روزہ کی روح اور حقیقت کی حفاظت
حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندویؒ
رمضان کی روح اور حقیقت کی حفاظت اور ایجابیت وسلبیت کا امتزاج تھا کہ عادت اور تقلید اور رسم ورواج کا عنصر اس پر رفتہ رفتہ غالب آجائے گا اور بہت سے لوگ محض اپنی سوسائٹی اور ماحول کا ساتھ دینے اور طنز وملامت سے بچنے کے لیے اور اس ڈر سے کہ ان پر انگلیاں نہ اٹھائی جائیں روزہ رکھنے پر مجبور ہوں گے، ایمان اور نیت روزہ کی اہمیت اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس کی قیمت کے یقین اور استحضار سے ان کے دل خالی ہوں گے، بہت سے لوگ مادی اغراض ومقاصد یا طبی اور ظاہری فوائد کے حصول کے لئے روزہ رکھنے لگیں گے اور اس طرح اس کا اصل مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔
نبوت کی دور رس نگاہ نے اس کمزوری کا علاج اور اس فتنہ کا سد باب سب سے پہلے کیا، اور یہ شرط لگادی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف وہ روزہ مقبول ہے جو ایمان واحتساب کے جذبہ کے ساتھ رکھا جائے، حدیث نبوی ہے: ‘‘مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاِحْتِسَابًا غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ’’.
جو شخص انسانی کمزوریوں اور خامیوں اور انسانوں کی مختلف اقسام سے واقف نہیں وہ کہہ سکتا ہے کہ اس قید اور شرط کی کیا ضرورت تھی، رمضان کے روزے صرف مسلمان ہی رکھتے ہیں، اور خدا کی خوشنودی اور اجر وثواب ہی کے لیے رکھتے ہیں، اس لیے ایمان واحتساب کی شرط لگانا ایک بالکل زائد چیز اور تحصیل حاصل ہے، لیکن جو شخص انسانی احساسات ونفسیات اور اخلاقی واجتماعی محرکات سے گہری واقفیت رکھتا ہے اور اس کا زندگی کا مطالعہ زیادہ وسیع ہے، وہ اس دوررس انتظام اور اس دقیق وعمیق علم کے سامنے ہر تسلیم عجز کے ساتھ خم کردے گا جو خواہش نفس پر نہیں وحی الٰہی پر مبنی ہے ‘‘وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحیٰ.’’
ایمان واحتساب کی تشریح ایک دوسری حدیث میں یہ آئی ہے کہ: ‘‘انسان تمام اعمال ثواب کی امید رکھتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت وخوشنودی کے وعدہ پر یقین کرتے ہوئے انجام دے’’۔
عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ‘‘چالیس خصلتیں ہیں، جن میں سب سے اعلیٰ بکری کاعطیہ ہے، ان میں سے کسی ایک خصلت پر بھی ثواب کی امید اور اس پر جو اجر وثواب مقرر ہے اس کے یقین کے ساتھ عمل کیا جائے تو اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ آدمی کو جنت میں داخل کردے گا’’۔
شریعت اسلامی نے روزہ کی ہیئت اور ظاہری شکل پر اکتفا نہیں کی بلکہ اس کی حقیقت اور اس کی روح کی طرف بھی پوری توجہ دی ہے، اس نے صرف کھانے پینے اور جنسی تعلقات ہی کو حرام نہیں کیا بلکہ ہر اس چیز کو حرام اور ممنوع قرار دیا ہے، جو روزہ کے منافی اور اس کی حکمتوں اور روحانی اور اخلاقی فوائد کے لیے مضر ہے، اس نے روزہ کو ادب وتقویٰ، دل اور زبان کی عفت وطہارت کے حصار میں گھیر دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ‘‘تم میں سے کوئی روزہ سے ہو تو نہ بدکلامی اور فضول گوئی کرے نہ شوروشر کرے، اگر کوئی اس کو گالی دے اور لڑنے جھگڑنے پر آمادہ ہو تو یہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں’’، یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: ‘‘جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے’’،وہ روزہ جو تقویٰ اور عفاف کی روح سے خالی اور محروم ہو وہ ایک ایسی صورت ہے جس کی حقیقت نہیں، ایسا جسم ہے جس کی روح نہیں، حدیث میں آتا ہے، آپ نے فرمایا کہ: ‘‘کتنے روزہ دار ہیں جن کو ان کو روزہ سے سوائے پیاس کے کچھ ہاتھ نہیں لگتا اور کتنے ایسے عبادت گزار ہیں جن کو اپنے قیام میں شب بیداری کے سوا کچھ نہیں ملتا’’۔
حضرت ابوعبیدہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ‘‘روزہ ڈھال ہے، جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالا جائے’’۔
اسلامی روزہ صرف سلبی امور واحکام کا نام نہیں جس میں صرف کھانے پینے، غیبت، چغل خوری، لڑائی جھگڑے اور گالی گلوج کی ممانعت ہو، وہ بہت سے ایجابی امور واحکام کا بھی مجموعہ ہے، یہ عبادت وتلاوت، ذکر وتسبیح، ہمدردی وخیرخواہی اور غرباء پروری کا زمانہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ‘‘اس میں جو کسی ایک خصلت اور ایک عمل سے خدا کا تقرب حاصل کرنا چاہے گا، وہ دوسرے دنوں کے ادائگی فرض کے برابر سمجھا جائے گا، اور جو اس میں فرض ادا کرے گا وہ اس کی طرح ہوگا جو غیر دنوں میں ستر فرض ادا کرے، یہ صبر کا مہینہ ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے، اور غمخواری کا مہینہ ہے’’۔
زید بن خالد الجہنیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ‘‘جو روزہ دار کو افطار کرائے اس کو روزہ دار کے برابر اجر ملے گا، اور روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی نہ کی جائے گی’’۔
اللہ تعالیٰ نے اس امت میں تراویح کی حفاظت اور اس کے اہتمام کا جذبہ بھی پیدا فرمایا ہے، تراویح کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لیکن آپ نے تین دن پڑھ کر اس کو اس لئے چھوڑ دیا تھا کہ کہیں یہ امت پر فرض نہ ہو جائے اور مشقت کا باعث ہو، ابن شہاب روایت کرتے ہیں کہ ‘‘مجھ سے عروہ نے بتایا وہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ایک بار دیر سے رات میں اپنے گھر سے نکلے اور مسجد میں نماز پڑھی، اور آپ کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی نماز پڑھی، جب صبح ہوئی تو لوگوں نے اس کے متعلق گفتگو شروع کی اور بہت سے لوگ جمع ہوگئے (دوسرے روز) جب آپ نے نماز پڑھی تو سب نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر صبح ہوئی اور اس کا چرچا ہو تیسری رات نمازیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور نماز پڑھی اور سب نے آپ کے ساتھ نماز ادا کی، جب چوتھی رات آئی تو نمازیوں کی کثرت سے مسجد میں جگہ نہ رہی، یہاں تک کہ فجر کی نماز کے لیے آپ باہر تشریف لائے اور نماز پڑھنے کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم لوگوں کی موجودگی مجھ سے پوشیدہ نہ تھی، لیکن مجھے ڈر ہوا کہ یہ نماز تم پر فرض نہ کردی جائے، پھر تم اس سے عاجز ہو جاؤ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور یہی صورت رہی’’، آپ کے بعد صحابہئ کرام رضی اللہ عنہم اس پر عمل پیرا رہے، اور اس امت نے مختلف ملکوں اور مختلف زمانوں میں اس کی پوری پوری حفاظت کی، یہاں تک کہ تراویح کی یہ نماز تمام اہل سنت اور صالحین امت کی علامت بن گئی، اس کے علاوہ اس سے حفظ قرآن میں بھی بڑی مدد ملی، اور اس کو بہت رواج اور عمومیت حاصل ہوگئی، نہ جانے کتنے سینوں میں وہ محفوظ ہوگیا، مزید براں اس کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے عامۃ الناس کے ایک بہت بڑے طبقہ کو محض تراویح کے ذریعہ قیام لیل اور عبادت کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔
ان سب چیزوں نے رمضان کو عبادت کا جشن عام، تلاوت کا موسم، اور ابرابر ومتقین اور عباد وصالحین کے حق میں فصل بہار بنا دیا ہے، اس میں اس امت کا دینی جذبہ، دین کا احترام اور عبادت کا شوق پوری طرح جلوہ گر ہو کر سامنے آجاتا ہے، اور اس کی توبہ وانابت قلوب کی نرمی، خدا کی طرف رجوع، احساس ندامت اور کار خیر میں جذبہئ مسابقت اس نقطہئ عروج پر ہوتاہے، جس کے عشر عشیر تک دنیا کی کوئی قوم اور انسانوں کا کوئی گروہ نہیں پہونچ سکتا ‘‘ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ.’’
لیکن اسی کے ساتھ مسلمانوں نے روزہ کے مقاصد کے ساتھ اکثر ناانصافی سے کام لیا اور مختلف عادتوں کی وجہ سے اس کے یقینی اور متوقع فوائد سے محروم ہوگئے، انھوں نے افطار اور کھانے میں اس قدر مبالغہ اور اسراف سے کام لینا شروع کردیا کہ روزہ کا اصل فائدہ اور اس کی اصلاحی اور تربیتی قوت بڑی حد تک ختم ہوگئی یا کمزور پڑگئی۔
امام غزالیؒ نے اس نکتہ پر بڑی بلاغت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے، وہ لکھتے ہیں:
‘‘پانچواں ادب یہ ہے کہ افطار کے وقت حلال غذا میں بھی احتیاط سے کام لے اور اتنا نہ کھاوے کہ اس کے بعد گنجائش ہی باقی نہ رہے، اس لئے کے حلق تک بھرے ہوئے پیٹ سے بڑھ کر مبغوض اللہ کے نزدیک کوئی بھری جانے والی چیز نہیں ہے، اگر روزہ دار افطار کے وقت دن بھر کی تلافی کردے اور جو دن بھر کھانے والا تھا، وہ اس ایک وقت میں کھالے تو دشمنِ خدا پر غالب آنے اور شہوت کو ختم کرنے میں روزہ سے کیا مدد مل سکتاگی؟ یہ عادتیں مسلمانوں میں اتنی راسخ اور عام ہو چکی ہیں کہ رمضان کے لئے بہت پہلے سے سامان خوراک جمع کیا جاتا ہے، اور رمضان کے دنوں میں اتنا اچھا اور نفیس کھانا کھایا جاتا ہے جو اور دنوں میں نہیں کھایا جاتا، روزہ کا مقصود تو خالی پیٹ رہنا اور خواہشات نفس کو دبانا ہے، تاکہ تقویٰ کی صلاحیت پیدا ہوسکے، اب اگر معدہ کو صبح و شام تک کھانے پینے سے محروم رکھا جائے اور شہوت اور بھوک کو خوب امتحان میں ڈالنے کے بعد انواع واقسام کے کھانوں سے پیٹ بھر لیا جائے تو نفس کی خواہشات اور لذتیں کم نہ ہوں گے اور بڑھ جائیں گی، بلکہ ممکن ہے کہ بہت سی ایسی خواہشات جو ابھی تک خوابیدہ تھیں، وہ بھی بیدار ہو جائیں، رمضان کی روح اور اس کا راز ان طاقتوں کو کمزور کرنا ہے، جن کو شیاطین اپنے وسائل کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اور یہ بات تقلیل غذا ہی سے حاصل ہوگی، یعنی یہ کہ شام کو اتنا ہی کھائے جتنا اور دنوں میں کھاتا تھا، اگر کوئی دن بھر کا حساب لگا کر ایک ہی وقت میں کھالے تو اس سے روزہ کا فائدہ حاصل نہ ہوگا’’۔
‘‘بلکہ یہ بھی آداب میں داخل ہے کہ دن میں زیادہ نہ سوئے تاکہ بھوک پیاس کا کچھ مزہ معلوم ہو، قویٰ کے ضعف کا احساس ہو، قلب میں صفائی پیدا ہو، اسی طرح ہر شب کو اپنے معدہ کو اتنا ہلکا رکھے کہ تہجد اور اوراد میں مشغولی آسان ہو اور شیطان اس کے دل کے پاس منڈلا نہ سکے اور اس صفائی قلب کی وجہ سے عالم قدس کا دیدار اس کے لیے ممکن ہو’’۔