جدید تعلیم کا بگاڑ

    جدید تعلیم کا بگاڑ

    مولانابلال عبدالحی حسنی ندوی

    ایک زمانہ تھا کہ تعلیم انسان کی فلاح وبہبود کا ذریعہ تھی، اس سے انسانوں کو انسان بنایا جاتا تھا اور اس کو زندگی کا سلیقہ سکھایا جاتا تھا، تعلیم سے انسان کے اندر وہ بلند صفات پیدا ہوتی تھیں جن سے وہ بلند پایہ انسان بنتا تھا، اس کے اندر انسانیت کے جوہر پیدا ہوتے تھے، وہ دوسروں کے کام آتا تھا، لوگوں کو انسانیت سکھاتا تھا، ایثار وقربانی، اخلاق ومحبت جیسی صفات سے وہ آراستہ ہوتا تھا، پھر اس دور میں ٹکنالوجی کا استعمال بھی صرف انسانی بہبود کے لیے ہوتا تھا، حاصل یہ ہے کہ علم اور اخلاق کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔

    بغداد کے مشہور زمانہ اسپتال میں ہر طرح کی سہولتیں تھیں، جن کے لیے افراد تعینات تھے، مختلف امراض کے مریضوں کے لیے ایسے کھانوں کا باقاعدہ انتظام تھا جو ان کے لیے مفید ہوں اور آخری بات یہ ہے کہ کچھ لوگ صرف اس کام کے لیے ڈیوٹی پر رکھے گئے تھے جو مریضوں کی تسلی کا سامان کریں، وہ جاکر مریضوں سے ایسی بات کرتے تھے جس سے ان کو بڑا دلاسا ملتا تھا۔

    آج علم ٗ ٹکنالوجی کے میدان میں بہت آگے بڑھ گیا، لیکن اخلاق کے جوہر سے خالی ہوگیا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس سے بجائے انسانی صفات رکھنے والوں کے جانوروں کی صفات رکھنے والے پیدا ہورہے ہیں۔

    آج علم ایک بزنس بن کر رہ گیا ہے، انسان لاکھوں لاکھ روپیہ دے کر علم حاصل کرتا ہے اور فارغ ہوکر اسی کی وصول یابی میں پوری طرح لگ جاتا ہے اور اس میں وہ ہر طرح حدود کو پار کر گیا ہے، اگر اس نے کروڑوں روپیہ دے کر پڑھا ہے تو پہلے مرحلہ میں فارغ ہونے کے بعد اس کو وہ کروڑوں روپئے یاد آتے ہیں اور وہ ہر صورت میں اس کو سود بیاج کے ساتھ واپس لینا چاہتا ہے، ایک دور تھا کہ ڈاکٹر دلاسا دیتا تھا، آج ڈاکٹر کو دیے ہوئے پیسے واپس لینے ہیں، وہ مریض سے آپریشن کی میز پر سودا کرتا ہے اور اس کی جان سے کھیلتا ہے اور مسئلہ صرف ڈاکٹروں کا نہیں ٗ ان کی مثال تو صرف اس لیے پیش کی گئی کہ وہ سب سے بڑھ کر انسانوں کے مسیحا رہے ہیں، لیکن آج معاملہ بالکل برعکس ہے۔

    علم واخلاق کے عدم توازن نے دنیا کو جہنم کدہ بنادیا ہے،وہ اپنے فائدے کے لیے نئے نئے ہتھکنڈے اختیار کرتاہے،اور اس کے لیے جان لینا بھی بڑی بات نہیں رہ گئی،انسانوں کی دنیا میں جانوروں کا طریقہ آج رائج ہورہا ہے، اور خود غرضی کا مزاج بنایا جارہا ہے،جو انسانوں کو ہلاکت کے غار میں گرانے کے لیے تیار ہے،اگر لوگوں کا ذہن صحیح نہیں کیا گیا،اورظلم و بربریت اور خود غرضی کا مزاج نہ بدلاگیاتو دنیا کا خدا ہی حافظ ہے۔

    اس وقت جس طرح کرپشن بڑھتا جارہا ہے، زندگی کے ہر شعبہ میں جس طرح رشوت خوری اور کام چوری بڑھتی جارہی ہے، ذمہ داری کا احساس ختم ہوتا جارہا ہے اور انسان صرف اپنا فائدہ دیکھتا ہے اور یہ چیز بڑھ کر اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ بیٹے کو باپ کا پاس ہے نہ باپ کے اندر بیٹے کی محبت ہے، اخلاق وروابط کو بھی بزنس بنا دیا گیا ہے، آدمی اگر ہنس کر بولتا بھی ہے تو ڈر لگتا ہے کہ وہ شاید اس کی بھی فیس وصول کرلے گا، کوئی کسی کے ساتھ محبت واخلاق سے پیش آتا ہے تو اس کو بھی کچھ نہ کچھ حصولیابی کی امید ہوجاتی ہے، Self Systom  اس حد تک تجاوز کرگیا ہے کہ وہ خود غرضیوں کی انتہا کو پہنچ رہا ہے، یہ صرف اسی لیے ہے کہ علم اور اخلاق میں توازن نہیں رہا، شروع سے بچے کو تعلیم دی جاتی ہے تو اس کو خود غرضی سکھائی جاتی ہے، اخلاقی تعلیم تو پہلے لازم سمجھی جاتی تھی، اب برائے نام رہ گئی ہے اور اس کے لیے عملی تدابیر بالکل اختیار نہیں کی جاتیں، یہ علم واخلاق کا عدم توازن ہے جس نے دنیا کو تباہی کے کنارے لاکر کھڑا کردیا ہے، یہ ذمہ داری سب سے بڑھ کر مسلمانوں پر ہے کہ وہ دنیا کو اخلاق ومحبت کا درس دیں اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے دین رحمت سے دنیائے انسانیت کو روشناس کرائیں اور علم میں اخلاقی تعلیم کو اس طرح شیر وشکر کردیں کہ وہ ایک خوبصورت گلدستہ بن کر سامنے آئے اور دنیا اس کی عطر بیز ہواؤں سے معطر ہوجائے۔

    ٭٭٭٭٭