سوال و جواب

سوال و جواب
March 20, 2023
سوال و جواب
March 20, 2023

سوال و جواب

مفتی محمد ظفر عالم ندوی

 سوال: ایک شخص کی بیوی نے شوہر کے انتقال کے وقت مہر معاف کر دیا لیکن اب وہ کسی وجہ سے مال متروکہ میں سے مہر کا مطالبہ کر رہی ہے، معاف کیا ہوا مہر مال متروکہ میں سے دیا جا سکتا ہے؟

 جواب: دین مہر معاف کرنے سے معاف ہوگیا، اب اس کے مطالبہ کا حق نہیں ہے، اور مال متروکہ میں سے معاف شدہ مہر نہیں دیا جا سکتا ہے۔

           ]الدر المختار مع ردالمحتار:ج ۸/ص۸۴۲[

سوال: اگر کسی کی اولاد نافرمان ہو اور والدین کے ساتھ ناروا سلوک کر رہی ہو تو کیا والدین اپنی وراثت سے محروم کر سکتے ہیں؟ محروم کرنے کی وجہ سے والدین گنہگار تو نہیں ہوں گے؟

 جواب: وراثت ایک ایسی ملک ہے جو غیراختیاری ہے، والدین کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے بعد ورثہ میں سے کسی کو وراثت سے محروم کردے، شریعت نے جو حصہ جس وارث کے لیے متعین کردیا ہے وہ اسے ضرور ملے گا خواہ مورث راضی ہو یا ناراض، البتہ اصل مالک کو اختیار ہے کہ اپنی زندگی اور حالت صحت میں اپنی ملک میں جس طرح چاہیں تصرف کریں۔

                  ]فتاویٰ ہندیہ: ج۴/ص۱۹۳[

سوال: اگر اولاد شریر ہو، اور باپ کو یہ خیال ہو کہ میرے بعد تمام جائیداد خدا کی نافرمانی میں صرف کردے گی، اس لیے وہ کار خیر میں ان جائیدادوں کو صرف کر دے تو کیا ایسا کرنا درست ہوگا؟

 جواب: اولاد کے شریر ہونے کی وجہ سے والدین کو یہ خدشہ ہو کہ یہ جائیداد خدا کی نافرمانی میں اولاد صرف کردے گی تو اسے یہ حق حاصل ہوگا جائیداد کو مصارف خیر میں دیدے۔         ]حوالہ سابق[

 سوال: ایک شخص نے اپنی بیماری کی حالت میں اپنی جائیداد اور مکان سے متعلق ایک اقرار نامہ لکھواکر عدالت میں رجسٹری کروا دیا ہے، مقصد یہ ہے کہ لڑکیوں کو اس سے بے دخل کر دیا جائے، کیا ان جائیدادوں اور مکان سے لڑکیاں محروم ہو جائیں گی؟

 جواب: مرض الموت میں لکھا یا ہوا اقرار نامہ یا ہبہ نامہ وصیت کے حکم میں ہوتا ہے، اور وصیت وارث کے حق میں نافذ نہیں ہوتی ہے جب تک کہ دوسرے ورثاء اجازت نہ دیں، لہٰذا دیگر ورثہ کی رضامندی کے بغیر یہ اقرار نامہ یا ہبہ نامہ شرعاً ناقابل عمل ہے اور اس میں شرعی طور پر میراث جاری ہوگی اور لڑکیوں کا بھی اس میں حق ہوگا۔

           ]الدر المختار مع رد المحتار:ج ۸/ص۳۹۴[

سوال:ایک صاحب کا انتقال ہوا، ان کے دولڑکے ہیں، ترکہ میں ایک دکان ہے، ایک بھائی سرکاری ملازم ہیں اور ایک دکان چلارہے اور دکان انہی کے قبضہ میں ہے، دکان چھوٹی ہونے کی وجہ سے تقسیم میں دشواری ہے، اگر دوسرے بھائی کو دکان اور سامان کی نصف قیمت دے دی جائے اور وہ لے لیں تو کیا یہ درست ہے،اصل دکان تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے عنداللہ کوئی پکڑ تو نہ ہوگی؟

جواب: دکان اور سامان کی نصف قیمت اگر دوسرے بھائی کو دیدی جائے، اور وہ لینے پر راضی ہوں تو شرعاً یہ درست ہے۔

                 ]فتاویٰ ہندیہ:ج۴/ص۸۶۲[

سوال: ایک شخص کی دو بیویاں تھیں، پہلی بیوی سے دولڑکے اور ایک لڑکی اور دوسری سے صرف ایک لڑکا ہے، اب بتائیں کہ جائیدا د کی تقسیم کس طرح ہوگی؟دوسری بیوی سے جولڑکا ہے ان کا کہنا ہے کہ آدھا حصہ میرا ہوگا اور آدھے میں آپ دونوں بھائی اور بہن حصے دار ہوں گے، صحیح کیا ہے، رہنمائی کریں؟

جواب:اس صورت میں کل جائیداد کے سات حصے ہوں گے، دو دو حصے تینوں لڑکوں کو ملیں گے اور ایک حصہ لڑکی کو ملے گا، اور سوتیلے بھائی کا نصف جائیداد کا مطالبہ غلط ہے۔        ]سورہ ئنساء: ۱۱[

سوال:ایک شخص کی اہلیہ نے کچھ پلاٹس اور پالیسیاں لی تھیں اور اپنے لڑکے اور لڑکی کے نام رجسٹری کرادی تھی، اب اس عورت کا انتقال ہوگیا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا یہ زمینیں اور پالیسیاں صرف انہی لڑکوں اور لڑکیوں کی ہوں گی یا ان کے علاوہ دیگر ورثاء مثلاً مرحومہ کے شوہر اور بھائی وغیرہ بھی حصہ پائیں گے؟

جواب: مرحومہ اگر ان لڑکوں اور لڑکیوں کے نام زمینوں کی رجسٹری مالک بنانے کے لیے کی تھی تو اس کی حیثیت ہبہ کی ہے، اور یہ لوگ ان زمینوں اور پالیسیوں کے مالک ہیں، دیگر ورثاء کا ان میں حق نہیں ہوگا، اور اگر کسی قانونی ضرورت کے تحت رجسٹری کرائی تھی تو یہ مال متروکہ میں شامل ہوں گی، اور تمام ورثاء مرحومہ کے شوہر سمیت سب حقدار ہوں گے۔

                   ]صحیح البخاری: ج۲/ص۲۷۲[

٭٭٭٭٭