوری طاقت سے چھاگیا کہ ان بزرگوں نے جو کچھ لکھاہے موجودہ زمانہ کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ان سب کا خلاصہ پیش کر دیاجائے۔نبی پاکؐ کی زندگی سراپا رحمت وبرکت ہے، دنیاکو اپنے اخلاق ومعاملات میں اسی رحمت اور اعتدال و توازن کو اپنانے کی ضرورت ہے۔جن سیرت نگاروں نے اس پہلو کی طرف خاص توجہ دی ہے ان سے حتی الامکان استفاد ہ کی کوشش کی ہے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ مولانا ندوی کے سامنے کسی تحقیق جدید سے زیادہ اردو کے سیرت نگاروں خصوصاً علامہ شبلی اور مولانا سید سلیمان ندوی کے وہ مباحث پیش نظر تھے جن سے عالم عرب کو عربی اور پھر یورپ کو انگریزی زبان کے ذریعہ متعارف کرنے میں زیادہ نفع اور فائدہ کی امید تھی۔
فاضل سیرت نگارکی پوری زندگی ہی ذکرو حدیث رسولؐ میں گزری ہے۔ہندوستان میں وہ اس وقت حدیث کے علم وتحقیق اور بعض نہایت اہم احادیث کے مجموعوں کی ترتیب وتدوین و تعلیق کی وجہ سے ائمہ محدثین کی صف میں شمار ہوتے ہیں۔اسی لیے اس کتابِ سیرت کی اس خوبی کا اظہارجامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ کے استاذ حدیث شیخ موفق بن عبداللہ نے یہ کہہ کرکیا کہ: اس کتاب میں محدثین کے منہج کی پیروی ہے۔تونس کے شیخ ابولبابہ نے اس خوبی کا اظہار کیا کہ مولانا ندوی نے ضعیف اور اسرائیلی روایات سے مکمل گریز کیا ہے بلکہ ایسی روایات کا ذکرکرکے ان پر سخت نقد و جرح کی ہے۔ ڈاکٹرعبداللہ بن عبدالمحسن الترکی نے ایک اور خصوصیت کی جانب اشارہ کیا کہ آنحضورؐ کی ذات وسیرت پر لکھنے کامطلب یہ بھی ہے کہ حرمین شریفین پر بھی گفتگو کی جائے۔اسلام میں مکہ ومدینہ کے جو مخصوص احکام ہیں اور جو کتاب اللہ اور نبی کریمؐ کی سنت وسیرت سے ثابت ہیں ان پر بھی روشنی ڈالی جائے۔ یہ وہ نکتہ ہے جسے مولانا ندوی نے اپنی کتاب میں محفوظ رکھا ہے۔
مولانا نے حرمین شریفین کے متعلق قدیم ترین کتابوں کا حوالہ دیا ہے۔ امام مالک کے شاگرد محمد بن حسن زبالہ مخزومی متوفی ۲ھ کی ایک کتاب جس کو حاجی خلیفہ نے اخبار المدینہ کا نام دیا اور یہ ۳۰۰۲ء میں مدینہ منورہ کے مرکز البحوث و الدراسات سے شائع ہوئی،اس سے استفادہ کیا گیا۔ اسی طرح عمر بن شبہ کی کتاب أخبار المدینۃ، تقی الدین الفاسی کی العقدالثمین فی أخبارالبلاد الامین اور محمد بن اسحاق الفاکہی کی تاریخ مکۃ کااپنے مآخذ میں ذکرکیا ہے۔
حدیث شریف کے بیان میں جو احتیاط اور واقعات وحالات کی جو مرجعیت ہے اس سے سیرت ایسی معتبر اورواقعیت کی حامل بنتی ہے، جوتاریخی انداز بیان میں مشکل ہی سے مل سکتی ہے۔مولانا سید محمدرابع ندوی نے بتایا کہ کتاب میں اسی انداز بیان کو اختیار کیا گیا ہے۔
مولانا ندوی نے گرچہ علامہ شبلیؒ اور ان کی سیرت النبیؐ کے اثرات کابار بار ذکر کیا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ سیرت نبویؐ کے اولین مصادر کی انہوں نے جس طرح درجہ بندی کی ہے وہ سیرت کے ہر طالب علم کے لیے نہایت نفع بخش ہے۔ مآخذ میں انہو ں نے بالترتیب قرآن کریم، حدیث و سنت کی کتب،معجزات نبوی کی کتب، شمائل نبوی اور مغازی و سیرت کی کتابوں پر جامع معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ایک باب علم و تاریخ کی عدالت میں تصانیف سیرت کا بھی قائم کیا۔تصانیف سیرت کی عدالت میں واقدی ہمیشہ حاضر نظر آتے ہیں۔مولانا نے واقدی پر محدثین کی زبردست تنقید کا ذکر کیا، امام نسائی اور ابن ماجہ کی رائیں نقل کی ہیں لیکن اس کے بعد لکھتے ہیں:
‘‘بندہئ ناچیز کہتا ہے: واقدی نے اپنی کتاب میں ہرطرح کے رطب ویابس کو جمع ضرور کر دیا ہے لیکن ان کی کتاب کی تلخیص حافظ ابن حجر عسقلانی جیسے ماہر جرح و تعدیل نے کی ہے۔ ابراہیم حربی اور ابن سعد نے جس طرح واقدی پر اعتماد کیا ہے اس لحا ظ سے واقدی کی روایات کو یکسر مسترد نہیں کرسکتے بلکہ محدثین کے قواعد کی روشنی میں ان روایتوں پر بھی صحت وضعف کا حکم لگاکر صحیح اورضعیف ولغوروایتوں کو الگ کرسکتے ہیں۔طبری اور ابن سعد محدثین کے نزدیک بالاتفاق ثقہ اور مستند ہیں، پھر بھی ان کے ہاں ضعیف بلکہ موضوع روایتیں مل جاتی ہیں’’۔
اس طرح مولانا کی اس کتاب سیرت کی ضرورت اور اس کی افادیت سامنے آتی ہے۔ رحمۃ للعالمینؐ کی خصوصیت کو کتاب کے نام میں شامل کرنا خود مصنف کی نیت اور ان کی غرض و غایت کی غماز ہے۔موجودہ دور میں جس طرح اسلام اور مسلمانوں کو تشدد اور دہشت گردی اور غیر انسانی قوانین کے الزاموں سے ہدف تنقید بنایا جارہا ہے اور خود پیغمبراسلامؐ کی حیات طیبہ کو نہایت شیطانی مکرو فریب سے ایک بالکل متضاد صورت میں پیش کرنے کی سازشوں کو متحدہ عالمی کفریہ تشہیر کا حصہ بنا یا جارہا ہے اس میں قرآنی حقیقت وما أرسلناک الا رحمۃ للعالمین کی حقیقت کشائی پہلے سے کہیں زیادہ ضروری اور مطلوب ہے۔ اصلاً یہی جذبہ اس پوری کتاب سیرت میں جاری و ساری ہے۔
ایک جگہ مولانا ندوی نے امام احمد کا یہ مشہور قول نقل کیا کہ: تین علوم کی کوئی بنیاد نہیں ہے:تفسیر،ملاحم اور مغازی اور پھر اس قول پر یوں کلام کیاکہ:
سب سے پہلے خوداس قول کی صحت ہی میں شبہ ہے، کیوں کہ امام احمد نے اپنی مسند میں تفسیر، مغازی اور ملاحم کی حدیثیں کثرت سے بیان کی ہیں۔اس سے ان کے مذکورہ قول کی خود ہی تردید ہوجاتی ہے۔ دوسرے صحت کی نفی سے حدیث کا موضوع یاضعیف ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ ملا علی قاریؒ کا قول ہے کہ عدم ثبوت سے موضوع ہونا لازم نہیں آتا۔حافظ ابن حجر نے تخریج الاذکار میں بیان کیا ہے کہ امام احمدؒ سے ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا: وضو کے اندر تسمیہ کے تعلق سے مجھے کوئی حدیث نہیں معلوم ہے۔میں کہتاہوں کہ نہ جاننے سے نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا اور اگر مان بھی لیا جائے تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ثبوت کی نفی سے ضعف ثابت نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ثبوت سے مراد صحیح حدیث کا ثبوت بھی ہوسکتا ہے۔ اس لحاظ سے حسن کی گنجائش بہر حال باقی رہتی ہے۔ یہ پوری بحث صاف ظاہر کرتی ہے کہ مولانا ندوی کا علم حدیث میں تبحر اس کتاب کی تالیف کا سب سے اہم عنصر ہے۔ کتاب کے مآخذ میں قریب اسی فیصد حوالے کتب احادیث کے ہیں اوریہیں سے مولانا کی کتاب سیرت کی وہ امتیازی حیثیت نمایاں ہوتی ہے جس کو مصنف علام نے ازراہ انکسار دوسری کتب سیرت کے مطالعات کانتیجہ بتایا ہے۔ جواد علی کی المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام کے حوالے سے یہ بات کم ہی جگہ ملے گی کہ جولوگ یہ کہتے ہیں کہ مکہ بعثت نبوی کے وقت ایک چھوٹا سا گاؤں تھا،وہ عربوں کی تاریخ اور ان کے حالات سے محض بے خبر ہیں۔ مکہ چھٹی صدی عیسوی ہی میں ابتدائی بدویانہ عہد سے نکل کر تمدنی و شہری نظام میں داخل ہوچکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ام القریٰ کہا ہے۔مکہ کا نظام رضاکارانہ اتحاد کی بنیاد پر قائم تھا۔
سیرت نگاری میں محدثانہ طرز بیان کا گویا التزام ہے جو غیرشعوری ہوسکتا ہے لیکن مصنف کی حدیثی فکر اور اہتمام کا فطری اظہار بھی کہاجاسکتا ہے،جیسے رسول اللہ کی کنیت کی بحث میں ابوالمومنین کا ذکرکرکے اور شامی کا یہ قول نقل کیا کہ قرآن مجید میں النبی اولیٰ بالمومنین من أنفسہم وأزواجہ أمہاتہم ہے، یہاں حضرت ابی بن کعب وھوأب لہم بھی پڑھتے تھے۔مولانا نے یہ قول نقل کیا لیکن بغیر کسی تبصرہ کے واللہ تعالیٰ اعلم کہہ کر خاموش ہوگئے۔البتہ حاشیہ میں امام نووی، اما م بغوی اور سنن ابی داؤد کے کئی اقوال نقل کردیے۔ اسی طرح شق صدر کی بحث میں وہ بڑے اعتماد سے لکھتے ہیں کہ: شق صدر کے اوقات کی تعیین صرف مختلف روایتوں کو پیش کرنے سے نہیں ہوسکتی،جیساکہ ابن حجر،قسطلانی اور زرقانی نے کیا ہے بلکہ ان روایات کے سلسلہ سند اور راویوں کے ضعف وقوت پر نقد کرکے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس پوری بحث کے آخر میں مولانا سید سلیمان ندوی کے مفصل کلام کے مطالعہ کی جانب توجہ دلاتے ہیں یعنی صاف ظاہر ہے کہ وہ سیرت النبیؐ کی بحث کو راجح قرار دیتے ہیں۔پہلی جلد غزوہئ احد پر ختم ہوتی ہے۔دوسری جلد آپؐ کی وفات اور پھر ترکہ و آثار مبارکہ، آپؐ کی ازواج مطہرات کے مکانات اور آپؐ کی دایہ کے بیان پر پوری ہوتی ہے۔ اس میں آپؐ کے زمانہ علالت کے چند نہایت اہم اور موضوع بحث بننے والے واقعات میں بھی مولانا کی محدثانہ نظر نے معاملات کوبڑی آسانی سے قابل فہم بنادیا۔ غدیرخم سے سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعات تک مولانا ندوی کے انداز و اسلوب نے بتایا کہ وہ کس شان سے مشکل مراحل سے گزر گئے ہیں۔ تیسری اور آخری جلد کے موضوعات میں رسول اکرمؐ کے شمائل و فضائل، اخلاق وعادات،معجزات و مبشرات کے ساتھ خصوصیات محمدیہ، خصائص ذاتیہ و نبویہ پر سیر حاصل بحث آگئی ہے۔ کتاب کے نام میں ادائے فریضہئ رسالت اور معلوم جہانوں کے لیے سرمایہ رحمت کی جانب اشارہ ہے۔ تیسری جلد میں کائنات کے لیے باعث رحمت پر گفتگو خود باران رحمت میں بدل جاتی ہے۔رحمت، اخلا ق حسنہ، اعتدال و وسطیت، انسان کے مقام بلند سے آشنائی،اخوت اسلامی کاحق، دین مساوات،علم نافع اور عمل صالح، نرمی اور ملائمت کے داعی جیسے مضامین نے واضح کردیا کہ محض بائبل کی روایتوں اور دوسری قوموں کے اعتراضات کا رد یا محض مغازی کے بیان میں سیرت کے سمندر کو محدود کرنا ہی مقصود نہیں بلکہ شبلی وسلیمان کے اس منہج کی ترجمانی ملحوظ ہے جو اپنے دور کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر معاصر اسلوب کی خوبصورتی کوبھی پیش نظر رکھے۔ مصادر وحوالہ جات کی وضاحت بھی اسی اسلوب کا ایک حصہ ہے۔ مولانا ندوی نے اپنی اس کتاب کی تیاری میں عربی اور اردو کی قریب ساڑھے تین سوکتابوں کو اپنا ماخذ ومصدر بنا یا ہے۔ کتاب کی تحقیقی اہمیت کے لیے یہی کافی ہے۔ ایک بات اور بھی قابل ذکر ہے کہ نبی اکرمؐ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقام و مرتبہ، ان کے درمیان فرق مراتب اور ان کے فضائل پر گفتگو کوبجاطورپر سیرت پاک کا جزو بنایا گیا اور خلفائے راشدین کا جدا ذکر بھی اس شان سے ہے کہ ان کے درمیان ترتیب کو ترتیب ربانی کا عنوان دیاگیا۔ ایک خوبی یہ بھی ہے کہ بعض ضروری مقامات پر عمدہ نقشے بھی دیے گئے ہیں۔
جہاں تک ترجمہ کاتعلق ہے یہ رواں بھی ہے اور سلیس بھی۔ تاہم یہ اور بھی شگفتہ ہوسکتا تھا۔ بعض جگہوں پر عربی الفاظ کی جگہ اردو کے آسان الفاظ زیادہ مناسب ہوتے۔ بعض مباحث جیسے حضرت عائشہؓ کی شادی کے وقت ان کی عمر کے بیان میں بعض سوالات کے جواب مل جاتے تو ایک طبقہ کی تشویش دور ہوجاتی۔
کتاب جامعہ اسلامیہ مظفر پوراعظم گڑھ کے مرکز الشیخ ابی الحسن الندوی سے شائع ہوئی۔ سرورق کی دیدہ زیبی اور حسن سلیقہ سطر سطر سے نمایاں ہے۔ قیمت درج نہیں ہے، مجلد ہونے کے ساتھ اس کی تقطیع بھی عام کتابوں سے قدرے بڑی ہے۔ اعظم گڑھ، دیوبند اور لکھنؤکے مشہور مکتبوں کے نام، ملنے کے پتے میں شامل ہیں۔ سن اشاعت ۲۲۰۲ء ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ ترکی، پروفیسر سعود بن ابراہیم امام حرم مکی، ڈاکٹر ابولبابہ طاہر صالح حسین رئیس جامعہ زیتونہ، ڈاکٹر موفق بن عبداللہ،مولانا محمد تقی عثمانی کے مقدموں اور مولانا سید محمد رابع حسنی کی تقریظ نے کتاب کی قدروقیمت کا گویا اعلان کر دیا۔ علامہ شبلی کی سیرت کے سوسال بعد، مولانا ندوی کی یہ کتاب سیرت کے لٹریچر میں ایک اہم اضافہ ہے۔