خیروبرکت اورایمان وعبادت کا مہینہ

    خیروبرکت اورایمان وعبادت کا مہینہ

    حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی
    رمضان المبارک کا مہینہ خیروبرکت کا مہینہ ہے، ایمان وعبادت کا مہینہ ہے، مسلمان کومسلمان بن کراوراپنے اعمال کو خدا کی خوشنودی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کا مہینہ ہے، دولت مند کواپنی دولت مندی کے ذریعہ خدا کوراضی وخوش کرنے کا، اورغریب کواپنی غریبی کے باوجود نیک عمل کرنے کا مہینہ ہے، یہ مہینہ آتا ہے توفضا کو پُرنور بنادیتا ہے، اہل ایمان میں مسرّت کی لہردوڑا دیتا ہے، مسلمانوں کی صبح ومساء کو عجیب رونق سے پررونق بنادیتا ہے، بڑے عمر کے لوگ خلوص عمل کے ساتھ نیکی پر کاربند ہوتے ہیں، چھوٹی عمر کے افراد اس ماہ کی پُرلذت افطاری سے سرور ولطف حاصل کرتے ہیں۔ اس کی قبل فجر کی سحریاں اور اس کے غروب شمس کی افطاریاں اس کی راتوں کا ذکر وعبادت، اس کے دنوں کی تلاوت، سب اس ماہ کی رونق کودوبالابناتی ہیں، پھر ان سب باتوں پرحاصل ہونے والا اجر ہرمومن کے دل کوپُرسروربناتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر مخصوص اجر دینے کا وعدہ ہے۔
    رمضان کا روزہ درحقیقت متنوع قسم کے اعمال کا مجموعہ ہے، اس میں مسلمان کواپنے پروردگار کی رضاء کی طلب میں اپنے نفس کومارنا پڑتا ہے، اس میں آخرت کے اجر کے لیے اپنے مال کوصرف کرنے کا، اپنے پروردگار کی یادکودل میں جگانے کے لیے نماز وتلاوت کاخاص موقع ملتا ہے، اپنی زبان کوخوبی اورنیکی کا پابند بنانے کا ماحول ملتا ہے، اپنے وقت کوستھرے اورپاکیزہ کام کے ساتھ وابستہ کرنے کا داعیہ ملتا ہے اورنیک عمل کی توفیق ہوتی ہے۔
    رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے شیاطین قید سلاسل کردئیے جاتے ہیں، شیاطین جن کا کام بس یہ ہے کہ وہ انسانوں کواچھے کامو ں سے برگشتہ بنائیں اوربرے کاموں کے سبزباغ دکھائیں، اس ماہ میں اپنے اس ظالمانہ اورگندے کام سے روک دئیے جاتے ہیں،اس کے نتیجہ میں نیکی کرنے والوں کی نیکی کرنے میں آسانی ہوتی ہے اوربرائی اختیارکرنے والوں کوبرائی کی طرف مائل ہونے میں اتنا داعیہ نہیں باقی رہتا جتنا غیررمضان میں ہوتا ہے۔
    ہرانسان نفس ونفسانیت سے بھی مرکب ہے، انسان کا نفس لذت کوش اورراحت طلب ہوتا ہے اس میں طمع کا مادہ بھی ہوتا ہے اور خودغرضی کا جذبہ بھی ہوتا ہے، زندگی کی بہت سی برائیوں کواختیارکرنے میں انسان کا نفس محرک بنتا ہے اس میں شیطان کی کوشش پر ہی انحصار نہیں شیطان اس میں صرف بڑھاوا دیتا اورطاقت پہونچاتاہے اورمزید بڑی برائیوں کی طرف مائل کرتا ہے اوران میں معاونت کرتا ہے۔رمضان میں جوبرائیاں کی جاتی ہیں وہ اس لیے کم ہوتی ہیں کہ وہ صرف نفس کے اثر سے ہوتی ہیں ان کوشیطان کا سہارا نہیں ملتا۔
    لیکن انسانی نفس بعض انسانوں میں اور بعض موقعوں پر اتنا قوی اورموٹا ہوجاتا ہے کہ اس کواپنے برے اقدامات کے لیے شیطان کے سہارے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی،یہ نفس رمضان کے مہینہ میں بھی اپنا کام کرسکتا ہے اورکرتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے روزہ میں یہ بھی اثررکھا ہے کہ وہ نفس کو کمزور کردے اوراس کواس کے برے اثرات سے روکے اوراس کے اثر کو کم کردے، کیونکہ روزہ درحقیقت نفس کے خراب اثرکوتوڑنے کا عمل ہے، انسان کا پیٹ جب خالی ہوتا ہے اورپیاس کا احساس ہوتا ہے توبرائیوں کی طرف اس کا رجحان کمزور پڑجاتا ہے، انسان میں بھرے پیٹ کے ساتھ……غلط کاموں کی طرف جو میلان ہوتا ہے وہ خالی پیٹ میں اورانسانی خواہش کی عدم تسکین کے موقع پر نہیں ہوتا،اسی لیے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کوجس کونفسانی خواہش زیادہ ہوتی ہو لیکن اس کے پاس ازدواجی زندگی اختیارکرنے کی مالی سکت نہ ہو روزے رکھنے کی تلقین فرمائی تاکہ وہ اپنی خواہش پر غالب آسکے اور اس کی خاطر غلط کام میں مبتلا نہ ہوجائے۔ روزہ کی ساخت اللہ تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے کہ وہ نیکیوں کی راہ بناتا ہے اورگناہوں کی راہ روکتا ہے لیکن روزہ کے اثرات اوراس کی نیک فضا اسی وقت اپنا عمل کرتی ہے جب روزہ کو اس کے آداب اوراس کی مقررہ احتیاطوں کے ساتھ رکھا جائے وہ خدا کے لیے ہو، اپنے کسی مادی یاخود غرضانہ مقصدکے لیے نہ ہو، روزہ میں جوباتیں ممنوع قراردی گی ہیں ان سے پورا پرہیز ہو، اورروزہ کی فضاء کو قائم کرنے کے لیے جواعمال بتائے گئے ہیں وہ اختیار کیے جائیں۔
    روزہ یوں ظاہر میں فجر کے وقت سے غروب آفتاب کے وقت تک کھانے پینے اور ازدواجی عمل سے بچنے کا نام ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جھوٹ سے، غیبت سے اورزبان وہاتھ کے دوسرے گناہوں سے پورا پرہیز کا نام بھی ہے۔چنانچہ حدیث شریف میں آیاکہ کسی نے روزہ رکھا اورکھانے سے پرہیز کیا لیکن غیبت، جھوٹ جیسے کاموں سے پرہیز نہیں کیاتواس کوکیا ضرورت تھی کہ وہ بھوکا پیاسا رہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسے شخص کا روزہ بیکار گیا، اسی لیے بعض ائمہ فقہ کے یہاں جھوٹ بولنے اورغیبت کرنے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن سب ائمہ کے نزدیک ایسا نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ روزہ کا ظاہری عمل توانجام پاجاتا ہے کیونکہ اصل شرط پوری ہوگئی لیکن اس کا ثواب جاتا رہتا ہے کیونکہ اس کے آداب کا لحاظ نہیں کیا۔روزہ کو اللہ تعالیٰ نے نیکیوں کا موسم بنایا ہے اس میں جس قدر نیکی کرنے کی صورتیں بنتی ہیں دوسرے اعمال میں مشکل سے بنتی ہیں، اس میں توایک خود روزہ ایک بڑا عمل ہے،پھر اس میں نمازیں ہیں، تلاوت قرآن مجید ہے، غریبوں کی مدد ہے، اوربلاقید اورہر وقت کھانے پینے سے روک ہے،اورزہد کی کیفیت اپنانے کا بہترین موقع ہے۔
    پھر بطورمزید اس میں نیکی کرنے کا ثواب ستر گناکردیاگیاہے، غیررمضان میں کی جانے والی ایک نیکی اوررمضان میں کی جانے والی ایک نیکی کے ثواب میں ایک اورستر کا فرق ہے۔
    پھر رمضان میں روزے رکھنا چونکہ تمام مسلمانوں پر بیک وقت ضروری کیاگیاہے اس لیے مسلمانوں کے معاشرہ میں اس پوری مدت میں ہرطرف ایک ہی فضا بن جاتی ہے اوروہ فضا نیکی کی،ہمدردی کی، نرم خوئی کی، اورآخرت طلبی کی، احتیاط وعبادت کی فضا ہوتی ہے۔
    اسی لیے رمضان میں ان لوگوں کوجن کو بیماری یا سفر کے عذر کی وجہ سے روزہ موخر کرنے کی اجازت دی گئی ہے ان کوبھی یہ منع ہے کہ وہ برسرِعام کھائیں —ان کو حکم ہے کہ سب سے علاحدہ جگہ ایسا کریں تاکہ روزہ کی فضا متأثر نہ ہو۔
    رمضان دراصل نفس کوقابو کرنے اوراس کی بری طاقت کوکمزورکرنے کا ایک سالانہ تربیتی نظام ہے اس نظام سے ہرمسلمان کوسال میں ایک مرتبہ گزرنا پڑتا ہے، ضرورت ہے کہ جس طرح ہم زندگی کی ضروریات کے لیے کسی بھی سالانہ تربیتی کیمپ یا تربیت گاہ میں وقت توجہ و عمل کے ساتھ گزارتے ہیں رمضان کے اس نظام میں بھی اس کے آداب اوراحکام کے مطابق وقت گزارا کریں تاکہ ہم اس سالانہ تربیت گاہ سے پوری طرح کامیاب ہوکر اورایک صالح اورسچے مسلمان بن کر نکلا کریں۔
    روزہ کی افادیت اورعنداللہ اس کی اہمیت کی یہ بڑی دلیل ہے کہ اللہ نے دوسرے اعمال کے مقابلہ میں اس سے اپنی پسند زیادہ ظاہر کی ہے، حدیث شریف میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بتایا گیاہے کہ:
    ‘‘عن أبی ہریرۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنۃ بعشر أمثالہا الیٰ سبع مأۃ ضعف قال اللّٰہ تعالیٰ الا الصوم فانہ لی وانا اجزی بہ یدع شہوتہ وطعامہ من أجلی’’.]رواہ البخاری ومسلم[
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (روزہ کی فضیلت اورقدروقیمت بیان کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ آدمی کے ہراچھے عمل کا ثواب دس گنے سے سات سوگنے تک بڑھایا جاتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:روزہ اس عام قانون سے مستثنیٰ اوربالاتر ہے، وہ بندہ کی طرف سے خاص میرے لیے ایک تحفہ ہے، اورمیں ہی(جس طرح چاہوں گا) اس کا اجر وثواب دوں گا۔میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی خواہش نفس اوراپنا کھانا پینا چھوڑدیتا ہے (پس میں خود ہی اپنی مرضی کے مطابق اس کی اس قربانی اورنفس کشی کا خود صلہ دوں گا۔
    اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان اوراس کے روزوں کی قدرکی توفیق دے،آمین۔