تعارف وتبصرہ
مارچ 20, 2023تعارف وتبصرہ
محمد اصطفاء الحسن کاندھلوی ندوی
نام کتاب:کرونا -مسائل و احکام
تالیف:محمد عبید اللہ اسعدی
وباؤں اور بیماریوں کا دور ہمیشہ رہا ہے؛ لیکن حال ہی میں ہم جس خوفناک وبا کے دور سے گذرے ہیں‘ اس نے سرعتِ انتشار، مدتِ انتشار اور مساحتِ انتشار کے سارے رکارڈ توڑدیے۔ اس کے ساتھ اس وبا نے شرعی اعتبار سے بہت سے ایسے مسائل کو جنم دیا جو سابقہ وباؤں میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ ہمیشہ کی طرح اہلِ علم و اربابِ فقہ نے ان مسائل کو سنجیدگی سے لیا، کتاب و سنت کو کنگھالا، آثار و اقوال کو کریدا، عصری تقاضوں اور جدید زندگی کے مطالبات کو جانچا اور پرکھا، اپنے اندر کی اجتہادی صلاحیت کو ٹٹولا اور ان مسائل کا شرعی حل امتِ اسلامیہ کے سامنے پیش کیا۔
کرونا سے پیش آمدہ نئے مسائل کے حل میں ارباب افتاء کے درمیان بڑا اختلاف بھی رہا، اور ایک ایک مسئلہ میں کئی کئی رائیں سامنے آئیں، اور اس کی وجہ سے امت میں عملی خلفشار بھی رہا، ہر رائے اندیشہ اور وسوسہ کا شکار رہی، اور کسی بھی رائے کومکمل انشراح و اتفاق کے ساتھ قبول کرنے میں دشواری رہی۔ تاہم یہ کوئی نئی بات نہیں۔ جب بھی نئے مسائل سامنے آتے ہیں اور قیاس و اجتہاد کی ضرورت پڑتی ہے تو آراء کی کثرت اور اختلاف کی شدت ظاہر ہوتی ہے؛ لیکن جوں جوں وقت آگے بڑھتا ہے‘ مطالعہ وسعت اور تجزیہ گہرائی اختیار کرتا چلاجاتا ہے، اور تب ہی جاکر معتدلانہ رائے قائم کرنے میں سہولت ہوتی ہے۔ اس کے بعد بھی گرچہ اختلاف باقی رہتا ہے؛ لیکن اس میں شدت نہیں رہ جاتی، اور گرچہ ایک رائے پر اجماع نہیں ہوپاتا؛ لیکن آراء کی وہ کثرت باقی نہیں رہتی جو ذہنی خلفشار اور عدمِ اطمینان کا باعث بنے۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک کے معروف فقیہ، جامعہ عربیہ ہتھورا کے مؤقر استاد مولانا محمد عبید اللہ اسعدی مد ظلہ کی تالیف ‘‘کرونا – مسائل و احکام’’ بھی اک ایسی کتاب ہے جو اس وبا کے ذریعہ پیدا شدہ مسائل میں شریعت کے حوالہ سے اعتدال پر مبنی اور اطمینان بخش جوابات دیتی ہے۔ مولانا موصوف نے ساری علمی موشگافیوں کا گہرائی اور گیرائی سے جائزہ لے کر ایسی آراء قائم کی ہیں کہ نہ صرف یہ کہ ان کی مشروعیت کو دل تسلیم کرلیتا ہے؛ بلکہ وہ قابلِ عمل ہیں، اور قانون کی زد سے باہر بھی۔
اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ کورونا سے متعلق شاید ہی کوئی مسئلہ ایسا ہو جو اس میں ذکر کرنے سے رہ گیا ہو۔ مولانا موصوف نے جس طرح مسائل کے متصور جزئیات اور متفرع احکام کا استیعاب کیا ہے‘ وہ ان کی فقہی بصیرت اور عصری ژرف نگہی کا غماز ہے۔ بایں ہمہ مولانا مدظلہ نے جو اسلوب افہام و تفہیم کا اختیار کیا ہے، وہ ایک طرف ان کی مدرسانہ شان بیان کرتا ہے، تو دوسری طرف قاری کو کورونا کے مسائل میں تفقہ کے درجہ پر فائز کردیتا ہے۔
اللہ نہ کرے کہ آئندہ چشمِ انسانیت‘ اس موئی وبا کا منھ دیکھے؛ لیکن اگر مشیتِ الٰہی کو یہی منظور ہوا تو ان شاء اللہ اس کتاب سے لوگ بھرپور استفادہ کریں گے، اور وبائی صورتحال کے جملہ مسائل میں ان کو شریعت کی پاسداری کرنے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
عام کتابی سائز کے تقریباً سواسو صفحات ہیں۔ مکتبہ احسان، لکھنؤ نے شائع کیا ہے۔ حصول کے لیے رابطہ کریں:
نام کتاب:رسالہئ خواطریہ
تالیف: میر سید علی ہمدانی
ترجمہ و تحقیق: محمد سعید مسعودی
قرآن کریم کے مختلف مقامات میں مذکور حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ میں یہ ذکر بھی بار بار آیا ہے کہ شیطان نے ان کی عداوت میں اللہ تعالیٰ سے یہ مقابلہ آرائی کی کہ وہ حضرت آدمؑ کی اولاد کو ورغلائے گا۔ اس کی سینہ زوری دیکھیے کہ اس نے کہا: ‘‘ولاتجد أکثرھم شاکرین’’ کہ آپ ان میں سے اکثر کو اپنا شکر گذار نہ پائیں گے۔ شیطان کا یہ چیلنج اس بات کا کھلا اظہار تھا کہ آدمؑ کو سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں اس کی محرومی اور درماندگی کے سبب جو بغض و عناد اس کو ان سے ازل میں ہوا‘ وہ ابد تک تا قیامت ان کی اولاد سے باقی رہے گا۔ چنانچہ وہ اس وقت سے ابنِ آدمؑ کے پیچھے پڑا ہوا ہے، اور وہ انسان کا ایسا دشمن ہے جس کا چشمِ انسانی ادراک نہیں کرسکتی۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ کوئی جسمِ محسوس بھی نہیں رکھتا؛ کہ اس کو پکڑ کر مغلوب و مقہور کیا جاسکے؛ بلکہ اس کی خطرناکی کا عالم یہ ہے کہ وہ نفسِ انسانی کو کنٹرول کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے، اور خود اسی کے اعضاء و جوارح اور قلب و ذہن کو اسی کے خلاف استعمال کرسکتا ہے۔
ایسے اَن دیکھے اور ماورائی قوت کے حامل دشمن کی چالوں کو سمجھنے اور ظاہری اعضاء و آلاتِ حرب کے ذریعہ اس سے مقابلہ کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا اس سے مقابلہ کا کوئی اور ہی طریقہ اور اس کو شکست دینے کے لیے کوئی اور ہی اسلحہ کارگر ہوسکتا ہے۔ وہ طریقہ و اسلحہ کیا ہے؟ اس کی وضاحت اہلِ دل کی مجلسوں اور تحریروں میں ملتی ہے؛ کہ دل ہی شیطان و انسان کے مابین رزم گاہ ہے۔ اسی لیے روحانی دنیا کے ماہرینِ قلب نے اس موضوع کو ہمیشہ اہمیت دی، اور اس پر وقیع کلام کیا۔ ابن ابی الدنیا کی ‘‘مکاید الشیطان و حیلہ’’، علی ہجویری کی ‘‘کشف المحجوب’’ اور ابن قیم جوزی ‘‘اغاثۃ اللھفان عن مکاید الشیطان’’ خاص کر اسی موضوع پر تحریر کی گئی ہیں۔
محسنِ کشمیر حضرت میر سید علی ہمدانی نور اللہ مرقدہ کا بھی ایک مختصر رسالہ موسوم بہ ‘‘رسالہئ خواطریہ’’ اس موضوع پر اس وقت باصرہ نواز ہے، جس کی سطر سطر بڑی بصیرت افروز ہے۔ یہ رسالہ عربی زبان میں ہے، اور ایجاز و اختصار کے باوجود بڑی جامعیت کا حامل ہے، بایں معنی کہ اس کو پڑھ کر قاری کو موضوع کی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ ابتداء میں کتاب و سنت کے حوالہ سے شیطان اور اس کے مکر و فریب کا اجمالی تذکرہ ہے، اس کے بعد شیاطین کی انواع و اقسام کا ذکر، پھر ان کے مکاید و حیل اور نفسِ انسانی پر غالب آنے اور ان کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کے طریقوں کے ساتھ، وہ طریقے اور حربے بھی بتلائے گئے ہیں جن کے ذریعہ انسان ان کا مقابلہ بآسانی کرسکتا ہے۔
یہ رسالہ چونکہ عربی زبان میں تھا، اس لیے اردو داں طبقہ تک اس کی افادیت کو عام کرنے کی غرض سے مولانا محمد سعید مسعودی رحمۃ اللہ علیہ نے‘ جن کو ’مفکرِ کشمیر‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، اس کو اردو زبان میں منتقل کیا ہے۔ مترجم فاضل ؒ نے ترجمہ کے ساتھ ساتھ اس کے متن کی تحقیق بھی کی ہے، آیاتِ قرآنی اور احادیث کے حوالے دیے ہیں۔ پیش کش میں یہ طریقہ روا رکھا ہے کہ پہلے پورا عربی کا رسالہ پیش کردیا گیا ہے، اس کے بعد ترجمہ اور اس کے بعد تحقیقی و حوالہ جاتی حواشی دیے گئے ہیں۔ترجمہ کی عبارت میں کثرت سے بین القوسین توضیحی کلام اس طور پر درج کیا گیا ہے کہ خواندگی میں سلاست متاثر نہ ہو۔
یہ رسالہ جو ہر خاص و عام مسلمان کے لیے ایک تحفہ ہے‘ جناب شبیر احمد بن محمد سعید مسعودی صاحب ایڈوکیٹ جموں اینڈ کشمیر ہائی کورٹ کے قیمتی ’پیشِ لفظ‘ کے ساتھ انھی کے اہتمام سے ددرہامہ، گاندر بَل، کشمیر سے شائع ہو کر ہدیۃً بلاقیمت دستیاب ہے۔ رابطہ کے لیے کوئی نمبر یا پتہ درج نہیں ہے۔
نام کتاب:حالاتِ حاضرہ میں ……
تالیف:ڈاکٹر سید محمود قادری
‘‘حالاتِ حاضرہ میں مسلمانانِ ہند کا لائحہئ عمل’’ تصوف و طریقت کی معروف شخصیت جناب ڈاکٹر سید محمود قادری کے تفسیری مطالعہ کا اک تازہ نمونہ ہے۔ اس رسالہ میں انھوں نے چار نکات کے حوالہ سے قرآن مجید کی بعض آیات کی تفسیر پیش کی ہے۔ ان چار نکات کی اساس گرچہ انھوں نے حالاتِ حاضرہ میں مسلمانانِ ہند کا لائحہئ عمل قرار دیا ہے، اور اسی کو ان کا جلی عنوان بھی قرار دیا ہے، تاہم پورے رسالہ کو مکمل پڑھنے کے بعد کسی صاحبِ فہم و بصیرت کے لیے یہ امر مخفی نہیں رہ سکے گا کہ اس میں پیش کردہ لائحہئ عمل در حقیقت صرف مسلمانان ہند کے لیے نہیں؛ بلکہ پوری امتِ اسلامیہ کے لیے ہے، اور صرف حالاتِ حاضرہ کے لیے نہیں؛ بلکہ ہر حال اور ہر زمانہ کے لیے ہے؛ البتہ یہ زمانی اور مکانی قید اس لیے لگادی گئی ہے کہ عصرِ حاضر کے ہندی مسلمانوں کے لیے اس کی ضرورت و اہمیت بڑھ جاتی ہے، یا اس لیے کہ ان میں اس کی طرف سے زیادہ غفلت اور بے اعتنائی پائی جاتی ہے۔
جن چار نکات پر اس رسالہ میں بحث کی گئی ہے‘ وہ یہ ہیں:
۱- ‘‘اللہ تعالی کی نعمتوں کے قائم اور باقی رہنے کا ضابطہ’’۔ اس عنوان کے تحت قرآن کریم کی آیات سے استشہاد کرتے ہوئے یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ اللہ تعالی اس وقت تک کسی قوم پر انعام و اکرام کی حالت تبدیل نہیں کرتا، جب تک وہ اپنے اندر کی ایمانی کیفیت کو بدل نہیں ڈالتے۔
۲- ‘‘ایمان کا دعوی کرنے والوں سے مطالبات’’۔ یہاں ان آیات کو پیش کیا گیا ہے‘ جن میں ایمان کو کامل کرنے، پورے طور پر اسلام میں داخل ہونے، اس پر قائم رہنے، عدل و انصاف کو قائم رکھنے، اجتماعیت کو باقی رکھنے، دین سے منھ پھیرنے کا انجام، خوف وذکرِ خداوندی کی ضرورت، مال و اولاد کے فتنہ کا اندیشہ، دشمنانِ خدا و دینِ خدا سے عدمِ موالات اور طواغیت کے سب و شتم سے پرہیزکی تعلیم دی گئی ہے۔
۳- ‘‘ملتِ اسلامیہ کا منصب اور قیام’’۔ یہ عنوان ان آیات کی توضیح و تشریح سے عبارت ہے جن میں عقیدہ و عمل اور عبادت و معاشرت اور ذخیرہ اندوزی وغیرہ، غرض ان تمام امور کا ذکر ہے جو امتِ اسلامیہ میں اعتدال پیدا کرکے اس کو ’خیرِ امت‘، ’امتِ وسط‘ اور ’شہداء للہ‘ کا مصداق بناتی ہیں۔
۴- ‘‘اہلِ ایمان سے اللہ تعالی کے وعدے’’۔ مذکورہ بالا نکات پر جب امت قائم ہوجائے گی تو ایسی امت کے لیے قرآن کے کیا وعدے ہیں‘ ان کو اس جگہ بیان کیا گیا ہے۔ ان میں نصرتِ خداوندی بھی ہے، حیات طیبہ کا خوش گوار تصور بھی، دنیا کی حکمرانی کی بشارت بھی، اور دینِ خداوندی کے غلبہ کا مژدہ بھی۔
ڈاکٹر صاحب کا اسلوب یہ ہے کہ وہ ہر نکتہ سے متعلق آیات کو پیش کرتے ہیں،ان کا ترجمہ درج کرتے ہیں، پھر خلاصہئ تفسیر اور مسائل و معارف کے ذیلی عناوین قائم کرتے ہیں۔ ترجمہ اور تفسیر انھوں نے ‘‘معارف القرآن’’، ‘‘تفسیرِ عثمانی’’ اور ‘‘کشف الرحمان’’ وغیرہ سے نقل کیا ہے۔انھوں نے اس رسالہ میں یہ خصوصیت بھی رکھی ہے تفاسیر کا خلاصہ اور نچوڑ پیش کیا ہے، اور طویل اقتباسات سے پرہیز کیا ہے، معارف و مسائل میں بھی اختصار مد نظر رکھا ہے، اور صرف قرآنی دلائل پر اکتفاء کیا ہے، جس کے بعد کسی اور دلیل کی ضرورت باقی بھی نہیں رہ جاتی۔ ان خصائص کی بنا پر یہ رسالہ جو محض ۶۶/صفحات پر مشتمل ہے‘ ایک نشست میں مکمل پڑھا جاسکتا ہے، اور جامعیت کا پہلو ایسا کہ جیسے دریا بکوزہ۔ قرآن کے تیس پاروں میں سے ان چند آیات کا انتخاب‘ اہلِ نظر ہی کا کام ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام کوششوں اور روحانی و مادی اسباب و وسائل کے اختیار کرنے کے بعد بھی بندہئ مؤمن کو اپنے رب کے حضور دستِ سوال دراز کیے بغیر چین نہیں ملتا، اور وہ اپنی کامیابی اور حصولِ مقصد کے تئیں اندیشوں اور وسوسوں کا شکار رہتا ہے۔ لہٰذا ڈاکٹر صاحب نے علامہ اقبال مرحوم کی مشہور زمانہ نظم ’دعائے مردِ مؤمن‘ کا انتخاب کیااور اسی پر رسالہ کا اختتام کیا، کہ اس’ختام بالمسک‘ میں ان کو اپنے قلبی جذبات کی عکاسی بھرپور نظر آئی۔