انسانیت کا تقاضا

    انسانیت کا تقاضا

    حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی

    اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو اس دنیا میں اتارا اور ان کو دنیا میں زندگی گذارنے کا راستہ بتایا اور حکم دیا کہ زندگی گزارنے کا جو اصل طریقہ ہے تم کو اس پر عمل کرنا ہے، لیکن ان کے بعد اس اصل طریقہ سے لوگ بہکتے رہے، اس لیے کہ آدمی کے وسائل محدود ہوتے ہیں اور خواہشات زیادہ ہوتی ہیں، جن کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی ان خواہشات کے دباؤ سے صحیح راستہ سے بھٹک جاتا ہے اور صحیح راستہ وہ انسانی راستہ ہے جو اللہ نے انبیاء کو بتایا ہے، ایک موقع پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

    ”یا أیہا الناس! ان ربکم واحد وان أباکم واحد، ألا! لا فضل لعربي علی عجمي ولا لعجمي علی عربي ولا لأحمر علی أسود ولا أسود علی أحمر الا بالتقوی“ ]بیہقی: ۳۷۵۱ [(اے لوگو! بے شک تمہارا پالنہار ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، صاف سن لو! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، اسی طرح کسی سرخ کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے سوائے تقوی کے)۔

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا:

    ”الناس بنو آدم وآدم من تراب“]سنن الترمذی: ۴۳۳۷ [(تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں)۔

    اس حدیث سے تمام انسانیت کو یہ پیغام دے دیا گیا کہ ہر ایک کو اپنی حیثیت سمجھنا چاہیے، یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ وہ بہت حقیر چیز سے بنایا گیا ہے اور وہ اچھا اسی وقت بن سکتا ہے جب وہ اچھا طریقہ اختیار کرے، لیکن اگر وہ مٹی ہی میں رہنا پسند کرتا ہے تو ظاہر ہے وہ بری حالت میں رہے گا اور مٹی کی جو حالت ہے وہی حالت اس کی ہوجائے گی، یعنی ذلت اور رسوائی کی حالت ہوجائے گی، لیکن اگر وہ اس مٹی سے نکلنا چاہتا ہے تو اس کو بلند اخلاق اختیار کرنا ہوں گے اور یہ راز قرآن مجید میں بھی بتادیا گیا ہے کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے اور پھر تم کو بہت اچھی باتیں اوراچھا طریقہ بتادیا ہے، ان کے ذریعہ تمہارے لیے یہ ممکن ہے کہ تم مٹی سے اونچے ہوجاؤ، مٹی سے نکل کر بلند ہوجاؤ، لیکن اگر تم اس سے نہیں نکلو گے اور خود کو بلند کرنے کی کوشش نہیں کروگے تو تم خوار اور رسوا ہوگے، جیسے مٹی رسوا ہوتی ہے اور خاک اڑتی ہے، گویا اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے ایک اصول کے طور پر یہ بات بیان فرمادی کہ جب ہم انسان کی حیثیت سے زندگی گذاریں گے تو ہم مٹی سے بلند ہوں گے، ورنہ پھر ہم مٹی ہی کے زمرہ میں رہیں گے، جس طرح جانور ہوتے ہیں کہ ان کو مٹی سے نکلنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے، نہ مٹی سے نکلنے کا راستہ ان کو بتایا گیا ہے، وہ مٹی میں ہی رہتے ہیں اور اسی میں چر لیتے ہیں، البتہ انسان اس سے بلند ہے اور اس کو بلندی حاصل کرنے کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب تم سب آدم کی اولاد ہو تو ایک دوسرے کے بھائی ہو، لہٰذا ایک دوسرے کی فکر بھی رکھو اور تم میں بہتر صرف وہی ہے جو ”تقوی“ اختیار کرے۔

    ”تقوی“ عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ عربی کے لفظ ”وقی- یقی-وقایۃ“سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں: اپنے کو بری باتوں سے بچانا، اپنے کو خطرہ سے بچانا، اپنے کو بری جگہ یا بری چیز سے بچانا، یہ سب مفہوم اس میں شامل ہیں، اسلامی اصطلاح میں ہم ”تقوی“ کا جو لفظ بولتے ہیں، اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ اپنے کو بری باتوں سے بچاؤ، اپنے کو غلط باتوں سے بچاؤ اور وہ غلط باتیں کون سی ہیں؟ وہ بھی ہم کو بتایا گیا ہے کہ غلط باتیں فلاں فلاں ہیں، لہٰذا جو شخص بھی ان باتوں سے احتیاط کرے گا اور اپنے کو ان غلط باتوں سے بچائے گا، اس کو اچھا اور اونچا درجہ دیا جائے گا اور وہ ایک بہترانسان شمار ہوگا، اسی طرح جو شخص اپنے کو بری باتوں سے نہیں بچائے گا، وہ بہتر انسان نہیں ہوسکتا ہے۔

    غور طلب بات یہ ہے کہ جب ہم سب انسان ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی یہ ہے کہ عرب ہو یا عجم، کالا ہو یا گورا آپس میں تمام انسان ایک ہی ہیں اور سب بھائی بھائی ہیں، اس لیے کہ سب آدم کی اولاد ہیں، یعنی ایک باپ کی اولاد ہیں، تو کیوں نہ سب لوگ اس مقام پر آنے کی کوشش کریں جس پر آج اکٹھا ہونے کی سخت ضرورت ہے، جو مقام ہم کو سکھایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے اور وہ یہ کہ ہم میں سے ہر انسان دوسرے انسان کو اپنا بھائی سمجھے، جب ہر ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھے گا، تو ہر ایک دوسرے سے قریب ہوگا، اس کے فائدہ کو اپنا فائدہ سمجھے گا، جیسے بھائی بھائی کو سمجھتا ہے، وہ اس کے فائدہ کو اپنا فائدہ اور اس کے نقصان کو اپنا نقصان سمجھتا ہے، قرآن و حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے کہ سب انسان بھائی بھائی ہیں، اس لیے ہم کو چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ وہی رویہ اختیار کریں جو بھائی بھائی کے ساتھ کرتا ہے اور یہ دیکھا گیا ہے کہ ہر انسان خواہ وہ کتنا ہی برا ہو، لیکن بری بات کو برا سمجھتا ہے، جھوٹ بولنے والا کتنا ہی جھوٹ بولے، لیکن اگر اس سے یہ معلوم کیا جائے کہ جھوٹ اچھی چیز ہے یا بری چیز ہے؟ تو یقینا وہ یہی کہے گا کہ جھوٹ بری چیز ہے، اسی طرح اگر کوئی آدمی کسی کو کتنی ہی تکلیف پہنچاتا ہو اور بڑا ظالم ہو، لیکن اگر اس سے پوچھا جائے اور اس کی صحیح رائے لی جائے کہ ظلم کیسی چیز ہے؟ تو وہ بھی یہی کہے گا کہ ظلم بری چیز ہے، اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں یہ ایک احساس رکھا ہے کہ وہ برے کو برا سمجھتا ہے اور اچھے کو اچھا سمجھتا ہے۔

    انسانی مزاج کا عمومی جائزہ لینے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ جب تمام انسان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور برے اچھے کو سمجھتے بھی ہیں، تو ہم سب کو اسی حساب سے ہر ایک سے معاملہ کرنا چاہیے، ہم سوسائٹی کے ہر فرد کے ساتھ حسن سلوک کریں، وہ سوسائٹی خواہ ایک مذہب کی ہو یامتعدد مذاہب کی ہو، ہم کو یہ طے کرنا ہے کہ ہم بحیثیت انسان کے آپس میں ایک دوسرے کی ہمدردی کریں گے، ایک دوسرے کی تکلیف کو دور کرنے کی فکر کریں گے، جیسے اپنی تکلیف دور کرتے ہیں، اپنے بھائی کی تکلیف دور کرتے ہیں اور اپنے پڑوسی کی تکلیف دور کرتے ہیں، خود قرآن مجید میں بھی ان باتوں کا حکم ہے کہ تم اپنے پڑوسی کا خیال کرو اور اپنے عزیز کا خیال کرو، لہٰذا سوسائٹی میں اگر کوئی ہمارا رشتہ دار ہے تو ہم رشتہ داری کے ناطے اس کا خیال کریں گے، اگر کوئی ہمارا پڑوسی ہے تو پڑوسی کے لحاظ سے اس کا خیال کریں گے اور اس سلسلہ میں کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہمارا مذہب کوئی روک لگائے گا، کیونکہ جب انسانی سطح پر کچھ کرنا ہو تو اس میں مذہب نہیں دیکھا جاتا ہے، جب آپ ایک ساتھ رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں تو اس میں مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ سلوک کرنے کی ممانعت ہرگز نہیں ہے، بلکہ سلوک کرنا مستحسن ہے، بالخصوص جب کوئی سوسائٹی مشترک مذاہب اور مشترک خیالات کی حامل ہو، تو ایسی صورت میں ہمیں ایک دوسرے کا خیال رکھنا زیادہ ضروری ہوتا ہے، اس لیے کہ جب سوسائٹی میں مختلف خیالات اور مختلف مذاہب کے ماننے والے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے زیادہ دیکھتے ہیں، ایسے وقت میں ہماری ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ ہم زیادہ اخلاق برتیں، تاکہ یہ جو دوری ہے، یہ دوری انسانی سطح پر دور ہوجائے، چونکہ ہم ایک انسان ہیں، اس لیے ہمارے اندر اخلاق ہیں، ہمارے اندر حسن سیرت ہے، ہمارے اندر ایک دوسرے سے ہمدردی کا جذبہ ہے، ہمارے اندر دوسرے کے لیے محبت ہے، یہ انسان کی حیثیت سے ہماری صفت اورہمارا طرز و طریقہ ہونا چاہیے، جب ہم انسان ہیں تو ہم کو انسانی صفات، انسانی اخلاق اور انسانی سیرت اختیار کرنی چاہیے۔

    ہمارے ملک ہندوستان میں بھی مختلف طبقات ہیں، مختلف مذاہب ہیں اور مختلف نسلیں ہیں، اس لیے یہاں اس بات کی زیادہ ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ایسا سلوک کریں کہ ہم سب آپس میں واقعی بھائی بھائی معلوم ہوں اور آپس میں ایسا اتحاد پیدا ہو جو انسانی اتحاد کہلائے، نہ کہ سیاسی اتحاد، اس لیے کہ سیاست تو مصلحتوں سے چلتی ہے، لیکن انسانی اخلاق اور انسانیت اس طرح نہیں چلتی کہ ہم صرف اپنی مصلحت دیکھیں، بلکہ اس میں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بھائی بھائی کی طرح رہیں۔

    ٭٭٭٭٭