اسلام کا تصورِ حیات
مولانا سید عبد اللہ حسنی ندویؒ
جب اہل ایمان ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو دونوں کو ایک دوسرے کے ایمان سے فائدہ ہوتا ہے،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہم لوگوں کا نظام اجتماعی رکھا ہے،پانچ وقت مسجد آنے کے جو بہت سے فوائد ہیں،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کی ملاقات سے ایک دوسرے کو فائدہ ہوتا ہے۔اور واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر دونوں صلاحیتیں رکھی ہیں؛یعنی انسان متاثر ہوتا بھی ہے اور متاثر کرتا بھی ہے، لہٰذا اگر آپ اچھے آدمی کے ساتھ رہیں گے تو آپ پر اس کا اچھا اثر پڑے گا،اور اگر کسی برے شخص کے ساتھ رہیں گے تو اس کا برا اثر پڑے گا، اور اگر کوئی اس بات کا انکار کرتا ہے تو گویا وہ حقیقت کا انکار کرتا ہے،اس لیے کہ دین اسلام میں انہیں چیزوں کے پیش نظر تاکید کی گئی ہے کہ بروں کی صحبت سے بچواور اچھوں کی صحبت اختیار کرو،اور اسی لیے بار بار مسجد میں آنے کی پابندی بھی لگادی ہے،تاکہ جو لوگ نماز پڑھتے ہیں اور وہ مکمل طور پر اچھے نہیں ہیں، جب وہ بار بار مسجد آئیں گے اور کچھ دیر اچھے لوگوں کے ساتھ رہیں گے،تو یقینی طور پر ان میں بھی کچھ اچھائی آ جائے گی،لیکن موجودہ دور میں ہم لوگوں کا مزاج کچھ اس طرح کا ہوگیا ہے کہ ہم اسلام کی اجتماعی شکلوں سے بھی کما حقہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے ہیں،اور ان میں بھی صرف اپنی جسمانی حاضری درج کرانا کافی سمجھتے ہیں، جب کہ صرف آنا اور جانا کافی نہیں ہے۔یاد رہے کہ پنج وقتہ نماز باجماعت پابندی کے ساتھ ہونی چاہیے،اور ساتھ ہی یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اس کے ذریعہ ہمیں آپس میں ایک دوسرے سے واقف بھی ہونا ہے۔ہم یورپی مزاج نہ بنائیں کہ ہر ایک کو صرف اپنے سے مطلب ہو،وہاں تو یہ صورت حال ہے کہ ایک کمرہ میں بھی رہتے ہیں،لیکن ایک دوسرے سے بالکل جدا رہتے ہیں۔
اسلام کی اجتماعی شکلوں پر کاربند رہنے کا ایک بنیادی فائدہ یہ بھی ہے کہ ہم ایک دوسرے کی ضروریات سے بھی واقف ہوں گے اور ہماری آپس کی خلیجیں دور ہوں گی، اور اگر ان شکلوں ہی کا لحاظ مفقود ہوجائے گا تو کس کو توفیق نصیب ہوگی کہ وہ کسی کی ضرورت معلوم کرے، مگر افسوس کی بات ہے کہ آج ہمارے سماج میں آپس ہی میں بے گانگی بہت بڑھتی جارہی ہے،اگر یوں کہیں کہ سب جانور بنتے جارہے ہیں تو شاید غلط نہیں ہوگا، پہلے زمانہ میں لوگ جانور ہوتے تھے تو انسان بنتے تھے، اور اب صورت حال یہ ہے کہ انسان سے جانور بنتے ہیں،گویا آج ہر چیز بالکل الٹی ہوگئی ہے،پہلے بوڑھے لوگ اچھے ہوتے تھے اور اب اچھے لوگ بوڑھے ہوگئے ہیں، عجیب وغریب صورت حال ہے،اور حد تو یہ ہے کہ کبھی کبھی یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ فلاں شخص اچھے کام کرنے سے برے ہوگئے، فلاں شخص پہلے نمازی تھے وہ نماز چھوڑ بیٹھے،اور بہت سے خیر کے کام کرلیتے تھے وہ بھی چھوڑ بیٹھے،حالانکہ یہ وہ کام ہیں جو اس لیے کیے جاتے ہیں کہ زندگی میں جو بھی معاملہ الٹا ہے، اس کو سیدھا کردیا جائے، اس لیے کہ اگر الٹے ہی چلتے رہے تو ایکسیڈینٹ ہوجائے گا، تھوڑا بہت چل سکتے ہیں جیسا کہ گاڑی الٹی کرکے مڑالی جاتی ہے،لیکن مستقل چلنا مشکل ہے۔اور آج اس الٹے چلنے کا نتیجہ سامنے ہے کہ بھائی بھائی کی نہیں بن رہی ہے،پڑوسی پڑوسی کی نہیں بن رہی ہے، حتی کہ نمازی نمازی کی نہیں بن رہی ہے۔ ظاہر ہے یہ جھگڑے اسی لیے ہیں کہ فرائض میں ہماری کوتاہی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کوئی گھر اس وبا سے نہیں بچا ہے، اگر آج کسی اعلیٰ درجہ کے خوش حال شخص سے بھی اس کی ذاتی زندگی میں سکون کے متعلق پوچھ لیا جائے تو وہ یہی جواب دیتا ہے کہ بس دور کے ڈھول سہانے،آپ کو ہمارے اندرون خانہ کی حقیقت کیا معلوم!
موجودہ دور میں نوجوانوں کے درمیان دو چیزیں بہت اہم اور قابل توجہ ہیں؛ ایک کھیل کا میدان اور دوسرے ناچنے گانے کا میدان۔ مسلم نوجوان آج انہیں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں،اور ان دونوں میدانوں کے شہسوار داڑھی مونچھ کے کاٹنے والے ہیں،جن کی ذاتی زندگی انتہائی قابل رحم ہے، ان کا حال یہ ہے کہ وہ بمشکل چوبیس گھنٹہ میں صرف ایک یا دو گھنٹے ہی ہنستے ہوں گے،البتہ بائیس گھنٹے ان کی زندگی میں سوائے رونے کے کچھ نہیں،اس لیے کہ وہ لوگ جو کام کررہے ہیں، ظاہر ہے وہ بالکل غلط کام ہے، اور ہر غلط کام کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ انسان کو غیر معمولی حرج میں مبتلا کرے، آج جو نوجوان ان لوگوں کی ظاہری خوشی دیکھ کر ویسی ہی زندگی اپنے لیے مانگتے ہیں اور اس کی تمنا کرتے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ اگر وہ ان لوگوں کے اندرون سے واقف ہوجائیں تو خوف سے دور بھاگیں، لیکن آج کل پوسٹر کا زمانہ ہے، اور یہ پوسٹر جس کو چاہیں جو بنادیں، چور کو اچھا کہہ دیں اور اچھے کو چور کہہ دیں،سب انہیں کا حسن کرشمہ ساز ہے جو چاہے کریں۔یاد رہے کہ یہ سب مناظر قیامت کی علامات ہیں،حدیث میں آتا ہے کہ آخری دور میں ایسے حالات پیش آئیں گے کہ لوگ سچے کو جھوٹا کہیں گے اور جھوٹے کو سچا کہیں گے، امانت دار کو خیانت والا کہیں گے اور خائن کو امانت دار کہیں گے،چنانچہ آج ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ جو اچھے لوگ ہیں وہ بے چارے اپنے کسی کنارہ پڑے ہوئے ہیں، اور جو برے لوگ ہیں، ان کے پیچھے زمانہ بھاگا چلا جارہا ہے۔
آج ہمارے سوچنے کا معیار بدل گیا ہے، ہمارے نزدیک دنیا کی قیمت زیادہ ہے، اور دنیا داروں کی قدر و منزلت زیادہ ہے، حالانکہ اللہ کے نزدیک دنیا کی حیثیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے،اسی لیے آج بھی جو لوگ واقعی اللہ تعالیٰ کے لیے کام کرتے ہیں، ان کے لیے دنیا کی کوئی حیثیت نہیں ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس وقت ہم لوگوں پر دنیا اتنی حاوی ہوگئی ہے کہ ہمارا دین بھی دنیا بن گیا ہے، جب کہ پہلے صورت حال بالکل مختلف تھی، پہلے لوگ دنیا کو دین بناتے تھے اور اب حال یہ ہے کہ دین کو دنیا بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دنیا بقدر ضرورت رہے،لیکن ہم نے اس کو بالکل الٹا کردیاہے کہ آخرت بقدر ضرورت رہے،اور باقی دنیا ہی دنیا رہے۔ یاد رہے کہ جس طرح ایک بھوکے اور تھکے ماندہ شخص کو بقدر ضرورت غذا اور آرام کی ضرورت ہوتی ہے، اگر وہ اس میں غلو کرے تو بدہضمی اور کاہلی کا شکار ہوجائے، اور اس سے بدبو پھوٹنے لگے، اسی طرح دنیا کے ہر انسان کو بقدر ضرورت وسائل زندگی کی ضرورت ہوتی ہے، اگر وہ ان کے حصول میں غلو کرے گا تو وہ بھی بدہضمی کا شکار ہوگا، اور اچھے اور سچے لوگ اس سے دور بھاگیں گے۔ لہٰذا معتدل راستہ یہ ہے کہ انسان بقدر ضرورت دنیا حاصل کرے، البتہ انتہائی درجہ انہماک دین اسلام میں پسندیدہ بات نہیں ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر دنیا کی ذرا بھی حیثیت ہوتی تو اللہ کی نافرمانی کرنے والے شخص کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ ہوتا، لیکن دنیا کی کچھ بھی حیثیت نہیں ہے، اس لیے اس زندگی میں ہر کوئی انعامات خداوندی سے لطف اندوز ہورہا ہے، اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ جس طرح دنیا میں جب کسی مجرم کو پھانسی پر چڑھانا ہوتا ہے تو اس سے پوچھتے ہیں کہ تمہاری آخری تمنا کیا ہے؟ اس وقت وہ جو بھی فرمائش کرتا ہے، اس کی فرمائش پوری کی جاتی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کافر کو اس دنیا میں خوب دیتے ہیں،کیونکہ آخرت کی زندگی میں اسے جہنم میں جانا ہے،لہٰذا اسے یہاں جتنا کھانا ہو وہ کھالے۔اسی لیے بعض آیات سے یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایمان والے بندوں کا ایمان ڈانواڈول نہ ہوجاتاتو اللہ تعالیٰ کافروں کا گھر سونے کا بنادیتاتاکہ وہ خوب عیش کرلیں اور ان پر حجت تمام ہوجائے، پھر اس کے بعد ان کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے،لیکن اہل ایمان کی خاطر ایسا نہیں کیا گیا کہ کہیں ان کی چمک دمک کو دیکھ کر وہ بھی اسی میں نہ الجھ جائیں۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی ایسی بے حیثیتی کا علم ہونے کے باوجود بھی اگر ہم دنیا ہی کے لیے جئیں گے مریں گے،تو یاد رہے کہ حدیث شریف میں دنیا کی مثال مچھر سے دی گئی ہے اور مچھر کا پر دیکھنے میں چھوٹا اور معمولی ہوتا ہے، لیکن جب مچھر کاٹتا ہے تو اس سے ڈینگو اور ملیریا پیدا ہوجاتا ہے، اگر غور کیا جائے تو آج پورا سماج اسی مچھر کے کاٹے کا شکار ہے، اور ہر ایک ڈینگو یا ملیریا میں مبتلا ہے، بس اتنا فرق ہے کہ امیر شخص زیادہ مبتلا ہے اور غریب شخص اپنے معیار کے اعتبار سے کچھ کم مبتلا ہے، البتہ مجموعی طور پر پورا سماج بیمار ہے، جس کے علاج کی سخت ضرورت ہے، اور جب تک اس علاج کی فکر نہیں کی جائے گی، اس وقت تک ہمارے سماج میں صالح اور ثمر آور نتائج کی امید مشکل ہے۔