اصل نفع اور مطلوب ومقصود
مارچ 20, 2023فنِ تدریس – اصول وآداب
مولاناڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی
قدیم زمانہ میں لفظ تدریس تعلیم کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا تھا، اور نہ درسگاہیں مدارس کے نام سے موسوم ہوتی تھیں، بل کہ مصر میں تعلیم گاہ کو”بیت العلم“کے نام سے جانا جاتا تھا، جب تعلیم کا مفہوم عام ہوتا گیا، اور تعلیم میں ترقی ہوئی تو تربیت کا پہلو بھی اس میں شامل کیا گیا، تو یہ الفاظ”دراسۃ، دراسات“ تعلیم کے میدان میں عام ہوتے گئے، اور جب یہ الفاظ تعلیم کے باب میں شامل کیے جانے لگے، تو تدریس ایک فن کی شکل اختیار کرگئی، جو آج تک مختلف مناہج اور اسالیب کی شکل میں ترقی کرتا جارہا ہے، اور تعلیم و تربیت اور تہذیب وثقافت کے مختلف اسالیب پر مشتمل ہے، اور تدریسی مراحل اور تربیتی پہلوؤں کو خالص اسلامی روح اور دینی مزاج سے ہم آہنگ کررہا ہے، اس لیے کہ تدریس سے صرف تدریسی مواد کی تعلیم مقصود نہیں ہے، بل کہ طالب علم کو تعلیم وثقافت، آداب وسلوک، اور عطر بیز سیرت سے مزین کرنا بھی شامل ہے، جب استاذ تعلیمی وتربیتی امور میں ان بنیادی چیزوں کا لحاظ رکھے گا، طالب علم کو نئی معلومات اور علمی آداب سے مزین کرے گا، تعلیمی مراحل کی تسہیل کرے گا، اور معاشرتی زندگی میں تعلیمی وتربیتی مراحل کو عام کرے گا تو یقینا یہ استاذ ایک حقیقی مربی اور مخلص معلم ہوگا، اور ایک ذی اثر روحانی پیشوا بھی ثابت ہوگا، اور اپنے زیر تربیت طلبا میں دینی واخلاقی قدروں اور علم کے حقیقی معانی ومفاہیم کو منتقل بھی کرسکے گا، اور حقیقی معنی میں مربی کہلانے کا مستحق بھی ہوگا کہ وہ طالب علم کی علمی قابلیت وصلاحیت پر بھی نظر رکھ سکے گا، اور عقلی وفکری سرگرمیوں پر گرفت بھی، اور خیر خواہ اور فکر مند مربی و معلم وہی ہوسکتا ہے جو طالب علم کو یہ یقین دلائے کہ حقیقی سعادت مندی تعلیم وتعلم ہی میں ہے، اور ایک کامیاب انسان ہی علمی میراث وقابلیت کا صحیح مستحق ہوسکتا ہے، اور علم کو اس کی اپنی صحیح جگہ استعمال کرسکتا ہے، یعنی اعلیٰ مقاصد کے لیے علمی قابلیت وصلاحیت کو استعمال کرے، اور وہ ہے صحیح زندگی کی قیمت پہچاننا، اللہ تعالیٰ کے احکام کا مطیع و فرماں بردار بنانا، زندگی کی حقیقی سعادت اور آخرت کی کامیابی کا مستحق بننے کے لیے ایک مربی عالم اپنی حسن تدریس سے دلوں میں ایمانی قوت کو راسخ کرسکتا ہے، ایمان کامل اور علم حقیقی کے درمیان ربط پیدا کرسکتا ہے، اس لیے کہ علم ہمیشہ دین وایمان کا حقیقی خادم رہا ہے، علم حقیقی ہی بندہ اور خدا کے درمیان حقیقی تعلق پیدا کرسکتا ہے، وہ تعلق جو واضح دلائل، اطمینان بخش براہین کی بنیاد پر قائم ہے،جو طالب علم کے دلوں سے شکوک و شبہات، اور ادنیٰ درجہ کی خلش کو بھی دور کردے۔
وہ شکوک وشبہات اور بدگمانیاں جو عام طور پر ذہنوں میں جگہ پکڑگئے ہیں، کہ دنیاوی علوم و فنون دینی علوم کے لیے رکاوٹ بن رہے ہیں، یا یہ کہ دنیاوی علوم کا نفع دینی علوم سے کہیں زیادہ ہے،دنیاوی علوم کے سیکھنے سے ایک انسان وسیع النظر اور وسیع الفکر بنتا ہے، اور دینی علوم کے ذریعہ محدود فکر اور تنگ نظر بنتا ہے، اس قسم کی بہت سی بدگمانیاں ہیں جن سے ایک طالب علم کو واسطہ پڑ رہا ہے۔
ایک صحیح الفکر مدرس اور عالی ظرف استاذ کی مثبت فکر ہونی چاہیے، کہ وہ دین اور عقل کے درمیان جوڑ اور ہم آہنگی پیدا کرے، اس لیے کہ دین ہی انسان کو طلب علم پر آمادہ کرتا ہے،بل کہ دین علم کو اپنا خادم سمجھتا ہے، اور علمائے راسخین کو دینی خدمات کا حق دار سمجھتا ہے، کہ وہ اس وسیع کائنات میں اللہ تعالیٰ کی قدرتی نشانیوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔
ایک عالم اپنی حسن ذکاوت، وسیع معلومات، اور راسخ علم کی روشنی میں کائنات میں اللہ تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرسکتا ہے، وہ اللہ جو کائنات کے نظام کو پوری باریکی اور حسن تدبیر کے ساتھ چلا رہے ہیں، اور کائناتی نظام کے ذرہ ذرہ کو دیکھ رہے ہیں، جس کی طرف قرآن کریم نے یوں اشارہ کیا ہے:”إنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالأرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لآیَات لأوْلِی الألْبَابِ“ ] سورہ آل عمران[۔
ایک کامیاب استاذ،اور مدرس کی ذمہ داری صرف اتنی نہیں ہے کہ وہ اپنا درس پڑھا دے یا گھنٹہ کی تکمیل کردے؛ بل کہ استاذ دوسرے معنی میں مربی ہے جو اپنے تدریسی عمل سے پوری نسل تیار کرتا ہے، وسیع النظر اور کثیر المعلومات عالم تیار کرتا ہے۔ جس کی نگاہ کائنات کے نظام اور انسانی فطرت کی حقائق پر ہو، اشیاء کے فطری مزاج اور ان کے آپسی تعلقات سے واقف ہو۔ انسانوں کا اللہ کی ذات کے ساتھ تعلق ہو، اس کو گہرائی سے دیکھنے والا ہو، اس کی پوری فکر ایمان کامل اور علم راسخ سے متصف ہو، دونوں میں سے کسی ایک ہی کا نہ ہو، ایمان کا انکار کرے اور نہ علم سے ہاتھ دھو بیٹھے، بل کہ ہر ایک کو اس کا اپنا مقام دے، حقائق کی تدریس اور دلوں کو اس کی طرف مائل کرکے ایک طاقتور رابطہ قائم ہوسکتا ہے۔بلکہ زندگی کی تکمیل بغیر درس وتدریس کے مکمل نہیں ہوسکتی۔ زندگی کے بغیر درسگاہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ایمان اور علم کے درمیان کی مسافت، انسانی زندگی کے حقائق جان کر ہی طے کی جاسکتی ہے۔ اور جب انسان ان حقائق کو جانے گا، تو بدگمانیاں خودبخود زائل ہو جائے گی۔
لیکن یہ بات اسی وقت ہو سکتی ہے جب پختہ ایمان والی نسل تیار ہو، اور ایسا عالم ہو جو ہمہ جہتی مضبوط معلومات رکھے، انسان اور خدا کے درمیان کے رشتہ کو خوب سمجھتا ہو، کائنات اور خدا کے رشتہ کی حقیقت کو جانتا ہو، حقیقی اور صحیح عالم وہ ہے جو اپنی ذمہ داری کی پاسداری کرے اور تدریس میں ان اُمور کا خیال رکھے۔
۱- طلبہ کی صحیح علمی رہنمائی مقصود ہو نہ کہ اپنی علمی نمائش۔
۲- تدریس میں اپنے مقصود کو فراموش نہ کرے اور تدریسی امور سے صحیح مثبت نتائج اخذ کرے۔
۳- طلبہ کے سامنے اشکالات پیش کرے اور انہیں سوال کرنے کا عادی بنائے، تاکہ وہ تدریسی ذمہ داری کو سمجھ سکیں، اور اشیاء کی حقیقت کا صحیح ادراک بھی کر سکیں۔
۴-طلبہ کو زیادہ علمی معلومات حاصل کرنے میں صحیح مشورہ دے اور ان کو اپنی حقیقت یاد دلائے اور اپنے اساتذہ کی سرپرستی وتربیت میں خوب ذاتی محنت کرنے پر اُبھارے۔
اس لیے کہ موجودہ زمانہ میں حصول تعلیم کا مسئلہ مکمل طو ر پر طالب علم کی ذاتی محنت اور لگن پر منحصر ہے۔وہ اپنے آپ کو پور ا ذمہ دار ٹھہرائے، استاذ کی حیثیت تو صرف اشراف اور سرپرست کی ہونی چاہیے، اس سے زیادہ نہیں، جیسا کہ”طرقِ تدریس ”کے دو مؤقر مصنف شیخ صالح عبد العزیز، اور عبد العزیز عبد المجید نے لکھا ہے کہ موجودہ طرق تدریس کا مقصد یہ ہے کہ ان مواقع اور مشکلات کو واضح کیا جائے، جن سے طالب علم کا براہ راست تعلق ہے، تاکہ اپنی ذات سے مشکلات اور مسائل کے حل کا کامیاب طریقہ سوچ سکے، اور صحیح فکر کا حامل ہو، اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب طالب علم، تعلیم وتعلّم کے صحیح مصادر اور سرچشمہ کے حصول پر پورے انہماک، اخلاقی قدروں، اور فطری صلاحیتوں کے ساتھ متوجہ ہو، اس لیے کہ ہر طالب علم اپنی فطری ذاتی لگن اور محنت کے ذریعہ تعلیمی میدان میں پیش رفت کرسکتا ہے۔ ]التربیۃوطرق التدریس: ص ۷۹۱[ ایک صحیح الفکر اور راسخ العقیدۃ استاذ اپنے تدریسی عمل میں یقینا ان باتوں کا بھی لحاظ رکھے گا۔
۱- طالب علم زندگی کے معاملات میں دوسروں کے ساتھ اخلاقی ومحبتانہ برتاؤ کرے، تاکہ لوگ اس کے قریب ہونے لگیں۔
۲- طالب علم اپنی فکر ی صلاحیت اور علمی استعداد کو خوب پروان چڑھائے، تاکہ ایک باوقار سنجیدہ طالب علم شمار کیا جاسکے۔
۳-طالب علم اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرے، خود غرضی نہیں، اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ وہ اپنے اہلِ تعلق میں باہمی تعاون اور اخلاقی برتاؤ کرے۔
۴- طالب علم کی مشکلات سے استاذ براہ راست واقف ہو، تاکہ ان کا صحیح حل تلاش کیا جاسکے۔
استاذ کے حسن اخلاق میں سے یہ بھی ضروری ہے، کہ وہ طلبہ سے استمراری تعلق و ربط رکھے، تاکہ وہ اپنے معاشرتی، دینی مشکلات میں استاذ سے رہنمائی و مشورہ حاصل کرتا رہے اور اس لیے بھی کہ استاذ کی جانب سے طالب علم کی فکری عملی تربیت ہوتی رہے، اور اس لیے بھی کہ تکبر اور خودستائی کا شکار نہ ہوسکے۔ استاذ کا اپنے شاگرد کے ساتھ تعلقات کی استواری، بہت سے مسائل و مشکلات کا حل ہے کہ طالب علم استاذ سے تعلیمی تربیتی معاملات میں تعاون لے سکتا ہے، اور استاذ اس شاگرد کے ساتھ نفسیاتی برتاؤ کے ساتھ تدریسی معاملات میں ہر ممکن تعاون کرسکتا ہے، اس برتاؤ سے شاگرد پختہ باکمال اتالیق اور مربی بن سکتاہے، اور اپنی مستقبل کی زندگی میں ایک کامیاب رہنما بھی بن سکتا ہے۔
اس زریں اور بیش بہا موقع پر ہم اس بات کو ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں جو ہارون رشید نے اپنے بیٹے محمد امین کے اتالیق اور استاذ سے اپنے بیٹے کی تربیت کے بارے میں کہی تھی، جس کو ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں یوں ذکر کیا ہے۔
اے احمر! بیشک امیرالمومنین نے تمہارے پاس اپنا جگر بھیجا ہے، اپنے دل کا پھل تمہارے حوالہ کیا ہے۔اس کو اپنی تربیت میں لے لو، امیر کی اطاعت تمہارے لیے واجب ہے، تم محمد امین کے ساتھ اس انداز سے پیش آؤ جس مقصد کے خاطر امیرالمومنین نے اس کو تمہارے سپر د کیا ہے۔ قرآن کی تعلیم دو، اشعار عرب اخبار احوال سے باخبر کرو، آداب وسنن سے مزین کرو، موقع کلام سے مطلع کرو، زیادہ ہنسی سے بازرکھو،ہاں بر محل ہنسی سے کوئی مضائقہ نہیں، بنی ہاشم کے مشائخ کے احترام و اکرام سے مطلع کرو۔
اور ایسا کوئی وقت نہ گزرے جس میں وہ تم سے فائدہ نہ اٹھاسکے، حتی المقدوراپنی تربیت سے محمدامین کو درست کرو، اگر تم نے اس کی صحیح تربیت نہ کی تو یقینا محمدامین کے والدین تمہارے ساتھ سختی کا برتاؤکریں گے۔]حلیۃ الاولیاء:رقم:۷۵۲۶، یہ حدیث غریب اور سفیان ثوری سے مروی ہے[
امام غزالی ؒنے بھی اپنے انداز سے طلبہ کے حق میں معلّمین ومدرسین کے آداب ذکر کئے ہیں، جن کا ذکر کرنا یہاں موضوع کے مناسب معلوم ہوتا ہے:
۱-طلبہ کے ساتھ شفقت کا معاملہ کریں،ان کو اپنی اولاد کا درجہ دیں۔
۲-تدریس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کریں، طلبہ کے افادہ میں کسی اجرت اوربدلہ کے خواہاں نہ ہوں، اور نہ شکرگذاری کے طلب گار، بل کہ طلبہ کو خالص اللہ کی رضاجوئی اور اس کے تقرب کے خاطر تعلیم دیں، اور نہ طلبہ پر کوئی تدریسی احسان جتلائیں، بل کہ ان کے دلوں کو صیقل کریں کہ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوں، اور ان کے دلوں میں علم کا بیج بوئیں۔
۳-طالب علم کو نصیحت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں، استحقاق سے پہلے کسی علمی مرتبہ کے خواہاں نہ ہوں، طلبہ کو بتائیں کہ طلب علم سے مقصود اللہ کا قرب ہے، نہ کہ منصب طلبی اور دوسروں کے مقابلہ میں فخرومباہات سے پرہیز کریں، تنافس سے نہیں کہ وہ مطلوب ہے۔
۴- طالب علم کو اس کے برے اخلاق پر متنبہ کریں، کنایہ اور شفقت کے ساتھ، نہ کہ سرزنش اور ڈانٹ کے ذریعہ، اس لیے کہ صراحت، ہیبت ورعب کے حجاب کو ختم کرتی ہے، اور طالب علم اپنے استاذ کے خلاف جرأت اور اختلاف کا عادی بنتا ہے، اور حرص انسان کو اصرار پر آمادہ کرتی ہے‘ جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”لَوْ مُنِعَ النَّاسَ عَنْ فَثِّ الْبَعْرِ لَفَتوہٗ“ (اگر لوگوں کو تاش کے پتے ملانے سے منع کیا جائے تو وہ اصراراً ملائیں گے)۔
۵- طالب علم کے دلوں میں ان علوم سے متعلق برائی نہ بٹھائے، جو وہ حاصل نہیں کررہا ہے، جیسے لغت کا استاذ فقہ کے متعلق طالب علم کو بدگمان نہ کرے‘ فقہ کا استاذ طالب علم کو حدیث وتفسیر سے دور نہ کرے، علم کلام کا استاذ فقہ کے طالب علم کو متنفر نہ کرے، یہ اساتذہ ومربی کے اخلاق سے بہت گری ہوئی بات ہے؛ بل کہ استاذ کو چاہیے کہ طالب علم کی بتدریج تربیت کرے، تمام علوم سے اس کو متعارف کرائے‘ کہ وہ کسی بھی فن اور علم سے بدگمان نہ ہو۔
۶- طالب علم کو اس کے فہم وذکاء کے مطابق تربیت دی جائے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”نَحْنُ معاشرَ الْأنْبِیَاء أُمِرْنَا أَن نُنْزِلَ النَّاسَ مَنَازِلَہُمْ وَنُکَلِّمُہُمْ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِہِمْ“(ہم انبیاء اس بات کے مکلف کیے گئے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ ان کے مقام ومرتبے کے اعتبار سے معاملہ کریں، اور لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق کلام کیا کریں)۔ ] المطالب العالیۃ مؤلفہ حافظ ابن حجر، کتاب الادب، باب العقل وفضلہ:رقم:۴۲۸۲[
۷-استاذ طالب علم کی ہمت کو پست نہ کرے کہ یہ تو بہت دقیق اور گہرا علم ہے، یہ طریقہ طالب علم کو علم سے دور بھی کرسکتا ہے، اور اس کی ہمت کو پست بھی، علم سے متعلق اس کا ذہن تشویش کا شکار بھی کرسکتا ہے، طالب علم اپنے استاذ سے متعلق یہ خیال بھی کرسکتا ہے کہ وہ میرے ساتھ علم کے باب میں بخل کررہے ہیں، استاذ طالب علم کی ہمت کوبڑھائے، اس کی ڈھارس باندھے، کہ وہ ہر علم کا اہل اور مستحق ہے، کوئی علم دقیق اور گہرا نہیں ہے، محنت اور ہمت سے ہر علم حاصل کیا جاسکتا ہے، مقصد تو اللہ کی رضا اور خوشنودی ہے۔
۸- استاذ اپنے علم کے مطابق عمل کرنے والا بھی ہو، اس کا فعل اس کے قول کی تکذیب نہ کرتا ہو، علم بصیرت سے حاصل کیا جاسکتا ہے، اور عملی نگاہوں سے وجود میں آتا ہے، اور ظاہر ہے کہ ظاہری نگاہ والے اہلِ بصیرت کے مقابلہ میں زیادہ ہیں۔ اس لیے کہ اگر ہر چیز سے متعلق یہ کہا جائے کہ اس کے قریب نہ جاؤ، اس کو استعمال نہ کرو، یہ زہر ہے تو لوگ اس کا تمسخر کریں گے، اس کا استہزاء کریں گے، اور اس کو متہم ٹھہرائیں گے، اور یہ حقیقت ہے کہ منع کی ہوئی چیز کی طرف لوگوں کا میلان زیادہ ہوتا ہے۔
ٹیڑھی لکڑی کا سایہ سیدھا کیسے ہو سکتا ہے، ناتجربہ کار، اور بداخلاق استاذ سے ایک صحیح الفکر طالب علم تربیت نہیں پاسکتا ہے۔
ترجمانی: عبد الرحمن ملی ندوی