تحفظِ دین کا عہد کیجیے!

    تحفظِ دین کا عہد کیجیے!

    دارالعلوم ندوۃ العلماء سے فارغ ہونے والے طلبہ کے سامنے کی گئی ایک اہم تقریر

    حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندویؒ

    رفقائے کرام، برادران عزیز اور دارالعلوم کے رشتے سے فرزندان عزیز!

    کسی نسبی، حقیقی اور طبعی ماں کے لیے، مادر مشفقہ کے لیے، اور کسی فکری اور تربیتی اور اصلاحی و تعلیمی مادر مشفقہ کے لیے یہ بات کوئی فخر کی اور خوشی کی نہیں ہے کہ وہ اپنے فرزندوں کو اپنے سینے سے لگائے رکھے، اپنی گود میں بٹھائے رکھے، اور اپنے گھر سے نکلنے نہ دے، کسی حیثیت سے بھی وہ ماں قابل مبارکباد نہیں ہوگی کہ جس نے اپنے بچے کو خون جگر سے پالا، (خواہ وہ مادرنسبی ہو، اور خواہ مادر علمی ہو)وہ اپنے بچوں کو اپنے سے جدا نہ ہونے دے۔

    آج کا دن بھی ایساہے کہ اس مادرعلمی کو اپنے فرزندوں کو الوداع کہنے، معنوی معنی میں الوداع کہنے کا موقع مل رہا ہے، اگرچہ وہ ان شاء اللہ ابھی کچھ دن رہیں گے اور اس کے بعد بھی ان کاتعلق اور ان کا رابطہ یہاں سے قائم رہے گا، جیسا کہ ان ادبی اور انشاپردازانہ مضامین سے، اور ندوۃالعلماء کے سرپرستوں کے اسلوب اور زبان میں جو اظہار خیال کیا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے۔

    میں آپ کے سامنے دو ماؤں کی مثالیں رکھتا ہوں جنھوں نے اپنے فرزندوں کو جدا کیا، اور ان فرزندوں نے حق مادری نہیں، اور حق پدری نہیں، اور حق نسبی نہیں، بلکہ حق بندگی، حق وفاداری، حق شرافت اور حق ایمانی ادا کیا۔

    حضرت خنساء کا واقعہ

    ایک مثال جس پر بہت کم غور کیا گیا ہے، اس حیثیت سے اس کی اہمیت بہت کم محسوس کی گئی ہے، تاریخ ادب کے مطالعہ میں اور دنیاکی ادبیات کے تقابلی مطالعہ میں، وہ حضرت خنساء کی ذات ہے، حضرت خنساء کا یہ امتیاز ہے کہ انھوں نے اپنے بھائیوں کی وفات پرایسے دل دوز، جگر خراش مرثیے کہے، کہ جن کا میں اپنی محدود واقفیت کی بنا پر جو صرف تین چار زبانوں سے ہے، اور ان میں بھی مراتب ہیں، یہ کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کے لٹریچر میں اس کی مثال نہیں مل سکتی، کہ فرزندوں کے مرثیے، اور دل بندوں کے مرثیے، جگر گوشوں کے مرثیے، بادشاہوں کے مرثیے تو بہت ہیں، لیکن بھائیوں کے، ایک ایک بھائی پر اس طرح رونا اور عمر بھر روتے رہنا، یہاں تک کہ یہ ان کاامتیاز بن گیاہے کہ وہ مراثی کی بہت بڑی شاعرہ ہیں، جنھوں نے اپنی پوری قوت شاعری، ملکہئ شاعری صرف کردی ہے اپنے بھائیوں کے مرثیہ میں، اس کی مثال نہیں مل سکتی۔

    اور آپ سب (اللہ تعالیٰ آپ کے عزیز و اقارب سب کو زندہ سلامت رکھے، اور آپ ان کے لیے قابل تسلی اور وہ آپ کے لیے قابل فخر ہوں) آپ بھائیوں اور فرزندوں کا فرق خوب سمجھتے ہیں، اس عمر میں بھی سمجھتے ہیں جو عمر اس کی زیادہ سمجھنے کی نہیں ہے، لیکن پھر بھی آپ اپنی فطرت سلیم سے سمجھتے ہیں،کہ بھائی کیساہی عزیز ہو، اور کیسا ہی وہ قابل فخر ہو، اور کیساہی وہ سرمایہئ حیات ہو، اور کیساہی بڑا محسن ہو، لیکن اس میں اور فرزند میں فرق ہوتا ہے۔

    حضرت خنساء کا یہ امتیا زہے کہ ساری عمر ان کی اپنے بھائیوں کا مرثیہ کہنے میں گزری، لیکن اس کا آپ مقابلہ کیجیے، اور میں اپنے ادنیٰ مطالعہ کی روشنی میں کہتا ہوں کہ ایسے مرثیے شاید کسی بھی زبان میں نہیں ملیں گے، جیسے کہ عربی زبان میں یہ مرثیے ہیں، اور وہ تاریخ ادب کا ایک اہم جزو اور عنصر ہے، لیکن یہ بات دیکھنے کی ہے کہ جب بیٹوں کا معاملہ آیا، فرزندوں کامعاملہ آیا، جو اُن کے جسم کے ٹکڑے تھے، آخری بات جو کہی جاسکتی ہے، وہ یہ کہ اُن کے جسم کے ٹکڑے تھے، کہ ایک غزوہ کے موقع پر اُنھوں نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور ایک ایک بیٹے کو رخصت کیا کہ جاؤ، اللہ کے راستے میں جہاد کرو، اور خبر آئی کہ وہ شہید ہوگیا، دوسرے بیٹے کو رخصت کیا، اور خبر آئی کہ وہ شہیدہوگیا، اورپھر تیسرے بیٹے کو، اور اس توقع نہیں بلکہ اس یقین کے ساتھ بھیجتی تھیں کہ وہ زندہ نہیں آئے گا، اور کہتی تھیں کہ بیٹا کوئی کوتاہی نہ کرنا، اللہ کی راہ میں جان دینا، اللہ تعالیٰ نے ان کو کئی فرزند عطافرمائے تھے، جب سب بیٹوں کی شہادت کی خبر سنی تو یہ تاریخ ادب میں انھیں کے لفظوں میں اس بات کو محفوظ کردیا گیا ہے کہ انھوں نے کہا: ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَکْرَمَنِيْ بِشَہَادَتِہِمْ“، ”اس خدا کا شکر ہے جس نے مجھے عزت بخشی ان کی شہادت سے“۔

    مادرعلمی کی مثال  ایک مثال تو میں جسمانی اور طبعی اور فطری ماں کی دیتا ہوں، اور اسی کے ساتھ آپ مادر علمی یعنی مدارس دینیہ اور مربیان، سرپرستان علمی اور سرپرستان روحانی کے واقعات تاریخ میں دیکھیں گے، اور ہماری پوری تاریخ دعوت اس سے بھری ہوئی ہے، شروع سے لے کر آپ دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ماں کی شفقت رکھنے والے، بلکہ بعض اوقات ماں کی شفقت سے زیادہ شفقت رکھنے والے بزرگوں نے اپنے فرزندوں کو جدا کیا اور اس وصیت کے ساتھ جدا کیا کہ جو حدیث کے الفاظ ہیں: ”أَسْتَوْدِعُ اللّٰہَ دِیْنَکَ وَ أَمَانَتَکَ وَ خَوَاتِیْمَ عَمَلِکَ“، ان کو یہ وصیت کی کہ علم پھیلاؤ، دین کی حفاظت کرو، اور دین کے تقاضے جو ایک داعی کے لیے، اور دین کے ایک عالم و حامل کے لیے، اور ایک غیور مسلمان کے لیے اور ایک ایمان کی قدر و قیمت، اپنے ایمان کی بھی اور امت اسلامیہ کے ایمان کی بھی قدر و قیمت جاننے والے کا جو فریضہ ہے وہ ادا کرو، اس کی اتنی مثالیں ہیں کہ میں سب مثالیں نہیں دے سکتا، میں صرف دومثالیں دوں گا، ہندوستان میں جن کو اس وقت کے حالات سے بہت زیادہ مطابقت ہے، اور میں ان کی مثالیں دے

    کر پھر بتاؤں گا کہ آج اس سعادت مندی کا، اس وفاداری کا، اور اس ایمان پروری کا، دین پروری کا، اور حمیت اسلامی کا تقاضا کیا ہے؟

    حضرت مجدد الف ثانیؓ  اور فتنہ اکبری کا مقابلہ

    ایک حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللہ علیہ)کی مثال دوں گا، اس جلسہ میں بھی برکت پیدا کرنے کے لیے اور قبولیت پیدا کرنے کے لیے، اور ان کا حق سمجھ کر، کہ حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللہ علیہ) کی ایک اکیلی ذات تھی، پورا اکبری دربار تھا اور اس کے وسائل تھے، اس کے ذخائر تھے، اس کے لشکر تھے، اور لشکر صرف فوجوں کے نہیں، سپاہیوں کے نہیں، بلکہ ذہین انسانوں کے لشکر تھے، اور میں اپنے تاریخی مطالعہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ اس وقت ہندوستان ہی نہیں بلکہ اس عہد کے بعض ذہین ترین انسان اس کو میسر آگئے تھے، ملا مبارک اور اس کے دونوں بیٹے ابوالفضل اور فیضی،اور پھر اس کے بعد ایران سے کئی ذہین لوگ، عبقری، جینئس قسم کے لوگ آگئے تھے، جنہوں نے اکبر کی اس امیت اور اکبر کی اس عزیمت سے پورا فائدہ اٹھایا۔

    تاریخ کامطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ جب اُمیت اور عزیمت دونوں جمع ہوجائیں، تو یہ بڑی خطرناک بات ہوتی ہے، اس لیے کہ علم ہے جو جگہ جگہ عنان پکڑتا ہے اور روکتا ہے، اور یا پھر ضعف ارادہ ہے، ارادہ کی، عزم کی کمزوری ہے جو عناں گیر ہوتی ہے اور سدّ راہ ہوتی ہے، لیکن جہاں اُمیت، جہاں لاعلمی اور عزیمت دونوں جمع ہوجائیں اور پھر اس کے ساتھ اس کوایسے لوگ مل جائیں جو اس کو فکری غذا بھی پہنچاتے ہوں، اور جواز بھی مہیاکرتے ہوں، اس کے جو نتائج ہیں، وہ تصور سے بالا تر ہوتے ہیں،اور یہ نازک ترین گھڑی ہوتی ہے۔

    ایک طرف اکبر اپنی ان طاقتوں کے ساتھ تھا، کہ اس کو اس وقت کے جو ما بہ الامتیاز اور قابل فخر علوم سمجھے جاتے تھے، ان کے ماہرین یعنی فلسفہ و منطق کے ماہرین اور ادب اور شاعری کے ماہرین کی ایک جماعت مل گئی تھی، اور پھر یہاں کا جو برہمن عنصر تھا، اور یہاں کا ذہین عنصر تھا، وہ بھی اس کے ساتھ تھا، بیربل اور دوسرے جو اس کے اراکین تھے،یہ سب ایک طرف تھا، اور ایک اللہ کا بندہ جس کا نام احمد بن عبد الاحد السرہندی ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی بارش ہو اُن پر، اُن کی قبر مبارک پر، اُن کی روح مبارک پر، وہ تھے،انھوں نے اپنے فرزندوں کو،اور اپنے خلفاء کوتیار کیا اس فتنے کے مقابلے کے لیے۔

     فتنہ کیا تھا؟ یہ وہ فتنہ تھا جس کا سمجھنا اس وقت دوسرے زمانوں کے مقابلے میں بہت آسان ہوگیاہے، اور یہ بات کوئی خوشی کی نہیں ہے، مسرت کی نہیں ہے، بڑی ہی غم اور فکر کی بات ہے کہ دور اکبری کا سمجھنا کسی اور زمانے میں اتنا آسان نہیں تھا جتنا اس زمانے میں، کہ جب اقتدار اور انتخاب کے ذریعے سے ملک کی سیاست و طاقت ان جماعتوں کے ہاتھ میں آرہی ہے، اور ان افراد کے ہاتھ میں آرہی ہے جو دور اکبری کا خواب دیکھ رہے ہیں، اور جن کے لیے دور اکبری کا خواب پورا کرنے کے زیادہ امکانات اور وسائل کو حاصل ہیں، مذہب کے رشتے سے بھی، اور ملک کے رشتے سے بھی، اور قدیم تاریخ کے حوالے سے بھی۔

     وہ حضرت مجدد سرہندی ایک طرف ہیں، اور پورا اکبر کا دربار ایک طرف، اور اس میں بڑے مسلمان امراء بھی عبدالرحیم خان خاناں، اور سید فرید اور یہ حضرات بھی ہیں،جو بڑے گھرانوں کے چشم و چراغ ہیں اور شریف ترین اور ذہین ترین انسان ہیں، اس وقت کوئی تقابل نہیں تھا۔

    نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی نے جو ہمارے ندوۃ العلماء کے بانیوں اور سرپرستوں میں ہیں، انھوں نے حیدرآباد کی تقریر میں ایک بات کہی اور بڑا نکتہ بتایا، اور پھر اس کی تشریح مولانا مناظر احسن صاحب گیلانی نے اپنے اس مضمون میں کی جو حضرت مجدد صاحب پر لکھا ہے اور ”الفرقان“ میں چھپا ہے، کہ لوگ تاریخ پڑھتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ اکبر کے بعد جہانگیر آیا، اور جہانگیر اکبر سے بہتر تھا،آپ کو معلوم ہے کہ ایک زنجیر عدل اس نے لٹکائی تھی، اور جب اس نے کانگڑہ کا قلعہ فتح کیا تو وہاں سب سے پہلا کام جو کیاہے، وہ یہ کہ مسجد بنانے کا حکم دیا، اور گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیا، یہ بعد میں معلوم ہوگا کہ یہ بات کہاں سے آئی؟تو اکبر کے بعد جہانگیر آتا ہے جو اس سے کہیں بہتر ہے، اور جہانگیر کے بعد شاہجہاں آتا ہے جو تخت طاؤس پر بیٹھنے پر اتر جاتاہے اور سجدہ کرتا ہے، اور دو رکعت نماز پڑھ کے کہتا ہے کہ فرعون بڑا سبک سر اور بہت اوچھا آدمی تھا کہ آبنوس کے تخت پر بیٹھا اور اس نے خدائی کا دعوی کیا، لیکن میں امت محمدیہ کا فرد ہوں، میں خدا کا شکر اداکرتا ہوں،تو جہانگیر کے بعد شاہجہاں آتاہے جو اس سے کہیں بہتر ہے، اور شاہجہاں کے بعد پھر محیی الدین اورنگ زیب آتا ہے جو کہ صحیح معنی میں محیی الدین اورنگ زیب ہے، اور آپ تاریخ پڑھ سکتے ہیں۔

    تو نواب صدر یار جنگ مرحوم نے فرمایا کہ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ عام قاعدہ یہ ہے کہ بد سے بد تر آتاہے، اس لیے کہ وہ بد جو ہیں، اس کے اثرات ہوتے ہیں،اور پھر وہ جس حیثیت کا آدمی ہے، اور جو وسائل رکھتا ہے، اس کے مطابق اس کے اثرات پڑتے ہیں، تو اکبر اور اکبر کے اثرات کو، بلکہ اکبر کی جہانگیری کو، اس کی فتوحات کو، اور اس کی شہرکشائی کو، اور لشکرکشی کو دیکھئے کہ اس وقت سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ کے بعد سب سے طاقتور سلطنت اس وقت اکبر کی سلطنت تھی،پورے ایشیا میں نہیں، بلکہ پورے عالم اسلام میں، اور سمجھئے کہ ایک حیثیت سے متمدن دنیا میں، تو اکبر کے بعد اس سے بدتر آدمی آناچاہیے تھا، اس لیے کہ عام طور پر زمانہ انحطاط کی طرف چلتا ہے، اور برے اثرات کو قبول کرتا ہے،اور نشیب کی طرف جانا آسان ہوتاہے، اور بلندی کی طرف جانا مشکل ہوتا ہے، کیا بات ہے کہ اکبر کے بعد جہانگیر آتا ہے جو اس سے بہتر، اور جہانگیر کے بعد شاہجہاں آتاہے جو اس سے بہتر، اور شاہجہاں کے بعد محیی الدین اورنگ زیب آتاہے جو اس سے کہیں بہتر، جس کو علی الطنطاوی کہتے ہیں کہ وہ سادس الخلفاء الراشدین ہیں، ان کو چھٹا خلیفہئ راشد ماننا چاہیے، اور پورا مضمون ہے بقیۃ الخلفاء الراشدین کے عنوان سے، جس میں انھوں نے دکھایا ہے کہ وہ خلفاء راشدین کا ایک نمونہ تھے، اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد ایسی مثال ملنی مشکل ہے۔

     تو نواب صدریار جنگ نے کہاکہ لوگ اس پرغور نہیں کرتے کہ کیا یہ فطرت انسانی کے، تجربہئ انسانی کے، تاریخ انسانی کے، نفسیات انسانی کے خلاف ہورہا ہے، کہ ایک غلط آدمی ہے، اور وہ پورے اپنے غلط ہونے کا سایہ پھیلاتا ہے، اور وہ بالکل ڈھالناچاہتا ہے اس سانچہ میں، لیکن اس کے برخلاف ہوتا ہے کہ اس سے بہتر آدمی آتاہے۔

    اصل بات یہ ہے کہ یہ حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللہ علیہ) کا کارنامہ ہے کہ انھوں نے اندر اندر ایساانقلاب کیاکہ جو بعد میں آتاہے وہ بہتر ہوتا ہے، چنانچہ سب کو معلوم ہے محیی الدین اورنگ زیب ان میں سب سے بہتر تھا، اور اس کے حالات بالکل اولیاء اللہ کے سے ہیں، یعنی اس کے حالات کیابیان کیے جائیں! انتقال کے وقت اس نے وصیت کی کہ یہ ڈیڑھ روپے دو روپے جو ہیں یہ میرے کفن میں صرف کیے جائیں، اس سے زیادہ میرے کفن میں صرف نہ کیاجائے، اس لیے کہ ٹوپی سی سی کر میں نے اس کی قیمت جمع کی ہے، اور باقی میرا جو ترکہ ہے اتنے سو اتنے ہزار کا، وہ میں نے قرآن شریف لکھ کر اس کو حاصل کیاتھا،وہ غریبوں میں تقسیم کردیا جائے،پھر روزے کی جو شان لکھی ہے سوانح نگاروں نے، اور میں اپنے والد صاحب کی کتاب کا حوالہ نہیں دوں گا،کہ بہرحال وہ عالم دین تھے، اور ان کے جذبات اور خاندانی اثرات تھے، لیکن منشی ذکاء اللہ صاحب اور پھر فاروقی صاحب کی کتاب جو انگریزی میں ہے، بہرائچ کے ایک وکیل تھے، سب سے بہتر کتاب ہے انگریزی میں، اور اس کے علاوہ ہمارے بشمبر ناتھ پانڈے صاحب، جو کل تک یہاں موجودتھے اور کل کے جلسے میں تھے، انھوں نے اپنی کتاب میں اورنگ زیب کا جو کیریکٹر دکھایا ہے، اس سب سے معلوم ہوتا ہے، یہ کیا بات ہے؟ یہ بالکل خرق عادت ہی ہے یا اس کو اتفاق پہ محمول کیاجائے؟ یہ حضرت مجدد صاحب کااثر ہے کہ وہ اور ان کے تربیت یافتہ خلفاء اور سب سے بڑھ کر ان کے صاحب زادے حضرت خواجہ محمدمعصوم، ان کی روحانیت، ان کا درد دل، ان کا سوز جگر،اور ان کی فکر اور دین سے ان کا عشق کام کررہا تھا، کہ جو اب آتاتھا وہ پہلے سے بہتر ہوتا تھا، یہ حضرت مجدد صاحب کا میں ایک حوالہ دیتا ہوں۔

     جہاں تک اورنگ زیب کا تعلق ہے، تو خیر وہ حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی سے بیعت تھے، انھوں نے خواجہ محمدمعصوم کو بلاناچاہا، تو وہ تو کہاں آتے، انھوں نے اپنے صاحب زادے خواجہ سیف الدین کو بھیج دیا، وہ قصر سلطنت میں رہے، وہاں پہلے جاتے ہی وہاں کے ان منکرات کو دور کیا جو پہلے سے چلے آرہے تھے، اور پھر اپنے والد صاحب کو خط لکھا کہ بادشاہ میں آثارذکر ظاہر ہوچکے ہیں، اور خود حضرت خواجہ محمد معصوم کے مکاتیب دیکھیے جو بادشاہ کو لکھے ہیں، تو اس میں وہ ان کو شہزادہئ دیں پناہ لکھتے ہیں، جب وہ شہزادہ تھے،یہ ان کی فراست ایمانی اور ان کی روحانیت ہے کہ اس وقت جب اس کا کوئی امکان نہیں تھا، وہ لکھتے ہیں شہزادہئ دیں پناہ، وہ شہزادہئ دیں پناہ سلطان دین پناہ بن گیا، تو نواب صدر یارجنگ مرحوم نے فرمایا کہ لوگ نہیں دیکھتے کہ یہ کیوں ہورہا تھا،یہ انحطاط کے بجائے ترقی کیوں ہورہی تھی، بہتری کی طرف کیوں جارہاتھا یہ خاندان مغلیہ؟یہ اثر تھا حضرت مجدد الف ثانی کا۔

     ایک ماں وہ تھی جس نے ایسے فرزند پیدا کیے، اور انھوں نے یہ کرامت دکھائی، اور یہ میں ایک اعجازنہیں کہتا، معجزہ نہیں کہتا، لیکن یہ بالکل ایک خارق عادت چیز دکھائی، کہ تاریخ انسانی کے دفتر میں ایک نیا تجربہ ہوا۔

    حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور خدمت حدیث

    اس کے بعد میں دوسرانام لوں گا حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی (رحمۃ اللہ علیہ) کا، اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ حقیقت میں یہ دار العلوم ندوۃ العلماء اور دوسرے مدارس جن میں دار العلوم دیوبند، مظاہرعلوم،اور اس کے ہم مسلک جتنی درسگاہیں ہیں، وہ سب حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی (رحمۃ اللہ علیہ) کے مدرسہئ فکر پر قائم ہوئے ہیں، سن لیں فضلاء جوجارہے ہیں کہ آپ اسی خاندان کے نونہال ہیں، آپ اسی شجرہئ طوبی کی شاخیں ہیں، اور پتے ہیں، آپ کو کبھی اس شجرہئ طوبی سے اپنا رشتہ نہیں توڑنا چاہیے،آپ کی سب سے بڑی کامیابی اور سعادت مندی اور آپ کی سعادت فرزندی یہ ہے کہ آپ اس شجرہئ طوبی سے تعلق رکھتے ہیں،جس کی شاخ ہم سمجھتے ہیں کہ کم سے کم ہندوستان میں ہر صحیح العقیدہ، توحیدخالص اور سنت سنیہ کی پیروی کرنے والے کے گھر میں ضرور ہوگی۔

    اِس مادرعلمی نے کیا کیا؟مجھے معاف کیا جائے، میں یہ لفظ بولتا ہوں کہ اس سے زیادہ شفقت کا لفظ اور فطری تربیت کالفظ اور جس کے لیے عربی میں بھی أمومۃ سے بڑھ کر، حنانِ اُم سے بڑھ کرکوئی لفظ نہیں ہے، اس ولی اللّٰہی درسگاہ اور مادر علمی نے کیا کیا،کہ حدیث تقریباً ہندستان سے ناپیدہوچکی تھی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی باہر سے حدیث لے کر آئے، لیکن وہ ان کے فرزندوں کے دائرہ میں محدود تھی، اور آپ اگر پروفیسر خلیق احمد صاحب نظامی کی کتاب جو ان پر ہے، اس کو پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ ان کے اثرات کیا پڑے، ان کے اثرات پڑے، اور وہ بہت ہی قابل اعتراف اور قابل شکر ہیں، اور وہ مستحق دعا ہیں۔

    لیکن سچی بات یہ ہے کہ حدیث کے درس کی عمومیت، حدیث کی تحقیق، حدیث کی خدمت، اور صحاح ستہ کا درس، اور اس سے بڑھ کر سنت سنیہ کی اشاعت اور اس کی رغبت پیداکرنا اور بدعات کے خلاف جہاد، اور بدعت کے خلاف محاذ آرائی، ایک پورا محاذقائم کرنا، علمی محاذ، فکری محاذ، اعتقادی محاذ، عملی محاذقائم کرنا، یہ فیض ہے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب(رحمۃ اللہ علیہ) کی درسگاہ کا۔

    انھوں نے دہلی کے ایک محلہ میں، ہم نے اس محلہ کی زیارت کی ہے، اور اگر آپ والد ماجد مرحوم (رحمۃ اللہ علیہ) کا سفرنامہ”دہلی اور اس کے اطراف“ پڑھیں، جو حضرت سیدسلیمان ندوی (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنے حواشی کے ساتھ’معارف‘ میں سب سے پہلے شائع کیا، اور پھر اس کے بعد وہ انجمن ترقی اردو (دہلی) کی طرف سے شائع ہوا، اور اس کے کئی ایڈیشن نکلے ہیں، تو (اب تو مکان بھی معلوم نہیں اس کے نشان ہیں یا نہیں) دہلی کے غریبوں کے ایک محلہ میں، ایک بالکل دنیاکے سامان آرائش سے خالی،(محروم تو نہیں کہتا) ایک گوشہ میں ایک مکان تھا، وہاں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے حدیث کادرس دینا شروع کیا، اور وہیں حجۃ اللّٰہ البالغۃ اور یہ کتابیں لکھی گئیں، یاکچھ سفر میں، اور وہاں صحاح ستہ کا درس دیا، حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب نے درس دیا، اس درس سے کیسے لوگ پیدا ہوئے؟ شاہ اسحاق صاحب محدث اور حضرت شاہ محمد یعقوب محدث، شاہ عبدالغنی محدث، جن کے تلمذ کا سلسلہ دیوبند تک پہنچتا ہے، اور حضرت مولانا علامہ حیدر علی رامپوری مقیم ٹونک اور ایسے بڑے محدث اور عالم پیدا ہوئے، پھر اس کے بعد اِن لوگوں نے وہاں حرمین شریفین میں جاکر، حجاز میں جاکر حدیث کادرس دیا، اور حدیث عام ہوئی۔

    تو میں نے یہ مثالیں مادر علمی، مادر روحانی، مادر تربیتی کی دیں، ان کے کارنامے کو میں نے بیان کیا، ایسی کئی اور مادر علمی کی مثالیں دی جاسکتی ہیں، اور ایک خنساء کا واقعہ بیان کیا جنھوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے بیٹوں کو میدان جنگ کے لیے رخصت کیا، یہ جانتے ہوئے کہ یہ شہادت زار ہے، یہا ں آدمی اسی لیے جاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں سر کٹائے، اوران کی شہادت پر اللہ کا شکر ادا کیا۔

    آج کا فتنہ کیا ہے؟

    اب میں آپ سے یہ کہتاہوں کہ آپ کے لیے سعادت مندی کی بات، اور آپ کے لیے انتہائی شرافت کی بات، اور شکر گزاری کی بات، اور بلکہ خوش قسمتی اور بلندطالعی کی بات یہ ہے کہ آپ اس وقت یہاں سے نکلنے کے بعد اس وقت کے فتنے کو آپ سمجھیں، آج کیاہے؟ میں آپ سے صاف صاف کہتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کے استیصال (اور جس کو عربی میں حرکۃ الإبادۃ کہتے ہیں)، یعنی ان کی معنوی، اعتقادی، تہذیبی، ثقافتی نسل کشی کا پور انقشہ تیار ہے، پورا منصوبہ تیارہے،اور چونکہ مجھے دینی تعلیمی کونسل کی خدمت کا شرف حاصل ہے، اور شروع سے اس سے تعلق ہے، اور اس کے ذریعے سے بہت سی ایسی چیزو ں پرنظر پڑجاتی ہے جن پر عام لوگوں کی نظر نہیں پڑتی، کہ اس وقت بی جے پی کے پاس بھی، اور جو ہندو فرقہ پرست لیڈر ہیں اور جن کو اپنی قوم میں مقبولیت حاصل ہے، او روسائل حاصل ہیں، امکانات بھی ان کے لیے آسان ہیں، ان کے پاس پورا نقشہ بناہواہے کہ بہت ہی دل پہ پتھر رکھ کر اور بڑی اذیت کے احساس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے،کہ اس ملک کو (اس سے زیادہ اور میں نہیں کہہ سکتا)، اس ملک کو اسپین بنادیناچاہتے ہیں، یہ نقشہ بالکل تیار ہے، اس میں کسی قسم کا تردد اور ابہام نہیں ہے، فیصلہ شدہ بات ہے،اور اسی کے لیے سب یہ آپ دیکھ رہے ہیں، یہ بابری مسجد کی شہادت، اور ان کے اس وقت جو جذبات ہیں، اگر آپ ہندی کے اخبارات پڑھتے ہوں یا کم سے کم انگریزی ہی کے اخبارات پڑھتے ہوں، یا ان کے کسی جلسہ کی روداد آپ کو معلوم ہو، اور ان کی تقریروں کے اگر آپ خلاصے سن لیں، یا وہاں آپ شریک ہوسکیں، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس پر پورااتفاق رائے ہوگیاہے، پورا اجماع جیسے ہوتاہے، کہ اس ملک میں اب یہ ایک نیا دور شروع ہوگا، اور اب یہاں مسلمانوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں، ان کو باہر چلاجاناچاہیے، اور اگر یہ رہیں تو اپنے ہرقسم کے ملی تشخص سے محروم نہیں، بلکہ بے زار ہوکر رہیں، ہر قسم کا تشخص جو ان کو ممتاز کرتا ہے غیر مسلموں سے، ان لوگوں سے جو مسلمان نہیں،ان سب خود دستبردار ہوں اور بے زار ہوں، اس کی تفصیلات میں میں جانا نہیں چاہتا اور اس کی طبیعت متحمل بھی نہیں ہے، لیکن اس کی تفصیلات آتی رہتی ہیں، اور اندیشہ ہے کہ اور زیادہ آئیں۔

    آج پورا ایک دور اکبری شروع ہورہا ہے

     تو اس وقت یہ ایک پورادور اکبری شروع ہورہا ہے، لیکن دور اکبری سے زیادہ اس کے پاس اسلحہ اورسہولتیں اور مقبولیت کے ذرائع ہیں، اور یہاں کی تاریخ اور یہاں کی سرزمین اور یہاں کے جو تاثرات اورجذبات ہیں، ان سے زیادہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے، کہ اکبرنے تو ایک ایسی چیز شروع کی تھی جس کے لیے ملک پورے طور پرتیار نہیں تھا، لیکن اب صحافت کے ذریعے، ایڈمنسٹریشن کے ذریعے، لٹریچر کے ذریعے، اور سب سے بڑھ کر پھر سیاسی انتخابات و الکشن کے ذریعے ملک کو تیار کردیا گیاہے کہ یہاں کی اکثریت اس پرتلی ہوئی ہے کہ اس ملک سے اسلام کا اخراج کردے، یاکم سے کم مسلمان اس ملک کو چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوجائیں،جن میں ذرا بھی دینی حمیت ہے۔

    اب میں آپ سے صاف صاف کہتاہوں، اور اپنے اوپر حق سمجھتا ہوں کہ آپ سے یہ کہوں کہ اس وقت آپ کے لیے، بغیر کسی معذرت کے کہتاہوں، اور اپنے عقیدے اور اپنے تجربے اور الحمد للہ اپنے اور اپنے متعدد ساتھیوں کے عمل و کردار کے اعتماد پر بھی کہتا ہوں کہ یہ بات جو میں کہہ رہاہوں، ایسی بات نہیں جو صرف خیالی ہے، اور جو صرف آپ سے کہی جارہی ہے، اور اس پر عمل نہیں ہورہاہے کہ آپ کی کامیابی اس میں نہیں ہے، آپ کے حق فرزندی اداکرنے کایہ مظہر نہیں ہے کہ آپ یونیورسٹیوں میں جائیں، اور وہاں سے گریجویشن کریں، صاف صاف کہتاہوں، میں انگریزی زبان کا مخالف نہیں، الحمدللہ انگریزی زبان سے واقف ہوں، انگریزی زبان سے بہت فائدہ اٹھایاہے، اور اپنی مجلسوں میں کہتا رہتا ہوں کہ تھوڑی سی انگریزی جاننی چاہیے، تاکہ آپ اسلامیات پر ایسا تقابلی مطالعہ پیش کرسکیں اور ان کتابوں کے حوالے دے سکیں،اور یہاں انگریزی نصاب درس میں داخل ہے،لیکن آپ اس کو مقصد بنائیں، آپ اس کو اپنی کامیابی کا معیار سمجھیں کہ آپ یونیورسٹیوں میں جائیں، اور بی. اے.، ایم. اے. کریں، اور اس کے بعد آپ کو کہیں لکچررشپ مل جائے، کہیں اور آپ کو کوئی جگہ مل جائے، یہ آپ کی سعادت مندی اور حق فرزندی نہیں۔

     یہ بھی صفائی سے کہتا ہوں کہ آپ کی سعادت مندی اور حق فرزندی یہ نہیں ہے کہ آپ خلیج عرب میں جائیں اور آپ وہاں نوکریاں تلاش کریں، جو آپ کو آسانی کے ساتھ مل سکتی ہیں اور آپ کے بہت سے بھائی،یہاں کے فضلاء وہاں ہیں، لیکن میں صاف صاف کہتا ہوں کہ ان میں سے کسی ایک چیزکے ذریعے بھی آپ یہاں کا حق نہیں ادا کرسکیں گے جس حق کا اظہار آپ نے بڑی بلاغت کے ساتھ، اوربڑی ادبیت کے ساتھ، اور بڑے اعادہ اور تکرار کے ساتھ اپنے قابل قدر مضامین میں کیا ہے، اور میں سنتا رہاہوں کہ آپ نے اس دارالعلوم سے، اس کے اساتذہ سے، اپنے کس شریفانہ تعلق کا، اپنے فرزندانہ تعلق کا اور رابطہ کا اظہار کیاہے، اس کا حق اس سے نہیں اد اہوگا۔

     اگر یہی کرنا تھا میرے عزیزو، پھر انگریزی پڑھتے اور آپ انگلینڈ اورامریکہ جاتے، اور وہاں بھی نوکریاں مل رہی ہیں اور ہمارے لاکھوں لاکھ پاکستانی ہندوستانی وہاں موجود ہیں، آپ نے عربی پڑھی، آپ نے قرآن، سب سے آخری چیز جوہے اللہ کا کلام پڑھا، اور پھر اس کو براہ راست اسی زبان میں جس زبان میں اترا تھا، اس میں سمجھنے کی اہلیت پیدا کی، اور آپ نے حدیث پڑھی، اللہ کے رسول کا محفوظ کلام پڑھا، اور پھر آپ نے یہاں رہ کر مجددین کے حالات، مصلحین کے حالات پڑھے، انھوں نے کیسے کیسے نازک زمانے میں ملکوں کو سنبھالا ہے، معاشرے کو سنبھالا ہے، اور بعض اوقات پورے پورے براعظم میں دین پھیلادیاہے، حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی کے خلفاء تھے، اس کا انگریز مؤرخین بھی اعتراف کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ افریقہ میں جو اسلام پھیلاہے، زیادہ تر قادری سلسلے کے مشائخ سے پھیلا ہے، ابھی انڈونیشیا، ملیشیا جو آپ کے قریب ہمسایہ ملک ہیں، یہاں اسلام کس کے ذریعے سے پھیلا؟ حضرموت کے سادات، اور حضرموت کے تجار اور یہ عرب کے ساحل کے قریب کے بسنے والے، وہاں گئے، یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اس کا ایک ثبوت بھی نہیں ہے کہ کوئی اسلامی لشکر انڈونیشیا اور ملیشیا وغیرہ گیاہو، اور وہاں اس کے ذریعہ سے اسلام پھیلا ہو، نہ کوئی اسلامی لشکر نہ چین گیا ہے اور نہ ہی یہاں ان ملکوں میں گیا ہے، جن کامیں نے ابھی نام لیا، جنوبی ایشیا کے یہ ملک ہیں، یہ ان مسلمان تاجروں اور سادات، اور طریقہئ غزالیہ کے شیوخ اور دوسرے شیوخ کے ذریعے سے مسلمان ہوئے۔

    تحفظ دین کا عہد کیجیے!

     تو آپ کی اس میں جو کچھ کہیے، کہ جیسے بِرّبالوالدین ہوتا ہے، بِرّ بالمدرسۃ، بِرّ بالاساتذہ اور دین کی نعمت کی قدر دانی اور شکر گزاری یہ ہے کہ آپ یہ بات طے کرلیں کہ یہاں سے نکلنے کے بعد اسلام کو اس ملک سے مٹنے نہیں دیں گے، اور ملت کو اپنے پورے تشخصات کے ساتھ، یہاں تک کہ آج لوگ کہتے ہیں، یہ کہنے لگے ہیں کہ پرسنل لا کے مسئلہ پر اتنا اڑنے کی کیا ضروت تھی؟ کیا تھا اگر ہوجاتا اور دائمی نفقہ ملتا؟ یہاں تک لوگ کہنے لگے ہیں، بعض ایسے لوگ جو صاحب فکر سمجھے جاتے ہیں۔

    لیکن نہیں! اُمتوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب تک کہ ان چیزوں پرآدمی نہ جمے جن میں تھوڑی بہت اجازت ہے ہٹنے کی، اس وقت تک ان چیزوں کی بھی حفاظت نہیں ہوسکتی جن کی پوری پوری حفاظت، کلی حفاظت ضروی ہے۔

     تو آپ یہاں سے ارادہ کرکے نکلیں، وقت ہوگیاہے، میں زیادہ طول بھی نہیں دینا چاہتا، کہ اگر صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کے اعتماد پرکہتاہوں کہ اگر صرف یہ مجمع، یہاں سے نکلنے والے یہ فضلاء یہ طے کرلیں کہ ہم اپنی زندگیاں، اپنی توانائیاں، اپنی ذہانتیں، اپنی محنتیں سب اس پر صرف کردیں گے کہ یہاں سے اسلام باہر جانے پرمجبور نہ ہو، اور یہ اپنے پورے تشخص کے ساتھ رہے، اور اپنے علم دین کے ساتھ رہے، یہاں مدارس ہوں، مکاتب ہوں، اور قرآن و حدیث کی تعلیم ہوتی ہو، تو بالکل ممکن ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ حالات میں انقلاب پیدا کردے، اور اس کا سہرا آپ کے سر بندھے، یا اس دارالعلوم کے بانی، اور دارالعلوم دیوبند کے بانی، میں ان سب کو کہتاہوں، ان سب کو ایک کُنبہ اورایک خاندان سمجھتا ہوں،کہ ان کے بانیوں کو اس کا ثواب ملے گا، اور اب جو کچھ امید ہوسکتی ہے وہ ان مدارس کے فضلاء ہی سے ہوسکتی ہے، باقی سب کاتجربہ ہوچکا، ہمارا اپنے رہنماؤں کا، اپنے مفکرین کا، اور اخبار نویسوں کا، مضمون نگاروں کا، سب کا تجربہ ہوگیاکہ اس پر ان میں وہ ثابت قدمی، اوروہ استقلال نہیں ہے جو ہونا چاہیے، جس کی اگر امیدکی جاسکتی ہے تومدارس عربیہ کے فضلاء سے۔

    آپ اپنے طور پر اللہ سے عہد کریں،یہاں نہ کسی اعلان کی ضروت ہے، اور نہ کسی اظہار کی ضرورت ہے، آپ اللہ سے دعا بھی کریں، اور اللہ سے عہد و پیمان بھی کریں کہ ہم ان شاء اللہ اس دین کے تحفظ کی پوری کوشش کریں گے، اور اپنی پوری صلاحیتیں اس پرلگادیں گے۔

    رزق ک   ا ال لّٰ  ہ م ت   ک ف ل ہ ے

    اور یہ میں آپ سے، اذان ہورہی ہے، اس اذان کی برکت و حرمت کے سایہ میں، اس کی آواز کے سایہ میں کہتاہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو فاقے سے نہیں رکھے گا، اور آپ کو دوسروں سے زیادہ عزت کے ساتھ کھلائے گا ان شاء اللہ، اور آپ کے دسترخوان پر وہ لوگ ہوں گے کہ جو رئیسو ں کے دسترخوان پر نہیں ہوتے، ان گنہگار آنکھوں نے دیکھا ہے، مولانا مدنی کا دسترخوان دیکھاہے، حضرت شیخ الحدیث کا دسترخوان دیکھاہے، اپنے بزرگوں کے دسترخوان دیکھے ہیں، کیاکسی امیرکو نصیب ہوں گے ایسے معزز مہمان، اور ایسے کثیر التعداد مہمان، اور ایسے کثیر الانواع اطعمہ، کہ جو اُن کو نصیب تھے۔

    توآپ بالکل اطمینان رکھیے کہ رزق کا اللہ تعالیٰ متکفل ہے، اور اس کے لیے آپ اپنی یہ بضاعت، اپنا یہ سرمایہ جس کا آپ نے بڑے تفاخر کے ساتھ اور بڑے تشکر کے جذبہ کے ساتھ ذکر کیا ہے، اس کو آپ ان چھوٹی چھوٹی نوکریوں پر جو خلیج میں، سعودی عرب میں مل جاتی ہیں، یا یہاں جو آپ انگریزی پڑھ کرکے کہیں کسی کالج میں لگ جائیں، کسی اسکول میں آپ لگ جائیں،اس پرآپ اس کو قربان نہ کریں، اس کی قیمت صرف اللہ اداکرسکتا ہے، اور اس کی قیمت صرف اللہ کے پاس ہے، اور وہ کیاہے؟ ”وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّہِ أَکْبَرُ“]سورۃ التوبۃ:۲۷[

    بس میں اس پر ختم کرتا ہوں، اللہ تبارک و تعالیٰ توفیق دے ہمارے ان عزیزوں کو، کہ ان میں سے جی تو چاہتا ہے کہ کل سو فیصدی، لیکن اس میں سے ان کی بیشتر تعداد، ان کی اکثریت اس بات کا عہد کرے کہ ہم ان شاء اللہ اپنی ساری توانائیاں لگادیں گے دین کی حفاظت میں، اور ملت کے تشخص کی حفاظت میں، اور اس ملک کو اسپین نہیں بننے دیں گے، بلکہ ہو سکتا ہے ہم اللہ سے دعاکریں گے کہ یہاں اسلام کے قبول کرنے کا دروازہ کھلے، اور اس کے بھی آثار ہیں، میں آپ کو صاف بتادیتا ہوں کہ ہوسکتا ہے کہ بالکل خارق عادت طریقے پر یہ بات ظاہرہو، اس سلسلے میں اتناعرض کردوں کہ میرے پاس خطوط آرہے ہیں اور اخبارات بھی کہ جن لوگوں نے بابری مسجد کو شہید کیا، اُن میں بڑی تعداد پاگل ہورہی ہے، اور پھر ان میں سے بہت سے وہ جو دعاؤں کے ذریعے پھر ٹھیک ہوگئے، تو وہ اسلام قبول کررہے ہیں، اس کے لیے اس کی بھی شہادتیں پیدا ہورہی ہیں، اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرت سے، اور اس کاجو دین سے تعلق ہے، اس کے لحاظ سے یہ بات کوئی بعید از قیاس نہیں ہے، اور ناممکن نہیں ہے، لیکن آپ ارادہ کریں اور اپنی زندگیوں کے متعلق فیصلہ کریں، پھر اللہ تعالیٰ ہر چیز کامتکفل ہے وہو خیر الرازقین، و صلی اللّٰہ تعالی علی خیر خلقہ سیدنا و نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ أجمعین۔