علم اور اخلاق

    علم اور اخلاق

    مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی

    اسلام میں علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو اسلام بنی نوع انسانی کے درمیان رنگ ونسل،ذات برادری اور حسب و نسب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کرتااور تمام انسانوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرتا ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”یا أیہا الناس إن ربکم واحد وإن أباکم واحد، لا فضل لعربي علی عجمي، ولا لعجمي علی عربي، ولا لأحمر علی أسود ولا لأسود علی أحمر إلا بالتقوی“(اے انسانو! تمہارا رب ایک اور تمہارا باپ بھی ایک ہے،کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ ہی گورے کو کالے پر اور نہ ہی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل ہے سوائے تقوی کی بنیاد پر) وہی اسلام علم کی بنیاد پر انسان انسان کے درمیان تفریق کرتا ہے:

    ”قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَاب“]الزمر: ۹[(کہہ دیجیے کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ لوگ جو نہیں جانتے سب برابر ہیں؟ نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں)۔

     حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فضل العالم علی العابد کفضلی علی أدناکم“]ترمذی[(عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح میری فضیلت تمہارے ادنیٰ ترین آدمی پر ہے)۔

    دوسری طرف اسلام اس علم کے حصول پر زور دیتا ہے جو معرفت خداواندی کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اخلاق کا جوہر پیدا کرے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ”وَإِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیْمٍ“]القلم:۴[(بیشک آپ تواخلاق کی بلندی پر فائز ہیں)اور جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: ”کان خلقہ القرآن“]بخاری[(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق تو قرآنی ہیں)۔

     علم اور اخلاق ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں، یہ دورخ جب ملتے ہیں تب سکہ بنتا ہے، جیسے پرندے کے دو پر ہوتے ہیں، ایک پر کاٹ دیا جائے توصرف ایک پر سے وہ فضا میں نہیں اڑسکتا ہے، بلکہ زمین پرگرپڑے گا اور کسی بلی یا کتے کا شکار بن جائے گا، علم ایک چراغ کی طرح ہے اور اخلاق اس کی روشنی، چراغ کی قیمت اس کی روشنی سے ہوتی ہے،علم کی مثال ایک پھل دار درخت کی ہے، علم درخت ہے جبکہ اخلاق اور پھل اس کے پتے ہیں کیونکہ درخت کی کوئی قیمت نہیں جب تک کہ اس میں پتوں کی خوبصورتی نہ ہو اور اس کے پھلوں میں مٹھاس نہ ہو، جبکہ پتے اوردرخت کے بغیر پھلوں کا کوئی وجود نہیں۔

    اگر عالم اخلاق حسنہ اور اوصاف حمیدہ سے متصف نہ ہو تو وہ ترقی کے راستوں کو مسدود دیکھے گا، چاہے اس کا علم بڑا وسیع ہو، جب تک وہ علم اور اخلاق سے اپنے آپ کو مزین نہ کرلے، نہ ہی وہ آگے بڑ ھ سکتا ہے، نہ ہی ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہی وہ بلندی حاصل کرسکتا ہے،علم اگر اخلاق اور عزت سے خالی ہوجائے اور رب کے نام سے اپنے آپ کووابستہ نہ رکھے توایسا علم تباہی اور گمراہی،تشدد اور دہشت گردی کا باعث بنتا ہے، جیسا کہ بہت سے ممالک میں ہورہا ہے، جو ممالک ان جوہری ہتھیاروں سے بالکل تباہ و بربادہوگئے، جن کو انسان نے صرف اپنے علم و مطالعہ اور تجربات کی روشنی میں حاصل کیا تھا، لیکن اگر یہی علم اخلاق،شرافت اور اللہ کے سامنے جوابدہی کے احساس کے ساتھ حاصل کیا جاتا تو یہ اسلحے اور یہ علم تخریب کاری اور بگاڑ میں استعمال نہ ہوتے اور نہ ہی ہم کو لاشوں اور جسم کے چیتھڑے اور سروں کے ڈھیر نظر آتے جو اخلاق سے عاری علم کا شکار بن گئے۔

     جو کچھ بے حیائی،عریانیت، فحاشی اورہم جنس پرستی کے مناظر سامنے آرہے ہیں اور گھروں پر سایہ کی طرح منڈلارہے ہیں،انہیں تباہ وبرباد کررہے ہیں،خاندانوں کو توڑرہے ہیں، ان سب کے پیچھے یہی ذرائع اور یہی جدید ٹیکنالوجی ہے جس پر انسان نے اپنے علم اورعقل سے قبضہ کرلیا ہے اورجس کا استعمال افواہوں اور جھوٹی خبروں کو پھیلانے میں کیا ہے، نہ کہ اچھی باتوں اور اخلاق حسنہ کو پھیلانے کے لیے اور شرعی تقاضوں کو پورا کرنے اور دینی قانون کو نافذ کرنے کے لیے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ علم اور اخلاق کو جمع کیا جائے، کیونکہ اگر پرندہ ایک پر سے اڑے گا تو اس کا انجام سب جانتے ہیں۔

                  ترجمانی: محمد امین حسنی ندوی