ہوشیار اے ملّتِ بیضائے ما

    ہوشیار اے ملّتِ بیضائے ما

    حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی
    اللہ تعالیٰ نے ہم کو اسلام کی دولت عطا فرمائی ہے، یہ ایسی دولت ہے جس کا فائدہ دنیا کی زندگی اور دنیا کے بعد کی زندگی دونوں میں ہم کو حاصل ہوتا ہے، لیکن جس طرح زندگی کی دوسری دولتوں کو چرایا اور چھینا جاسکتا ہے، اور اس بات سے ہم کو اپنی ان دولتوں کے لیے خطرہ محسوس ہوتا رہتا ہے، اسی طرح ہماری اس دینی دولت کو بھی جس کو ہم اسلام کہتے ہیں خطرہ محسوس کیا جانا چاہیے، کیونکہ اس کو بھی ہم سے چرایا اور چھینا جاسکتا ہے، لہذا جس طرح ہم اپنی دوسری دولتوں کی حفاظت کی فکر اور انتظام کرتے ہیں اسی طرح ہم کو اس دولت کی حفاظت کی بھی فکر اور اہتمام کی ضرورت ہے۔
    اسلام کا بنیادی مزاج و طبیعت انسانی زندگی کا وہ مزاج اور طبیعت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں پیدائشی طور پر رکھا ہے، چنانچہ حدیث شریف میں بتایا گیا ہے کہ: ”ہر لڑکا جب پیدا ہوتا ہے تو وہ بنیادی طور پر اللہ کی دی ہوئی صحیح فطرت یعنی بنیادی مزاج و طبیعت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس میں فرق و تبدیلی اس کے ماں باپ اس طرح کرتے ہیں کہ اگر یہودی ہیں تو یہودی بنالیتے ہیں، عیسائی ہیں تو عیسائی بنالیتے ہیں، مجوسی ہیں تو مجوسی بنالیتے ہیں“۔ حدیث کے الفاظ ہیں:”کل مولود یولد علی الفطرۃ، فأبواہ یھوّدانہ و ینصّرانہ و یمجّسانہ“۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ماں باپ اگر مسلمان ہیں تو وہ اپنی اولاد کو صحیح فطرت پر جو خدا کے پسندیدہ دین یعنی اسلام کی فطرت ہے باقی رکھ سکتے ہیں، اور اس کو اسی مزاج و طبیعت کے مطابق بناسکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر بنیادی طور پر رکھا ہے۔ اور اگر وہ اس کی فکر نہ کریں گے، اور غیر اسلامی مزاج و طبیعت کو اس پر اثر انداز ہونے دیں گے تو اس کی طبیعت و کردار ایسا نہ بن سکے گا جیسا اس کے خالق اور پروردگار اللہ تعالیٰ نے اس میں بنیادی طور پر رکھا ہے، اور اس کے لیے اس کو پسند فرمایا ہے، اور وہی اسلامی مزاج و طبیعت ہے۔ اگر مسلمان ماں باپ اپنی نومولود اولاد کے فطری مزاج و طبیعت کے مطابق اس کے اخلاق و کردار کی فکر نہیں کرتے تو پھر وہ نومولود اولاد اپنے ماحول اور ارد گرد کے اثرات سے متاثر ہوکر کچھ اور بنے گی، وہ جیسا ماحول ہوگا ویسی بن جا ئے گی۔بہرحال بچہ کے پیدائشی مزاج وطبیعت کو اس کے اچھے اور خدا کے عطا کردہ حال پر بھی قائم رکھا جاسکتا ہے اور اس کو بدلا بھی جاسکتا ہے، جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ مسلمان ماں باپ پر اس کو قائم رکھنے اور اس کو بدلنے اور خراب ہونے سے بچانے کی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے،لہٰذا ہم کو اپنی اس ذمہ داری کو سمجھنے اور پوری کرنے کی طرف توجہ کرنا ہے، اب ہم اس کاجائزہ لیں کہ ہم اپنے بچوں میں خدا کی عطا کی ہوئی طبیعت و مزاج کو قائم رکھنے کی کہاں تک فکر کرتے ہیں؟
    حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ صحیح مزاج و طبیعت کو جو خدا کی دی ہوئی طبیعت ہے، باقی رکھنے یا اس کے تبدیل کردینے کی پہلی ذمہ داری ماں باپ پر آتی ہے، کیونکہ بچہ کا پہلا نشو و نما ماں باپ کی ہی سرکردگی اور فکرمندی میں ہوتا ہے، یہیں سے بچہ کا اٹھان ہوتا ہے، اور اس میں عقائد اور اعمال و اخلاق کی بنیاد بنتی ہے، اور یہ کسی بھی انسان کی زندگی کا اہم ترین مرحلہ ہوتا ہے، اور یہی انسان کے عقائد و اعمال اور اخلاق کے ڈھانچہ کا بنیادی پتھر بنتا ہے، اور اسی پر اس کے آگے کی عمارت قائم ہوتی ہے، لیکن اس کی زندگی کے اس بنیادی پتھر پرہی بات ختم نہیں ہوجاتی، بلکہ آگے کا مرحلہ جو اس کے عقائد و اخلاق و کردار کے پختہ ہونے اور مضبوط بننے کا ہے، جو اس کے بعد کا مرحلہ ہوتا ہے، وہ تعلیمی مرحلہ ہے، جو ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے مرحلوں پر مشتمل ہوتا ہے، اور انسان کو اپنی زندگی کو کارآمد اور فعال بنانے کے لیے ان مرحلوں کو مناسب ڈھنگ سے انجام دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ علم کا حصول انسان کی اہم ضرورت ہے، جس کے لیے اسکول و کالج قائم کیے جاتے ہیں، ان کے نظام و نصاب میں انسان کی ضرورت اور انسان کے اخلاق و کردار کی خوبی کا لحاظ کرنا ہوتا ہے، اور سب کو اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تعلیم کے صحیح نظام سے پورا فائدہ اٹھانا چاہیے۔
    اس میں ابتدائی تعلیم بنیادی حیثیت رکھتی ہے، یہ بچہ کی پہلی اور بڑی اہمیت رکھنے والی تعلیم ہوتی ہے۔ ماں باپ کے گھریلو ماحول سے جب بچہ آگے بڑھتا ہے اور اس کی تعلیم کا ابتدائی مرحلہ شروع ہوتا ہے تو یہ مرحلہ بچہ کا اپنے بچپنے میں ماں باپ کی سرپرستی کے مرحلہ سے ہی ملتا جلتا اور اس کے معاً بعد کا ہوتا ہے۔ اس میں بچہ کے رجحانات اور اس کے تصورات مزید بڑھتے، اور اس کے عقائد کی بنیادیں مضبوط ہونے لگتی ہیں،اور زندگی کی عملی ضرورت کی معلومات بھی اس کو حاصل ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ بچہ کی ابتدائی زندگی کے ان دونوں مرحلوں میں بچہ کا یہ خاص مزاج ہوتا ہے کہ وہ ہر دیکھی جانے والی چیز اور سنی جانے والی چیز سے تاثر لیتا اور سیکھتا جاتا ہے، چنانچہ اسی بنیاد پر فن تعلیم کے بعض مفکرین نے اس مرحلہئ زندگی کو دیگر مراحل زندگی کے مقابلہ میں زیادہ اہمیت دی ہے،چنانچہ مانٹیسری نظام تعلیم اسی نقطہئ نظر کے مطابق وہ چلاتے ہیں۔
    اس طرح تعلیم کی اہمیت کو سمجھنا اور اس کے مطابق عمل کرنا، خاص طور پر اس مختلف مذاہب اور مذہبی رجحانات رکھنے والے ملک میں بہت ضروری ہے کہ تعلیم کے بنیادی مرحلہ میں صرف زندگی کی ضروری معلومات ہی نہ پیش کی جائیں، بلکہ اخلاق کو سنوارنے کی باتیں بھی فراہم کی جائیں،اورنظریات و کردار کی تعمیر کا بنیادی کام بھی انجام پائے۔
    تعلیمی عمل ابتدائی مرحلہ میں تو خاص اہمیت رکھتا ہی ہے، لیکن وہ آگے کے مرحلوں میں بھی کم اہمیت کا مالک نہیں۔ یہ عمل انسانی زندگی کا وہ اہم ترین عمل ہے جس کے اثرات گہرے اور دوررس ہوتے ہیں، وہ جس رجحان اور مقصد کے تحت کیا جاتا ہے اسی کے مطابق نتائج پیدا ہوتے ہیں، نوعمر انسان کو جیسی تعلیم دی جائے گی ویسا ہی ذہن بنے گا، اور اسی کے مطابق تربیت ہوگی۔ مشہور شاعر اکبر الٰہ آبادی جو سول سروس کے بڑے عہدہ دار تھے،جدید تعلیم یافتہ تھے، لیکن دین کی اہمیت سمجھتے تھے، اور تعلیم کا جو اثر آدمی کے رجحانات پر پڑتا ہے، اس کو جانتے تھے۔انہوں نے اس کی اہمیت بتاتے ہوئے اپنے طنز آمیز لہجہ میں یہ بات ظاہر کرتے ہوئے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرایا تھا، تاکہ اس کی حکومت کے لیے وہ خطرہ نہ بن جائیں، لیکن وہ اگر تعلیم کا ذریعہ استعمال کرتا تو اس کو اس طرح قتل کرانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی، وہ تعلیم کے ذریعہ ان کی طبیعت و شخصیت بدل سکتا تھا، وہ کہتے ہیں:
    یوں قتل سے بچوں کے وہ بد نام نہ ہوتا
    افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
    یعنی اگر فرعون اسکول و کالج کا تعلیمی نظام اپنا لیتا تو اس کو خون خرابہ کرنے کی نوبت نہ آتی۔ انگریز جب اس ملک میں آئے تو انہوں نے یہی طریقہ اختیار کیا، اور اپنے مقصد کے مطابق نظام تعلیم بنایا، وہ یہ تھا کہ مسلمان بچے ان نظریات و خیالات کے حامل بن جائیں کہ انگریزوں کے ارادوں اور منصوبوں کو پسند کریں، اور ان کو انجام دینے میں خوشی خوشی مدد کریں۔ اور انگریزوں نے اس طریقہ سے بہت کچھ کامیابی حاصل کی، اور اس وقت کے بہت سے لوگوں میں اس تعلیم سے اپنے مذہب کی بے وقعتی اور انگریزی نظام زندگی کی عظمت پیدا ہوئی۔
    بچہ کی تعلیم و تربیت کا ابتدائی جو مرحلہ جو ماں باپ کے علاوہ دیگر لوگوں کے ذریعہ انجام پاتا ہے، اسکول کے ذریعہ ہو یا ارد گرد کے ماحول کے ذریعہ، وہ بہت اہمیت رکھتا ہے، خاص طور پر اسکول و مدرسہ کی تعلیم وہ اہم ذریعہ ہے جس کواگر بچوں کی زندگی کو بنانے اور سنوارنے کی فکر کرنے والے صحیح فکرمندی اور اہتمام کے ساتھ انجام نہیں دیتے تو بچہ کے عقائد و اعمال اور اخلاق کی عمارت سیدھی اور صحیح کھڑی نہیں ہوسکتی، بلکہ اس میں ایسا بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے کہ جس کے نتائج مستقبل میں بڑے سنگین ہوسکتے ہیں، اور معاملہ صرف دنیا کی حد تک ہی محدود نہیں رہ جاتا بلکہ دنیا و آخرت دونوں میں افسوس ناک صورت حال پیش آسکتی ہے۔ہم کو اس حقیقت کو ضرور اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ہم ہندوستان میں ایک مخلوط ماحول میں رہتے ہیں، جہاں ہر طرح کے عقائد و اعمال و اخلاق کے لوگ زندگی گزار رہے ہیں، اور سماجی زندگی، اور اخلاقی اور دینی زندگی پر اثرانداز ہورہے ہیں، طرح طرح کے مذہبی عقائد اور طریقہ ہائے زندگی ہیں، اور ہر ایک کے اسکول و کالج ہیں، ہر ایک کی تعلیم گاہیں ہیں، اور ہم کو آپس میں مل جل کر رہنے کی بنا پر ان مختلف اسکولوں اور کالجوں سے اور درسگاہوں سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے، ہمارے بچے ان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، لہٰذا اپنے مذہب اور خدا و رسول کے حکموں کی تابعداری میں ہمیں اس بات کی فکر کرنا ضروری ہے کہ ہمارے بچے وہ باتیں ضرور سیکھیں جو اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی صحیح فطرت کے مطابق اور اسلامی تعلیمات کی رہنمائی میں ہوں، اور کم از کم یہ بات تو ضروری ہے ہی کہ بچہ نے اپنے مسلمان ماں باپ اور بزرگوں کی فکرمندی و سرکردگی سے اپنے گھر میں جو اچھی باتیں سیکھی ہیں وہ بدل نہ جائیں، کیونکہ ہندوستان کے آزاد ہوجانے کے بعد اسکولوں کی جو تعلیم سامنے آئی اس میں ایسے عقائد و رجحانات بھی ہیں جو اسلامی تعلیمات کے بہت خلاف ہیں۔ اسی بات کو دیکھ کر ہمارے بزرگوں نے بڑی فکرمندی محسوس کی، اور مسلمانوں کو متوجہ کیا کہ وہ اس بات کی فکر کریں کہ ہمارے صحیح دینی عقائد و اعمال سے ہماری نئی نسل دور نہ ہوجائے، اور اس کے خیالات ملحدانہ یا کافرانہ و مشرکانہ نہ ہوجائیں۔
    اگر سیکولرزم کی بنیاد پر سب مذاہب کو اپنے حقوق قائم رکھنے کا حق نہ بھی ہو تو بھی اسلام وہ مذہب ہے جس کے عقائد و اعمال و اخلاق کا ضابطہ یہی نہیں کہ وہ لازمی اور دینی فریضہ ہیں بلکہ مسلمان کی زندگی کی کامیابی کے لیے اور اپنے پروردگار کی ناراضی سے بچنے کے لیے ضروری ہیں، اور آخرت کی زندگی میں تو کامیابی کا انحصار ان ہی عقائد و اعمال پر ہے، اور آخرت کی زندگی وہ زندگی ہے جس کی مدت کبھی ختم نہ ہوگی، اور اس میں عافیت و سلامتی ملے گی تو ہمیشہ کے لیے ملے گی، اور نہ ملی تو ہمیشہ کے لیے مصیبت ہے، اور وہاں کی کامیابی اسلام کے دیئے ہوئے عقائد و اعمال و اخلاق کی پابندی ہی سے حاصل ہوگی۔ اسلام توحید کا مذہب ہے، اس میں خدائے واحد ہی کو مانا جاتا ہے، اور اسی کی عبادت کی جاتی ہے، جب کہ دوسرے بعض مذاہب میں ہر ایسی چیز کی عبادت ہوتی ہے جس سے انسان کو نفع یا ضرر ہو، خواہ وہ کیسی ہی معمولی مخلوق ہو، مثلاً زمین و درخت و دریا، اور تاریخ ماضی کے بعض نیک انسان، لیکن مسلمان ان سب کو خدا کی مخلوق سمجھتا ہے، اور ان کو بالکل قابل عبادت نہیں سمجھتا۔
    انسان اگر ایسے ماحول میں رہتا ہے جہاں شرکیہ یا کفریہ عقائد و اعمال کا چلن ہو تو بار بار اور ہروقت ان کو دیکھنے کی بنا پر ان کی نا پسندیدگی کا خیال کچھ نہ کچھ دل سے کم ہوتا جاتاہے، حتی کہ کبھی کبھی تو ان کو بار بار دیکھنے والا ان سے متأثر ہوکر ان کو اختیار کرنا چاہتا ہے،شرکیہ اور کفریہ ماحول میں رہنے کی صورت میں اس خطرہ کو سمجھنا چاہئے۔ بنی اسرائیل کے برگزیدہ نبی اور مورث حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے انتقال کے وقت یہی خطرہ محسوس کرتے ہوئے اپنے بیٹوں کو جمع کیا تھا اور پوچھا تھا کہ اے بیٹو! تم میرے مرنے کے بعد کسی اور کی تو بندگی کرنے نہیں لگوگے؟ اور جب ان کے بیٹون نے یہ اطمینان دلایا کہ نہیں اے ابا جان! اسی خدائے واحد کی بندگی کریں گے جس کی بندگی آپ نے، آپ کے والد حضرت اسحاق نے، اور آپ کے دادا حضرت ابراہیم علیہم السلام نے کی، حضرت یعقوب علیہ السلام کو یہ اطمینان حاصل کرنے کے بعد ہی چین ملا۔ یہ تھے اللہ کے نبی جن کو خدائے واحد کی بندگی کی اتنی فکر رہتی تھی کہ اپنے بیٹوں کے لیے آئندہ حالات سے ڈر کر ان کے ایمان کے متعلق اطمینان حاصل کیا، کیونکہ ان کو مصر کے شرکیہ و کفریہ ماحول میں رہنا تھا، آج ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم کو اپنی اولاد کے دین اورسیرت و اخلاق کے سلسلہ میں کتنی فکر ہے؟
    ہر ملک کے ہر شہری کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ وہ جائزدنیاوی معاملات اور ملک و قوم کی بے ضرر سربلندی کی فکر و کوشش کرے، اور اس کی خاطر بہتر سے بہتر اور زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرے، اور زیادہ سے زیادہ علمی و عملی صلاحیت پیدا کرے، یہ اس کا انسانی حق بھی ہے اور ملک کے شہری ہونے کے لحاظ سے بھی یہ حق بنتا ہے، تو جہاں اس کے لیے یہ ضروری ہے، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا کردار اچھا ہو،اور اس کے عقائد و اعمال صحیح ہوں۔ اور وہ انسانیت نواز صفات سے اپنے کو آراستہ کرے۔ لہٰذا مسلمانوں کوملک میں رائج تعلیمی سہولتوں سے پورا فائدہ اٹھانا ہے، لیکن اپنے مذہب اور عقائد کے معاملہ میں ضروری احتیاطیں بھی رکھنا ہے۔
    کسی بھی ماحول کا اثر اس کے رہنے والوں پرعام حالات میں ضرور پڑتا ہے، ایسے ماحول میں جہاں شرک و کفر کو برا نہ سمجھا جارہا ہو، اور وقتاً فوقتاً اس کے سامنے آنے کا موقع پیدا ہوتا رہتا ہو، اس کے مخالف اسلام ہونے کا ہمارا احساس کمزور پڑسکتا ہے، اس لیے ہم سب کو بہت چوکنا اور ہوشیار رہنا چاہیے۔ بنی اسرائیل جو حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد تھے، جن کا ذکر ابھی آپ نے سنا۔حضرت یعقوب علیہ السلام کے بعد مصر کے ملک میں صدیوں رہے تھے، وہاں فرعون کی تعلیمات اور فرعون کے مشرکانہ عقائد پر عمل وہاں کی قوم کرتی تھی، اور جب حضرت موسی علیہ السلام اپنی قوم کو وہاں سے لے کر مصر سے باہر آگئے تو مصر کے دوران قیام بنی اسرائیل نے جو بت پرستی دیکھی تھی، اس کا یہ اثر ظاہر ہوا کہ ایک جگہ بت پرستی کا جب ایک جشن انہوں نے دیکھا تو حضرت موسی علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ہمارے لیے بھی ایسا کوئی انتظام کردیجئے، ہم بھی اس طرح کرکے اپنی طبیعت کو خوش کریں۔ حضرت موسی علیہ السلام بہت ناراض ہوئے اور بتایا کہ تم توحید کے عقیدہ والی اور خدائے واحد کی ماننے والی امت ہو، ایسی الٹی بات کا مطالبہ کرتے ہو، تو انہوں نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ سے معافی چاہی۔
    یہ تھا اس صورت حال کا اثر جو بنی اسرائیل پرمصری ماحول کا پڑا تھا، آج ہم اس ملک میں اسی طرح کے ماحول میں رہتے ہیں، اس لیے ہم کو بہت چوکنا اور ہوشیار ہونا چاہیے، اور اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ قائدین ملت تو حالات پر اور تعلیمی نظام پر نظر رکھیں اور غلط باتوں سے ہوشیار کرتے رہیں، اور عام مسلمان ہوشیار رہیں۔ مشرکانہ اور کافرانہ ماحول سے خود بھی بچیں اور اپنی اولاد کو اس سے متأثر ہونے سے بچائیں، اس کے لیے اپنے گھروں میں بچوں کو باتوں باتوں میں صحیح عقاید و اعمال کی تلقین کرتے رہا کریں، اور پھر تعلیم کا مرحلہ آنے پر اسکولوں کے رویے اور وہاں کے نصاب تعلیم کے سلسلہ میں بھی ہوشیار رہنا چاہیے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ جس طرح ہم اپنی دیگر دولتوں کی حفاظت کرتے ہیں کہ چور چرا نہ لے جائے، اور ڈاکو ڈاکہ مار کر نہ لے جائے، اسی طرح ہم کو اپنے عقاید و مذہبی معاملات کو اپنی عظیم دولت سمجھتے ہوئے ان کی بھی حفاظت کرنا ہے کہ ماحول کے اثر سے اور اسکول کی تعلیم سے یہ دولت ہم سے چھینی نہ جاسکے، اور ہم کو اس سے محروم نہ کیا جاسکے۔
    ہم بحیثیت مسلمان خیر امت ہیں، ہماری غیرت کا بھی تقاضہ ہے کہ ہم کو خدائے واحد نے اپنے نبی کے ذریعہ جو دین عطا فرمایا ہے، اورجس کی قدر و حفاظت کا فرض ہم پر پوری سختی کے ساتھ عائد ہوتا ہے، ہم اس فرض کی پابندی کریں اور اپنے بچوں کو کم از کم گھر کے اندر، پھر ابتدائی تعلیم کے مرحلہ میں اپنے دین کی بنیادوں عقیدہئ توحید اور عبادت و اخلاق سے نہ صرف یہ کہ واقف کرائیں بلکہ ان کی غیرت و حمیت بھی ان کے اندر ایسی پیدا کریں کہ وہ کسی خطرہ کے موقع پر بھی ثابت قدم رہیں، اور ان کا دین و ایمان سلامت رہے، اور آخرت میں بھی ہم اپنے اہل و عیال کے ساتھ سرخ رو ہوں، اور اپنے نبی کریم محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ وسلم) کی مسرت اور اپنے خدائے واحد کی خوشنودی حاصل کرسکیں۔