ہندوستان میں اسلامی تہذیب وتمدن اور غیر مسلم دانشوران
ڈاکٹر محمد سلمان خان ندوی
ہندوستان میں اسلامی تہذیب وتمدن کے فروغ اور نشر و اشاعت میں غیر مسلموں کی بڑی حصہ داری رہی ہے اور یہ حصہ داری مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان خوشگوار تعلقات کو فروغ دینے کا ایک اچھا ذریعہ بھی ثابت ہوئی ہے۔ اسلامی تہذیب وتمدن کے میدان میں ان کی یہ دلچسپی ہندوستان میں اسلام کی آمد کے بعد سے ہی نمایاں رہی ہے۔ ہندوستان میں ۶۱ویں اور۷۱ویں صدی کوجاگیرداری اور سامراجی جبر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور اس دوران ہندوستان میں مختلف مفکرین و مصلحین نے جنم لیا چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، انہوں نے مجموعی طور پر آزادی وطن کے لیے جدوجہد کی۔ اس وقت کا معاشرہ تکثیری تھا۔ وہاں سبھی طبقات وفکر کے لوگ آبادتھے، وہ ایک دوسرے کے مذاہب وافکار کامطالعہ بھی کر رہے تھے،اس طرح اسلام کی نشر واشاعت اور تہذیب و تمدن کے میدان میں تحقیق کو بھی فروغ ملا۔
اسلامی تہذیب وتمدن اورسیرت کے لٹریچر میں ایسی بہت سی تحریریں کتابوں،کتابچوں اور مضامین کی شکل میں موجود ہیں، جن میں ہندوستان کے غیر مسلم دانش وروں کے احساسات و تاثرات جمع کیے گئے ہیں، چند نامور مفکرین جنہوں نے اسلامی تہذیب وتمدن کو پیش نظر رکھا اور اسلامی علوم و فنون اور تہذیب وتمدن کو اپنا میدان عمل بنایا اور بیش قیمت تجزیات اور قرآن مجید و سنت نبوی کو اپنی تحقیقات کا محور بناتے ہوئے ایسی ناقابل فراموش کاوشیں پیش کیں جنہیں تاریخ نے ہمیشہ ہمیش کے لیے محفوظ کرلیا زیر نظر تحریر انہیں کاوشوں اور علمی و فنی میراث کے جائزہ پر مبنی ہے اور ان کی شرکت و حصہ داری کے ذکر کے لئے ہیں ذیل کی سطور میں انہیں کا ذکر کیا جا رہا ہے، کئی محققین کا تذکرہ یہاں کیا جائے گا جنہوں نے اسلامی علوم اور تہذیب و ثقافت کا منصفانہ تعارف پیش کیا ہے۔
مالک رام:-۱۹۹۳-۱۹۰۶ء
مالک رام اردو دنیا کے عظیم محقق کے طور پر جانے جاتے ہیں۔وہ تاریخ کے بھی ایک اہم اسکالر ہیں۔اسی طرح انہیں اسلامی ثقافت اور ادب پر بھی خاصا عبور حاصل تھا۔ انھوں نے اسلامی ادب، روایات اور رسومات پر کئی مضامین لکھے۔ ان کی دو کتابیں ہرقاری کے لیے مفید ہیں جن میں ایک’‘عورت اور اسلامی تعلیم’’ ہے یہ کتاب اردو زبان میں سب سے پہلے ۱۵۹۱ء میں لکھنؤسے شائع ہوئی۔جس کا انگریزی اور عربی زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا جب کہ اسلامیات کے حوالے سے ان کی دوسری اہم کتاب کا نام‘اسلامیات‘ تھا۔ اس میں مالک رام نے اسلام اور اسلامی روایات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔انہوں نے خواتین کے حقوق اور اسلام و دیگر مذاہب کے تقابلی مطالعہ سے تہذیبی و تمدنی صورتحال کا ذکر کیا ہے۔
مالک رام نے عورت کی سماجی حیثیت کا خیال رکھتے ہوئے کہ وہ ایک بیٹی ہوتی ہے، بیوی ہوتی ہے، ماں ہوتی ہے اور جب وہ ان تینوں میں سے کسی حیثیت سے سماج میں نہیں رہ پاتی تو اس کی حیثیت مطلقہ یا بیوہ کی ہوتی ہے۔ اسلام نے ان تمام حالتوں میں عورت کو باوقار زندگی گزارنے کے اختیارات عطا کیے ہیں جن کے حصول کے بعد وہ سماج میں اپنی عزت وعفت کی حفاظت کے ساتھ سماج میں اپنے مقام کو قائم رکھتی ہے۔
تعدد ازدواج، طلاق وخلع، نکاح بیوگان اور وراثت کے ضمن میں مالک رام نے ہندو دھرم، یہودیت، عیسائیت اور اسلامی قوانین کے باہمی موازنے سے تشفی بخش طریقے پر یہ ثابت کیا ہے کہ اسلامی احکام سب سے زیادہ مبنی بر انصاف ہیں۔ انھوں نے دور اسلام سے قبل ایام جاہلیت میں بیٹیوں پر ہونے والے مظالم کا بھی ذکر کیا ہے اور مختلف تاریخی حوالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح بچیّوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا یا قتل کردیا جاتا تھا،نہ ان کی تعلیم و تربیت کا بندوبست تھا، نہ کھانے پینے کا اور نہ ہی جسمانی اور ذہنی تربیت کا کوئی انتظام تھا۔ اس کے بعض اسباب کی جانب بھی انھوں نے اشارے کیے ہیں جو بے حد مناسب اور درست معلوم ہوتے ہیں۔
مالک رام نے ‘‘ماں’’ کے عنوان سے عورت کی بے حد اہم سماجی حیثیت کی جانب بھی اشارہ کیا ہے۔ یعنی عورت ماں ہوتے ہوئے دنیا کی سب سے عظیم ہستی ہوتی ہے۔ ماں کو اسلام نے بے حد بلندی کا درجہ عطا کیا ہے حتیٰ کہ اسے باپ سے بھی زیادہ احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ انھوں نے سورہ بقرہ کی آیت ۱۲۵، سورۂ لقمان کی آیت ۱۴، ۱۵ اور مختلف احادیث کی روشنی میں والدین اور بالخصوص ماں کی اہمیت اور اس کے مرتبہ پر روشنی ڈالی ہے جس کے نتیجے میں وہ کہتے ہیں:
‘‘قرآن نے حسب معمول اس مسئلے پر بھی تفصیل سے بحث کی ہے۔حکم دیا ہے کہ آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ بھی تم اپنے والدین، قرابت داروں،یتیموں،مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو گے اللہ اس سے خوب واقف ہے[سورہ البقرہ: ۲۱۵]،اور حکم دیا کہ والدین سے نیکی اور احسان سے پیش آؤ اور ان پر اپنے اموال خرچ کرو،گویا صرف ماں باپ کی ضروریات کی کفالت ہی کا نہیں، بلکہ ہر حال میں ان پر خرچ کرنے کا حکم دیا’’۔
مالک رام نے اسلام میں حق وراثت کے تعلق سے ’وارثہ‘ کا ایک باب قائم کیا ہے۔ جس کا تعلق خالصتاً معاشی اور سماجی حیثیت کا تعین کرنا ہے۔ دنیا میں مال و اسباب انسان کی اہم ضرورت، جینے کا ذریعہ اور سماجی مقام اور وقار کے حصول میں اہم سبب خیال کیا جاتا ہے۔ اسلام نے اسی وجہ سے دولت کی تقسیم میں اعتدال اور توازن برقرار رکھنے کے لیے بنیادی اصول اور قوانین وضع کیے ہیں۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام میں زکوٰۃ اور صدقہ کا باقاعدہ ایک نظام موجود ہے۔ جس کے لیے بیت المال کا تصوّر بھی ہے۔ سود کی حرمت بھی اسی وجہ سے ہے کہ اس کے بہت سے نقصانات ہیں۔ اسی طرح وصیت اور میّت کے ترکے کی تقسیم کے بھی خاص اصول و قوانین ہیں۔ سورۃ بقرہ اور سورۃ نساء میں باقاعدگی سے ان اصولوں کو ربّ کائنات نے بیان کر دیاہے۔ مالک رام نے الگ الگ عناوین کے تحت قرآن اور احادیث کی روشنی میں وصیت کے اصول،وصیت کی مستقل اہمیت، وصیت کو معتبر اور مضبوط بنانے کے لیے شہادت کے طریقوں اور قرائن سے شہادت مرتب کرنے کا جواز، وراثت کی تقسیم اور اس کے اصول پر ٹھہر کر گفتگو کی ہے جس سے ان کی باریک بینی کا پتہ چلتا ہے۔
خلاصے کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مالک رام کا محبوب میدان اسلامیات ہے۔ وہ قرآن اور حدیث کی بہترین فہم رکھتے ہیں۔ ان کا انداز بے حد دو ٹوک، بے لاگ اور منصفانہ ہے۔ وہ دلیلوں کی روشنی میں گفتگو کرتے اور بحث کو آگے بڑھاتے ہیں۔ انھوں نے اسلامی قوانین کی روشنی میں عورت کا مقام طے کیا ہے اور اس کے حقوق کی وضاحت کی ہے۔ ان کے نزدیک متن بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ تاریخی شواہد کو بھی وہ پیش نظر رکھتے ہیں۔ انھوں نے تنگ نظری سے کہیں بھی کام نہیں لیا ہے اور نہ ہی غیر معتبر حوالوں کو شامل کیا ہے۔ انھوں نے اپنے ماخذ کے حصول میں حد درجہ احتیاط برتی ہے۔ ایک محقق کی زبان اور طرز جس طرح کا ہونا چاہیے مالک رام اس کسوٹی پر کھرے اترتے ہیں۔
منشی پریم چند:۱۹۳۶-۱۸۸۵ء
ہندوستان کے ادباء میں منشی پریم چند (۱۸۸۵-۱۹36ء) ایک مشہور نام ہے۔ انہیں اردو، ہندی دونوں زبانوں پر عبور تھا۔ انہیں افسانہ نگار اور ناول نگار کی حیثیت سے شہرت حاصل ہے۔گؤدان،بازارِ حسن، کرم بھومی ان کی نمایاں ادبی تخلیقات ہیں۔ہفت روزہ پرتاپ،دسمبر ۵۲۹۱ء میں ان کا ایک مضمون شائع ہوا تھا۔اس کی تلخیص ’اسلامی تہذیب‘کے نام سے مدھر سندیش سنگم سے شائع ہوئی ہے۔ اس میں انہوں نے تہذیب کے تین نمونوں (عدل و انصاف، مساوات، اخوت) سے بحث کی ہے اور ان میں اسلام کی امتیازی شان کو نمایاں کیا ہے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے ذریعہ اپنی بات کو مدلّل کیا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
‘‘عرفات کے پہاڑ پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے جس حیات بخش پیغام کی بارش ہوئی تھی وہ ہمیشہ اسلامی زندگی کے لیے آب حیات کا کام کرتی رہے گی۔ اس پیغام کا جوہر کیا تھا؟ عدل و انصاف، اس کے ایک ایک لفظ سے صدائے عدل و انصاف گونج رہی ہے۔ آپ ؐنے فرمایا: ‘‘اے مومنو! ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تمہاری ایک ہی برادری ہے۔ ایک بھائی کی چیز دوسرے بھائی پر کبھی حلال نہیں ہو سکتی،جب تک کہ وہ خوشی کے ساتھ نہ دے۔ ناانصافی مت کرو،اس سے ہمیشہ بچتے رہو۔’’اس پیغامِ جاوداں میں اسلام کی روح پوشیدہ ہے۔ اسلام کی بنیاد عدل پر مبنی ہے۔ و ہاں بادشاہ اور فقیر،امیر اور غریب کے لیے فقط ایک انصاف ہے۔کسی کے ساتھ رعایت نہیں،کسی کی طرف داری نہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی نہ چاہے جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے’’۔ ان کا یہ قول سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے:’‘خدا کی تمام مخلوق اس کا کنبہ ہے اور وہی شخص خدا کا برگزیدہ ہے جو بندگان خدا کے ساتھ نیکی کرتا ہے۔’’ [مشکوۃ المصابیح: ص/ ۵۲۴] ہم تو یہاں تک کہنے کو تیار ہیں کہ اسلام میں عوام الناس کے لیے جتنی قوتِ کشش ہے وہ کسی اور میں نہیں ہے۔ جب نماز پڑھتے وقت ایک مہتر خود کو شہر کے بڑے سے بڑے رئیس کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا پاتا ہے تو کیا اس کے دل میں احساسِ فخر کی ترنگیں نہ اٹھنے لگتی ہوں گی؟اس کے بر عکس ہندو سماج نے جن لوگوں کو پست بنا دیا ہے ان کو کنویں کی منڈیرپر بھی نہیں چڑھنے دیتے۔انہیں مندروں میں داخل نہیں ہونے دیتے۔یہ اپنے سے ملانے کی نہیں، اپنے سے الگ کرنے کی علامتیں ہیں۔
راجیندر نارائن لال:ولادت ۱۹۱۶ء
راجیندر نارائن لال(ولادت:۶۱۹۱ء) کا تعلق بھرت پور (راجستھان) سے ہے،البتہ ان کی تعلیم و تربیت وارانسی (یو.پی) میں ہوئی۔ کیونس کالج سے انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد کاشی ہندو یونیورسٹی بنارس سے ۰۴۹۱ء میں قدیم ہندوستانی تاریخ اور سنسکرت میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ انہیں شروع ہی سے مذہب سے لگاؤ تھا۔ امن و شانتی کی تلاش میں انہوں نے ہندو مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب کا بھی مطالعہ کیا۔ انہوں نے ہندی میں ’اسلام-ایک سویم سدھ ایشوریہ جیون ویوستھا‘ (اسلام-ایک خدائی نظام حیات)کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں انہوں نے ابتدا میں بدھ ازم،عیسائیت اور اسلام کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔پھر اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا نہایت مدلل انداز میں ازالہ کیا ہے۔ اسلام کا تعارف کراتے ہوئے ابتدا میں پیغمبرِ اسلام کی سیرتِ طیبہ پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
فتح مکہ کے موقع پر آں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے عفوِ عام کے واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے جناب راجندر لال نے لکھا ہے:
‘‘اسلام لانے کے بعد جو کایا پلٹ ہوئی وہ گویا اس کی تاریخی حیاتِ نو ہے۔سب سے بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں فتحِ مکہ کے وقت ایک شخص کی بھی جان نہیں گئی (سوائے دو تین نہایت سر کش لوگوں کے) اور پیغمبر اور ان کے پیروؤ ں نے اپنے اپنے دشمنوں کے مظالم کا بدلہ و انتقام لیے بغیر انہیں چھوڑ دیا۔ تاریخ میں جنگ کے بعد فاتحین کے ذریعہ مفتوحین کو اس طرح اجتماعی طور پر معافی دینے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس کے برعکس دیگر دھارمک پرانوں کے قصوں میں اوتار وں اور دیوتاؤں کے ذریعہ سے مخالفین کے خوف ناک قتل عام کا تذکرہ مذکور ہے’’۔[اسلام ایک سویم سدھ ایشوریہ جیون ویوستھا، راجندر نرائن لال، ص/۳۱-۳۲]
سوامی لکشمی شنکراچاریہ: ولادت۱۹۵۳ء
سوامی لکشمی شنکراچاریہ کی ولادت(۱۹۵۳ء) کانپور کے ایک برہمن خاندان میں ہوئی۔ سوامی جی نے کان پور اور الہ آباد سے تعلیم حاصل کی، مگر کچھ عرصہ کے بعد مادیت کو چھوڑ کر روحانیت کی طرف مائل ہو گئے۔ اسلام کے خلاف ہونے والے پروپگنڈے سے متاثر ہو کر انہوں نے’اسلامک آتنک واد کا اتہاس‘ نامی کتاب لکھی،جس کا انگریزی ترجمہ The History of Islamic Tolerance کے نام سے شائع ہوا۔ بعد میں سوامی جی کچھ مسلمانوں کے رابطے میں آئے، جنہوں نے انہیں بتایا کہ اسلام کی حقیقت جاننے کے لیے قرآن کا مطالعہ بہ راہ راست یا کسی ترجمہ کی مدد سے کرنا چاہیے۔
اس سے پہلے اس ذاتِ گرامی کا مطالعہ بھی ضروری ہے جس پر قرآن نازل ہوا تھا۔ سوامی جی نے اس بات کو سنجیدگی سے لیا۔ہندی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ اور ایک کتابِ سیرت حاصل کی۔ ان کا مطالعہ کرتے ہی سوامی جی کی کایا پلٹ گئی اور اسلام کے بارے میں پھیلائے گئے تمام اعتراضات کافور ہو گئے۔ انہوں نے ضروری سمجھا کہ اپنے سابقہ خیالات کے لیے ایک نئی کتاب تیار کریں۔ ان کی یہ نئی کتاب ہندی میں ’اسلام-آتنک واد یا آدرش‘اور اردو میں ’اسلام-دہشت گردی یا ایک مثالی دین‘ کے نام سے شائع ہوئی۔سوامی جی نے اپنی مؤخر الذکر کتاب کے پیش لفظ میں اپنی فکری روداد سفر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
‘‘میں اللہ سے،پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اور سبھی مسلمان بھائیوں سے علی الاعلان معافی مانگتا ہوں اور لاعلمی میں لکھے ہوئے یا بولے ہوئے الفاظ کو واپس لیتا ہوں۔ عوام سے میری اپیل ہے کہ’اسلامی دہشت گردی کی تاریخ‘نامی میری کتاب میں جو کچھ لکھا ہے اسے صفر سمجھیں’’۔[اسلامک آتنک واد کا اتہاس، سوامی لکشمی شنکر آچاریہ،ص/۱۱]
سو صفحات کی اس کتاب میں شنکر آچاریہ نے بہت سے موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔انھوں نے اسلام پر لگائے جانے والے دہشت گردی کے الزام کی سختی سے تردید کی ہے، عدل و انصاف، مساوات اور قرآن کی دیگر اخلاقی و روحانی تعلیمات کو سراہا ہے، سناتن وید ک دھرم اور اسلام میں بہت سی مماثلتیں بیان کی ہیں۔ کتاب کی دو بحثیں قابل قدر ہیں: ایک تو یہ کہ اسلام کے بارے میں نفرت پھیلانے والوں نے قرآن کی چوبیس(۲۴) آیتوں کو سیاق و سباق سے کاٹ کر ان کے بارے میں یہ بات پھیلا دی تھی کہ یہ آیتیں مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے لڑنے جھگڑنے، ان میں دہشت و غارت گری پھیلانے کا حکم دیتی ہے۔ اس پمفلٹ کو پڑھ کر سوامی جی بھی پہلے غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے تھے، لیکن غلط فہمی دور ہو جانے کے بعد انھوں نے اس کتاب میں ان تمام آیتوں کو نقل کر کے بتایا ہے کہ ان کا ایک پس منظر ہے جو ان کے زمانہئ نزول کے ساتھ خاص تھا۔ ان آیتوں میں بعد کے زمانوں میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ معاملہ کرنے کا عمومی حکم نہیں دیا گیا ہے۔ دوسری قابلِ قدر بحث اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مختصر سوانح حیات ہے،جو تیرہ(۱۳) صفحات پر مشتمل ہے۔ جی چاہتا ہے کہ سوامی جی کے کئی اقتباسات یہاں نقل کیے جائیں، لیکن موقع و محل کی تنگ دامنی کی وجہ سے صرف ایک دو اقتباسات پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ فتحِ مکہ کا تذکرہ کرتے ہوئے سوامی جی لکھتے ہیں:
‘‘حق کو قائم کرنے کے لیے اور باطل،ظلم و تشدد کے خاتمہ کے لیے جہاد (یعنی حفاظتِ دین اور اپنی مدافعت کے لیے جنگ) میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فتح یاب ہوتے رہے۔ مکہ اور گرد و نواح کے کافر و مشرک منہ کی کھاتے رہے۔ اس کے بعد پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار مسلمانوں کی فوج کے ساتھ مکہ میں باطل و دہشت گردی کی جڑ کو نیست و نابود کرنے کے لیے چلے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کام رانیوں اور مسلمانوں کی عظیم قوت کو دیکھ کر مکہ کے کافروں نے ہتھیارڈال دیے۔بغیر کسی خون خرابے کے مکہ فتح کر لیا گیا۔ اس طرح حق اور امن کی فتح اور ان کے مقابلہ میں باطل و دہشت گردی کی شکست ہوئی۔مکہ میں، اسی مکہ میں جہاں کل ظلم کا بول بالا اور ذلت و خواری تھی، آج پیغمبر اور مسلمانوں کا استقبال ہو رہا تھا۔ فراخ دلی، فیاضی اورر رحم دلی کی مجسم تصویر بنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سبھی لوگوں کو معاف کر دیا جنہوں نے آپ پر اور مسلمانوں پر بے دردی سے ظلم ڈھائے اور انہیں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ آج وہی مکہ والے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خوشی سے کہہ رہے تھے: لا الہ الاا للہ محمدرسول اللہ۔خاص طور پر یہ بات توجہ کے قابل ہے کہ قریش، جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں پر خوف ناک مظالم ڈھائے تھے،فتح مکہ کے دن تھر تھر کانپ رہے تھے کہ آج کیا ہوگا؟ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معاف کرکے گلے لگا لیا’’۔[اسلامک آتنک واد کا اتہاس، سوامی لکشمی شنکر آچاریہ،ص/۲۴-۲۵]
مہاتما گاندھی:۱۸۶۹-۱۹۴۸ء
مہاتما گاندھی صحیح معنوں میں عدم تشدد کے بانی ہیں اور انھوں نے ملک کی تحریک آزادی میں اہم رول ادا کیا انہوں نے بھی اسلامی تہذیب اور ثقافت کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور اسلامی تاریخ کا ذریں دورعہد نبوت اور خلافت راشدہ کا نہ صرف مطالعہ کیا بلکہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں بڑی بیباکی کیساتھ بیان بھی کیا وہ لکھتے ہیں:
اسلام اپنے انتہائی عروج کے زمانے میں تعصب اور ہٹ دھرمی سے پاک تھا، دنیا سے خراج تحسین وصول کیا۔ جب مغرب پر تاریکی اور جہالت کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں اس وقت مشرق سے ایک ستارہ نمودار ہوا۔ ایک روشن ستارہ جس کی روشنی سے ظلمت کدے منور ہو گئے اسلام دینِ باطل نہیں ہے۔ ہندوؤں کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ وہ بھی میری طرح اس کی تعظیم کرنا سیکھ جائیں۔میں یقین سے کہتا ہوں کہ اسلام بزورِ شمشیر نہیں پھیلا۔ بلکہ اس کی اشاعت کا ذمہ دار رسولِ عربی کا ایمان، ایقان، ایثار اور اوصافِ حمیدہ تھے۔
ان صفات نے لوگوں کے دلوں کو مسخر کر لیا تھا۔ یورپی اقوام جنوبی افریقہ میں اسلام کو سرعت کے ساتھ پھیلتا دیکھ کر خوف زدہ ہیں۔ اسلام جس نے اندلس کو مہذب بنایا۔ اسلام جو مشعلِ ہدایت کو مراکو تک لے گیا۔ اسلام جس نے اخوت کا درس دیا۔جنوبی افریقہ میں یوروپی اقوام محض اس لیے ہراساں ہیں کہ وہ جاتی ہیں کہ اگر اصلی باشندوں نے اسلام قبول کر لیا تب وہ ہمسرانہ حقوق کا مطالبہ کریں گے اور لڑیں گے۔
اگر اخوت گناہ ہے تو ان کا خوف راستی پر مبنی ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے۔ زولو عیسائیت قبول کرنے پر بھی عیسائی حقوق حاصل نہیں کر سکتا لیکن جونہی وہ حلقہ بگوش اسلام ہوا۔ مسلمانوں کے ساتھ اس کا رابطہ اتحاد پیدا ہو گیا۔ یورپ اس اتحادِ اسلام سے خائف ہے۔
پروفیسر راما کرشنا راؤ مراٹھی: 1836-1986ء
پروفیسر راما کرشنا راؤمراٹھی آرٹس کالج برائے خواتین میسور کے شعبہئ فلسفہ میں استاد اور صدر شعبہ رہے ہیں۔ انہوں نے ایک کتابچہ تصنیف کیا ہے،جس کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ مصنف نے اپنے کتابچہ میں جہاں ایک طرف غیر متعصب مغربی مصنفین اور مستشرقین کے حوالے دیے ہیں،مثلاً ایڈ ورڈ گبن، پروفیسر ہر گرو نج، جرمن شاعر گوئٹے، جارج برناڈ شا،سر چارلس اڈورڈ،آرکی بالڈ ہملٹن، پروفیسر مسیگن، چارلس بوسورتھ، رابرٹ بریفالٹ، اور تھامس کار لائل وغیرہ، دوسری طرف معتدل ہندو دانش ور وں سے بھی استشہاد کیا ہے، مثلاًسروجنی نائڈو، مہاتما گاندھی،بسنت کمار بوس اور دیوان چند شرما وغیرہ۔
راما راؤ نے اسلام سے متعلق متعددالزامات کی تردید کی ہے، مثلاً یہ الزام کہ اسلام شمشیر کے ذریعہ پھیلا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے الزامات کی حیثیت ادبی اعجوبہ کاری سے زیادہ کچھ نہیں۔ انہوں نے اسلام کی تعلیمات میں جمہوریت اور مساوات کو خوب سراہا ہے۔ ان کے مطابق ان تعلیمات کے نتیجے میں بین الاقوامی اتحاد اور بھائی چارہ کے اصولوں کو آفاقی بنیادیں فراہم ہوئیں،عورت کو میراث میں حق دار قرار دیا گیا۔ بارہ صدیوں کے بعد انگلینڈ نے، جوجمہوریت کا مرکز کہلاتا ہے،عورت کے حقِ میراث کو1881ء میں قانونی شکل دی،جب کہ سینکڑوں سال قبل پیغمبرِ اسلام نے عورتوں کو مردوں سے نصف حقِ میراث دلوایا تھا۔
وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور ان کے اعلیٰ اخلاق کے تعلق سیکھتے ہیں:
‘‘محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے معاصرین کی نگاہ میں کھرے اور اعلیٰ کردار کے مالک تھے۔ چناں چہ یہودی بھی آپؐ کی صداقت کے قائل تھے۔ آپ کے کردار میں آپ کے معاصرین کو دھوکہ دہی، فریب کاری،یا دنیاوی مفاد پرستی کی ہلکی سی جھلک بھی نظر نہیں آتی تھی’’۔