فنِ تدریس – اصول وآداب
مارچ 5, 2023اسلام‘ انسان کے لیے انتہائی ضروری عنصر
مارچ 30, 2023اصل نفع اور مطلوب ومقصود
مولاناڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی
اس ترقی پذیر دنیا میں مادی عقل نے جو بنیادی تبدیلیاں پیدا کردی ہیں، وہ یہ ہیں کہ عقل، فوری طور پر حاصل ہونے والے نفع کی منطق کے تابع ہے، گلوبلائزیشن (GLOBALIZATION) اور عالمگیریت کا نظام بہت سے خلافِ شرع تصرفات اور ایسے امور کا سبب بنا ہے جن کا اخلاقی قدروں سے ذرا بھی واسطہ نہیں ہے، اور اس کے ساتھ ہی بشری قوتوں اور انسانی وسائل کو استعمال کرکے اقتصادی اورتجارتی میدانوں میں خود سری اور ڈکٹیٹر شپ کا مزاج پیدا کرنے والی بے قابو خواہشات کا بھی باعث ہواہے،گلوبلائزیشن کا نظام مادی تہذیب کے پرستاروں،ایک منحرف آئیڈیا لوجی (IDEOLOGY) اور نقطہئ نظر کے حاملین کے مخصوص گروپ ہی کی ذاتی مصالح کی تکمیل کرتا ہے اور اس آئیڈیا لوجی سے بہت سے سادہ لوح حضرات جو اسے معتبر گردانتے ہیں دھو کے کاشکار ہوجاتے ہیں۔
اس وقت اسلامی شناخت مٹانے اور اس کی امتیازی حیثیت ختم کرنے کی زبردست کوششیں جاری ہیں،جسے ایک مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام میدانوں میں روبہ عمل لاتا ہے، اور ان تربیتی نظاموں اور پروگراموں کو یکسر بدل دینے کی سازشیں کی جارہی ہیں جو کتاب وسنت کی روشنی میں اسلام کومطلوب ہیں، اورعالمی سطح پر گوناگوں ثقافتی پروگراموں کی بھرمار کرنے والے نعرے دیئے جارہے ہیں وہ معاشرہ کی تشکیل جدید اور اسے پسماند گی، ناخواندگی، محتاجی اور امراض سے نجات دلانے اور ان تمام اقتصادی بحرانوں اجتماعی پریشانیوں اور نسلی امتیازات سے نکالنے کا یقین دلاتے ہیں، تیسری دنیا کے باشندے آج اس آزمائش سے دوچار ہیں، مگر اس حقیقت سے سب ہی واقف ہیں کہ یہ بلند بانگ نعرے اور زور دار دعوے مادیت پسند مزاج کے مسائل کوحل کرنے او ر عالمی کیمپوں کے بحران کو دورکرنے میں کچھ بھی کار گر نہیں ہوسکتے ہیں، بلکہ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ یہ عالمی مسائل برابر بڑھتے اور پھیلتے ہی جارہے ہیں اور دور تک ان کا کوئی حل یا ان سے گلو خلاصی کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی ہے،وقتاً فوقتاً مختلف شکلوں میں پیش کئے جانے والے معاشرتی فارمولوں اور تہذیب جدید کی نئی شکلوں سے حقیقی مسائل کا حل نکالنا نہ صرف یہ کہ بہت مشکل ہے، بلکہ انتہائی نا ممکن ہے۔
بہت سے مغرب کے تعلیم یافتہ لوگ بلکہ عوام الناس بھی اس میدان میں مختلف تجربوں کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ جو بھی اجتماعی فکر، اقتصادی اور علمی شکلیں ان کے سامنے رکھی جاتی ہے وہ صرف زبانی جمع خرچ اور خوش آئند باتیں ہی ہوتی ہیں، جو کسی حال میں بھی ذہنی اور روحانی الجھنوں کودور کرکے روح کو تسکین نہیں دے سکتی ہیں، اس نتیجہ کے بعد ہی سے اسلام اور انسانی تہذیب اور پاکیزہ معاشرہ کی تعمیر وتشکیل کے لئے اسلامی نظام حیات کے مطالعہ پر توجہ مبذول ہوئی، اورلوگ اسلام کی طرف آنے لگے، مغرب و مشرق میں مختلف جماعتیں اسلامی تربیت کے اصول وافکار کا بنظر غائر مطالعہ کر رہی ہیں اور اسلامی عقیدے کو گلے لگانے، ایمان ویقین کے سانچے میں ڈھل جانے اور اسلامی تہذیب کے زیر سایہ رہ کر زندگی گذار نے میں اپنے شوق و رغبت کا اظہار کررہی ہیں۔
آج مغربی انسان، قلبی سکون واطمینان کی تلاش میں عقیدے اور ایمان کے راستے کی طرف لوٹ رہا ہے،جہاں اُسے اپنی متاعِ گم شدہ کی بازیابی اور اس کو دل کا سکون ملتا ہے اور وہ دل کی گہرائیوں سے اللہ کی حمد وثنا کے ترانے گاتا ہے کہ اللہ نے اُسے زندگی کی خوش بختی، حقائق اوراصل مقصد تخلیق کی معرفت کا زریں موقع عنایت فرمایا: ”وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإنْسَ إلاَّ لِیَعْبُدُوْن“ ]ذاریات: ۶۵[(میں نے جنوں اورانسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں)۔ خداوند قدوس نے اس کو محرومی سے سعادت کی طرف اور تاریکیوں سے نورکی طرف نکال کر کتنا بہرہ ور فرمایا، خیروشر،معروف ومنکر کی تمیز دے کر اُسے کس قدر اعزاز بخشا، برائیوں سے نکال کر اچھائیوں کی طرف اور مادیت کی باغیانہ روش سے نکال کر امن وعافیت کے دامن میں لا پہنچا یا اور ذکرالٰہی پر اعتماد اور فرائض وواجبات کی ادائیگی کا بہترین موقع عطا فرمایا،وہ موقع زندگی میں خوشگواری،وقت میں برکت وکامیابی اور مصائب وامراض کے ازالہ کا ضامن ہے، اس کی بنیاد پر انسان اپنے رب کا محبوب بن جاتا ہے، پھر اللہ تعالی ہی اس کا نگراں، محافظ، حامی وناصرہوجاتا ہے، پھراُسے نہ کسی قسم کا خوف دامن گیر ہوتا ہے اورنہ غم واندیشہ، نہ پشیمانی اُسے لاحق ہوتی ہے اور نہ اکتاہٹ وآزردگی، یہی نصرت الٰہی اور توفیق ربانی ہے جس سے ہر لمحہ وہ فیض یاب ہوتا رہتا ہے:
”إنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلاَءِکَۃُ ألاَّ تَخَافُوْا وَلَاتَحْزَنُوْا وَأبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ، نَحْنُ أوْلِیآؤ کُمْ فِي الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِي الآخِرَۃِ“]حم السجدۃ:۰۳[(جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارارب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیاگیا ہے، ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی)۔
یہی اصل نفع اور اصل مطلوب ومقصود ہے، اہل ایمان کو اسی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرنی چاہیے، اورارباب عقل ودانش کو اسی کی طرف لپکنا چاہیے اور جہاں تک فوری نفع اور عارضی دولت کا مسئلہ ہے تووہ صرف فریب خوردہ ذہنیت اور محروم لوگوں کا مقدر ہے، جن کو خواہشات نفسانی اوراغراض،ہلاکت کے گھر یعنی جہنم کی طرف لیے چلے جارہے ہیں، جس میں وہ جھلسائے جائیں گے اور وہ بدترین جائے قرار ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان کس قدر واضح اور روشن ہے:
”وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلَی جَہَنَّمَ زُمَراً، حَتَّی اِذَا جَاءُ وْہَا فُتِحَتْ أبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا ألَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ رَبِّکُمْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ ہٰذا، قَالُوْا بَلیٰ وَلٰکِنْ حَقَّتْ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ عَلَی الکاَفِرِیْنَ، قیلَ ادْخلوا أبوَابَ جہنمَ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا، فَبِءْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ“ ]زمر:۱۷-۲۷[(کافروں کے غول کے غول جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے، جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اس کے دروازے ان کے لیے کھول دیئے جائیں گے، اور وہاں کے نگہبان ان سے سوال کریں گے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے؟ جو تم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں درست ہے، لیکن عذاب کا حکم کافروں پر ثابت ہوگیا۔ کہا جائے گا کہ اب جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ جہاں ہمیشہ رہو گے، پس سرکشوں کا ٹھکانا بہت ہی برا ہے)۔