روحانیت کی باتیں

    روحانیت کی باتیں

    رنگ بات یں ک ریں اور ب ات وں س ے خ وش ب و آء ے

    ڈاکٹرمحسن عثمانی ندوی

    روحانیت درحقیقت احسان کی کیفیت کو حاصل کرنے کا نام ہے،اس سے ایک قسم کی نورانیت دل میں پیدا ہوجاتی ہے، تمام عبادات میں اور نیکی کے کاموں میں اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی معیت کا احساس ہوتا ہے، حدیث ہے: ”اعبدوا اللّٰہ کانک تراہ“ یعنی اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو،انسان تمام مشغولیتوں میں اللہ کو یاد کرتارہے یہ کیفیت مطلوب اور مقصود ہے،حال یہ ہونا چاہیے کہ انسان اپنی زبان حال سے یہ کہ سکے:

     گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار

     لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

     لیکن یہ مقام ومرتبہ ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جن کو اپنی روحانی اور اخلاقی تربیت کی فکر ہوتی ہے، اور جن کوسرے سے فکر نہیں ہوتی ہے اور مرتبہئ احسان کی کوئی اہمیت ان کی نظر میں نہیں ہوتی ہے، پھر وہ اس بخت بیدار سے محروم ہوتے ہیں۔ مرتبہ احسان تک پہونچنے کا مطلب اللہ تعالی کا دائمی استحضار ہے اور اس کام کے اللہ تعالیٰ کے ذکرکے سوا ان لوگوں کی صحبت اختیار کرنی پڑتی ہے جو کو استحضار نصیب ہوتا ہے، قرآن وحدیث میں صحبت اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے،کہا گیا ہے: ”کونوا مع الصادقین“ یعنی اہل صدق وصفا  کی صحبت اختیار کرو۔

     اہل روحانیت کا کہنا ہے کہ اللہ کی محبت اور استحضار کی کیفیت پیدا کرنے کی دو اہم طریقے ہیں، ایک تو صحبت ہے یعنی اہل اللہ کی صحبت، یعنی ان لوگوں کی صحبت جن کے یہاں استحضار کی کیفیت پائی جاتی ہے، جن کی توجہ ہمیشہ اللہ کی طرف ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ذکر اللہ کی کثرت، اور کوئی طالب حق ان دو باتوں کا اہتمام کرے اور اللہ تعالیٰ کا فضل اس کی دست گیری کرے تو اس کے دل میں اللہ کی محبت پیدا ہوجائے گی، دنیا میں اس کا تجربہ ہے کہ جس کا نام انسان بہت کثرت سے لیتا ہے،اس سے ایک خاص تعلق قائم ہوجاتا ہے اور اللہ کے نام میں یہ تاثیر یقینا ہے کہ اس کانام اگر کثرت سے لیا جائے گا تو اس کی محبت دل میں پیدا ہو جائے گی اور یہ ذکر صرف زبان سے نہ ہو بلکہ دل سے بھی ہو تو انسان اس ذکر کی تاثیر محسوس کرے گا اور مذکور سے محبت پیدا ہوگی، ممکن ہے کہ ”جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے“ کا مشاہدہ بھی ہونے لگے، جب اللہ کی محبت دل میں پیداہوگی تو اللہ کی رضا کے کاموں کے کرنے کامضبوط داعیہ دل میں پیدا ہوگا، رذائل اعمال سے دامن بچانا اس کے لیے آسان ہوجائے گا، وہ شریعت کی صاف سیدھی راہ پر پڑجائے گا اور اس کے قدم صحیح سمت میں اٹھیں گے،نفس کے غیر شرعی تقاضوں کو قابو میں رکھنے کے لیے اہل روحانیت دل میں محبت الٰہی کو پیدا کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور محبت الٰہی پیدا کرنے کا راستہ ذکر الٰہی ہے اور صحبت ہے یعنی ان لوگوں کی صحبت جن کے دلوں میں محبت الٰہی راسخ ہوچکی ہو اور جن کا تزکیہ ہوچکا ہو، جب اللہ کی رضا دل میں بیٹھ جائے گی تو انسان دین ودنیا کے ہر کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے استحضار کے ساتھ کرنے لگے گا،اللہ تعالیٰ کے ہمہ وقت دھیان کی برکت سے اخلاص اور احسان کے مرتبہ تک وہ پہونچ جائے گا اور احسان وہی چیز ہے جس کی تعریف حدیث میں آئی ہے: اعبدوا اللّٰہ کأنکم ترونہ وان لم تکن ترونہ فانہ یراکم یعنی اللہ کی عبادت اسطرح کرو جیسے تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔ایک صالح معاشرہ کی تشکیل اس کی بغیر نہیں ہوسکتی ہے کہ معاشرہ میں خوف خدا پیدا کیا جائے اور خوف خداپیدا کرنے کے لیے یہ حضوری کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے یعنی اللہ حاضر اور ناظر ہے۔ اہل روحانیت کی حیثیت ایک معالج کی ہے وہ نفس کی بیماریوں کا علاج کرتے ہیں۔خوش قسمت ہے وہ انسان جسے کوئی حکیم حاذق میسر آجائے اور میسر نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ ذکر الٰہی کے ذریعہ اور دعاؤں کے اہتمام کے ذریعہ اور قرآن کی تلاوت کے ذریعہ اور نفل نمازوں کے ذریعہ اپنے علاج کی کوشش کرنی چاہیے۔علاج  کے طریقے جو آج کے زمانہ میں اہل روحانیت کے یہاں رائج ہیں،وہ خیر القرون میں موجود نہ تھے لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے لوگوں کے دلوں کی اصلاح ہوجایا کرتی تھی،خیر القرون کے بعد اصلا ح نفس کا یہ طریقہ باقی نہیں رہا تو جس طرح عہد رسالت مآب میں اور دور صحابہؓ میں تعلیم واصلاح کا سارا کام صرف صحبت سے حاصل ہوجاتا تھا  بعد میں یہ چیز باقی نہیں رہی تو پھر تعلیم کے لیے تعلیم گاہیں بنیں، کتابیں شائع کی گئیں، اسی طرح قلب کی اصلاح اور تزکیہ کے لیے اہل رشد وہدایت نے اپنے تجربات کی روشنی میں ذکر واذکار کا طریقہ لوگوں کو بتانا شروع کیا اور صحبت پر زور دیا بالکل اسی طرح جس طرح معالج اور حکیم اپنے تجربات کی روشنی میں مریضوں کے لیے نسخے تجویز کرتے ہیں۔

    اہل ر شد وہدایت نے یہ بتایا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اتنی طاقتور ہوتی تھی اور اس میں اتنی شدت کی تاثیر ہوتی تھی کہ ایمان قبول کرلینے کی بعد جس کو بھی یہ صحبت نصیب ہوجاتی تھی، اس کی کایا پلٹ جاتی تھی، وہ مس خام سے کندن ہوجاتا تھااس کا ایمان پختہ ہوجاتا تھا اس کے دل میں اللہ سے ملاقات کا شوق اور عبادت کا ذوق پیدا ہوجاتاتھا،اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضانِ صحبت سے صحابہ کرام میں بھی یہ تاثیر تھی۔ یہی مفہوم ہے اس حدیث کا  خیر القرون قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم یعنی سب سے بہتر زمانہ ہمارا ہے، اس کے بعد ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد میں آئیں اور پھران کا جو اس کے بعد میں آئیں۔اب چونکہ وہ زمانہ موجود نہیں ہے اس لیے اصلاح نفس کے لیے قلب کے معالجین نے ذکر کے ساتھ صالحین کی صحبت کا نسخہ تجویز کیا ہے، ذکر ایک تیر بہدف  علاج ہے قرآن اور حدیث میں اس پر بہت زور دیا گیا ہے  ایک جگہ ہے کہ اگر دشمنوں کے جتھے سے تمہارا سابقہ پیش آجائے اور تمہارے دشمن اور تمہارے مخالف بہت زیادہ ہوں تو اللہ کا ذکر کثرت سے کرو اور ثابت قدم رہو(یعنی اسلام سے تمہارے قدم متزلزل نہ ہوں اور نہ فرار کی کوشش کرو)،قرآن میں ہے: ”یا أیہا الذین آمنوا اذا لقیتم فءۃ فاثبتوا واذکروا اللّٰہ کثیرا“اللہ کے ذکر کا مطلب ہے خالق کائنات کی معیت اور مدد حاصل کرنا اورپھر اس گروہ سے زیادہ طاقتور کون ہوسکتا ہے جسے خدا کی مدد اور معیت حاصل ہوجائے۔ اسلام نے صرف ذکر واذکار پر زور نہیں دیا ہے بلکہ وسائل اختیار کرنے پر بھی زور دیا ہے۔  اپنی اصلاح کے لیے اہل روحانیت کے نزدیک کثرت ذکر کے ساتھ صحبت ضروری ہے۔ مرید ہونے کا مقصد بھی توبہ اورصحبت اختیار کرنا ہے صحبت ہی اصل چیز ہے ورنہ صرف مرید ہونے سے مقصد حاصل نہیں ہوتا ہے۔اگر ذکر بھی نہ ہو اور اہل اللہ کی اور حق کے راستہ پر چلنے والے علماء کی صحبت بھی نہ ہو تو زیادہ اندیشہ ہے کہ کوئی شر، کسی روحانی بیماری،یا اخلاقی کرونا کا وائرس اس کو اپنی گرفت میں لے گا کیونکہ اس کے پاس نہ ذکر واذکار کی ڈھال ہے  نہ صحبت کی سپراور نہ نفل عبادات کا جوشن اور نہ کسی صالح انسان کی صحبت جواس کی حفاظت کرے اور اسے صالح اور کندن بنادے۔ اقبال نے لکھا ہے کہ اسلام کے اولین دور کے صوفی زہاد تھے،دنیا کی حرص اور طمع ان کے دل سے نکل گئی تھی، روحانیت کا مطلب دنیا کی محبت کو دل سے نکالنا ہے اور اس کا ذریعہ علم نہیں ہے عشق ہے یعنی ”محبت الٰہی“ جو ذکر کی کثرت سے اور صالحین کی صحبت سے اور اللہ کی توفیق سے ملتی ہے،اقبال نے کہا ہے:”مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم نخیل بے رطب“ صحبت کی ضرورت کواقبال نے اس طرح بیان کیا ہے: 

    می نہ روید تخمِ دل از آب وگل

    بے نگاہے از خداوندانِ دل

    ٭٭٭٭٭